بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ اناڑی لکھنے والوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے قلم پر قابو نہیں رہتا۔ مجھے ایوب خان کاقصہ سنانا تھا لیکن اپنے ہوش سنبھالنے سے اب تک کی سیاست کا کچا چٹھا لے کر بیٹھ گیا۔
اور ایوب کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب ہوش سنبھالا تو ایک نسبتا پر سکون ماحول پایا۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ زندگی بڑی آسان تھی۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔ بندہ مزدور کے اوقات تب بھی ایسے ہی تلخ تھے۔ لیکن یہ تلخئ ایام ہمیں اس لئے نہیں محسوس ہوتی تھی کہ زندہ رہنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ماں باپ پر تھی اور یہ ہم اپنے بچپن، پڑھائی اور کھیل کود میں ہی مگن تھے۔ ہمارے نزدیک پتنگیں لوٹنا، گلی میں 'بیٹ بال' یا گلی ڈنڈا کھیلنا، گھر والوں کی منت سماجت کرکے 'لٹو' خریدنا یا پھر ہوٹلوں اور ریستورانوں کے باہر سے ' پچاس اور سو کے پیکٹ' جمع کرنا زیادہ اہم کام تھے۔ یہ پچاس اور سو کے پیکٹ دراصل سگریٹ کے پیکٹ تھے اور ہم انہیں گھر والوں سے چھپ کر تاش کی طرح کھیلتے تھے۔
میرے جن احباب نے ان دنوں میں ہوش سنبھالا، شاید یاد ہو کہ ان دنوں حب الوطنی کے جذبات ہمارے ایمان کا حصہ تھے۔ پاکستان بنے ہوئے دس گیارہ سال ہی ہوئے تھے اور یہ ہماری امیدوں اور آرزؤں کا مرکز یقین تھا جسے ہم شاد باد دیکھنا چاہتے تھے۔ قانون کی پابندی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ رات کو بغیر بتی سائیکل چلانے پر جرمانے ہوتے تھے۔ ریڈیو کے لائسنس کی باقاعدگی سے تجدید کی جاتی تھی۔ راشن کارڈ میں اصل سے زیادہ نام لکھوانا بڑا جرم تصور ہوتا تھا۔
اور جب چودہ اگست کو اسکول میں جلسہ ہوتا تو ہم بڑے ذوق شوق سے " یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران" اور " آو بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی" گایا کرتے تھے۔ سن پینسٹھ تک یہ دو چار ہی نغمے تھے جو قومی دنوں میں گائے جاتے تھے۔
اور یہ دن تھے جب حجاموں کی دکانوں اور ہوٹلوں میں ہم فوجی وردی میں ملبوس "جنّل ایوب" کی تصویریں دیکھتے۔27 اکتوبر کو جنگ اخبار کے " یوم انقلاب" کے رنگین ایڈیشن میں سرورق پر جنّل ایوب کے ساتھ ساتھ جنّل موسی، اصغر خان اور اے آر خان کی تصویریں دیکھتے۔ یہ خوبرو فوجی ہمیں بہت بھاتے، ساتھ ہی تصویریں ہوتیں کہ ایوب خان فلاں ڈیم یا بیراج کا افتتاح کررہے ہیں۔ ماں ہمیں بتاتی کہ جب " ماشلّا" لگا تو کیسے گوشت کی دکانوں میں جالیاں لگ گئی اور فوجی حکومت نے خراب دودھ کے ڈرم سڑکوں پر بہا دئیے۔ " جنّل ایوب " کا ذکر عقیدت واحترام اور محبت کے ساتھ ہوتا۔ ہم اس سے زیادہ ایوب خان کے بارے میں نہیں جانتے لیکن اس کے بارے میں کوئی بری بات بھی نہیں سنتے۔
ملکی حالات عموماً پرسکون تھے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں اور میری بہن سرکاری اسکول میں مفت تعلیم حاصل کرتے اور یہ سرکاری اسکول آس پاس کے تمام پرائیوٹ اسکولوں سے اچھا ہوتا بلکہ یہاں داخلہ ملنا نسبتاً مشکل تھا کہ ان کا معیار بہت اچھا ہوتا تھا۔ سرکاری ہسپتال گوکہ کم تھے لیکن سول اور جناح ہسپتال آج کے بہت سے مہنگے پرائیوٹ ہسپتالوں سے بہتر تھے۔
اور شاید سن تریسٹھ کے آس پاس ایوب خان ' جنرل ایوب ' سے 'صدر ایوب ، بن گئے۔ مجھے نہیں یاد کہ سن باسٹھ کے آئین پر عوام کا کیا رد عمل تھا۔ وہ تو کئی عشروں کے بعد پتہ چلا کہ حبیب جالب جیسے شاعروں اور سیاستدانوں نے " میں نہیں مانتا" کہہ کر اس دستور کو مسترد کردیا تھا۔
اخبار میں صدر ایوب کی تصویر اکثر کسی صنعت یا ادارے کا افتتاح کرتے نظر آتی۔ کبھی پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) اور زرعی ترقیاتی کارپوریشن کا افتتاح کرتے۔ کبھی اخبارات زرعی اصلاحات کے بارے میں رطب اللسان نظر آتے۔ کبھی عائلی قوانین کے فضائل بیان کیے جاتے۔ کنونشن مسلم لیگ کے اجلاس کی تصویروں سے اخبارات بھرے نظر آتے۔ کوئی چوہدری خلیق الزماں ہوا کرتے تھے جو کنونشن لیگ اور ایوب خان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دیتے۔
ایوب خان کے ساتھ ہی دو اور تصویریں بھی اخبارات کی زینت بنتیں ۔ یہ بار عب مونچھوں اور اونچے طرّے والےگورنر مغربی پاکستان ' نواب امیر محمد خان آف کالا باغ' اور جناح کیپ اور آچکن میں ملبوس ، مسکین صورت ' عبدالمنعم خان، گورنر مشرقی پاکستان کی تصویریں تھیں۔
ایوب کے وزراء بھی خوش لباس اور قابل اور اہل نظر آتے جن میں سب سے نمایاں تو وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، اس کے علاوہ شریف پیرزادہ، ایس ایم ظفر، غلام فاروق، محمد شعیب، عبدالصبور خان کے نام سننے میں آتے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے چئیرمین ایم ایم احمد، وزارت خارجہ کے سکریٹری عزیز احمد، ڈی آئی جی بشیر احمد، عدالت عظمٰی کے منصف اعلی جسٹس اے آر کارنیلئیس غرض کہ جس شعبے میں جو نام تھا، بھاری بھرکم نظر آتا۔
فوجی حکومت کے ساتھ یہ رومانس جاری تھا کہ سن پینسٹھ کے انتخابات کا غلغلہ اٹھا۔ اور اب آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگا کہ سب کچھ اتنا ٹھیک بھی نہیں تھا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ، ڈیفنس آف پاکستان رولز، پریس اینڈ پبلیکشن آرڈیننس اور گاہے بگاہے دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ وہ ہتھیار تھے جن سے سب کچھ اچھا دکھایا جاتا۔
حزب اختلاف نے متحدہ محاذ کے تحت مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ متحدہ محاذ میں خواجہ ناظم الدین کی کونسل مسلم لیگ، مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی، چوہدری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی، نوابزادہ نصراللہ خان کی عوامی لیگ اور مولانا مودودی کی جماعت اسلامی نمایاں تھے۔ یعنی جتنے بھاری بھر کم نام حکومت میں تھے ، حکومت مخالف نام بھی کسی سے کم نہیں تھے اور ظاہر ہے یہ کوئی ملک دشمن نہیں تھےاور کوئ ٹھوس وجوہات ہی ہوں گی جن کی بناء پر یہ حکومت کے مخالف تھے۔
ہم چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے اور سیاست کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھے لیکن اخباروں میں پڑھنے میں آتا کہ اور بھی بڑے بڑے لیڈر ہیں جن پر ' ایبڈو' 'پوڈو' اور پروڈا جیسے قوانین کے تحت پابندی تھی۔ ان میں حسین شہید سہروردی، ممتاز دولتانہ، عبدالقیوم خان، گورمانی، میاں افتخار ممدوٹ ، امیر اعظم خان جیسے بڑے نام شامل تھے۔
اور وہ ایوب خان ایک دوسال پہلے جس کے نام کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجتا تھا اب ولن نظر آنے لگا۔ انتخابات کا نتیجہ آیا تو ایوب خان پورے پاکستان سے کامیاب تھے، لیکن مشرقی پاکستان اور کراچی میں انہیں شکست ہوئی۔
کراچی (جو پہلے کبھی دارالحکومت تھا اور فوجی حکومت جسے اسلام آباد لے گئی تھی لیکن اسلام آباد کی تعمیر تک راولپنڈی عبوری دارالحکومت تھا) ہمیشہ سے حزب اختلاف کا شہر رہا ہے اور اکثر حکومتوں کے بے توجہی کا شکار( یہ ایک الگ داستان ہے جو پھر کبھی سہی) ۔ کراچی کے گلی کوچوں میں ہر جگہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان ' لالٹین' نظر آتی۔ ایوب کے ، پھول' کے چاہنے والے دبکے رہتے لیکن جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو سب سے شدید ردعمل کراچی سے ہوا۔
کریلا اوپر سے نیم چڑھا۔ زخم خوردہ کراچی والوں کی چوٹوں پر نمک چھڑکنے کے لئے ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے کراچی میں فتح کا جشن منایا لیکن یہ جشن خونریز ہنگاموں میں بدل گیا۔ میں نے اپنے ہوش میں پہلی بار کر فیو کا مشاہدہ کیا۔ میں کورنگی میں پٹھانوں اور مہاجروں کے درمیان فساد کا چشم دید گواہ ہوں۔ گوہر ایوب نے نفرت کا جو بیج بویا تھا وہ وقت کے ساتھ تناور درخت بن گیا اور آج کے کراچی کی مجموعی نفسیات پر سن پینسٹھ کے انتخابات کا گہرا اثر ہے۔
یہ پینسٹھ کی ابتداءً کی بات ہے لیکن جب ستمبر میں بھارت سے جنگ چھڑی تو نہ صرف کراچی بلکہ پوری قوم تمام باتیں بھلا کراپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں ۔ سرحد پر فوج کی جرات اور بہادری کے کارناموں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی قربانیوں کا ذکر بھی ہوتا۔ یہ سترہ دن ہماری قومی زندگی کا سب سے درخشاں باب ہیں ۔ جنگ کی وجوہات اور نتائج پر بہت سی مختلف رائے ہے لیکن بحیثیت قوم ہم نے ایک شاندار قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ سخت گیر گورنر امیر محمد خان نے جنگ کے دنوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہ ہونے دیا اور اپنی انتظامی قابلیت کا انمٹ نقش بٹھایا۔
اب ایوب خان ہیرو بن گئےاور قوم اگلے ڈیڑھ دوسال جنگ کی سرشاری میں رہی۔ شاید یہ سب کچھ یوں ہی چلتا رہتا لیکن سن اڑسٹھ میں ایوب حکومت نے قوم کو اپنے فیوض وبرکات سے آگاہ کرنے کے لئے ' عشرہ ترقی" منانے کا ڈول ڈالا۔ لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی، طلبہ کی بے چینی اور سب سے بڑھ کر جنگ بندی کے بعد معاہدہ تاشقند اب ایوب کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا تھا۔ ادھر ایبڈو زدہ سیاستدانوں پر سے پابندی بھی ختم ہوچکی تھی اور یہ گرگ باراں دیدہ بھی پرانے حساب چکتا کرنے کے لئے تازہ دم ہوگئے تھے۔
یہ وہ حالات تھے کہ ایوب کا سفر زوال کی جانب رواں ہونے لگا۔ مشرقی پاکستان میں اگرتلہ سازش اور شیخ مجیب کی گرفتاری نے بھی حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ ادھر بھٹو صاحب نے ایوب مخالف تحریک کی کمان سنبھالی اور ان کے ساتھ ائر مارشل اصغر خان اور دیگر رہنما بھی شامل ہوگئے اور بالآخر ایوب کو استعفا دے کر اپنے گاؤن ریحانہ کی راہ لینا پڑی۔
یہ تو تھا ' جنّل ایوب' سے صدر ایوب اور فیلڈ مارشل ایوب خان اور آخر میں ایوب کتّا ہائے ہائے تک کا سفر۔ آئیے دیکھیں ایوب اور اس کا دور حکومت کیا تھا۔ یہ وہ ہے جو کچھ میں نے اور ایک عام پاکستانی نے دیکھااور یاد رکھا۔
مجموعی اور عمومی طور پر یہ ایک پرسکون اور پرامن دور تھا۔ ترقی کی رفتار تیز تھی۔ ہمارا پنج سالہ منصوبہ کئی ترقی پذیر ممالک قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور اپنانے کی کوشش کرتے۔نئی صنعتیں قائم ہوئیں ۔ زراعت اور دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوششیں کی گئیں جن میں سے اکثر کو پذیرائی بھی ملی۔ لیکن بہرحال یہ سب تو حکومت کو کرنا ہی تھا۔ ایوب نے حکومت سنبھالی تو پاکستان بنے صرف گیارہ سال ہی ہوئے تھے۔ نئی مملکت نے بہرحال اپنے پیروں پر کھڑا ہونا تھا اور یہ سب اقدامات جلد یا بدیر اٹھانے ہی تھے۔
ایوب کی فوجی تربیت اور اس کے ماتحت قابل اور فرض شناس نوکر شاہی کی کارکردگی بعد میں آنے والے بہت سے ادوار سے بہتر تھی۔ دفاعی معاملات میں ہم اپنے آپ کو بھارت سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ ایوب کے دور کی درخشاں ترین یاد اس کی خارجہ پالیسی تھی۔ چین سے دوستی کا آغاز ایوب دور سے ہوا۔ ایران اور ترکی کے ساتھ آر سی ڈی کا معاہدہ، اردن، انڈونیشیا اور سعودی عرب سے برادرانہ تعلقات سب ایوب دور کا ہی ثمر ہیں۔ پاکستان دولت مشترکہ میں بھی شامل تھا ساتھ ہی سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کا بھی حصہ تھاجس کی بدولت امریکہ اور مغربی بلاک سے بھی قربت تھی۔ لیکن یہ معاہدے تنقید کا بھی نشانہ تھے اور بجا طور پر تھے۔
اقوام عالم میں پاکستان کا ممتاز مقام ایوب خان کی ذاتی وجاہت کا بھی مرہون منت تھا، ایوب خان کا قد کاٹھ اور بار عب شخصیت دنیا کے بیشتر سربراہان مملکت کے مقابل انہیں نمایاں حیثیت دیتی تھی ، ایوب خان کو ایشیائی ڈی گال بھی کہا جانے لگا تھا۔ اور ڈی گال ہویا کینیڈی، چانسلر ارہارڈہو یا جمال ناصر، یا مارشل ٹیٹو یا سوئیکارنو ، ہمارے ایوب خان ان سب سے بلند وبالا نظر آتے۔ پنڈت نہرو جنہیں اقوام عالم میں ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی۔ ایوب کی شخصیت کے سامنے ان کا بھی رنگ پھیکا پڑجاتا۔
یہ سب کچھ تھا لیکن یہ نہ بھولنا چاہئیے کہ ہمارے سیاسی اور عمرانی نظام میں اگر پہلی دراڑ پڑی تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف اور صرف ایوب خان تھے۔ جمہوریت پر شبخون سب سے پہلے ایوب خان نے مارا اور پھر جنرلوں کو جو خون منہ لگا وہ آج تک اپنا اثر دکھا رہا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بینظیر، نوازشریف ، زرداری ، ہر ہر حکومت پر فوجی مداخلت کی تلوار ہمیشہ لٹکی رہی۔
شہری آزادی اور اظہار رائے کے لئے بھی ایوب دور ہرگز مثالی نہیں تھا بلکہ شاید بدترین تھا۔ حبیب جالب، جام ساقی، باقی بلوچ، مولانا بھاشانی، علی مختار رضوی اور معراج محمد خان جیسے لیڈر گھر سے زیادہ جیلوں میں نظر آتے۔ پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے زریعے میاں افتخارالدین کے پروگریسیو پیپرز پر شبخون مارکر پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل ونہار جیسے رسالوں پر قبضہ کیا گیا۔
یہ سب کچھ بہرحال سیاستدانوں اور صحافیوں اور دانشوروں کا مسئلہ تھا۔ عوام النِاس کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ایوب ہی کا دور تھا کہ غریب اور امیر کا فرق بڑھتا چلآگیا۔ ملک کی ساری دولت بائیس خاندانوں میں مرتکز ہوگئی۔ مہنگائی دن بدن بڑھتی گئی اور بالآخر یہی مہنگائی ایوب خان کے زوال کا سبب بنی۔ دوسری جانب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔ بنگالیوں کا احساس محرومی ہر گذرتے دن کے ساتھ فزوں تر ہوتا گیا۔ اگرتلہ سازش، مولانا بھاشانی کی جلاؤ گھیراؤ کی تحریک اور آخر کار ایوب کے بعد آنے والے فوجی آمر کی نالائقی کا انجام مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں نمودار ہوا۔
کرپشن اور بدعنوانی کا وہ عالم تو شاید نہ ہو جو آج ہے لیکن گوہر ایوب کے نام گندھارا انڈسٹریز بھی ایوب دور پر ایک بد نما داغ ہے اور شاید کرپشن کا آغاز کار بھی یہی تھا۔
ایوب کی بربادی کا ایک سبب اسکے گرد خوشامدیوں کا ٹولہ تھا۔ دوسری جانب یحیٰی خان اور ایڈمرل اے آر خان جیسے فوجی افسر بھی گھات لگائے بیٹھے تھے۔
ایوب کا دور کیا تھا اور ایوب کی ذات کیا تھی اس کا فیصلہ تو نہ میں اور آپ کرینگے نہ ہی کوئی دانشور۔ یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ایوب جس کی شاندار شخصیت نے ایک عالم کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا تھا، اسی ایوب خان کو جب اس کی گوشہ نشینی کے دنوں میں کچھ نوجوانوں نے سیاست میں آنے کے لئے کہا تو اس وجیہ اور بار عب جرنیل نے انتہائی کرب سے کہا کہ " ایوب کتّا اب بوڑھا ہوچکا ہے"
اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے۔