پاکستان میں کسی بھی حکومت کے لیے زہر قاتل اگر کوئی گروپ ہوسکتا ہے تو وہ بیوروکریسی ہے۔ حکومتیں اپنی ہی کارکردگی کے بل پر گر جاتی ہیں۔ ایک مقبول حکومت کو کس طرح چند دن میں انتہائی غیر مقبول بنانا ہے اسکے ہتھکنڈے ہماری بیوروکریسی کا وہ تمغہ ہیں جن پر ہمارے ریٹائرڈ و حاضر سروس افسران بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو بھی آنے والے دنوں میں اسی بیوروکریسی سے کام لینا ہے۔ اور یہ اتفاق نہیں ہے کہ پچھلے تیس سال کی بھرتیوں اور پروموشنوں کے نتیجے میں اس وقت بیوروکریسی میں موجود لاٹ کی سیاسی ہمدردیاں کن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہونگی۔ کچھ افسران اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے تحریک انصاف یا پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنے پر آمادہ بھی ہونگے تو انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔
ایسے میں حکومت کی طرف سے شروع کی گئی کوئی بھی ملکی بہتری والی مہم کو انجام دیتے ہوئے یہ افسر شاہی اسکو ایک ایسی شکل دے سکتی ہے جس سے اس مہم کا سارا تاثر غریب مخالف بن جائے۔
وجوہات کچھ بھی ہوں، پہلے ہی تحریک انصاف پر بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر اشائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دینے کی الزام پوری قوت سے لگایا جا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی جلدی میں اٹھایا گیا قدم جو عوامی نظر میں انکی زندگیاں تنگ کردے ، نئی حکومت کو مزید غیر مقبولیت کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈہ مہم ابھی بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ اور فضل الرحمن و دیگر سیاسی عناصر اپنی شکست کا بدلہ لینے کو بے چین پھر رہے ہیں۔
پنجاب خصوصاً لاہور میں ٹریفک کے حوالے سے قوانین سخت کرنے کی تجویز سامنے آ رہی ہے۔ چالان کا جرمانہ پانچسو سے دس ہزار کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ علم نہیں کہ حکومت اس بارے میں کتنی سنجیدہ ہے، مگر میری ناقص رائے میں بغیر مکمل اسٹڈی کے، ریسرچ کے، اور تجربہ کار اور مخلص ماہرین سے مشورے کے، ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہا جائے۔
پوری دنیا میں سخت ٹریفک قوانین رائج ہیں، اور پاکستان میں ٹریفک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ دونوں باتیں درست ہیں۔ مگر یہ دھیان میں رہے کہ جہاں جہاں سخت قوانین نافذ ہیں وہ ایک رات میں لاگو نہیں کر دیے گئے۔ برسوں لگتے ہیں ایسے قوانین کو عوامی زندگی کا حصہ بنانے میں۔ اور ہر ملک ایسے قوانین کو اپنے اپنے حالات کے حساب سے نافذ کرتا ہے۔ یورپ میں آبادی کم ہے، امارات میں بادشاہت ہے، شخصی کنٹرول ہے، اور مضبوط لیڈرز ہیں، اور خوشحالی ہے۔ ایسی جگہوں پر ٹریفک کے سخت قوانین آسانی سے نافذ کیے جا سکتے ہیں۔
مگر پاکستان جیسے آبادی کے بم پر بسے ملک میں ایسا کرنا انتہا درجے کی بیوقوفی ہوسکتا ہے۔ ایسا ملک جہاں غربت اور آبادی بہت زیادہ ہو، وسائل انتہائی کم ہوں، پٹرول کی قیمت آسمان پر ہو، سڑکیں محدود ہوں، اور ٹریفک کے ادارے کی انتظامی تربیت بھی انتہائی ناقص ہو، وہاں یکدم ان ترقی یافتہ ملکوں کے قوانین لا کر لاگو کردینے سے بڑی سیاسی خودکشی اور کچھ نہیں ہوسکتی۔
ترقی یافتہ ملکوں میں کسی بھی قانون میں بڑی تبدیلی کے لیے پہلے رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا ہے، اس قانون کے بارے میں عوام کو بڑے پیمانے پر آگاہ کیا جاتا ہے۔ تشہیری مہم چلائی جاتی ہے۔ اور عوام کو کافی وقت دیا جاتا ہے کہ وہ اس قانون سے آگاہ ہو سکیں۔ اس کے باوجود جب اس کا اطلاق ہوتا ہے تو کئی ماہ تک صرف وارننگ دی جاتی ہے یا انتہائی زیادہ خلاف ورزی پر سزا سنائی جاتی ہے۔
پاکستانی اداروں میں تربیت کا شدید فقدان ایسی کسی مہم کو حکومت کے خلاف آسانی سے استعمال کرسکتا ہے۔ خصوصاً جب افسر شاہی کو حکومت کی ساکھ سے زیادہ دلچسپی بھی نہ ہو۔
پرویز مشرف کے دور کا ایک حکم یاد آ رہا ہے جب ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور ہمارے افسران نے چن چن کر غریبوں کی بستیوں اور غریبوں کی دکانوں کے سامنے کی "تجاوزات" کو ایسے ختم کیا کہ دو ہفتے پہلے والے پرویز مشرف عام لوگوں میں اپنی مقبولیت کی سب سے کم سطح پر آ گئے۔
اس لیے میرا مشورہ تحریک انصاف کی حکومت کو یہی ہوگا کہ تبدیلی جوش سے نہیں ہوش سے لائی جائے۔ کوئی بھی ایسا قانون، یکدم لاگو نہ کیا جائے جو عوام کی پہلے سے ابتر زندگی کو مزید ابتر کردے۔ پہلے ٹریفک پولیس کی تربیت اور تطہیر کی پوری کوشش کی جائے۔ بلاوجہ چالان اور معمولی باتوں پر جرمانے سے یہ مہم اپنے پاؤں میں دھماکہ ثابت ہوگی۔
نیک و بد ہم حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔