ایک طرف تیل ایکسپورٹ کرنے والا دنیا ملک چاڈ، جس کی دو تہائی آبادی آج بھی پڑھ لکھ نہیں سکتی اور نہ ہی اپنی ملک کی قومی یا سرکاری زبانیں (عربی یا فرنچ) بول سکتی ہے، دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس کا ہمسایہ لیبیا جو عالمی برادری سے کٹا ہوا ہے لیکن چاڈ پر اپنا اثر رسوخ رکھنے کے لئے مداخلت کرتا رہا ہے۔
ان دونوں ممالک کے درمیان اوزو کی پٹی پر جھگڑے میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اوزو کی پٹی ایک لق و دق صحرا ہے جہاں نہ گھاس اگتی ہے، نہ انسان بستے ہیں، نہ کوئی زیرِ زمین معدنیات ہیں۔ چاڈ میں خانہ جنگی کے بعد حسین حبری نے اقتدار سنبھالا۔ لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت نے ان کو صدر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور شمالی چاڈ کے ریتلے صحرائی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ فرانس نے اس جنگ میں چاڈ کی کھل کر مدد کی۔ اس امداد میں سب سے کارگر ہتھیار ٹویوٹا کے 400 پک اپ ٹرک تھے جن میں ہتھیار نصب تھے۔ انہوں نے اس جنگ میں اتنا اہم کردار ادا کیا کہ اس جنگ کو ٹویوٹا کی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آٹھ ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں چاڈ کو فیصلہ کن فتح ہوئی۔ اپنے ملک سے باہر جا کر لڑنے والی لیبیا کی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے 800 ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوئیں اور ساڑھے سات ہزار فوجی اس جنگ میں مارے گئے۔
اس جنگ سے چاڈ نے پورا پری فیکچر خالی کروا لیا۔ اوزو کی اس پٹی پر عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ بھی چاڈ کے حق میں کر دیا۔
معمر قذافی کا دورِ اقتدار 42 سال رہا جبکہ حسین حبری نے 8 سال حکومت کی۔ یہ دونوں راہنما اپنے ملک میں ہونے والی مسلح بغاوتوں کے نتیجے میں اقتدار سے الگ کئے گئے۔ حسین حبری کی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے چاڈ کا ایک بدترین باب سمجھا جاتا ہے۔ چاڈ کی عدالت نے ان کو غیرحاضری میں سزائے موت سنائی لیکن ان کا اصل ٹرائل سینیگال میں ہوا جہاں پر ان کو گرفتار کیا گیا۔ چالیس ہزار انسانوں کے قتل، ریپ اور جنسی غلامی جیسے الزامات میں ملوث ہونے کے جرم میں ان کو 2016 میں عمرقید کی سزا سنائی گئی جو یہ سینیگال میں کاٹ رہے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی سابق سربراہِ مملکت کو اس طرح سزا دئے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
چاڈ اور لیبیا کے صحارا میں ہونے والی یہ جنگ اس حوالے سے انوکھی رہی کہ یہ ایک گاڑی کی کمپنی کے نام سے مشہور ہے۔