جان لیوا صدمات سے انسان بچ نکلتاہے مگر دِل پر صبر کی سِل رکھنے کے لیے طویل وقت کی احتیاج ہے ۔کردار اور وقار کی رفعت تک رسائی کے لیے آزمائش و ابتلا کی گھڑیوں میں ثابت قدم رہنا بہت ضروری ہے ۔ چھے جولائی دو ہزار سترہ کو نو جوان بیٹے سجاد حسین کی دائمی مفارقت کا صدمہ سہہ کر تین برس سے عار ضہ قلب کے باعث میں اپنے گھر میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں ۔ ہجوم یاس میں گِھر کر میں بے خود سا ہو گیا ہوں اور گوشہ نشینی کی اس زندگی میں تنہائیوں نے مجھے اپنے گھر تک محدود کر دیاہے ۔ آلام ِ روزگار کے مہیب بگولوں اور سمے کے سم کے ثمر نے یہ دن دکھائے کہ میرے اکثر ساتھی اب کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ رخشِ خیال نے مجھ پر واضح کر دیا کہ جنھیں تم بہت بڑا سہارا سمجھتے رہے وہ سب ابن الوقت کس قدرچھوٹے اور جُھوٹے نکلے۔ اِن میں سے کچھ تو گُل چِین ازل نے چھین لیے اور کچھ فصلی بٹیرے ایسے تھے جنھیں خود غرضی ،بے حِسی ،حرص و ہوس اور موقع پرستی کے بگولے خس و خاشاک کے مانند اُڑا لے گئے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کے تکلیف دہحالات میں جب کچھ درد آشنا احباب مجھ سے ملنے کے لیے آتے ہیں تو میں اُن کی آمد کو بندہ پروری پر محمول کرتاہوں اور ان کی راہ میں آ نکھیں بچھاتاہوں ۔ بے لوث انداز میںخاموشی سے غم گساری ایک ایسا لین دین ہے جس کی افادیت مسلمہ ہے ۔ آپ بیتی کی مثال بھی مکڑی کے ایک جالے کی سی ہے جس کے تاروں کے مختلف کونوں میں ایام گزشتہ کی یادیں اور فریادیں سمٹ جاتی ہیں ۔میں نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ وہ صابر و شاکر لوگ جو طوفانوں میں پلتے ہیں وہ مصائب و آلام کے گرد باد اور جان سے پیارے عزیزوں کی دائمی مفارقت کے بگولوں کی تندی سے اس لیے نہیں ڈرتے کہ انھیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصائب و آلام کی آندھیوں کے یہ بگولے گر دکے مانند بیٹھ جائیں گے۔کئی مخلص احباب مجھے سے ملنے آتے ہیں تو جاتے وقت دعا کرتے ہیں کہ اے دوست تم اس خرابے میں آباد رہو ۔اس کائنات کی مثال کارگہِ شیشہ گری کی سی ہے اس لیے بعض اوقات سانس لینے میںبھی بہت احتیاط سے کام لینا پڑتاہے ۔
سولہ دسمبر۲۰۲۱ء کی سہ پہر کو پروفیسر بشارت حسین وقار میرے گھر پہنچے، اہلِ جور کی شکایات کے بجائے اُس کی پُر نم آنکھوں میں سو طرح کی حکایات ہو گئیں ۔ اس موقع پر انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک جان لیوا، لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کے بارے میں مجھے مطلع کیا۔ اس کی پُر نم آ نکھوں نے مجھے اس طرح اسیر کیا کہ میں بھی دل گرفتہ ہو گیا۔ جوں ہی اس صابر و شاکر معلم نے میرے سامنے اپنے بچھڑنے والے نوجوان بیٹے توقیر عباس کا نام لیا میں نے اپنے دِلِ ستم زدہ کو تھا م تھام لیا ۔عالمی کلاسیک کے نباض ،پنجابی زبان کے محقق ،نقاد، مورخ،فلسفی ، ادیب اور ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر بشارت حسین وقارکے فرزندتوقیر عباس کی پُر اسرار گمشدگی کی اطلاع ملی تو میر ادِل دہل گیا۔ پروفیسربشارت حسین وقار نے مجھے بتایا کہ جمعرات۔ تیرہ مئی 2021عید الفطر کی تعطیلات کے بعد تعلیمی ادارے کُھلے تو وہ اپنے مقام تعیناتی پر پہنچا ۔اس کے ساتھ اس کا نو جوان فرزند بھی عید منانے کے بعد جھنگ کے ایک مقامی تعلیمی ادارے میں حاضر ہوا۔ معلوم ہوا کہ یہ نوجوان جو ایم۔اے ( اردو )فائنل کا طالب علم تھاسترہ مئی ۲۰۲۱ء کو گھر واپس نہ آیا ۔بعض واقف حال لوگوں کا اندیشہ ہے کہ یہ ہو نہار طالب علم کینہ پرور حاسدوں کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا۔کچھ جو فروش گندم نما بھیڑیے ایسے بھی ہیںجنھوں نے بھیڑکا لباس پہن رکھا ہوتاہے۔ایسے ہی آستین کے سانپ جب کاٹتے ہیں تو زندگی بھاری لگتی ہے ۔ دریائے جہلم اور چناب کے سنگم تریموں کے نواح میںبسنے والے کچھ موہانے اور بَلّی مار یہ بتاتے ہیں کہ انھوںنے ایک نوجوان کوشور انگیز دریا کی طوفانی لہروں میںڈوبتے ہوئے دیکھا ہے جو اپنی جان بچانے کے لیے بلند آواز سے مدد مانگ رہا تھا۔اُس نے سر ِگرداب کئی بار مدد کے لیے پکارا مگر دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑے لوگ جب قریب پہنچے تو دریا کی تلاطم خیز موجیںسب کچھ بہا کر لے گئی تھیں ۔ باطنِ ایام پر گہری نظر رکھنے والے دیدہ وروںکا خیال ہے کہ اس خاندان کی کشتی دریائے جہلم کی تلاطم خیز موجوں سے یقیناً بچ سکتی تھی مگر یہاں تو کشتی کے اندر تلاطم پیدا ہو گیا تھااورتوقیر عباس کی خالہ کے بیٹے اُس کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے ۔ بشار ت حسین وقار نے پورے یقین کے ساتھ اپنے خاندان کی کشتی کے مسافروں کو چشم حسود کی لہروں سے بچایا مگر وہ دریا ئے کینہ ،حسد اور بغض و عناد کی گہرائی کا صحیح اندازہ نہ کر سکا ۔ دُور سے اُسے جو دریا دکھائی دیتے تھے وہی اُس کے لیے سرا ب اور عذاب بن گئے ۔ شہر سے امدادی ٹیمیں ،غوطہ خور ،ملاح اور بحریہ کے ماہر تیراک موقع پر پہنچے مگر نو جوان توقیر عباس کا کہیں سراغ نہ ملا ۔ اُس دِن سے الم نصیب والدین کے قلب و جگر کے سوزِ نہاں سے آنسوؤں کا ایک ایک قطرہ جلتا محسوس ہوتاہے ۔اُن کی چشمِ گریاں کے آب ِ رواں میں بھڑک اُٹھنے والی یہ آگ ایسی تھی کہ دریا جل گیا۔ جغرافیہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ تخلیق ِ کائنات کے وقت سے دریاؤں کی تلاطم خیز موجوں اور دریا ؤں کے کناروں میں ایک چپقلش جاری ہے ۔ شبِ ستم کی زیست مسلط ہونے کے بعد فصیلِ شب کی سرحدوں کو کاٹنے کی خاطراپنے لخت جگر کی تلاش میں بشارت حسین وقار تھل میں ایک خیمہ لگاکر اپنی اہلیہ اور چار بیٹیوں کو لے کر اپنے دِل ِ شکستہ میں اُمید کی مشعل فروزاں کر کے پیر پنجال سے نکلنے والے اور صدیوں کا سفر طے کر جھنگ پہنچنے والے دریائے جہلم کے کنارے بیٹھ گیا۔ وہ جانتاہے کہ آبِ رواں تو طویل مسافت طے کر کے سمندروں تک جا پہنچتاہے مگر کنارے تیزی سے بدلتے ہوئے نظار ے دیکھنے کے لیے اپنے مقام پر جامد و ساکت وہیں کھڑے رہتے ہیں ۔ وہ اسی فکر میں تھا کہ شایددریائے جہلم کی طوفانی لہروں کے کٹاؤ سے چھلنی ہو جانے والے یہ کنارے اس سانحہ کے بارے میں کوئی راز ظاہر کر دیں یا ریگستان اور صحرا کے پورے علاقے میں اُگی ہوئی خود رو جھاڑیوں کا غمزہ کوئی غمازی کر دے ۔ بشارت حسین وقار نے دریا کی طرف اس توقع پر دیکھا کہ ممکن ہے حضرت خضر ؑکی رہنمائی سے اُن کی مشکل آسان ہو جائے مگر دوسرے لمحے اُسے حضرت خضر ؑ کے ہاتھوں سکندر کے ساتھ ہونے والے عجیب سلوک نے مضطرب کر دیا ۔ شدید گرمی کے موسم میںبھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال یہ خاندان تین دِن تک دریا کے کنارے اپنے لختِ جگر کے انتظار میں بیٹھا رہا۔واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ طوفانوں سے ٹکرانے والے ان الم نصیبوں کے صبر و استقامت پررشک آتا ہے جنھوں نے دریائے جہلم کے منجدھارکو بھی کنارہ سمجھ لیا ۔توقیر عباس کے یوں چلے جانے کے بعدبشارت حسین وقار کے گھر سے دیکھے ہی دیکھتے رنگ ،خوشبو ،حُسن و خوبی اور سعادت مندی کے سب استعارے ہی عنقا ہو گئے ۔ اس مقام پر دریا ئے جہلم کے مغربی کنارے پر کچھ دُور موہانوں ،گلہ بانوں اور ماہی گیروں کی جُھگیاں تھیں ۔ان جھگیوں میں مقیم خانہ بدوشوں کی عورتوں نے جب ایک غمزدہ ماں کو اپنے نو جوان بیٹے اور بہنوں کو اپنے بھائی کی تلاش میں سرگرداں دیکھا تو وہ بھی شدت غم سے حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال ہو گئیں ۔ وہ جانتی تھیں کہ دائمی مفارقت دینے والے نو جوان نے اس خاندان کو جانگسل تنہائیوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔انھیں صبر کی تلقین کرنا بہت بڑی بے دردی ہے۔ وہ عورتیں الگ تھلگ کھڑی ان الم نصیبوں کی حالت دیکھ کر گریہ و زاری کر رہی تھیں۔ ماندنہ ،سبز باغ اور جنگل بیلہ کے پیمان شکن سفہا کا چہرہ چہرہ ان خانہ بدوشوں کی نگاہ میں تھا۔ چاندنی رات تھی اسی اثنا میں ایک حساس اور درد آشنا دیہاتی عورت نے گلو گیر لہجے میں قتیل شفائی کا لکھا ہوا سال ۱۹۵۵ء کی فلم نوکر کانغمہ جس کی دُھن موسیقار جی اے چشتی نے ترتیب دی تھی اور اپنے عہد کی ممتاز مغنیہ کوثر پروین نے گا کر اسے دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آ ہنگ کر دیا۔حساس لوگوں نے جب پوری فضا کو نوحے پڑھتے سُنا تو دِل تھام تھام لیا۔ وقت کی نزاکت اور رنج و غم کی شدت کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے والا یہ لوک گیت سُن کر وہاں موجودسب سوگوار اس خطے کے ثقافتی پس منظر میں کھوگئے۔ صحرائی جھگیوںکی مغنیہ نے اس گیت کے بول دہرائے جو صدیوں کا سفر طے کر کے قلب و جگر کی تمازت سے ہم آ ہنگ ہو گیاہے ۔ جب سوگواروں کے قلب ِ حزیں کی سارنگی کے سیاہ تار سرسرانے لگے توپوری فضا آہوں اور سسکیوں کی آواز سے گونج اُٹھی :
راج دُلارے تو ہے دِل میں بسا ؤں تو ہے گِیت سناؤں
گِیت سناؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی تیرے مُکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی
تاروں کا رُوپ تو پہلے ہی ماند ہے ،چندا کو میں کیا جانوں تُو میرا چاند ہے
جُھوم کے گاؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
راج دُلارے
نینوں میں ڈالوں کاجل کی ڈوریاں تجھ کو لُبھاؤں میں تو دے دے کے لوریاں
کاجل کے سنگ میرے دِل کی اُمنگ ہے تیرے نینوں میں میری ممتا کا رنگ ہے
کیسے بتاؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
راج دُلارے
پُھولوں کی سیج پہ تُجھ کو سُلاؤں میں کِرنوں کا تاج تیرے سر پہ سجاؤں میں
امی کے باغ کا تُو البیلا پُھول ہے کلیوں کا رُوپ تیرے قدموں کی دُھول ہے
جُھولا جُھلاؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
راج دُلارے
علاقے میں مقیم کئی حاسدجب بلند قامت اور وجیہہ نوجوان توقیر عباس کو دیکھتے تو سہم جاتے کہ یہ آفتاب جلد ہی اُن کی مسلط کردہ شب ِتاریک کے سِحر کو کافور کر دے گا۔کبھی کبھی پانی تیز ہوا کے جھونکوں سے بے نیاز رہتے ہوئے بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ سائیں سائیں کرتے جنگل میں گزرنے والی وہ تنہا، بھیانک ،اُداس اوراعصاب شکن راتیں قیامت کی راتیں تھیں جو بڑی مشکل سے گزریں ۔کسی بھی سانحہ کے پس ِپردہ کا رفرما مسائل و مضرات کے بارے کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ آزمائش کی اس گھڑی میںاگرچہ حوصلے اور برداشت میں کمی واقع ہو رہی تھی مگر صبر جو مونس ہجرا ںبن کر پہنچا تھااس میں پیہم اضافہ ہو رہا تھا۔ تین دِن بعد بشارت حسین وقار جھنگ میں واقع اپنے خالی اور خاموش گھر پہنچا جہاں اُداس بام اورکُھلے در توقیر عباس کے منتظر تھے مگر وہ چاند تومنافقانہ جبر کی کالی گھٹا میں اوجھل ہو چکا تھا۔ وہ اثاثہ جسے بشارت حسین وقار نے اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کی حفاظت کے لیے سنبھال کر رکھا تھا ،جاہل اور کینہ پرور اعدا کی مکروہ سازشوں کے نتیجے میںوہ دریا ئے جہلم کی قیامت خیز لہروںکی بھینٹ چڑھ گیا۔ خورشید جہاں تاب کی شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے درویش منش ضعیف معلم اور ماہر طبیعات حاجی احمد طاہر ملک نے نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھا اور پلٹ کر کہا:
’’ اس وقت میں اپنے دِل شکستہ کا حال بیان کرنے سے اس لیے قاصر ہوں کہ کہیں تقدیر اور خرد کی گتھیاں اُلجھ نہ جائیں ۔اپنے قلبِ حزیں اور گردشِ آسماں سے گھبرائے ہوئے بشارت حسین وقار پر ایسے اشک بار زمانے آگئے ہیں کہ جس چاندکو اُس نے بیس برس تک اپنی گود میں پالا تقدیر کے ستم سہنے کے بعداُسے گور میں بھی نہ رکھ سکا ۔اس سانحہ کے بعد بشارت حسین وقار کے لیے اب سیر ِ بوستاں کی کیا حقیقت رہ گئی ہے ۔قسمت کی لوح پر کندہ پریشان کُن الفاظ کو پڑھ کر حسرتوں کا بیان کرنا اور صبر کی تلقین کرنا بہت سہل ہے مگر سینے پر درد کی سِل رکھنا جان جوکھوں کامرحلہ ہے ۔شہرِ بے مکاں میں لمحات کی خشت خشت ان جگر فگاروں کے مصائب کو حرف حرف بیان کر رہی ہے ۔ ایک بے بس و لاچار خاندان کی آرزوؤں اور اُمنگوں کا سفینہ ڈبونے کے بعد دریائے جہلم کا پانی بہت آگے نکل گیاہے ۔مجھے یقین ہے کہ دریائے جہلم کے پانی کے وہ ریلے جو پیچھے آ رہے ہیں صدیو ںتک توقیر عباس کے بے بس اور جگر فگاروالدین کے اشکوں کی روانی دیکھنے کے لیے اپنی جبیں خاک پہ گِھستے ہوئے سر کے بَل اِن کے گھروندوںکے قریب پہنچیںگے،دریاکی تلاطم خیز موجیں کناروں سے سر پٹخیں گی مگر اُس وقت پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہوگا اور مظلوم خاندان کے دُکھوں کا مداوا نہ ہو سکے گا ۔ سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ سترہ مئی2021ء کے المیہ کے بعد سے توقیر عباس کے والدین کے دِل و جگر میں خون کے قطروں نے جو ہنگامہ برپا کر ر کھا ہے اُس کے بعدان کے گھر کے گلشن میں آگ برسے گی یا گردشِ ایام کوئی اور گُل کھلائے گی؟ ‘ ‘کبھی کبھی میرے دِل میں یہ خیال آتاہے کہ میں دریائے جہلم کے خاک اُڑاتے ہوئے کناروں سے اپنا سرپھو ڑ کر اس دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لوں۔‘‘
توقیر عباس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اپنی گُل افشانی ٔ گفتار سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرنے کا فن جانتاہے ۔کچھ مقررین ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے مقصد باتوں ،شعلہ بیانی اور بے ربط دلائل کے طومار سے اپنی تقرری کو ]پشتارۂ اغلاط بنا دیتے ہیں ۔ایسی تقاریر کی مثال بند گوبھی کی سی ہے جس کے پتوں کے پردے ہٹاتے چلے جائیں آخر میں کچھ بر آمد نہیں ہوتا۔ہر ادبی نشست کے بعدقتیلانِ تقریر اُسے گھیر لیتے اور آٹو گرا ف کا تقاضا کرتے تھے ۔
جب بھی بیتے لمحوں کی چاپ سنتا ہوں مجھے توقیر عباس کی شعلہ بیانی یاد آتی ہے ۔اِ س شعلہ بیان مقر نے ہر تقریری مقابلے میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ مارچ 2021ء کے وسط میں کُل پاکستا ن تقریر ی مقابلوں کا انعقاد ہوا ۔ وہ شعلہ بیان مقرراپنے دلائل کو اس قدر مدلل او رمو ثر بنا دیتاکہ مخا لف مقریرین کا بلند لہجہ اس کے موثر اور مدلل اسلوب کے سامنے دب جاتا۔ ہر مباحثے میں وہ فتح و شکست سے بے نیاز رہتے ہوئے صرف حرف ِ صداقت پر انحصار کرتا تھا۔ ہر تقریری مقابلے میںتوقیر عباس نے اردو ،انگریزی ،سرائیکی ،ہندکواور پنجابی زبان میں اپنی جامع اور مدلل تقاریر سے ایسا سماں باندھاکہ سامعین اش اش کر اُٹھے ۔اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے وہ سامعین کو مسحور کر دیتا اور اس دلائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کالو ہا منوا لیتے تھے ۔ مباحثوں میں ارفع خیالات کے مظہر تکلم کے مدلل سلسلے اُس کی فقید المثال کامیابی کا وسیلہ بن جاتے تھے ۔ ملک بھر کے ممتاز تعلیمی اداروں اور جامعات میں آج بھی اُ س کی تقاریر کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اس کے اشارے اور تکلم کے سلسلے دکھائی دیتے ہیں اور اُس کی موثر آوازکانوں میں رس گھولتی ہے ۔ وہ اکثر یہ بات زور دے کر کہتا تھا کہ جب لوگ کسی مصلحت کے تحت حرفِ صداقت کے اظہار میں تامل کریں تو خیالات کو زیبِ قرطا س کرنا از بس ضروری ہے۔
جتنی دیر بشارت حسین وقار میرے پاس بیٹھا رہا میں نے محسوس کیا کہ جذبات ِ حزیں کی شدت کے باعث اس کے تکلم کا سلسلہ ٹُوٹ ٹُوٹ جاتا اوراُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں ۔اُس کی آ نکھوں سے بے اختیار بہہ نکلنے والے یہ آ نسو در اصل شدت غم کے اظہار اور تزکیہ نفس کا ایک خاموش انداز تھا جسے دیکھ کر میری آ نکھیں بھی نم ہو گئیں۔ زندگی اور قلب و جگر میں بس جانے والے اپنے لخت ِ جگر کے بارے میں بشارت حسین وقار نے بتایا کہ عید الفطر کے بعد ہر صبح توقیر عباس خورشید جہاں تاب کی پہلی کرن کی صورت مجھے ملنے میرے کمرے میں آتا اور اب ہر صبح مجھے اس کی کمی کا شدت سے احساس ہوتاہے ۔اُس فطین نوجوان طالب علم کی سعادت مندی اور محبت کی یادیںسارے خاندان کی زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔ توقیر عباس کے والدین کا دِل جب ہجوم یاس سے گھبرا جاتاہے اور سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس بیٹے سے وابستہ یادیں ہی اب اُن کے غم کا تریاق ہیں۔وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماہتاب کے لیے صرف گھر کے دروازے کُھلے نہیں رکھے بل کہ ہمارے دِل و جگر کی سب راہیں اُس کے لیے ہمہ وقت کُھلی رہتی ہیں ۔ پیاس کی شدت اور خشک لبوں کی کہانی سناتے ہوئے بشارت حسین وقار نے بتایا کہ شہر کی زندگی میں پروان چڑھنے والا اُس کا بیٹا تو دُور سے دریا کی روانی دیکھنے کا عادی تھا اور کبھی دریا میں بہتے پانی کی طغیانی ،لہروں کی روانی اور سیلاب کی آفت نا گہانی کے بارے میں نہیں سوچتاتھا۔ بے حِس لوگوں کے ہجوم میں گِھرے تنہائیوں کے اسیر اس مجبور و بے بس خاندان کے سب افراد یہی کہتے ہیں کہ انھیں دریا کی طوفانی لہروں سے کوئی شکوہ،شکایت ،گِلا یا شک و شبہ ہی نہیں کیونکہ قلزم علم کے اس شناور کی تشنگی کا دریا کے آبِ رواں سے کوئی تعلق ہی نہ تھا ۔ آنکھوں میں جلن اور قلب ِحزیں میںایک طوفان سا لیے جھنگ شہر کے لوگ سوچتے ہیں کہ ایک گرد باد میںاتنی سکت کہا ںکہ وہ ہمالہ کی سر بہ فلک چٹانوں پر نظر ر کھنے والے ،طوفانوں میں پلنے اوردنیابدلنے کی خدادا د صلا حیت سے متمتع شاہین کو اُڑا لے جائے ، دریائے جہلم کے حباب میں اتنی تاب کہاں کہ وہ آفتاب کو ڈبو دے اور تریموں کے گرداب میںاتنی گہرائی کہا ںکہ وہ ماہتاب کو بہا لے جائے ۔ تقدیر کے ہاتھوںسترہ مئی ۲۰۲۱ء کے بعد بشارت حسین وقار کے گھر ایسی بھیانک شبِ تاریک مسلط ہوگئی ہے جو ڈھلنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ زندگی کی شبِ تاریک دریائے جہلم کے کنارے کھڑی گریہ و زاری کرتی ہے کہ اللہ بخش کے خاندان کا چاند بھرے دریا کی تلاطم خیز موجوں میں کیسے اُتر گیاہے ۔ بوڑھے اور آزمودہ کار موہانے اور بَلّی مار اکثر یہی کہتے ہیں کہ جب بھی ہم دریاؤں کی طوفانی لہروں کو دیکھتے ہیں تو ہم دِل تھام لیتے ہیں کہ ان لہروں نے کتنے کنارے اور سہارے ڈبو دیئے ہیں ۔ بشارت حسین وقاروسعت افلاک کی جانب دیکھتا ہے اور یہی بات دہراتاہے یہی تو وقت تھا کہ اُمید کا خورشید جہاں تاب طلوع ہو تا اور اپنی ضیا پاشیوں سے یاس و ہراس کی سفاک ظلمتوں کوکافور کر دیتا۔ اس عالمِ آب و گِل میں کہنے کو سب کچھ ہو گا مگر توقیر عباس کے الم نصیب، جگر فگار والدین ہر وقت یہی سوچتے ہیں کہ جب چار بہنوں کا اکلوتا بھائی توقیر عباس اپنے گھر پہنچے گا وہ معجزہ کب ہوگا۔ طوفانِ حوادث کے مہیب بگولے پہلے بھی چلتے رہے ہیں مگر ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ باد ِ سموم اور سمے کے سم کے ثمر کے نتیجے میں کوئی نو خیزشگوفہ شاخ سے الگ کر کے غائب کر دیا جائے ۔ بادِ سموم کے چلنے سے زندگی روز اپنے رنگ تبدیل کرتی رہتی ہے مگر توقیر عباس کے والدین کی زندگی شب کے مسافروں کے مانند گزر رہی ہے ۔ جس معاشرے سے عہد و پیمان، تہذیب ،شائستگی ،وفا اور ہمدردی بارہ پتھر کر دی جائے وہاں انسانیت بھی دریاؤں کی متلاطم موجوں میں ڈُوب جاتی ہیں ۔توقیرعباسکے والدین ،قریبی رشتہ دار اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ مہمان توقیر عباس کو اس کی خالہ کے بیٹے سیر کے بہانے دریائے جہلم کے کنارے لائے اور دریا کی طوفانی لہرو ںمیں دھکا دے دیا۔ دریائے جہلم کا پانی توقیر عباس کے والدین کے صبر و قرار کو بہالے گیا تو انھوںنے دریا کے کنارے خیمہ لگا لیا شور دریا سے سمندر کا سکوت مخاطب ہو ااور پانی سے اپنا بیٹا واپس طلب کیا ۔ بشارت حسین وقار اپنی اہلیہ اور چار بیٹیوں کو لے کر بیلہ گاؤں کے قریب دریائے جہلم کے کنارے بیٹھ گیا۔ دریا کی دہلیز پر کھڑی بشارت حسین وقار کی بیٹیاں اپنی پتھرائی ہوئی آ نکھوں سے دریائے جہلم کی طوفانی لہروں کی طر ف دیکھ کر یہ استفسار کر رہی تھیں اے دریا کی تلاطم خیز لہرو! تم نے ہمیں ناقابل اندمال صدمات سے دوچارکر دیاہے ۔
تم نے ہمارے گھر کا خورشید ڈبو دیا ہم تقدیر کے مارو ںکے باقی ماندہ خواب بہا لے جانے میں اب کیاامر مانع ہے ؟
بیتے لمحات کے بارے میں اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ پرِ زمانہ کی رفتار پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔جو وقت بِیت جاتاہے وہ کبھی لَوٹ کر نہیں آتا۔ان حالات میں وقت کی اپنی ایک الگ داستان ہے جو نیرنگیٔ عالم اور حالات کی ستم ظریفی کا شاکی ہے اور اس جانب متوجہ کرتاہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے انسان کس قدر بے حس ہو جاتاہے کہ اہلِ درد کی آ نکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہیں۔انسان اچھے وقت کی تمنا میںسب کچھ داؤ پر لگا دیتاہے مگر اسی وقت کو ضائع کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔بشارت حسین وقار اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اور جس درد نے اُسے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے وہ درد ِلا دواہے ۔اس وقت المیہ یہ ہے کہ گردو نواح کے لوگ چارہ گری سے گریزاں ہیں ۔سانحات ایک دم وقوع پذیر نہیں ہوتے ان کے رو نما ہونے سے پہلے وقت کئی سال تک ان کی پرورش کرتا رہتاہے مگر ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس جگر فگا ر انسان کے زخموں کی فوری رفو گری کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
عید الفطر کے بعد بشارت حسین وقار نے دریائے جہلم کے پانی کو دیکھ کر گلو گیر لہجے میں کہا :
’’ تریمو ںکے مقام پر دریائے چناب کے پانیوں میں اپنے وجود کو گم کرنے والے دریا ئے جہلم تیری لہروں نے، تُو نے ہمارے دِل کی بستی کو بے آب و گیاہ ویران صحرا میںبدل دیا۔ اس مقام پر جہلم اور چناب نے تو اپنی اپنی پیاس بُجھا لی ہے مگر ہم تشنہ لبوں کی پیاس کون بُجھائے گا؟دیہاتوں کے قریب سے بہتا ہوا یہ دریا مٹی سے تعمیر کیے گئے کچے گھروندوں اور غریبوں کے گھرو ںکے چراغ بہا لے جاتاہے مگر کسی قصر و ایوان کا رُخ نہیں کرتا ۔تمھاری طوفانی لہروں نے نقش گرِ رنج و الم و سانحات بن کر ہمارے سلسلۂ روز و شب اور زندگی کی سب رُتوں کو بے ثمر کر دیا ہے۔ ہم کوئی مزاحمت کرنے سے قاصر ہیں اور کوہساروں کے مانند جامد و ساکت کھڑے خاموشی اور بے بسی کے عالم میں تقدیر کے یہ فیصلے دیکھ رہے ہیں مگر تم پوری رفتار کے ساتھ کُھلے سمندروں کی جانب بہتے چلے جا رہے ہو۔اے دریائے جہلم تمھیں تو بحیرہ عرب تک پہنچنے کا راستہ معلوم ہے مگر اب ہمیں بھی تو کچھ بتاتے جاؤ کہ توقیر عباس کے بعدہم کون سا راستہ تلاش کریں؟‘‘
جان لیوا صدمات میں ہر نفس گزشتہ زیست کی میّت کی صور ت میں سامنے آتاہے سچ تو یہ ہے کہ ایسے کٹھن حالات میں زندگی مر مر کے جیتے رہنے کی ایک شکل ہی تو ہے ۔ جب زندگی پر دیوانے کے ایک خواب کا گمان گزرے توبشارت حسین وقار جیسے صابر و شاکر معلم کی زندگی شمع کے مانند گزرنے لگی اوراس کی ذات سفاک ظلمتوں میں روشنی کی ایک کرن ثابت ہوئی ۔ ایک زیرک ،فعال ،مستعد ، شیریں سخن اور شیریں گفتار تخلیق کار کی حیثیت سے بشارت حسین وقار نے اپنی اردو اور پنجابی شاعری سے پتھروں کو بھی موم کر دیا اورقارئینِ ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ ہجوم یاس میں گِھرے اِس درویش منش معلم کا صبر وسکون دیکھ کر گردِ شِ ایام کی آ نکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں کی یہ بات دہراتاہے کہ آ نکھوں سے ضبط کے آ نسوبھی نہیںٹپکنے چاہییں ۔اس طرح ہمیشہ محض بوند بھر پانی سے صبر و تحمل کی پوری آ برو پانی پانی ہو جاتی ہے ۔اس کے لبوں سے کسی نے کبھی حرفِ برہمی نہیں سُنا بل کہ اس کی گل افشانی ٔگفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے ۔ اس کا اندازِ فکر ہمیشہ تعمیر ی رہااورکسی شخص کی تخریب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔یہی اس کی ہر دلعزیز ی کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا شگفتہ اسلوبِ سخن ہی اس کی ادبی پہچان بن گیا ہے۔قدرت ِکاملہ نے بشارت حسین وقار کو قناعت اور استغنا کی دولت سے مالا مال کیاہے اس لیے زر پرستوں اور ہوس ِ جاہ و منصب کے روگ میں مبتلا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے ابن الوقت اور طوطا چشم افراد سے زندگی بھر کوئی تعلق نہیں رکھا۔ کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیرسے جاہ و منصب اور مفادات و مراعات کے استخواں نوچنے اوربھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگان راہ سے اُسے شدید نفرت ہے ۔ اُس نے زندگی بھر فن کار کی انا اورخود داری کا بھرم قائم رکھا ہے۔ درِ کسریٰ پر صدا کر نا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔ وہ دھیمے لہجے میںبولتاہے تو اس کے منھ سے پھول جھڑتے ہیں اور اس کے اشعار فکر و خیال کو اس طرح روئیدگی عطا کرتے ہیں جس طرح تھل کے صحرا میں اوس کے قطرے نباتات کے لیے تازگی کی نوید لاتے ہیں ۔ وہ جانتاہے کہ ان کھنڈرات میں دفن لاشوں سے بھلائی کی توقع ہی عبث ہے۔اس کا کہنا ہے کہ یاس وہراس کی مہیب رات کا طلسم تو ٹوٹ سکتاہے مگر آس کی تاثیر ہمیشہ برقرار رہتی ہے ۔اُمید کی شعاعوں کی چکا چوند سے محبت کی ایسی چنگاری پھوٹتی ہے جس کی تابانیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں ۔وہ وقت ضرورآتاہے جب اعصاب شکن یاس کے بُرج اُلٹ جاتے ہیں اور مہیب سناٹوں کا خاتمہ ہو جاتاہے ۔
بشارت حسین وقار اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان ِ علم و ادب ہے ۔اس کی رائے ہے کہ آئینۂ ایام ، نجوم ِ فلک اور آب ِ رواں کے سب اسرار و رموز کے پس پردہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت کاعنصر کا ر فرماہے ۔ جھنگ ،فیصل آباد ،سرگودھا ،میانوالی اور اٹک میں جب ایف ایم ریڈیو نے اپنی نشریات کاآغاز کیا تو بشارت حسین وقار کا کلام نشریات میں شامل ہوتا رہا۔ عالمی شہرت کے حامل نامور براڈ کاسٹر زیڈ۔اے بخاری کے انداز کو بشارت حسین وقار نے اپنے لیے قابلِ تقلیدسمجھا ۔اُس کا خیال تھا کہ ریڈیوکی نشریات کو اس قدر دلچسپ بنا دینا چاہیے کہ اس کے سامعین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے لگے ۔ اس کی تخلیقی تحریریں ایک شانِ استغنا اور بے ساختہ پن کی مظہر ہیں۔ایک حساس اور دردمند تخلیق کارکی حیثیت سے بشارت حسین وقار نے انسانیت کے وقار ، سر بلندی اور عزت و تکریم کو ہمیشہ ملحوظ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دُکھی انسانیت کو درپیش مسائل کا احساس اور سارے جہاں کا درداس کے دل میں سما گیا ہے ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوںسے اُسے شدید نفرت ہے۔اس کا خیال ہے کہ ظلم سہہ کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا ایک اہانت آمیز اور منافقانہ طرز عمل ہے ۔ مظلوم انسانوں کی اس قسم کی بزدلی سے ظالم کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوہ ٔ شبیرؑکو پیشِ نظر ر کھنے والے حریت فکر کے اس جری مجاہد نے تیشہ ٔ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ اس نے فسطائی استبداد کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا اور ہر قسم کے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ بصارت پر پہرہ بٹھانے والو ں ،سماعت پر قدغن لگانے والوں ،لب اظہار پر تالے لگانے والوں اور متاع ِ لوح و قلم چھین لینے والوںپر ا س نے واضح کر دیا کہ اُمیدوں کی فصل غارت کرنے اور تمنائوں کی حسین بستیاں تاراج کر نے کے بعد مظلوموں کے دلوں پر راج کرنے کا ان کا خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ معاشرتی زندگی میںخزاں کے سیکڑوں مناظر نے اس کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا لیکن انتہائی غیر یقینی حالات کے باوجود اُسے طلوعِ صبح بہاراں کا یقین ہے ۔ آلامِ روزگار کے ہاتھوں قلب اور روح کی کرچیوں میں تقسیم کے باوجود اس نے اپنے مستقبل کے خوابوں کی تجسیم کو اہم خیال کیا ہے ۔سترہ مئی 2021ء کے سانحہ کے بعد اپنے لخت ِ جگر کی یاد میں پہرو ںگریہ و زار ی کرنا جب اس کا معمول بن گیا۔ فرید الدین عطار کے مانند بشارت حسین وقار عجز و انکسار کا پیکر بن کر زندگی کے دِن پورے کر رہاہے ۔ دیو جانس قلبی کی طرح یہ قلندر بھی کسی سکندر سے مرعوب نہیں ہوتااور ماندنہ ،سیاہی وال اور جنگل بیلہ کے ریگستان میں وہ خورشید جہاں تاب کی ضایاپاشیوں کے باوجود اپنے قلب ِ حزیں کا چراغ فروزاں کر کے کسی ایسے انسان کو ڈھونڈتا پھرتاہے جو اُسے انصاف دلا سکے ۔ اِن کٹھن حالات میں مرہم بہ دست آنے والے مخلص احباب نے بشارت حسین وقار کو دلاسا دینے کی بہت سعی کی۔
بیلے ،ساہجھر اور چاندنہ سے بہہ کر تریموں کے مقام پر چناب میںمِِل جانے والے دریائے جہلم کے کنارے بیٹھے بشارت حسین وقار کے خاندان کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی کرنے کی خاطر کچھ درد آشنا لوگ وہاں موجود تھے ۔ یہ سب غم گسار اپنے دیرینہ رفیق کار کے ساتھ درد کا رشتہ نبھانے کی غرض سے چلے آ ئے تھے ۔ دِل ِ بینا سے متمتع درد آشنا لوگ یہی سوچ رہے تھے کہ حیات ِ مستعار کے حسین ترکش میںموجود تیر کس قدر بے رحم ہوتے ہیں ۔گلزارِ ہست و بُود میں تبسم کی کڑی سزا سے بے خبر جب کلیاں اور غنچے اپنی عطر بیزی کا آغاز کرتے ہیں تو تقدیرحیرت زدہ رہ جاتی ہے ۔دریائے چناب سے مِل کر ملتان کی جانب جانے والے دریائے جہلم کے کنارے کھڑے ہو کر دریائے جہلم کی طوفانی لہروں سے مخاطب ہو کر ممتا زکیمیا دان اور ماہر تعلیم شیخ ظہیر الدین نے کہا:
’’ عید الفطر کے بعد توقیر عباس کے ڈُوبنے کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کے بعددریائے جہلم کی لہروں کی طغیانی دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے اور میں سوچنے لگتاہوں کہ اس دریا کی متلاطم موجوں میں سراب ہے یا پورا دریا ہی کسی آ سیب یا سراب کی زد میں آ چکاہے ۔ اے دریا تُجھے اپنی تیز رفتار طوفانی لہروں پر بہت گھمنڈ ہے لیکن یہ بات یاد رکھ کہ اگر تُو توقیر عباس کے ستم رسیدہ والدین کی بے بسی سے ٹکرائے گا تو تیری دھجیاں اُڑ جائیں گی ۔ توقیر عباس کے تشنہ لب،وفا شعار والدین کو سرابوں کے دریا کا سامنا کرنا پڑاہے ۔وہ یہ بات اچھی طر ح جانتے ہیںکہ دریا سدا اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام رکھتے ہیں ۔دریاؤں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اُن کی طوفانی لہروں کی زد میں آکر مجبوروں کے سفینے کیسے غرقاب ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود توقیر عباس کے والدین اپنے دِل میں ایک طوفان اُٹھائے بیٹھے ہیںاگر تیری موجیںاپنی تلاظم خیزی سے فارغ ہو جائیں تو آبِ رواں پر نوشتہ ہزارو ںسال کی تاریخ سے وابستہ ستم کی وہ کہانیاں ضرور دیکھ لینا جن میںنشیب کے سیکڑو ںمکان بے چراغ اور مکین در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئے ۔یہ سچ ہے کہ دریا کبھی پلٹ کر ساحلوں کی طرف نہیں دیکھتے مگر ساحلوں پر بیٹھے الم نصیب لوگ جب اپنی فریاد خالق ِ کائنات کے حضور پیش کرتے ہیں تو اُن کی دار رسی ضرور ہوتی ہے ۔ اے دریا تیرے کنارے توقیرعباس کا غم زدہ باپ ، دُکھی ماں اور چا ر تڑپتی بہنیں جن کے دِلِ حزیں میں اِک جہانِ اضطراب پنہاں ہے تجھ سے اپنے گھر کاچراغ واپس مانگ رہے ہیں۔ پانی بھی قدرت کی عجیب عطا ہے اس دنیا میں کچھ لوگ پانی کی فراوانی کا شکوہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پانی کی کمی کے باعث مرگ نا گہانی کی بھینٹ چڑ ھ جاتے ہیں۔میں تو دریائے جہلم کے پانی سے یہی کہوں گا کہ وہ سادیت پسندوں کے مکرکی چال کو سمجھے اور بے فیض نہ بنے ۔ اے دریا کی طوفانی لہرو تمھارے جبر اور مظلوموں کے صبر کے اِس مقابلے میں بشارت حسین وقاریقیناًصبر کا دامن تھام کر آگے بڑھنے پر اصرارکرے گا۔ ‘‘
اس موقع پر ایک چارہ گر نے دریائے جہلم کے پانی سے مخاطب ہوکریہ نظم پڑی تو وہا ںمو جود سب لوگ دھاڑیں مارمار کر رونے لگے۔
مختصر کر دے غمِ دِل کی کہانی پانی
دیکھ لوٹا دے بشارت کی نشانی پانی
ماںکی فریاد سے ڈر باپ کے نالے سُن لے
تُجھ کو لے ڈُوبے نہ اشکو ںکی روانی پانی
شبِ فرقت کے الم تُجھ پہ کُھلے ہی کب ہیں
تُجھ کو معلوم کہاں غم کے معانی پانی
کہاں توقیر چلا اور ہے کِس راہ سے گیا
چل سُنادے مجھے اب ساری کہانی پانی
تُو نے کس طور مقدر میرا غرقاب کیا
راز کُھلنے لگا لہروں کی زبانی پانی
موج ِ بے رحم پہ اب شرم سے مارے جہلم
ایک ہفتے سے ہوا پھرتاہے پانی پانی
بہ خدا سچ ہے۔یہ سچ ہے یہ سو فی صد سچ ہے
اس جہاں میں نہیں توقیر کا ثانی پانی
واسطہ ساقی ٔ کوثر ہمیں توقیر مِلا
کام کر سکتاہے تُو یہ بہ آسانی پانی
پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کا شمار عالمی شہرت کے حامل ماہرین نفسیات ماہرین علم بشریات ،ماہرین عمرانیات اور مو رخین میں ہوتاہے ۔وہ اس سانحہ پر بہت دل گرفتہ تھے اور بتا رہے تھے کہ جنگل بیلے ،ماندنہ ،چاندنہ ،سیاہی وال ،سبز باغ ،ماہی وال ،کانڈیوال اور تھل کے بے آ ب و گیاہ ریگستانوں کے اکثر مکین جرائم کی دلدل میں دھنس چکے ہیں ۔ انھوں نے سماجی نفسیات اور انفرادی نفسیات کے حوالے سے جرائم پیشہ درندوں کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اس قدر عیاری سے اپنا دھندہ جاری رکھتے ہیں کہ کوئی نشان بھی باقی نہیں چھوڑتے ۔ اپنی دُھن میں مگن یہ سفاک قاتل اکثر بے گناہ لوگوں کی زندگی کے خواب لُوٹ لیتے ہیں ۔ بہرام ٹھگ کی یہ اولاد کسی ایک جھاڑی میں پناہ نہیں لیتی بل کہ سدا رُوپ بدل کر واردات کرتے ہیں۔سب سے خوف ناک بات یہ ہے کہ ہوس پرستوں کے اس گروہ میں شامل لوگ تیزی سے گرگٹ کے مانند رنگ بدلتے ہیں اس لیے پہچانے نہیں جاتے۔معاشرتی بے حسی کا یہ حال ہے کہ مظلوم کا کوئی پرسان ِحال نہیں ۔کسی کو اپنے گردو پیش کے حالات کے متعلق کوئی خبر ہی نہیں اس لیے آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور انسانوں کے مصائب ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہوجاتے ہیں ۔ سیاہی وال،ماندنہ اور جنگل بیلے کے ویرانوں میں چُھپی بہرام ٹھگ کی اولاد کے بارے میں انھوں نے بہت تحقیق کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بہرام ٹھگ کی اولاد کے جور و ستم سے محفوظ رہنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنی دنیا آپ پیدا کر کے قائدانہ صلاحیت کو نمو دینے کے بعد نشانِ منزل پر توجہ دی جائے ۔ظلم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا ہی ظالم سے بدلہ لینے کی ایک اچھی صورت ہے ۔ پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات نے ان پیشہ ور ٹھگوں کی زندگی کا نفسیاتی مطالعہ کیا اور بتایا :
’’ اپنے مظالم اور جرائم پر گھمنڈ اور خود نمائی کرنے والے پیشہ ور درندوں سے ہماری نفرت فطری ہے۔ہم انھیں اس لیے حقارت سے دیکھتے ہیں کہ ان کے قبیح کردار سے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب ہوتی ہے۔ تیامت ،تسرینہ ،شگن ،سمن ،تفسہہ، محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو،لا ل کنور ،زہرہ کنجڑن جیسی طوائفوں کا وجود کسی بھی معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتاہے ۔ ایک مطالعاتی دورے کے دوران میں نائکہ تفسہہ نے اپنا عفونت زدہ بھاڑ جیسامنھ کھولا اور اپنے کر یہہ دانت پیستے ہوئے کفن پھاڑ کر ہرزہ سر اہوئی ’’ ْْحؓخرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔ہم نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت جنگلوں ،بیابانوں ریگستانوں اور صحراؤں میں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سیاہی وال ،سبز باغ ،جنگل بیلے ،کچے کے علاقے ،تھل اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ہمار ے جرائم پیشہ ساتھی قاتل بھی ہیں اور عفریت بھی ان سے بچ نکلنا بعید از قیاس ہے ۔ ہمارے طاقت ور گروہ کے صیاد اپنے صید ِ زبوں کی بے بسی پر خوش ہوتے ہیں اور بے بس لوگوں کو اپنی چالوں سے ڈراتے ہیں۔ میری تربیت سے لوگ اس قابل ہو گئے کہ وہ آسانی سے مسلمہ صداقتوں کی تمسیخ کر سکتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ توہم پرست لوگ عفریت ،بھوت ،ڈائنوں اور چڑیلوں کے خوف میں مبتلا ہیں مگر ہمارے بارے میں اُنھیں کچھ معلوم نہیں۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔ ہمارے ہم پیشہ ،ہم مشرب و ہم راز جب خلوص و مروّت و ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر لُوٹ مار کرتے ہیں تو ان کی خنجر آزمائی اُنھیں قتل و غارت کی راہ دکھاتی ہے ۔‘‘
’’ ُٓںخرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔میں نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت پوری دنیامیں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس شہر اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔‘‘
’’خرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔میں نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت پوری دنیامیں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس شہر اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔‘‘
حاجی حافظ محمد حیات نے جب ایک نائکہ کی یہ بے سروپا باتیں سنیں تو وہ اس نائکہ کی دروغ گوئی پر حیران رہ گئے ۔ یہ حالات کا قہر ہے کہ ایک نائکہ اپنی محرومیوں اور غربت سے نجات حاصل کرنے اور عیاشی کی خاطر گناہ کو بھی لائق نفرت نہیں سمجھتی ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جزیرۂ جہلا میں گھرے ماندنہ ،سیاہی وال اور دوآبہ کے مکین زندگی کے دِن کیسے پورے کر رہے ہیں؟ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ جن بوسیدہ جھو نپڑوں میں مقیم ہیں وہ زیادہ تر مستعار ہیں یا وہ مقامی وڈیروں کو ان کا معمولی کرایہ ادا کرتے ہیں ۔ اپنے مخالفوں کو ٹھکانے لگانے کی خاطرجنگل بیلے اور ماندنہ کے سردار اپنے ان مزارعوں کو چوری ،ڈکیتی اور دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کے بعدہونی اپنا کام دکھاتی ہے اور یہی غریب لوگ بے حسی کی عفونت زدہ چادر اوڑھ کر کسی خوف اور پچھتاوے سے بے نیاز ہو کر اپنے ہاتھوں میں رومال لے کر بہرام ٹھگ کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
ایک ممتاز شاعر اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے بشارت حسین وقار نے تشنگی ٔ ذوق کے مضامین باندھنے سے ہمیشہ اجتناب کیا اور دریا کو بھی ساحل باندھا مگر توقیر عباس کے سانحہ کے بعد اُسے ہر دریا پر فرات کا گمان گزرتاہے ۔ اُسے اس بات کا قلق ہے کہ بے حس معاشرے میں جنگل کے قانون کے تحت کہ محض ایک مُولی ،گاجر ،شلجم یا پیاز چُرانے والے کو تو دھر لیا جاتاہے مگر وسیع قطعات اراضی ہتھیانے والا جاگیر دار بن جاتاہے اور کوئی اُس کا احتساب کرنے والا نہیں ۔دسمبر ۲۰۲۱ء تیزی سے گزر رہا ہے یہ سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اِن حالات میں توقیر عباس کی چار بہنیں، ماںاور باپ پر نم آ نکھوں اور گلوگیر لہجے میں یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے خورشیدجلدآ اور اس شدیدسرد موسم اور خون منجمد کرنے والی ہوا میں حوصلے کی کرنوں سے ہمارے جذبوں کو تمازت عطا کر دے ۔ بشارت حسین وقار کے خاندان کے ان الم نصیبوں جگر فگاروں کے آ نکھوں سے آنسوؤں کی صور ت میں بہنے والی جوئے خوںجب دریا ئے جہلم کے یخ بستہ پانی میں گرتی ہے تو دریا میں آگ بھڑک اُٹھنے کی وجہ سے دھواں سا اُٹھتاہے ۔ اپنی خالہ کے گھر سے نکلتے وقت توقیر عباس نے اپنے والدین سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سیر کر کے جلد واپس آ جائے گا ۔ہر روز دِن ڈھلتے ہی توقیر عباس کے والدین کادِل ڈُوبنے لگتاہے اور ہجر و فراق کی ان گھڑیوں میں انھیں صرف توقیر عبا س ہی یاد آتاہے ۔سب احباب نے اس نوجوان کی یادوں کے سفینے تیار کیے مگر اِب اُن کی دیدہ ٔ گریاں نے دریا کی صورت اختیار کر لی ہے جس میں وہ سب طوفان ِ حوادث کے رحم و کرم پر ہیں۔بشارت حسین وقار انصاف کی توقع لیے در در دستک دیتا پھرتاہے مگر جُھوٹی تسلیاں سُن کر سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہے ۔ وہ اپنی چشمِ گریہ ناک سے ہمہ وقت یہی استفسار کرتا ہے کہ تُوکِن نیندوں میں محوِ استراحت ہے ۔اپنی مژگاںتو کھول پُورا شہربے حسی کے ایسے سیلاب کی زد میں آگیاہے جس کی بلا خیزموجوں میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ہیں۔خوابوںسے رشتہ جوڑنے والے والدین کو اپنے بیٹے کی راست گوئی کا اس قدر اُمید اوریقین ہے کہ وہ اس اعتماد سے ہررات اپنے گھر کا دروازہ کُھلا رکھتے ہیںکہ شایداُن کا چاندآج ان کے آ نگن میں چلا آئے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توقیر عباس کی واپسی کا یہ یقین بھی کچھ کم کم ہونے لگاہے۔ زندگی کے سفر میں حائل ہو نے والی نوجوان بیٹے کی فرقت کی دیوار کو منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے مگر تنہا بشارت حسین وقار کے لیے آسمان کو زمین پر اُتار لانے کاکٹھن کام انجام دینا بہت مشکل ہے ۔آئینہ ٔ ایام میں یہ سانحہ دیکھ کر ہر شخص حیرت زدہ ہے کہ بشارت حسین وقار کے گھر کے آ نگن میںاوس اور آنسوؤں میں بھیگ کر بُوند بُوند اُترنے والی شب ِ سیاہ کی سحر کب ہو گی ۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے مجبوروں ،مظلوموں اور بے بسوں کی اُمیدوں کے سفینے ڈبونے کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ باطن ایام کے بارے میں آگہی رکھنے والوںکاخیال ہے کہ دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنانے کی تمنا کرنے والے والدین کے بکھرنے میں سسلین مافیاکا قبیح کردار مسلمہ ہے ۔ سرابوں میں بھٹکنے والے درد آشنا لوگوں کا ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس المیے کے بارے اپنے جذبات ِحزیں کااظہار کیسے کریں ؟پیہم چل چل کر تھک جانے والے منزل سے نا آشنا اہل قلم جب وقت کو ایک موڑ پر ٹھہرا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ خامہ انگشت بہ دنداں ہیں کہ اس جان لیوا دُکھ کو کیسے زیبِ قرطاس کریں اور ان کا ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کر ب کو کیسے بیان کریں ۔میں نے جب سے بشارت حسین وقار کے درد انگیز نالے سنے ہیں دِل کو شعلہ سا لپٹتا ہے اورمیری تو نیند اُڑ گئی ہے ۔ بشارت حسین وقار جیسے خوددار کانچ کے پیکر کو نو کیلے پتھروں جیسی حاسد آنکھوں نے کرچی کرچی کر دیا ہے ۔ رفو گر اور چارہ گر جب سرخ گلابوں کے گہرے زخم خار ِ مغیلاں سے رفو کرنے کی سعی کرتے ہیں تو اُن کی بے حسی ،بے بصری اور ستم گری پر دِل خون کے آ نسو روتاہے ۔ بشار ت حسین وقارجب سے مصائب و آلام کی زد میں آیا ہے شہر کا شہر سوگوار ہے اور ہر کوچہ ویران دکھائی دیتا ہے ۔ادبی محفلوں کاسنسان ماحول دیکھ کر اہل قلم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس سانحہ کے نتیجے میں نہ صرف سب تخلیق کاروں بل کہ اہل شہر کا ایک جیسانقصان ہواہے۔ ماہرین علم بشریات کا کہنا ہے کہ لوح ِ جہاں پر ہر انسان کی زیست ایک حرف مکر ر یا غلط لفظ کے مانند ہے جس کا مٹنا نوشتۂ تقدیر ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب وہ ہماری بزمِ وفا سے چلے جاتے ہیں تو لوح ِ دِل پر انمٹ نقوش بٹھا کر اُٹھتے ہیں۔اپنے من کی غواصی کر کے جب میں نے لوح ِ دِل پر ثبت ہر انسان کی زندگی پر نظر ڈالی تو کتاب ِ زیست کے سب معانی رفتہ رفتہ کُھلتے چلے گئے ۔میںنے اپنی طبع ِحزیں کو سنبھالا مگر دیر تک یہی فکر دامن گیر رہی کہ آلام ِ روزگار میں گھرا میںکس قدر بے خبر ہوں کہ آج تک اپنے اس دیرینہ رفیق کی خبر تک نہ لی ۔
اپنی زندگی میں مجھے کئی عزیزوں کے صدمات ،نوجوان بیٹے کی دائمی مفارقت کا کرب اور بیٹی کی وفات کا دُکھ برداشت کرنا پڑا ہے ۔ وہ عزیز جو مجھے اپنی جان سے پیارے تھے جب وہ آ نکھوں سے اوجھل ہو گئے تو کلیجہ منھ کو آگیا اور جب آہ بھرتا تو ہر آہ پر دم نکلتا تھا۔ اس سانحہ کے بعدسوچتاہوں گردشِ دوراں مجھے اور کیا کیا دکھائے گی ، اور کتنے ستاروں کو بے بسی کے عالم میں ڈوبتے دیکھنا میری تقدیر میں لکھا ہے ۔میرا زرد چہرہ ،خشک لب ،پُر نم آ نکھیں اور مجھے ٹھنڈی آ ہیں بھرتے دیکھ کر میرے چارہ گر بھی دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔کوفے کے قریب واقع اس شہر سنگ دِل کے لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ چھے جولائی 2017 ء کو اپنے نو جوان بیٹے سجاد حسین کی دائمی مفارقت کے بعدبھی تم اپنے گھر میں موجود ہو تمھیں یہ کیا ہوا ہے کہ اب تک زندہ ہو؟ سجاد حسین کے فروغ ِ حُسن سے اُمید کی مشعل ،حوصلے کا قلعہ ،عزائم کا قصر عالی شان اور مستقبل کے ہر امکان سے نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ضیا جھمکتی تھی ۔میں جب بھی اپنے لخت ِ جگر کی قبر پر پہنچتاہوں تو میری آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں۔اس اثنا میںمجھے ندائے غیب سنائی دیتی ہے کہ میں تو زندہ ہوں،میں رات کے وقت سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر بن کر طلوع ہوتاہوں ۔ اس تنہااور ویران مقام پر آ سودۂ خاک نہیں بل کہ میں تو خوشبو کے مانند ہوا میں بکھر چکا ہوں۔جس طر ح صبح کے وقت کے قطرے گلاب کی نرم وناز ک پتیوں پر چمکتے ہیں اُسی طرح میں بھی وہاں نمایا ںہو جاتاہو ں ۔سمے کے سم کے ثمر کا تریاق میں ہوں جو خزاں آباد ہستی کو صبر کی صورت میں گُل ہائے رنگ رنگ کی رعنائی سے آ شنا کرتاہے ۔مجھے مشیت ایزدی کی صورت میں تلاش کرو ۔تمھار ا کام یہی تھا کہ فصل کو سیراب کر تے رہے باقی کام تو قادر مطلق کی دستر س میں ہے ۔میں آفتاب عالم تاب کی کرنوں کی صورت میں اُمیدوں کی فصل کے کھلیانوں کے خرمن تک پہنچنے کی مثال ہوں ۔ میری لحد پر گریہ و زاری نہ کی جائے بل کہ مشیت ِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو شعار بنایاجائے ۔میں سوچنے لگتاہوں کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضائو ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میںاُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا صبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیںہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میںدب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ بوڑھے والدین کے لیے نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت ایسا صدمہ ہے کہ قادر مطلق ہمارے عدو کو بھی اِس سے محفوظ رکھے ۔ میں نے ہستی کو ایک حباب اور نظام دہر کو ایک آئینہ خانہ سمجھا ہے ۔یہاں دیواروں کے بیچ کئی کہانیاں پنہاں ہیں جن میں اپنا منھ دکھائی دیتاہے ۔ بہتا ہوا پانی جذبات کے سیل رواں کی مثال ہے جس کے بہاؤ سے بچنامحال ہے ۔ دریاؤں اور تیراکی کے گہرے تالابوں کے گہرے پانی میں گرنے کی نسبت دریا ؤں اور تالابوں کے کنارے چلنا زیادہ خطرناک ثابت ہوتاہے۔ دریا کے کناروں پر چلتے وقت معمولی سی لغزش بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے ۔وہ شقی القلب کج رو درندے جنھوں نے ایک مظلوم معلم کا گھر بے چراغ کر دیا اُن پر اعتبار کرنا ایک مہلک غلطی ثابت ہوئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان دشمنوں سے بچنے کی تدبیر تو سوچ سکتاہے مگر بروٹس قماش کے محسن کُشوں اور آستین کے سانپوں سے بچاؤ کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔اس قسم کے بد طینت اعدا کی سادیت پسندی روح اور قلب پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔یادِ رفتگاں کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی نظم ’’ عالم ِ برزخ ‘‘کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے ،یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیںاب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں ، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گرا ں،زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
سُود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی
فہمیدہ ریاض کا شعری مجموعہ ’’ تم کبیر ۔۔۔۔۔‘‘جو سال 2000-2015کے عرصے کی شاعری پر مشتمل ہے ۔اکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اس شعر ی مجموعے کاتعاررف مسعود اشعر نے لکھا ہے۔ ’’ شعری مجموعہ ’’تم کبیر ۔۔۔۔‘‘ میںفہمیدہ ریاض کی ذہنی کیفیت اور داخلی کرب نمایاں ہے۔اپنے اس شعری مجموعے ( تم کبیر ۔۔۔‘‘کی اشاعت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض گلو گیر لہجے میں کہا کرتی تھیں :
’’ پہلے میں اس کا نام رکھنا چاہتی تھی ’’ موسموں کے دائرے میں ‘‘ لیکن پھر جیسے کہ میں نے لکھا ہے کہ میرا بیٹا ایک حادثے میں مجھے چھوڑ گیا ،اس کانام کبیر تھا ۔ تو بس پھر اس کے بعد اس مجموعے کا نام بھی بدل گیا ’’ تم کبیر۔۔۔‘‘ بن گیا اس کا نام۔پہلے میں سوچتی رہتی تھی میں کبیر کی کوئی یادگارقائم کروں ،کچھ کروں ،کچھ کروں وہ سب یادگار میںقائم نہیں کر سکی۔نہ مجھ میں اتنی ہمت رہ گئی تھی نہ اتنی طاقت رہ گئی تھی مگر جو میں کر سکتی تھی وہ یہ کہ اپنی آخری کتاب کا نام میں نے ’’ تم کبیر ۔۔۔‘‘ رکھ دیا ۔تو اب توجب بھی فہمیدہ ریاض کی کتابوںکاذکر آ ئے گا تو ’’ تم کبیر ۔۔۔‘‘کابھی ذکر آجا ئے گا۔‘‘
فہمیدہ ریاض کے آخری شعری مجموعے ’’ تم کبیر ۔۔۔۔‘‘کی ایک نظم ’’ نئی ڈکشنری ۔۔۔۔۔۔‘‘زندگی کی حقیقی معنویت کا سامنے لاتی ہے۔ اس نظم کی چند سطور پیش ہیں:
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگِ نو
جس میں ہر لفظ کے سامنے درج ہیں
وہ معانی جو ہم کو نہیں ہیںپسند
جرعۂ تلخ کی مثل پی جائیں گے
اصل کی اصل جو بس ہماری نہیں
سنگ سے پھوٹتا آبِ حیواں ہے یہ
جو ہمارے اشارے پہ جاری نہیں
ہم فسردہ چراغ اِک خزاں دیدہ باغ
زخم خوردہ اناؤں کے مارے ہوئے
اپنی توصیف حد سے گزارے ہوئے
نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت کا صدمہ بوڑھے والدین کو زندہ درگور کر دیتا ہے ۔ اس عہدِِ نا پرساں میں جسے دیکھو اپنی فضا میں سرمست دکھائی دیتا ہے ۔یہاں غم زدوں کی چشمِ تر کو دیکھنے والے مسیحا عنقا ہیں ۔دل و جگر سے بہنے والے آ نسوؤں کی برسات کے نتیجے میں تلخی ٔ حالات ، الم نصیب خاندان پر دنیا کی عنایات کے بارے میں کئی سوالات اُٹھتے ہیں یکم دسمبر 2018 ء کو محترمہ کشور ناہید نے روزنامہ جنگ ،لاہو ر میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’ کوتوال کو للکارتی فہمیدہ ریاض ‘‘ میں جان لیوا صدمات سے نڈھال اور جاں بہ لب ادیبوں کی کتابِ زیست میں تقدیر کے لکھے لرزہ خیز واقعات اور اعصاب شکن سانحات کے بارے میںجن خیالات کا اظہارکیا وہ لمحۂ فکریہ ہے :
’’ تقابل کیجیے فلم سنسر بورڈ پنجاب کی چیئر پرسن محترمہ زیبا محمد علی گھر بیٹھے دس لاکھ روپے مہینہ حاصل کر رہی تھیں۔فہمیدہ ریاض اور خالدہ حسین اسپتالوں کے چکر لگا رہی تھیں ۔دونوں کی بیماری ایک ہی غم تھا۔۔۔۔۔۔ان دونوں کو بیٹوں کا غم کھا گیا ۔‘‘
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض، قمرزماں ،خالدہ حسین ، روحی بانو،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ریاض الحق ، روبینہ قائم خانی ، شہلا رضا، افضل احسن، محمد اکرم، محمد حنیف ،شیرمحمد،محمد یوسف ،شبیر رانا،ارشداقبال ،ظہور احمداور بشارت حسین وقار کو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے اندر سے کھو کھلا کر دیا۔ ان کے آفتاب و ماہتاب طوفانِ حوادث اور آلام کے بادلوں میں ایسے اوجھل ہوئے کہ پھر کبھی طلوع نہ ہوئے ۔ جب تک معاشرتی زندگی پر غربت ،بیماری اور جہالت کے بیشے ، شقاوت آمیز نا انصافیاں اور فسطائی جبر کا عفریت مسلط رہے گا یہاں راحت و مسرت کے وجود بعید از قیاس ہے ۔ ہمارے عزیزوںکی دائمی مفارقت در اصل ہمارے جسم سے کسی عضو کی علاحدگی کے مانند ہے اور یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کٹا ہوا عضو آ ہ و فغاں اور پیہم گریہ و زاری سے کبھی واپس اپنی جگہ پر نہیں آ سکتا۔یہ الم نصیب جب چاندنی کو دیکھتے تو تڑپ اُٹھتے اور کہتے اے چاندنی ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑک تجھے دیکھ کر ہمیں اپنا چاند یاد آتاہے ۔یہ لوگ اپنے دونوں جہان بیچ کر اپنے چاند کو حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر قسمت کی لکیروں سے نکل جانے کے باعث ایسا ممکن ہی نہیں۔ نوشتۂ تقدیر کے نتیجے میں ان کے گھر کا آفتاب تو طلوع صبح کے وقت ہی غروب ہو گیا۔ عزیزوں کی دائمی مفارقت ایک ایسا جان لیوا صدمہ ہے جو آبلہ پا پس ماندگان کو خوابوں کی خیاباں سازیوں سے محروم کر کے خارزار ِحیات میں بر ہنہ پا سفر کرنے پر مجبور کر دیتاہے ۔ تقدیر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں اُڑادیتی ہے اور انسان بے بسی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھتا رہ جاتاہے ۔
والدین اپنی اولاد کو گود میں لے کر پروان چڑھاتے ہیں جب اولاد جوانی کی حدود میں قدم رکھتی ہے تو والدین سُکھ کا سانس لیتے ہیں ۔وہ جن بچوںکو اپنی گود میں لے کر پالتے ہیں جب وہی جوان رعنا بنتے ہیںتو اجل کے وار سہہ کر انھیں گور میں رکھنا بہت جان لیوا سانحہ ہے ۔ کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے لرزہ خیز اور اعصاب شکن المیہ یہ ہے کہ وہ جس چاند کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا وہی اجل کے سیاہ بادل میں اوجھل ہو جائے اور اپنی پتھرائی ہوئی آ نکھوں سے باقی زندگی اُس چاند کی راہ تکتا رہے ۔ نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت ایک درد لا دوا ہے یہ کرب تو بوڑھے والدین قبر میں بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ایسے صدمات تو زندگی کے سب معمولات ،مصروفیات اور عزائم کو مسمار کر دیتے ہیں۔ سینے پر صبر کی سِل رکھ کر اگر دائمی فرقت دینے والی نو جوان اولاد کے غم کو کم کر نے کی سعی کی جائے تو یہ غم مزید شدت کے ساتھ رو ح اور قلب میں سما جاتاہے۔ نوجوان اولاد جب اپنے ضعیف والدین کو سپردِخاک کرتے ہیں تو وہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔اس کے برعکس ضعیف والدین کو جب اپنے گھر کے ماہ شب چہار دہم کو قبر میں اُتارنا پڑتاہے تو وہ عملی طور پر مر جاتے ہیں مگر سانس گِن گِن کرباقی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت کے بعد ضعیف والدین کی زندگی کا معمول پر آنا بعید از قیاس ہے ۔ دائمی مفارقت دینے والی نو جوان اولاد کی یاد ایک فریاد کی صورت میں قلب و جگر میں نمو پاتی رہتی ہے اور تنہائی کے لمحوں میں یہ داستانِ غم اشکوں کے ایسے سیلِ رواں کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو پس ماندگان کے صبر و قرار کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتاہے ۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم اپنے رفتگاں کو یاد کر کے اپنے قلوب و اذہان کو ان کے درد سے آباد کرنے کی سعی اس لیے کرتے ہیں کہ ہم اُنھیں ٹُوٹ کر چاہتے ہیں ۔اُن کے ساتھ ہمارے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ہمارے دِل و دماغ میں رچ بس گئی ہے ۔یہ محبت دائمی نو عیت کی ہے جو ا ندیشۂ زوال سے نا آشنا ہے ۔بچھڑنے والوں کا غم بلاشبہ پس ماندگان کے لیے سوہانِ روح بن جاتاہے مگر اس قلزمِ غم میں ڈوب کر اس جانکاہ صدمے کو اپنی زندگی کا روگ بنا لینا مشیت ایزدی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اُردو ادب میں ایسے سانحات کی کئی لرزہ خیزمثالیں موجود ہیں جب عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت ِسفر باندھنے والے نو جوانوں نے اپنے ضعیف والدین سے نہ تو الوداعی ملاقات کی اور نہ ہی کوئی تسکین کا جملہ کہا ۔ کوہِ ندا کی صدا سُنتے ہی وہ نہایت خاموشی سے ساتواں در کھول کر چل دئیے اور اُن کے والدین بے بسی کے عالم میںتقدیر سر بستہ ر از ،اُن کے مضمرات اور اثرات کے بارے میں سوچتے رہ گئے ۔
اُردو زبان کی ممتاز ادیبہ فہمیدہ ریاض اور ان کے شوہر ظفر علی اجن نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔بڑی بیٹی ڈاکٹر ویرتا علی اجن شعبہ طب سے وابستہ ہیں۔ان کی شاد ی ہو چکی ہے اور ایک بیٹے کی ماں ہیں ۔ ظفر علی اجن اورفہمیدہ ریاض کا بیٹا کبیر علی اجن اعلیٰ تعلیم کے لیے سال 2000میں امریکہ چلا گیا ۔ کبیر علی اجن نے تعلیم کے سلسلے میں سات سال امریکہ میں گزارے مگر اس عرصے میں اس کی تعلیمی مصروفیات اس قدر زیادہ رہیں کہ شدید خواہش کے باوجودکبھی وطن نہ آ سکا۔اس عرصے میں اس کی والدہ فہمیدہ ریاض تو اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے امریکہ جاتی رہی مگر والد ظفر علی اجن امریکہ نہ جا سکا۔ کبیر علی اجن نے سال 2007میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور مناسب ملازمت کی تلا ش شرع کر دی ۔اِدھر پاکستان میں فہمیدہ ریاض اور ظفر علی اجن نے اپنے اُنتیس سالہ اکلوتے نوجوان بیٹے کبیر علی اجن کی شادی کے لیے مناسب رشتے کی تلاش شروع کر دی۔دوسری جانب تقدیر جو ہر مرحلہ اور ہر گام پر انسانی احتیا ط،مستقبل کے عزائم اور منصوبوں کے پر خچے اُڑا دیتی ہے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اکتوبر 2007کی ایک منحوس شام اس خاندان کے لیے شام ِ الم ثابت ہوئی جب ان کا بیٹاکبیر علی اجن اپنے چند معتمد ساتھیوں کے ہمراہ ایک پکنک پارٹی میں شامل ہوا ۔یہ پکنک پارٹی ایک وسیع باغ میں ہوئی جہاں تیراکی کے لیے صاف پانی کا ایک گہرا تالاب بھی موجود تھا۔اس تالاب میں تیراکی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے تمام حفاظتی انتظامات موجود تھے۔ کبیر علی اجن اپنے ساتھیوں سمیت ہنستا کھیلتاپورے اعتماد سے تیراکی کے تالاب میں اُترا۔وہ ایک مشاق تیرا ک تھا اس نے گہرے پانی میں غوطہ لگایا مگر خلاف معمول جب وہ سطح آب پر نہ اُبھرا تو اس کے وفادار ساتھیوں کا دِل بیٹھ گیا اور سب کے ہاتھ پاؤں پھو ل گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے نوجوا ن کبیر علی اُجن جہاں سے اُٹھ گیااور دوستوں کی حسرت بھری نگاہیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ درد کی اس مسموم ہوا نے فہمیدہ ریاض کی اُمیدوں کے چمن کو ویرا ن کر دیا ۔ ضعیف والدین کی آنکھوں سے جوئے خون روا ںتھی اور دِل اشک بار تھا۔ نیم جاںضعیف ماں اپنے نو جوان بیٹے کی میت پاکستان لانے کے لیے امریکہ روانہ ہو گئی ۔اس جان لیواصدمے نے ظفر علی اجن اور فہمیدہ ریاض کی روح کو زخم زخم کر دیا ۔ پیہم سات سال تک اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کو ترسنے والے باپ نے جب اپنے بیٹے کی دائمی مفارقت کی خبر سنی تو وہ زندہ در گور ہو گیا ۔ تقدیر کا یہ زخم سہنے کے بعد فہمیدہ ریاض کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاںکٹ گیامگر اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ اشکوں کے سیلِ رواں میں والدین کی سب اُمنگیں اور عیدیں بھی بہہ گئیں ۔تقدیر کے لگائے ہوئے صدمات کے ایسے گہرے گھاؤ سہنے کے بعد کارِ جہاں کے ہیچ ہونے اور فرصتِ زندگی کے انتہائی کم ہونے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ کبیرعلی اجن کی وفات پروہی کیفیت فہمیدہ ریاض کی تھی جس کا اظہار مرزا اسداللہ خان غالب نے عارف کی الم ناک موت کے صدمے سے نڈھال ہو کر اپنے جذبات حزیں کا کیاتھا :
لازم تھا کہ دیکھو مِرا رستاکوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دِن اور
تم ماہِ شب چار دہم تھے میرے گھر کے
پِھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کیو ںجیتے ہو غالب ؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دِن اور
بشارت حسین وقار پر کینہ پرو راعدا کے ہاتھوں جوکوہِ ستم ٹُوٹاہے ظفر علی اجن اور فہمیدہ ریاض کے غم کی کہانی اُس سے مختلف نوعیت کی ہے ۔فہمیدہ ریاض اور اُس کاشوہر تو اپنے لختِ جگر کی تدفین کر کے ،اُس کی یادگار بنا کر ساتواں در کھول کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے ۔ فہمیدہ ریاض نے تو ’’ کبیر تم ‘‘ جیسی پُر درد نظم لکھ کر اپنے جذبات ِحزیں کو پیرایۂ اظہار عطا کر دیا ۔ مگر توقیر عباس نے جن حالات میں داغ مفارقت دیا ،اُس وقت کوئی عزیز اُس کے قریب موجود نہ تھا۔قیامت کی اس گھڑی میں بشارت حسین وقار اور اُس کے اہلِ خانہ بے بسی کے عالم میں ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے چاند کو کِس پھول کا کفن دے کر ردائے خاک اوڑھا کر سُلا دیں ۔ توقیر عباس کی موجودگی میں وہ پر عزم معلم جو شعلۂ جوالا تھا گردش ِ ایام نے اُسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ گلزار ِ ہست و بُود کا پتا پتا ،بُوٹا بُوٹا بشارت حسین وقار کے حال سے آگاہ ہے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ عقابوں کے نشیمن میں گُھس جانے والے زاغ و زغن اور بُو م و شِپر ان ا لم نصیبوں کے حالات سے بے خبر ہیں ۔
آہ و فغاں کی تاثیر کے نتائج سامنے آنے میں ایک عمر بیت جاتی ہے ۔سوچتاہوں اپنے دِلِ حزین کو دلاسا دینے کی اب صرف ایک ہی صورت ہے کہ ایام ِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کروں ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ہوش والے اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ بے خودی کی اصلیت کیا ہے ۔ہر انسان میں کئی انسانوں کے رنگ و روپ پنہاں ہوتے ہیںاس لیے کہا جاتاہے کہ انسان شناسی کے لیے ہر ملاقاتی کو بار با ر دیکھنے اور اس کے روّیے کو پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہر ملاقاتی کے ساتھ بشارت حسین وقار اور مرزا ٰیامین ساحر اس اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آتے ہیں کہ اِ ن سے ہاتھ ملانے کے بعد یقین ہو جاتاہے کہ ان سے دِل بھی مِل گیاہے ۔یہ کوئی پچیس بر س پہلے کی بات ہے تعلیمی بورڈ کی طر ف سے مجھے رجانہ کے قریب واقع ایک امتحانی مرکز کے ناظم کی حیثیت سے کام کرنے کا حکم ملا ۔ گاؤں رجانہ وہی جگہ ہے جس سے ایک المیہ رومانی داستان وابستہ ہے ۔ داستان کے مصنف پِیلو کے مطابق اسی مقام پر جب مرزا اپنی گھوڑی بَکی سے اُتر کر جنڈکے درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا صاحباں نے مرزا کی ترکش میں رکھے کمان کے سب تیر توڑ دئیے۔ اپنی بہن صاحبا ں کی تلاش میں نکلنے والے نوجوان حسینہ صاحباں کے مشتعل بھائیوںنے جنڈ کے اُسی درخت کے نیچے صاحباں کے آ شنا نہتے مرزا جٹ کو کلہاڑیوں،نیزوں، خنجروں،تیروں اور تلواروں سے چھلنی کر دیااور نہایت سفاکی سے اُس رومان پرور مسافر کی زندگی کی مشعل گُل کر دی تھی ۔میں اس آسیب زدہ مقام پر یہ امتحانی ڈیوٹی دینے پر آمادہ نہ تھا مگر حکم حاکم مرگِ مفاجات والا معاملہ تھا ۔میں نے اپنے دیرینہ ساتھیوںاور معتمد رفقا بشارت حسین وقار اور مرزا ٰیامین ساحر کو ساتھ لیا اور رجانہ جا پہنچا۔مرزا یامین ساحر چنیوٹ روڈ پر واقع گاؤں کھیوہ کے نزدیک صحرا میں موجود صاحباں کی مسجد میں اذان دے کر پروفیسر ریاض شاہد کے ساتھ نماز ادا کر چکا تھا۔اگلی صبح پر چہ شروع ہوا تو ان ایمان دار نگرانوں نے شرافت اور دیانت اختیار نہ کرنے کی قسم کھانے والے بُوٹی مافیا کو نکیل ڈال دی ۔خوابوں او رموہوم اُمیدوں سے بہلنے والے فریب خوردہ طالب علم جنھوں نے امتحانی نظام کو بازیچۂ اطفال بنا دیاتھاانھوں نے نگرانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ سادیت پسندی کے مرض میں مبتلادرندے جونقالی ،چربہ سازی اور جسارت سارقانہ کا تماشا کرنے والے سب مداری اپنے ساتھ لائے تھے وہ ان دیانت دار نگرانوں کے درپئے آزار تھے ۔ جس کمرے میں امتحانی عملہ ٹھہرا تھا رات کے وقت اُس کی بجلی کاٹ دی اور پانی بھی بند کر دیا گیا۔ چور محل میں جنم لینے والے اور چور دروازے سے گُھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں نے جب اپنی کلائی پر بہرام ٹھگ کے مانند ریشمی رومال باندھے تو ان نگرانوں نے اپنے قلب حزیں میں سیکڑوں خیال باندھے ۔خالی جوابی کاپی نگرانوں کو دے کر جب موقع پرست طالب علم بے نیلِ مرام اپنے گھروں کو لوٹے تو وہ بہت مشتعل تھے ۔مقامی ہوٹل کے سہمے ہوئے مالکوں نے ہمیں قیمتاً کھانا فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود ان جفاکش ،محنتی اور دیانت دار نگرانوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کر دیا ۔وہ اس علاقے سے خوب واقف تھے رجانہ میں آتے جاتے ان کی زندگی بیت گئی اور راستے کے سب پتھر ان کے شناسا تھے ۔پامال رستوں پر چلنے والوں نے ان دیانت دار نگرانوں کے حوصلے کاغلط اندازہ لگایا۔ بھیانک تاریک رات کے سناٹے میں دہشت گردوں نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ان حالات میں میرے ان ساتھیوں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر میری حفاظت کی۔ امتحانی مرکز کے نزدیک واقع جس کمرے میں ہمارا قیام تھا اُس کی مغربی جانب ایک کھڑکی کے دروازے ٹُوٹے ہوئے تھے ،مرزا یامین ساحر نے کہیں سے ایک سوتی دھاگہ ڈھونڈ نکالااور کھڑکی کے دونوں دروازوں کو باندھ کر تحفظ کی ایک خام سی صورت نکالی ۔عجیب بات تھی باہر کی طرف تو پتھراؤ جاری تھا جب کہ کمرے کے اندر محصور بے بس و لاچار اور نہتے مسافر کچے دھاگے سے ٹُوٹی کھڑکیوں کو باندھ کر بیرونی حملہ آوروں اور دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ابلیس نژاد درندوں نے جب رنج دیا تو ہمیں خدا یاد آیا۔ہم اس بات کو پا گئے تھے کہ اب کوئی معجزہ ہی ہمیں اس ہونی سے بچاسکتاہے ۔اسی اثنا میں بشارت حسین وقار نے اپنے دبنگ لہجے میں کہا:
’’ تم لوگوں نے شام سے کیا شور مچا رکھا ہے ؟تم لوگ جاتے ہو یا میں بلاؤں غازی کو۔ قمر بنی ہاشم کے آنے کی دیر ہے تمھیں اپنی جان کے لالے پڑ جائیںگے ۔‘‘
مرزا یامین ساحر نے بزدل اور شکھنڈی فسادیوں کو للکارا:
’’ کوفے کے پیمان شکن یاد رکھیں کہ ضیغم علی کی آمد جلد متوقع ہے۔اب دیکھیں یہاں سے کون بچ کر شام کی تاریکی میں پناہ لیتاہے ؟‘‘
یہ سننا تھا کہ سب فسادی سہم گئے اور ان کا دم ہی نکل گیا ۔ بشارت حسین وقار نے دروازہ کھولا اور باہر نکلا ۔اُس کی آوازِ پا سُن کر سب موذی و مکار پکھنڈی اور شکھنڈی فسادی سہم گئے اور چپ چاپ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ شر پسنددہشت گردوں کے یوں ذلیل ہو کر بھاگ جانے سے ہم مسافر مہمانوں کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوا اس کا سہرا میرے ان وفا شعار ساتھیوں کے سر ہے ۔ جس وقت ہماری سوچ کے دروازے بند ہونے لگے اس وقت میرے ان وفا شعار ساتھیوں کے الفاظ وہ کام کر گئے جو مسلح محافظ بھی نہیں کر سکتے ۔ کچھ دیر بعد ایک مقامی سکول کی بوسیدہ عمارت میں واقع امتحانی مرکز کا لٹھ بردارمحافظ بھی آ پہنچا اور مگر مچھ کے آ نسو بہانے لگا۔اُس مرغ ِ باد نما کے اشکوں کی کدورت نے ہم سب کو حیرت زدہ کر دیا اور ہم عقدۂ تقدیر جہاں کے بارے میںسوچنے لگے کہ اِس شہر ِ نا پرساں کے نواح میں بہنے والے بے حسی کے دریا کی موجوں میں سراب ہے یا متلاطم دریا ہی سرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھ گیاہے ۔
مرزا یامین ساحر اور بشارت حسین وقار نے سر شام ہی ہراساں کرنے والے شر پسندوں پر واضح کر دیا کہ جو ڈرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے ۔ رجانہ کے وسیع علاقے کے سارے افعی مکڑا کر چلتے اور بے بس مسافروں کی چھاتی پر مونگ دلتے تھے ۔ ان ساتھیوں کے عزم کی وجہ سے مفسدوں کو منھ کی کھانا پڑی اور ہم کا میاب ہوئے ۔موذی و مکار استحصالی عناصر کی نوبت آخر ہوئی اور ہر طرف میرے مخلص ساتھیوں کی دیانت داری کا ڈنکا بجنے لگا۔اگلی صبح امتحانی مرکز میں رات کے واقعہ کے بارے میں چہ میگوئیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا۔کئی لوگ مونس و غم خوار اور چارہ گر کا بھیس بنا کر آ گئے ۔ان پر عزم نگرانوں کی سر فروشی کو دیکھ کر سب ششدر رہ گئے اور اسے ایثار کی قابل تقلید مثال قراردیا۔علم بشریات کے اسرار پر نظر رکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ ایسے لوگوں کی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے لیے اس شہر نا پرساں کے پر ہجوم بازار سے دشت ،صحرا یا کوئی ویرانہ منگوانا پڑے گا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ درد آشنا دوست صرف دکھانے کو غم خواری کرتے ہیں ورنہ حرص و ہوس اور مفاد پرستی کی اس دنیا میں کوئی کسی کا غم نہیں کھاتا۔ فکرِ معاش،عشقِ بتاں اور رفتگاں کی یادسدا بشارت حسین وقار کے ساتھ رہی ۔د وبرس قبل اس کا نو جوان بیٹا حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھارا۔وہ اکثر سوچتاکہ خونِ جگر میں ڈوبتے ہوئے صبر کے سفینے کو ساحل ِ عافیت پر کیسے پہنچائے ؟اور باقی ماندہ زندگی کو سمے کے سم کے ثمر سے محفوظ رکھنے کے سلسلے میں کیا کرے ؟ بشارت حسین وقار نے اپنی دنیا آپ پیدا کی اُس نے نیک نیتی سے جن بروٹس قماش محسن کُش درندوں کو قلزم ہستی میں تیرنے کی تربیت دی وہی اُسے ڈبونے کے لیے سنگ ِ ملامت لیے نکل آئے ۔ بڑے بیٹے کی دائمی مفارقت کے بعد اس کے دِل سے آرام نے کُوچ کر لیا اور وہ اپنے دِلِ شکستہ سے یہ سوال کرتا کہ اس آغاز کا انجام کیا ہو گا؟
عید مِلن کی دعوت کے سلسلے میںسترہ مئی 2021ء کو بشارت حسین وقار اپنے بیٹے توقیر عباس چار بیٹیوں اور اہلیہ کے ساتھ ایک کشتی میں بیٹھ کر دریائے جہلم کے دوسرے کنارے واقع بچوں کے ننھیالی گاؤں بیلہ کی طرف جا رہے تھے ۔بشارت حسین وقار نے اپنے کیمرے سے دریائے جہلم کی طوفانی لہروںکی تصویر بنانے کی کوشش کی تو اسی لمحے توقیر عباس نے اپنے والد سے استدعا کی:
’’ اپنے پاؤں میں چُبھنے والے خارِ مغیلاں نکالنے کے لیے خود ہمیں ہی سعی کرنی چاہیے ۔دریاؤںکی تلاطم خیز لہروں سے پیمان ِ وفا باندھنے سے پہلے صحرا کے ٹیلوں اور کوہساروں سے بھی رائے طلب کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میرے لفظوں کو کان دھر کے سنیں متلاطم دریاؤ ں کی موجوں پر کشتی میںسفر کے دوران میں آبِ رواں کی منظر کشی مناسب نہیں۔کوئی بھی شخص خواہ اُس کے پاس کتنے ہی وسائل ہوں وہ بیتے لمحات اور بہتے ہوئے پانی کی روانی کے لمس سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ پانی کی سطح پر کسی گھر کا ٹھہرنا بعید از قیاس ہے ۔‘‘
یہ چشم کشاصداقت سنتے ہی بشارت حسین وقار جو کُھلی فضا کی وسعت میں کھو گیاتھا کی آ نکھو ںسے جوئے خوں روا ںہو گئی اور اُس نے اپنے لخت ِ جگر کو جس کی رس بھری آنکھوں میں وفا کھیل رہی تھی گلے لگا لیا اور اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’ اس وقت میں شرح شوق کرنے سے قاصر ہوں اتنی بات تو واضح ہے کہ میں کینہ پرور حاسدوں میں گھرا ہوں ۔مجھے رہ رہ کے یہ خیال آتاہے کہ کہیں چشم ِبد میرے اس پھول پر نہ پڑ جائے ۔ اس وقت دریائے جہلم کی لہروں سے کشتی بہتی چلی جا رہی ہے نہ جانے کیوں مجھے آج تو موجِ نسیم بھی گرد سے آلودہ محسوس ہوتی ہے ۔میرا دِل ایک ایسا دریا ہے جس کی ہر بوند نے بھنور کی صورت اختیار کر لی ہے،اس میںجب بھی کوئی لہر اُٹھتی ہے میرا دِل ڈُوب ڈُووب جاتاہے تاہم میں نے لہروں سے کہہ دیاہے کہ وہ اپنی اوقات میں رہیں ۔میں کوہ کن کے مانند سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر جوئے شیر لانے کی سعی کرتا پھرتاہوں۔دعا کرو میری مشقت ٹھکانے لگے اور تم جلد کسی منزل تک پہنچو ۔ ‘‘
کچھ دیر بعد وہ گاؤں ساہجھر پہنچے،بچوں نے رات اپنے ننھیال میں بسرکی ۔اگلی صبح بچوں کی خالہ کا بیٹا وہاں آ پہنچا اورسب کو اپنے گاؤں چاندنہ آنے کی دعوت دی ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ تقدیر ہر لمحہ اور ہر گام سے خاندان کی تدابیر کی دھجیاں اُڑا رہی تھی ۔بشارت حسین وقار اور اُس کے اہلِ خانہ نے کینہ پرور حاسدوں اور کی دعوت قبول کرنے سے بہت انکار کیا مگر خلوص کی اداکاری کرنے والے اور اجل کا پروانہ تھامے بروٹس جب پیہم اصرار کرنے لگے تو بادِلِ نا خواستہ انھوں نے یہ دعوت قبول کر لی ۔
کشتی پر بیٹھ کر دریائے جہلم کو عبور کر کے وہ چاندنہ پہنچے جہاں کی بوسیدہ ٹُوٹی گلیاں ،شکستہ گھروندے اور حسرتوں سے اَٹا ہوا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتاہے ۔ پیلوں کے ایک سوکھے درخت پر تنہا بیٹھاایک کوّا کاؤں کاؤں کر رہا تھا۔ ایک گلہری پریشانی کے عالم میں پیلوں کے درخت پراُچھل رہی تھی ۔اسی علاقے میں گلستان و بوستان کا رمز آشنا مورخ بابا خیر دین بھی رہتاتھاجو دیو جانس قلبی سے بہت متاثر تھا۔اِس معمر بزرگ نے ادیان ِ عالم ،عمرانیات، علم بشریات اور تا ریخ کی اتنی کتب پڑھی تھیں جو اس کی روح اور قلب کی ترجمان بن گئی تھیں ۔ معاشرتی زندگی کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں اس کی مثبت سوچ ہی اس کی مبارزت کی اساس تھی ۔ مقدر کے کئی سکندر بابا خیر دین سے اکتساب فیض کر چکے تھے مگر بابا خیر دین کے بحرِ خیالات کا پانی اس قدر گہراتھا کہ کوئی بھی اس کی غواصی نہ کر سکا۔چاندنہ کے بارے میں اِس جہاں دیدہ بزرگ درویش بابا خیر دین نے جو سیلانی فقیر اور جوگی کا بھیس بنا کر اہلِ جور کا تماشا دیکھنے میں مہارت رکھتاتھا کہنے لگا:
’’ میں نے ہمیشہ ذہن و ذکاوت سے آگے بڑھ کر اپنے دِل کی بات پر دھیان دیاہے اور یہی فیصلہ کیا ہے کہ ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بننا ہی مصلحت ہے ۔ اے افلاک کی رفعتوں کے رمز آشنا بڑے شہروں کے چھوٹے دِل کے سادہ لوح مکینو ! سدوم کی یہ بستی توسفاک نا پُرساں ، ریاکار درندوں ،مرغانِ باد نما ،بے حِس کینہ پروروں اور آدم خور حاسدوں کی کمین گاہ کہلاتی ہے ۔ دریا ئے جہلم کے کنارے واقع یہ بستی گھڑیالوں ،مگر مچھوں ، بچھوؤں ، ناگوں ،درندوں ،بھوتوں ،چڑیلوں اورپُر اسرار آسیبی قوتوں سے بھری پڑی ہے ۔ اس منحوس بستی کے مکین عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ ہیں جو انسان کو ٹشو پیپر کی طر ح استعمال کر کے ضائع کر دیتے ہیں۔ اس صحرا ،ریگستان اور کھنڈرات کی خون آشام ڈائنیں اورچڑیلیں جنس و جنون میں مبتلا ہیں اورسیفو ، ورجینا وولف اور ساٹھ سالہ بر طانوی نائکہ گیلین میکسویل کی مقلد ہیں۔ ( اس رذیل نائکہ کو سال ۲۰۲۲ء میںبیس برس کی قید کی سزا دی گئی ) پچھلے چند روز سے یہاں کے آسیب زدہ علاقے میں رہنے والے پالتو جانوروں اور جنگلی حیات کے روّیے میں حیران کُن تبدیلی دیکھی جا رہی ہے ۔ نواحی گھنے جنگل کی خاردار جھاڑیوں سے بہت سے جانور کہیں دُور نکل گئے ہیں۔ کسی خو ف ناک سانحہ کے آثار دیکھ کر پالتو جانوروں نے چارہ کھاناکم کر دیاہے ۔درختوں سے پرندے اپنے آشیانوں کو خالی کر کے لمبی اُڑان بھر گئے ہیں۔ اِس بستی پر کسی آ سیب کا سایہ ہے جس کے باعث یہاں کے خارستان سے صرف لانی، کریریں، زقوم ،دھتورا ،حنظل ،پوہلی، اکڑا ،پُٹھ کنڈا ،لیدھا،لیہہ اور جو انہہ ہی اُگتاہے۔ یہاں کے ریگستانوں میں ایسی جھیہڑیں پائی جاتی ہیں جہاں چھچھوندروں کی سیہڑیںدیکھ کر اس جگہ کے عفونت زدہ ماحول کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ یہ امر بے حد لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ یہاں کی پُر ہول فضاؤں میں صرف دردانگیزنالے گونجتے ہیں۔ یہاں کے میزبان اپنے مہمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیںجو اہلِ کوفہ نے اکسٹھ ہجری میں مسلم بن عقیل ؓ کے ساتھ کیا تھا۔ جن بروٹس قماش کینہ پرور مسخروں کو تم نے تیرنا سکھایا وہی تمھیں حسد کی دہکتی آگ کے دریا میں ڈبونے کی فکر میںہیں۔ اس علاقے میں دولت و ثروت کی حرص و ہوس ہی ہر چیز کامعیار ہے ۔اس جنگل بیلے کے بے حیا، بے غیرت ،بے ضمیر اور بے شرم لوگ خلوص و مروّت کا لبادہ اوڑھ کر مخلص لوگوں کو لُوٹ لیتے ہیں اوراُن کی زندگی کی مشعل گُل کر دیتے ہیں۔ اس علاقے کی چڑیلوں اور بھوتوں کا کریہہ وجود منافقت ،حرص اور ہوس میں لتھڑا ہوا ہے ۔ تمھاری مہم جوئی اور قسمت آزمائی کی تمنا دیکھ کر سوچتاہوں سفلگی کی اِس خاک سے تمھارا کیا تعلق ہے؟ اس سے پہلے کہ یہاں کا قیام تمھارے لیے زندگی بھر کاجنجال اور وبال ثابت ہو یہاں سے دُور نکل جاؤ۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ طوفانِ نوح ؑ کے وقت سے اس آسیب زدہ مقام کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ ایسا پرُ اسرارصحرا ہے جہاں زندگی جامد و ساکت ہو جاتی ہے ۔ ‘‘
بشارت حسین وقار نے یہ بات سُنی تو اُس نے اشکوں کے دریا میں ڈُوبی اپنی آ نکھیں صاف کیں اور آ ہ بھر کر کہا :
’’میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ اس علاقے کے بے بس و لاچار سادہ اورمعصوم مظلوموں کی قسمت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ پیہم آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِستے رہیں اور لبِ اظہار پر تالے لگالیں ۔یہ بات کان کھول کر سُن لیں کہ میں صاف گو آدمی ہوں اور کارگہِ شیشہ گری میں مقیم کچھ لوگوں کی منافقت ، عداوت اورکینہ پروری مجھے حق گوئی سے روک نہیں سکتی ۔ آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والے مجبوروں کی زندگی میں اس قسم کے سانحات رو نما ہوتے رہتے ہیں۔ میرا ناتواں جسم ہر وقت میری روح سے بر سر ِپیکار ہے میں تنہا اور سادہ شخص نہیں میرے اندر میرے بزرگوں کی روح سما گئی ہے جس کے اعجاز سے میں پیچیدہ مسائل حل کر نے کی سعی کرتاہوں ۔ ا ِس وقت مجھ پر تنہائی کا جوعالم ہے اُس کے بارے میںصرف میرا جی جانتاہے۔ میں سر کنڈے ، پوہلی ،دھتورے ،حنظل اور قریۂ جاں کو گلاب کے مانندمعطر کرنے والے مخلص رفیق میں امتیاز کر سکتا ہوںیہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ محرم راز پر انحصار کرتاہوں ۔ جہاں تک جنگل بیلے کے آد م خور درندوں کا تعلق ہے یہ سب تو محض بے وقعت قطرے ہیں جو اپنے زعم میں دریا بن بیٹھے ہیں وہ نہیں جانتے کہ میں صبر و تحمل اور عزم و استقلا ل کا ایسا قلزم ہوں جو انھیں بہا لے جائے گا۔ میں جانتا ہوں یہاں کے باشندے جرائم کی آلائشوں میں پور پور غرق ہیں اور یہ جہاں سے گزرتے ہیں وہاں سے عفونت اور سڑاندکے بھبھو کے اُٹھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس آسیب زدہ بستی میں مقیم ہر بھوت کے اندر ایک درندہ پوشیدہ ہے مگر میں زندگی رعنائیوں سے گریزاں ہو کر راحت کی جستجومیں خجل ہونے کو ایک مہلک غلطی سمجھتاہوں ۔ مجھے یقین ہے میرا خالق مجھے بدخواہ حاسدوں ،شقی القلب اعدا ،بے مروّت پڑوسیوں ،منافق رفقااور آستین کے سانپوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھے گا۔یہ ایک کٹھن مر حل ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پِسو گھر میں پروان چڑھنے والے جنگلی چوہوں ، لومڑیوں ، گیدڑوں،چھچھوندروں اور لکڑ بگھو ںکے ہونکنے اور چیخ پکار سے ڈر کر میں اپنے گھر میں مقید نہیں رہ سکتا۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے میں اپنے آپ کو غیر موثر اور غیر فعال کیسے بنا سکتاہوں ؟ میر ی مثال صنوبر کے اس سر بہ فلک شجر کی ہے جو پا بہ گِل ہونے کے باوجود کھلی فضا میں پروان چڑھتاہے ۔اگرچہ میری جڑیں اس زمین میں گڑی ہیں مگر میں لہروں اور طوفانوں کا رخ دیکھ کر اپنی منزل کا تعین کر سکتاہوں ۔ ‘‘
سیلانی فقیر جوگی بابا خیر دین کافی دیر سے بیٹھا کچھ سوچ رہاتھا۔بشارت حسین وقار کی باتیں سُن کر وہ چونکااور گلو گیر لہجے میں جواب دیا:
’’ اس جنگل بیلے میں محسن کُش غداروں ، گرگ آ شتی کو وتیرہ بنانے والے سازشی بھیڑیوں اور مکار لُومڑیوں کی فراوانی ہے ۔ ایسے داستان گو جو صدیوں کے واقعات کے نسل در نسل راوی ہیں اور بعض جہاں دیدہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ جنگل بیلے کا یہ صحرا کروڑوں سال پہلے سر سبز و شادب نخلستانوں اور باغات کی وجہ سے مشہور تھا مگر فطرت کی تعزیروں کے باعث اس پر اسرار علاقے پر نا معلوم کیا افتاد پڑی کہ اب یہ نیوزی لینڈ کے اٹھارہ کروڑ سال قدیم جنگل رورنگ فورٹیز ( Roaring Forties)کے مشابہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے گلستان میں تو وہ درخت جو علاقے کے بانکے پہرے دار تھے درختوں سے پتھر اور فوسلز بن گئے مگر جنگل بیلے کے نخلستان ریت کے ٹیلوں میں بدل گئے۔ جنگل بیلے کے بُور لدے چھتنار کے کچھ آثار پتھروں اور فوسلز کی صورت میں شور کوٹ کے کھنڈرات سے بر آمد ہوئے ہیں۔ جہلم اور دریائے چناب کے سنگم کے نزدیک جو ہلکی پھاٹ( دریا کی باؤلی شاخ ) کے نام سے مشہور ہے یہاں راجا داہر کی بیٹیا ں سوریا اور پریمل اکثر سیر اور کشتی رانی کے لیے آتی تھیں۔ ملتان اورشور کوٹ کاراجہ اس زمانے میں راجہ داہرکا مطیع تھا۔ ایک مرتبہ کشتی اُلٹی اور شہزادیوں کی پچا س سہیلیاں دریا کی طوفانی لہروں میں بہہ گئیں ۔اُس وقت سے مقامی باشندے اس جگہ کو ہلکی پھاٹ کہتے ہیں اور یہاں جانے سے گریز کرتے ہیں ۔ بعض توہم پرست لوگ کہتے ہیں یہاں کسی آسیب یا پار وتی دیوی کا سایہ ہے اس لیے ہر سال یہ ہلکی پھاٹ ایک انسان کو نگل لیتی ہے ۔یہاں کے باشندے جو بروٹس سے بھی کہیں بڑھ کر کینہ پرور ،عادی دروغ گو اور محسن کُش ہیںراجہ داہر کی بیٹیاں ان سے بہت متاثر ہوئیں ۔ سندھ میں محمد بن قاسم کے بہادر سپاہیوں نے جب سندھ کے راجہ داہر کو عبرت ناک شکست دی تو دوسرے جنگی قیدیوں کے ساتھ راجا داہر کی دونوں بیٹیوں کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس بغداد روانہ کر دیا گیا ۔جنگل بیلے سے سازش کی ہوا میں سانس لینے اور ہلکی پھاٹ کا پانی پینے والی ان حسیناؤ ں نے محمد بن قاسم پر زیادتی کا الزام لگا دیا ۔چچ نامہ کے مصنف نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ کینہ پرور اور منتقم مزاج حسیناؤں کی سازش کی تحقیق کیے بغیر خلیفہ ولید نے محمد بن قاسم کی زندگی کی مشعل گل کر دی ۔ انسان اپنے حاسدوں، دشمنوں اور حریفوں سے بچنے کی تدبیر تو سوچ سکتاہے مگر غداروں اور سازشی درندوں کی عیاری سے بچنے کی تیاری نا ممکن ہے ۔ حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب صدیوں سے یہاں کے طوطا چشم لوگوں کا وتیرہ رہاہے۔ احمق مفسد ،طالع آزما مہم جُواور ہوس پرست اعدا اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتے جتناسازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے پہنچتاہے۔ یہاں سے کچھ دُور ہزارو ںسال پرانا ایک شہر ِ خموشاں ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے عہد کے متعدد ناگزیر لوگوں سے بھرا ہے ۔ یہا ں سے نجات حاصل کرنے کے اِن لمحات کو معمولی خیال نہ کروایسے لمحات انسانی زندگی میں شاذ و نادر نصیب ہوتے ہیں۔ یہاں کی چڑیلیں اپنے جال میں پھنسنے والوں سے جامد و ساکت تعلق اور میل ملاپ کے بجائے شدید نوعیت کی خنجر آزمائی پر اصرار کرتی ہیں۔ اس جنگل بیلے کی خاردار جھاڑیوں کے گڑھوں ، کھروبنوں،غاروں کے سوراخوں،دیمک خوردہ درختوں کی کھوہ اورجھیہڑوںکے پنہا ںسوراخوں اور کھنڈرات کی دیواروں کی پوشیدہ دراڑوں اور کھپوں میں کھجور کے ڈپھے، تھوہر کے ڈنٹھل ، پوہلی اور پُٹھ کنڈے کے سُڈھے ،کیکر کے مُڈھے ، خارِ مغیلا ں والے کُھگے، جفا کے نیزے ،دغا کے تیر ، منافقت کی ڈانگ ،شقاوت کی سانگ ،حسد کے گُرز،کینہ پروری کے بھالے،محسن کُشی کی تلواریں ،بے ضمیری کے خنجر ،بے غیرتی کے بھای بھرکم لٹھ ، بے وفائی کے ہتھوڑے ،ہرجائی پن کے اُسترے ،بد زبانی کی قینچیاں ،سفلگی کے چُھرے،موقع پرستی کی درانتی ،سازشوں کے کلھاڑے،پیمان شکنی کی سناں اور بددیانتی کے کِرپان دھنسے ہیں ۔ یہاں کے شکھنڈی اور پکھنڈی اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے بھیشم پتامہ کو بھی زیر ِ دام لانے کی کوششوں میں خجل ہوتے رہتے ہیں ۔ انسانیت اور تصور ِحیات کو خبط کرنے والے کچھ لوگ بلاشبہ سسلین مافیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اجل کے فرمان کو ریشم و کمخواب کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ افسوس تمھارا واسطہ کسی ارجن کے بجائے ایسے بدبخت شکھنڈی سے پڑا ہے جو کم سِن بچوں کے خون کا پیاسا ہے ۔ بھیڑ کو بھیڑیے ،ہرنی کو چیتے اور فاختہ کو عقاب سے دُور رہنا چاہیے ۔ رشتہ و پیوند کی پُر فریب بساط پر یہ عیار لوگ تم جیسے مخلص اور سادہ لوح لوگوں کو لُوٹ لیتے ہیں۔ اپنے مہمانوں کے لیے یہاں کے ناگ اس جگہ کو دشتِ عنقا بنادیتے ہیں۔ گردِ ش ِ ایام اور نوشتۂ تقدیرکے نتیجے میںاس قدر الم ناک انجام تک پہنچنے کے بعدنئے سرے سے اپنی تعمیر کے کام کا آغا زوقت کااہم ترین تقاضا ہے ۔ ‘‘
ضعیف معلم مرزا یامین ساحر کو سب حقائق معلوم تھے ، وہ اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ بشارت حسین نے صبر کی روایت میں لبِ اظہار پر تالے لگا رکھے ہیں ۔انسانیت سے عاری اعدا نے بشارت حسین وقار کی لوح جبیں پر حسرتوں اور محرومیوں کے جو داغلگائے ہیں وہ اس مرد ِ حق پرست نے اپنے خونِ جگر سے دھوئے ہیں ۔یہ صابر و شاکر شخص اپنی زندگی کی جو باتیں زبان سے نہیں کہہ سکتا وہ اُس کے آ نسووں کے ذریعے معلوم ہو جاتی ہیں ۔ اُس نے اپنے دِلِ حزیںکو تھا م کر کہا:
’’ توقیر عباس نے ہمیشہ جبر کاہر انداز لائق اِسترداد ٹھہرایا وہ عالمی شہرت کے حامل نقاد،محقق،ماہر لسانیات اور دانش ور پروفیسر احمدبخش ناصرکا بہت بڑا مداح تھا۔احمد بخش ناصرنے جس انداز میں فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر ( 1905-1980 : Jean-Paul Sartre ) کے فلسفہ کی تشریح کی وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔ سارتر کے افکار کا توڑ تلاش کرنے کی خاطر امریکی دانش وروں نے آلتھیوسے ،رولاں بارتھ ،دریدا ،ژاک لاکاں ،کلاڈ لیوی سٹراس اور فوکو جیسے ادیبوں کو میدان میں اُتارا۔ توقیر عباس مغرب کی نقالی کے خلاف تھااور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا آ رزومند تھا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے جنگل بیلہ سے اخلاقی اقدار کو خس و خاشاک کے مانند بہالے گئی ہیں ۔اپنے قلبِ حزیں کو سنبھال کر آگے بڑھنے والے بشارت حسین وقار کا واسطہ جن درندوں سے پڑا ہے اُن کے گھر میںکئی چڑیلیں ،لکڑ بگھے ،چھچھوندر اور گیدڑ موجود ہیں ۔ مہا بھارت میںمذکور ہے کہ ایک مہان وِیرجس کانام بھیشم پتامہ تھا دنیامیںاُس کی شجاعت کی دھاک بیٹھ گئی تھی ۔اُس جنگجوکے خوف سے بوکھلاکرغاصب اور بزدل عناصر کو کسی شکھنڈی کی تلاش تھی ۔ میرا گمان ہے کہ توقیر عباس نے جنگل بیلہ کے کسی کینہ پرورمُورکھ شکھنڈی کے جال میں پھنسنے کے بجائے دریا ئے جہلم کا رُخ کیا۔اس دریا کی طوفانی لہریں ارجن کے رُوپ میں بشارت حسین وقارکے فرزند کی کشتیٔ جاں کو بہالے گئیں ۔ سازشی درندوں کے جال میں پھنسے بشارت حسین وقار کے مستقبل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سیاہی وال ،جنگل بیلے اور سبز باغ کی ایک منحوس چڑیل اور اُس کے پروردہ بُھوت اور ڈائنیں اس کے در پئے آزار ہیں ۔کالی دیوی کی پجارن اس چڑیل نے تیس برس قبل جنم لیا اس کے جسم کے نشیب و فرازدیکھنے والوں کے لیے جال بن جاتے تھے اور جنس و جنون کی آگ میں جلا دیتے تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سبز قدم اور اُلٹے پیروں والی منحوس چڑیل زادی ایک انتہائی خطرناک بلائے نا گہانی اور محافظہ ٔ رومان ثا بت ہوئی ۔ قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ ہزاروں ہلاکت خیزیوں کی مہمانی کر نے کے بعد سادیت پسندی کے روگ میںمبتلا یہ چڑیل بالآخر مرگِ ناگہانی کی زد میں آ جائے گی ۔ یہ منحوس اور سفاک طوائف زادی جب گیارہ سال کی ہو ئی تو لُوٹ مار ،اخلاق باختگی ، جنس و جنوں اور فحاشی و عیاشی کی ایسی شرم ناک کہانیاں اس حرافہ سے وابستہ ہو ئیں کہ لوگ اس کاتک کی کتیا کو دیکھتے ہی لاحول پڑھنے لگتے ۔ اس کی لُوٹ مار ،ٹھگی، جنسی جنون ،عریانی اور فحاشی کو دیکھنے کے لیے شیرکے کلیجے اور تیندوے کی بے حیائی کی احتیاج ہوگی ۔اس بد بخت اور کالی زبان والی تیسری جنس کی لڑکی کا جنم معاشرتی زندگی کے لیے انتہائی بُر اشگون ہے۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب آتش جوان تھاایک شعر مجھے یاد ہے جسے اس موقع پر کچھ تبدیلی کے ساتھ عرض کرتاہوں :
بانجھ ہو جائیں زمینیں اور بیلیں دکھائی نہ دیں
پھرکبھی دریا کنارے پہ ایسی چڑیلیں دکھائی نہ دیں ‘‘
بشارت حسین وقار کے آبائی گاؤں کے نواحی علاقے دوآبہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ رانا سلطان نے کہا:
’’ میری کھری باتیں سُن کر اکثر لوگ ناگواری کا اظہار کرتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے بغیر کسی کی بھلائی اور خیر خواہی پر مبنی باتیں کرنا بھی ایک قسم عداوت ہی ہے ۔ سیاہی وال ،سبز باغ ، ماندنہ ،جنگل بیلہ اور چاندنہ کے جہلا اور مکار لوگوں سے بے مقصد نو عیت کی پیہم ملاقاتیں در اصل ہوس پرستوں کی ایسی گھاتیں ہوتی ہیں جو جذبات و احساسات کے لیے قید تنہائی سے کہیں بڑھ کر تباہ کُن ثابت ہوتی ہیں ۔ میں سخت لفظ استعما ل کرنے کا عادی نہیں مگر یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ مجھے اس شہر ِسنگ دِل کے سب مکینوں سے اس لیے شدید نفرت ہے کہ یہ سفلگی کی سب حدیں عبور کر چکے ہیں ۔ راحت اورکرب کو جب تک دوسروں کے علم میں نہ لایا جائے اُس کا حقیقی احسا س بعید ا زقیاس ہے ۔ قلعۂ فراموشی کے اِن سب اسیروں کو میں اچھی طرح جانتاہوں۔سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد یہ بونے جو باون گزے بن کر اپنے تئیں عوج بن عنق خیال کرتے ہیں اپنی اوقات سمجھ لیں گے ۔یہ سب فراعنہ رودِ نیل میں خس وخاشاک کے مانند بہہ جائیں گے ۔ہمارے شیر بشارت حسین وقار اور چاند توقیر عباس نے صبر و رضا کادامن تھام کر طوفان ِ حوادث میں بھی مشعلِ وفا کو فروزا ں رکھا ہے ۔ساہجھر ،چاندنہ ،بیلہ ،تریموں ،ماڑی ،شاکر اور ماچھی وال کا پتا پتا،بُوٹا بُوٹا ہمارے دِلِ شکستہ کے حال سے آ گا ہ ہے ۔ اس سانحہ کے بعد ہم لوح ِ جہاں کی ہر تحریر پڑ ھ چُکے ہیں ۔ہم اس غم زدہ خاندان کے لیے جو کچھ سوچتے ہیں وہ تقدیر کے فیصلوں کی اطاعت پر مبنی ہیں ۔قادر مطلق کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر وہاں اندھیر کو کوئی تصور ہی نہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جس طر ح ایٹمی طاقت امریکہ نے سولہ اگست۱۹۴۵ء کوطلوعِ آفتاب کے وقت جاپان کے شہر ہیرو شیماپر اور اُس کے اگلے روزجاپان ہی کے شہر ناگا ساکی پرایٹم بم سے حملہ کرکے اپنے شکھنڈی ہو نے کا ثبوت دیا اسی طرح جنگل بیلہ میں مقیم مایا کے متوالوں اور ظالم و سفاک درندوں نے نو جوان مہمان کی زندگی کی شمع بجھا کر اپنے شکھنڈی کی دلیل پیش کی ۔ ہوائے جورو ستم میں رُخِ وفا کو فروزاں رکھنا حریتِ ضمیر کی پہچان ہے ۔‘‘
مصائب و آلام کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیل کر ،اپنے دِلِ شکستہ کو تھا م کر یاس وہراس کے عالم میں بحر غم کی غواصی کرنااپنے لہو سے ہولی کھیلنے کے مترادف ہے ۔بشارت حسین وقار سے مِل کر یہ احساس ہوا کہ اس غم زدہ خاندان کی روزو شب ،باتیں ،ملاقاتیں ،سوغاتیں ،محفلیں اور دعوتیں سب کچھ خواب کے مانند ویران ہے ۔ایک سراب ہے جس نے انھیں پیہم ایک کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔مصر کا بازار تو ہے مگر یوسف ؑ کا کہیں سراغ نہیں ملتا،فلک پر کہکشاں تو ہے مگر چاند آ نکھوں سے اوجھل ہوگیاہے ۔ یہ شعلۂ جوالا اپنی پُر نم آ نکھوں سے جب وہ منظر دیکھتاہے تو اُس کے اظہار و ابلاغ کے سب سلسلے سُن کرسب حاضرین ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ فصلِ گُل آ کر رخصت ہوگئی مگر بشارت حسین وقار کے محلے کی گلی میں ویرانی نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ توقیر عباس ایسا نرم ونازک اور عطربیزپھول تھا جو حاسد سانسوں کی عفونت و حدت کی تاب نہ لا سکا۔جب سے وہ پر اسرار انداز میں لاپتا ہوا ہے غمِ زمانہ سے مجبور اس کے آبلہ پا احباب صرف اُسی کی آرزو دل میں لیے کانٹوں پر چل کر اسے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں مسرتوں کا ماہتاب رنج و الم کی اِن گھٹاؤں سے طلوع ہو گا اورسفاک ظلمتوں کی اس رات کے پردے میں طلوع صبح بہاراں کی نوید پنہاں ہے ۔فراق کے بعد وصال کی تمنا کیا کیا صدمے پہنچاتی ہے اور کیسے کیسے ارماں دِل میں نمو پاتے ہیں ان کا احوال الفاظ میں بیان کرنا محال ہے ۔جان لیوا تنہائیوںکی لمبی راتوں میں ان سب کے لیے توقیر عباس کی یاد ہی واحد سہاراہے ،اُس کی عدم موجودگی میں اُس کا ذکر ہی سب کا پرسانِ حال بنتاہے ۔ بشارت حسین وقار نے آرزو ،اُمنگ اور توقع کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑااوراُسے اپنے گم شدہ چاند کے مِل جانے کی آس ہے ۔وہ اس بات پر زور دیتاہے کہ جب تک اُس کی سانس کا سلسلہ جاری ہے وہ اسی آس کی مشعل فروزاں کر کے اپنے بیٹے توقیر عباس کی واپسی کے خواب دیکھتا رہے گا ۔ سیاہی وال ، ماڑی ،کوٹ شاکر اور بُلّو کے صحراؤں کے بگولوں اور دریائے جہلم کی بلاخیز لہروں میں کشتیاں چلانے والے صرف انہی ملاحوں کو کنارے تک پہنچنے کا موقع ملتاہے جوطوفانوں میں پلنے اور دنیا بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔مئی کے مہینے میں تپتی دو پہر میںدریائے جہلم کے مغربی کنارے پر واقع گاؤں بیلہ ،چاندنہ اور شاکر سے تریمو ں ہیڈ ورکس تک کا سفر ننگے پاؤں طے کرنے والے اس خاندان کے افراد اپنے گم شدہ ماہتاب کی تلاش میں تین دِن سے بھوکے پیاسے بیٹھے رہے مگر کوئی اُن کی داد رسی کرنے والا نہ تھا۔ جنگل بیلہ گاؤں میںتوقیر عباس کی خالہ اپنے اہلِ خانہ سمیت مقیم ہے ۔ ان خاندانوں کے مراسم کے بارے میں ایک واقفِ حال ماہی گیررُلدو موہانہ جو اس حقیقت سے آگاہ تھا نے بتایا کہ دونوں خاندانوں میں حالات میں بہت کشیدگی اُس وقت پیدا ہو گئی جب توقیر عباس کی ماں نے اپنے بیٹے کے لیے اپنی مطلقہ بھانجی کا رشتہ لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ توقیر عبا س کے والدین کی آہ و فغاں سن کر پتھر بھی موم ہو جاتے تھے ۔ درد آشنا لوگوں کو ایسا محسوس ہوتاتھاکہ توقیر عباس اور اس کے خاندان کی الم نصیب افراد کی روح ایک ہی سانچے میں ڈھلی تھی ۔یہ بات قابل توجہ نہیں تھی کہ دائمی مفارقت دینے والانوجوان کس خاندان کا چشم و چراغ تھابل کہ یہ صدمہ جان لیوا تھاکہ درندوں نے سفاکی سے کام لیتے ہوئے ملک اور قوم کو ایک متاع بے بہا سے محروم کر دیا ۔ اپنی گل افشانیٔ گفتار سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے والاایک نرم دِل اور حساس معلم بشارت حسین وقار دریا کے کنارے کھڑا پیہم مشر ق کی جانب دیکھ رہا تھا۔اُسے یقین تھا کہ اس کے گھر کاآفتاب یقیناً جلد طلوع ہو گا۔اُسے کیا معلوم کہ یہ دنیا کس قدر پُر اسرار ہے یہاں کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے ۔ اس بے بس و لاچار معلم کی حالت ِ زار کو دیکھ کر رُلدو موہانہ بہت دل گرفتہ تھااُس نے آہ بھر کر کہا :
’’ دریا کی منجدھار میں کشتی رانی کرتے مجھے نصف نصف صدی بیت گئی ہے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ غدار پر اعتبار ایک ایسی مہلک غلطی ہے جس کے انتہائی بھیانک سامنے آ سکتے ہیں۔دریائے جہلم کی طغیانی سے پہلے سیاہی وال اور ساہجھووال کے جنگل میں رات کے وقت جنگل جانوروں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی ۔چند روز بعد صدیوں پرانے اس پُر اسرار قدرتی جنگل سے بھڑیے ،گیدڑ ،باگڑ بِلے ،لومڑیاں ،خرگوش ،جنگلی سور ،خارپشت ،کنڈیالے چوہے اور ناگ اچانک غائب ہوگئے ۔ایسا محسوس ہوتاتھاکہ آنے والے دور کے تلخ حالات کے بارے میںاُنھیں کوئی بِھنک پڑ گئی تھی ۔ میرا گمان ہے کہ خالق کائنات نے جنگلی حیات کو کسی ایسے عصبی نظام سے متمتع کیا ہے جو انھیں مستقبل کے تبا ہ کن حادثے کے بارے میں متنبہ کر دیتاہے ۔یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ وقت ،تقدیر اور محسن کش اقربا کے روّیے نے بشارت حسین وقار کو جسمانی اعتبار سے مضمحل کر دیاہے مگر اُس کا آہنی عزم جبر کے سامنے کبھی سپر انداز نہ ہوگا۔ توقیر عباس کے والدین اپنے چاند کو گہن سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے ۔بشارت حسین وقار نے بہت اچھا فیصلہ کیااور ایک دھتکاری ہوئی چڑیل اور منحوس ڈائن کے چنگل میں پھنسنے سے انکار کردیا۔ پوہلی ،جوانہہ ،دھتورے،کریروں اور حنظل کا وہ چمن جوسیکڑوں مرتبہ پہلے ہی لُوٹا جا چُکا تھا اُس کی خستہ حالت کو دیکھ کر کوئی کالا کلوٹا بھنورا اُس کی طرف آ نکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتاتھا۔ہر طرف سے مایوس ہو کر کالی د یوی کی اس پُجارن نے سب دیو،بھوت اور آدم خور اکٹھے کر لیے ۔چور محل میں جنم لینے والے سانپ تلے کے سب بچھو،اجلا ف و ارذال اور سفہا نے اللہ بخش کے گھرانے کے خورشیدکو ڈبونے کی سازش کی۔ ایک منصوبے کے تحت سب پکھنڈی اور شکھنڈی اکٹھے ہو گئے اور نوجوان توقیر عباس کو دریائے جہلم کی طوفانی لہروں میں دھکا دے دیا۔وہ سر گرداب پیہم مدد کے لیے پکارتا رہا مگر موذی ومکار اعدا جو بے حسی کی ردا اوڑھے ہوئے تھے ٹس سے مس نہ ہوئے اور توقیر عباس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔ لمحات نے یہ سب سانحات دیکھے ہیں اور وقت سب سے بڑا منصف ہے جو صحیح فیصلہ صادر کر ے گا ۔ میں نے جب سے یہ سنا ہے کہ نوجوان توقیر عباس کا اتا پتا کسی کومعلوم نہیں میرا دِ ل ڈُوب ڈُوب جاتاہے ۔ کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ توقیر عباس کو دریائے جہلم کی طوفانی لہروں نے جنگل بیلہ کے قریب تھپک کر گہری نیندسُلا دیاہے ۔ سالہا سال تک یہ الم نصیب والدین دریا کے پانیوں سے اپنے لختِ جگر کے بارے میں دریافت کرتے رہیں گے اور سالہا سال تک دریائے جہلم کی لہریں اپنی جبیں خاک پر گِھسا کر کناروں سے سر پٹخ کر اپنے بے گناہی کا احوال بیان کرتی رہیںگی۔ ‘‘
جنگل بیلے میں مقیم کم ظرف سازشی عناصر، عادی دروغ گو ٹھگوں ،پیشہ ور چوروں ،سفاک غداروں اور کینہ پرور حاسدوں کی غیر مختتم ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رہا۔توقیر عباس کی خالہ کے خاندان نے یہ طے کر لیاتھا کہ جبر کی طاقت کے بجائے مکر و فریب ،سازش اور غداری سے شیر کو اپنی راہ سے ہٹا نا بہت سہل ہے ۔ اسی اثنا میں بشارت حسین وقار اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ عید ملن کے سلسلے میں موضع ساہجھرمیں مقیم اپنے سسرال پہنچا تھا۔ توقیر عباس کی خالہ نے فریب کاری اور عیاری سے کام لیتے ہوئے ایک رومان پرور ماحول میں صلح کی آ ڑ میں اس خاندان کو اپنے گھر چاندنہ آنے کی دعوت دی ۔ بشارت حسین وقارکے اور اُس کے اہل ِخانہ ابن الوقت اعدا کی ان چکنی چپڑی باتوں اور گلو گیر لہجے میں دروغ گوئی کے انوکھے انداز کے پس پردہ سازش کی تہہ تک نہ پہنچ سکے اور اُن کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ خلوص کی اداکاری کرنے والے میزبان اپنے مہمان نوجوان توقیر عباس کی موت کے جال بچھا نے کی سازش کرکے یہاں پہنچے ہیں ۔ ا نھوں نے دِل پر جبر کر کے بے وقعت منافقوں اور عیار حاسدوں کی یہ دعوت قبول کر لی ۔توقیر عباس کی خالہ کے بیٹوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مِل کر سازش کی۔اس شریف خاندان کے افرادکو ساہجھر سے بُلا کر فریب کیا ۔اگلی صبح توقیر عباس کو دریا ئے جہلم کے کنارے سیر کر نے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے ۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ توقیر عباس گھر سے ایسے نکلا جیسے کوئی فریب خوردہ شاہین صیاد کے دام کی طرف بڑھ رہا ہو ۔ سازشی درندوں نے توقیر عبا س کو دریا کی پندرہ فٹ گہری طوفانی لہروں کے گرادب میںدھکا دے دیا ۔ بشارت حسین وقار کا چمن دِن کی روشنی میںلُوٹ لیاگیا ۔اس سانحہ نے بشارت حسین وقار کی دنیا ہی اُجاڑ دی ۔اُس کی پتھرائی ہوئی آ نکھوں میں تحیر کے غیر مختتم ڈورے دیکھ کر بے دِل دنیا کے سنگِ دِل مکین بھی دِل تھام لیتے ہیں ۔ نزدیکی تھانے میں اس سانحہ کی رپورٹ در ج کرا دی گئی ہے اور نامزد ملزمان کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ ہجوم ِ غم وآلام میں گھرے والدین مقتدر حلقوں سے یہی التجا کرتے ہیں کہ ان کے لختِ جگر کی لاش تلاش کی جائے تا کہ وہ اُس کی تدفین کر سکیں،اُس پر کتبہ نصب کر سکیں اور اُس کی آخری آرام گاہ کے پاس بیٹھ کر اُس پر آنسوؤں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کر سکیں ۔ دل گرفتہ پس ماندگان کو کیا معلوم کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں تیشۂ زر کے بغیر انصاف کے پتھر کا حصول جان جوکھوں کا مر حلہ ہے ۔ حرص و ہوس کے موجودہ دور میں خود غرضی ،منافقت اور بے حسی نے انسانیت کو پتھر کے زمانے میں پہنچادیاہے ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس شہر نا پرساں پر آسیب کا سایہ ہے اور یہاں کے سب معیار ،افکار اور کردار پتھروں میں بدل گئے ہیں ۔ اپنے دِل ِ شکستہ میں ریگِ دریا پر اُمیدوں کے تاج محل بنانے کی تمنا لیے بشارت حسین وقار سترہ مئی 2021ء سے انتہائی خستہ حالت میں تریموں کے مقام پر اپنے لختِ جگر توقیر عباس کو آواز دیتاہے تو کرب کا ایک تاثر اس کے چہرے پر پھیل جاتاہے ۔ دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر واقع ماڑی ،شاکر اور بُلّو کے ریگستان میں چلنے والے گرد باد جب ٹیلوں اور اُن پر اُگے چنے کے پودوں کو جڑ سے اُ کھاڑ لے جاتے ہیں تو وہ گہری سوچ میں ڈُوب جاتا ہے۔بشارت حسین وقار کے مصائب و آلام کو دیکھ کر ہر دل سوگوار ہے اور دیدۂ نم ناک میں لرزتے خوابِ فسوں گر کی قبا بھی چاک چاک ہے ۔ یہ وجیہہ انسان جس باوقار انداز میں گردش ِایام کے سامنے سینہ سپر ہے ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جب لوگ اس کے صبر و تحمل پر اُسے خراج تحسین پیش کریں گے ۔وہ اکثر اُس مقام پر پہنچتاہے جہاں وہ قافلہ ٔ جاں کو ساتھ لیے دریائے جہلم کے کنارے خیمہ زن رہا ہے مگر کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں ۔ دریا ئے جہلم کی لہروں کا کٹاؤ دیکھ کر وہ دل گرفتہ ہو جاتاہے اُسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اُس کا کلیجہ کاٹ دیا ۔وہ یہ چاہتاہے کہ جادۂ آوازِ درا پررواں دواں ہو کر اپنے لختِ جگر سے جاملے ۔ اس اثنا میں بشارت حسین وقاراپنے گھر کے مہ شب چہار دہم کو یادکرتاہے اور کہتاہے :
’’ ہمارے جادۂ ارمان پر ڈاکہ ڈالنے والے لٹیروں نے ہماری متاعِ زیست لُوٹ لی ہے ۔توقیر عباس !تیری والدہ ،بہنوں اور میری سانسیں ،دلوں کی دھڑکنیں اور الفاظ تمھارے ہونے کی گواہی دے رہے ہیں ۔اے میری جان تم بھی اُسی دریا دِلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ایک مقدس آواز کی صورت میں گونجو ، دبنگ لہجے میں بولو اور ہم سب کے کانوں میںرس گھولو۔ جلدہم سے آکر ملو جیسے اس مقام پر جہلم اور چناب مِل جاتے ہیں ۔ لوح ِ دِل پر تمھاری یادں کے جو نقوش ثبت ہیں وہ اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہیں ۔ موسمِ بہار کی کشیدہ کاری سے جب دریائے جہلم کا کنارہ رنگ برنگے پھولوں سے ڈھک جائے گا تو ہم تجھے بہت یاد کریں گے ۔ برسات کے موسم میں جب یہاں قوس قزح کے رنگ بکھر جائیں گے تو ہم اپنے شکستہ دِل کو یہی سمجھائیں گے کہ دریاکے کنارے ہمارے اُس ماہتاب کی آ خری نشانی پر قدر ت کاملہ کی طرف سے پھولوں کی چادرچڑھا دی گئی ہے جس کے دم سے رنگ ،خوشبو ،حسن و جمال ،ذہانت اور سعادت کے سب استعارے وابستہ تھے ۔ ‘ ‘
اِس دنیا میں کوئی بھی شخص آندھی ،طوفان اور دریا کی طغیانی کو اپنے تابع نہیں کر سکتامگر اُسے یہ تو سمجھ لینا چاہیے کہ بادبان اور کشتی کودرست حالت میں ر کھنا صرف اُسی کی ذمہ د اری ہے ۔ صرف سادیت پسند غارت گر ہی اس عالم ِ آب و گِل کے نظام کو مکمل انہدام کے قریب پہنچانے کے ذمہ دار نہیں بل کہ وہ بے حس،بے ضمیر اور بے غیرت درندے بھی اس جُرم میں برابر کے شریک ہیں جوسفلہ درندوں کی سفاکی سے شہرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنالیتے ہیں۔ اگرچہ دریا سدا اپنی طغیانیوں سے کام رکھتے ہیں مگر انسانی لغزشوں پر بھی دریا گہری نظر رکھتے ہیں۔ دُور افتادہ گاؤں جنگل بیلہ ،سیاہی وال اور چاندنہ جو کوفہ سے بھی آگے نکل گئے ہیں وہاں کے بروٹس قماش سفہا اور اجلاف و ارذال پر بھروسا کرنا اپنے پیروں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف ہے۔گرد و غبار میں اٹا ہوا انتہائی بوسیدہ پھٹا ہوالباس پہنے ایک ضعیف چرواہا جو صحرا کے ٹیلوں میں بھیڑیں اور بکریاں چرا رہا تھا سر جُھکاکر اُس طرف سے گزرا۔ ایسا محسوس ہوتاتھاکہ بوڑھا چرواہا ڈھلتے سورج اور شام کا منظر دیکھنے کے لیے افلاک کی وسعت کو جانب نہیں دیکھ رہا تھا بل کہ وہ شاید کسی رحمت کے فرشتے کا منتظر تھا جو نجا ت دہندہ کی صورت میں اِس وقت الم نصیب خاندان کے درد کا درماں کرے ۔ وہ اہلِ کوفہ کی سفاکی اور چالاکی کے سب مکر جانتاتھا ۔اُس ضعیف چرواہے کو اس بات قلق تھا کہ توقیر عباس کے سادہ لوح والدین اپنے شاہین کو اُس آ سیب زدہ مقام پر لے آئے جہاں زغ و زغن ،بُوم و شِپر اور کرگسوں کا بسیراہے ۔پاکستانی ادبیات ،پنجابی کلاسیک اور عالمی کلاسیک کا ماہر معلم بشارت حسین و قاراپنے ضیغم کو ساتھ لے کر وہاں پہنچاجہاں میسوپو ٹیمیا کی سمندری بلا تیامت سے پیمانِ وفا نہ باندھنے کی وجہ سے گاؤں بیلے،سیاہی وال ،سبزباغ اور چاندنہ ماندنہ کی لو مڑیاں ، ریچھ ،گیدڑ ،بھیڑیے ،خنزیر ،تیندوے،خنزیر اور باگڑ بِلّے اِس شیر کو تنہا دیکھ کر اُس پر ٹُوٹ پڑے۔اس جگہ کہکشاں کا وہ ستارہ غروب ہو گیاجو باقی سب ستاروں سے کہیں بڑھ کر تابندہ تھا ۔چرواہے نے اپنی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے ذہن میںطوفان ساآ گیا ہو۔ ضعف پیری سے نڈھال چرواہے نے جب غم زدہ خاندان کو پریشاں حالی اور درماندگی کے عالم میں دیکھا اُس کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں ۔اُس نے قدیم موسیقاروں کے انداز میں گلو گیر لہجے میں گنگنانا شروع کر دیا۔اُس کے لہجے میں اس خطے کی قدیم تہذیب و ثقافت کے آ ہنگ نمایا ںتھے ۔بادی النظر میں زندگی کی تاب و تواں کی حامل یہ سریلی تان اُس کی روح ،قلب اور جان کی پہچان بن گئی تھی ۔ وہ بوڑھا جذبات و احساسات کی ایسی موثر زبان میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہا تھا جو ہر دِل کی دھڑکن کی صورت میں گونج رہی تھی ۔اس کے سریلے بول گردشِ ایام کی زد میں آنے والے ایک پریشاں حال معلم کی زندگی کے سب حالات کی گرہ کشائی کر رہے تھے اور مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میںاُمید کی مشعل فروزاں کر رہے تھے۔ اس معلم نے رشتہ داری جیسے حقیر ، کم زور اور ناقابل اعتبار تعلق پر انحصار کر لیا ا ور اب اپنی کوتاہی کا خمیازہ اُٹھا رہاہے ۔اس جان لیوا صدمے کے بعد توقیر عباس کے والدین جس کیفیت سے گزر رہے تھے اُسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ۔اس درد آشنا بوڑھے چرواہے کے سریلے بول زخموں پر مرہم ثابت ہوئے اور سب لوگ اس کی تان کو ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگے ۔ وہ شخص یہی کہہ رہا تھا کہ دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کا بیش بہا اثاثہ تو پس ماندگان کے دِل میں محفوظ ہوتاہے جسے کوئی قزاق لُوٹ نہیں سکتا ۔ خیالی باتوں اور سرسری تصورات سے آگے نکل کر حقائق سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھنے والابوڑھا چرواہا جس کی کمر جھک گئی تھی لاٹھی ٹیک کر چل رہا تھا۔ یہ بوڑھا چرواہا ایک ایسا کھیت مزدور تھا جو کھیتوں میں فصل اُگنے کے وقت محنت شاقہ کو شعار بناتاہے اور اِس کے پکنے تک ہمہ وقت فصل کی حفاظت کی دعائیں مانگتا رہتاہے ۔ سیاہی وال اور جنگل بیلہ گاؤں کے تما م مکین جنھوں نے توقیر عباس کی زندگی کی شمع بجھانے کے المیہ پر چارہ گری سے گریزکیا اُنھیں بوڑھا چرواہا ابلیس نژاد درندوں کا ہم نوا قرار دیتاتھا۔ دریائے جہلم کے کنارے رونما ہونے والے توقیر عباس کے سانحہ کے بعد اُس کے یہ درد انگیز نالے سریلے بول بن گئے ،یہ بول حافظے ،قلبی کیفیات ،آ ہوں ،آ نسوؤں کی تمازت سے مزین تھے جنھیں سُن کر وہاں موجود سب لوگوں کی آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں :
پِچھاں مُڑ وے بچڑا ہُن تیری لوڑ پئے گئی
ترجمہ : پلٹ کے گھر آؤ بیٹا تمھاری بہت ضرورت ہے
تیرے باہجھ پُترا جِند کیڈے صدمے سہہ گئی
ترجمہ : تمھارے ہجر کے صدموں سے ہماری جان پر بن آئی ہے
تیری بھیناں نوں لے کے تیری ماں دریا دے کنڈے بہہ گئی
ترجمہ: تمھاری بہنوں کو ساتھ لے کر تمھاری ماں دریا کے کنارے خیمہ زن ہے
تیری راہ دے وچ تیریاں بھیناں تے ماں تتی بھوئیں تے بہہ گئی
ترجمہ: تیری راہ میں تیری ماں اور بہنیں گرم زمین پر بیٹھی ہیں ۔
ساہ مُکدے پئی نی ہُن مِل توں آکے
ترجمہ: ہماری سانس ٹُوٹ رہی ہے تُو جلد آکے مِل
تیڈی جدائی توقیر جِند ساڈی لے گئی
ترجمہ : تیری جدائی نے ہمیںزندہ در گور کر دیا
دیکھتے ہی دیکھتے ان دردانگیز طلسمی نالوں کی صدا سے ظلم و ستم کے لرزہ خیز واقعات پر پڑی ابلقِ ایام کے سموں کی گرد ہو ا ہو گئی ۔ اپنے خالق سے اس خاندان کو اُمید ہے کہ وہ ان کی آہ وفغاں ضرور سنے گااس لیے اُن کے ہاتھ ہر وقت دعا کے لیے اُٹھے رہتے ہیں۔ یہ خاندان اپنی خودی کو پہچان چکاہے اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی سوچ کو بدلنے اور اپنی دنیاآپ پیدا کرنے پر آمادہ ہے ۔اس طرح یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کے اعدا تباہ ہو جائیں گے اور اِن کے خورشیدجمال فرزند نے روشنی کے جس سفر کا خواب دیکھا تھایہ پر عزم ورثا اُس کی تعبیر ضرور تلاش کریں گے ۔ اس ہو نہار طالب علم کے والدین جو پریشاں حالی میں بھی غیرت شاہانہ رکھتے ہیں اس آس پر زندہ ہیں کہ جوں ہی نیا سال ( ۲۰۲۲ء ) آیا تو ان کے مقدر کی کایا پلٹ جائے گی اور اُن کے قلب حزیں کی سوئی ہوئی قسمت کو جگانے کے لیے اُن کا چاند کسی رات ضرور اُن کے آنگن میں اُترے گا ۔ انھو ں نے زندگی کے نشیب و فراز سے جو کچھ سیکھاہے وہ انھیں زندگی بسر کرنے کا اسلوب سکھا رہا ہے ۔ ان سب کے دلوں میں ایک ایسی واضح اور شدید تمنا موجود ہے کہ اگر کچھ ہوش بجا رہے گا تو وہ دِن ضرور آئے گا جب قادر مطلق کی عطا سے ہم اپنے خورشید جمال فرزند کو اک نگاہ دیکھ لیں گے ۔ خورشیداُمیدکی پہلی شعاع ہی حوصلوں کی ایسی ضیا ثابت ہوگی جو سفاک ظلمتوں کو کافور کر دے گی ۔ اگرچہ گردشِ حالات نے ہمیں پا بہ گِل کر دیا ہے مگر ہمارے ولولے کاسفینہ طوفانوں میں تیرنے کا قرینہ جانتاہے ۔ اُس کے آتے ہی تمنائیں اور آرزوئیں شباب پر ہوں گی اور کرب کے وہ موسم جو دِل پر پیہم اُترتے ہیں اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔
جھنگ شہر کی کچی آبادی میں مقیم ایک مضعیف خاتون اماں فضلا ں کو سب حالات معلوم تھے ۔ کرب کے مہتاب زینوں شبِ غم ایسے آہستہ گام اُتری کہ روح اور قلب کو چھلنی کر تی چلی گئی۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب وہ مژگاں اُٹھا کر دیکھتی تو تڑپ اُٹھتی کہ مکینوں کے رخصت ہوجانے کے بعدبستیاں ویران ہیو گئی ہیں ۔ وہ گوٹھ اورگراں جہاں سے مانوس اور آ شنا پیغام رسانی کاسلسلہ جاری ر ہتاتھا اب اُن نا پرساں کوچوں سے بے تعلق سے ربط کا سراب ایک عذاب بن گیاہے ۔ وہ اکثر سوچتی کہ دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے اس کے باوجودیہاں کے طالع آزما اور مہم جُو لوگ نہ جانے کن فضاؤں میں کھوگئے ہیں۔ اما ں فضلاں نہ صرف اپنی بل کہ اپنی معاصر شخصیات کی زندگی کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی کرتی تھی ۔ وہ ہمیشہ سچ بولتی تھی اور اس طرح معاشرتی زندگی کے متعدد واقعات اور دلچسپ حقائق کے بارے میں حیران کُن معلومات حاصل ہوتی تھیں ۔ ا ُس ضعیفہ کے بارے میںیہ تاثر عام تھا کہ زندگی بسر کرنے کے لیے اس نے جو بہت ساری ترکیبیں لوگوں کو بتائیں اُن میںیہ بھی تھی کہ بات کروتو اپنی شعلہ بیانی کاجادوجگاؤاور جب کسی سے ہمدردی کرو تو تمھاری آ نکھوں کا پُر نم ہونا ضروری ۔ جنوں نوازیوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات ک ودیکھ کر وہ انسانی زندگی کے نشیب وفراز کو ایسی کاکل برہم سے تعبیر کرتی تھی جسے کو سُلجھانا صر فزندگی گزارنے والے ہی کی ذمہ داری ہے ۔ وہ بتایا کرتی تھی کہ دریائے جہلم اور چناب کے دوآبہ کے علاقے میں اقلیم معرفت کے درویش منش معلم اللہ بخش کی مثال روشنی کے ایک سر بہ فلک مینار کی تھی جس کی ضیا پاشیوں سے سفا ک ظلمتیں کافو رہوئیں اور اس علاقے کے مکینوں کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتما م ہوا۔ معیاری خواب اپنی آ نکھوں میں سجانے والا وہ ایسا دانش ور تھا جو سرابوں کے عذابوں اور گل ہائے رنگ رنگ کی مسحورکُن مہک کو فریب نظر خیال کرتا تھا اور کانٹو ںمیں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خُو کو اچھی طرح سمجھتاتھا۔ جس طر ح سر زمین حجاز کے قبیلہ بنی عامر میں آج تک قیس جیسے فطین نو جوان نے جنم نہیں لیا اسی طرح توقیر عباس پر اللہ بخش کے پورے خاندان کو فخر تھا۔زندگی کے حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہوئے اماں فضلاں نے بتایا :
’’ بشارت حسین وقار کا خاندان ساتویں پُشت سے درس و تدریس سے وابستہ ہے ۔ اس علمی وادبی گھرانے نے جو فطین اور باکمال لکھاڑ پیدا کیے اُن کی تخلیقی کامرانیوں سے پاکستانی ادبیا ت کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ ظالم و سفاک ،موذی و مکار سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے معاشرتی زندگی میں جو کھلواڑ ہو رہا ہے اُس کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے اس خاندان کے ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ کون کہتاہے کہ توقیر عباس لا پتا ہو گیا ہے۔جس معاشرے سے احساس ،اخلاق اور انصاف رخصت ہوجائے وہاں سب افراد اپنی حقیقت کو فرموش کر کے اپنی شناخت کھودیتے ہیں ۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم سب خاردار جھاڑیوں سے اٹے ایک گھنے جنگل میں بھٹک رہے ہیں ۔جنگل کے قانون کے تحت توقیر عباس کی طرح جن شاہین صفت نو جوانوں کی زندگی کی مشعل گُل کر دی گئی اُن میں قاضی محمد شریف ،دُلا بھٹی ،حسن ناصر اور سولہ دسمبر 2014ء کو پشاور سکول کے ایک سو پچاس طلبا کے نام تاریخ کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ ہیں۔ بحرِ خیالات کی طوفانی لہریں ہمیں بہائے لیے جا رہی ہیں ۔ توقیر عباس کے خاندان کی شرافت ،وضع داری ،ایثار ،خلوص اور مروّت کاایک عالم معترف ہے ۔انصاف کی جستجومیں احتساب ِ ذات پر توجہ مرکوز رکھنا اور مثبت انداز ِ فکر اپنانا اس خاندان کا شیوہ رہاہے اس لیے اس خاندان کے بزرگ اپنے خلاف بھی فیصلہ صادر کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔وہ سلسلہ ٔ روز و شب میں اُلجھ کر نہیں رہ جاتے بل کہ ہر روز وہ نئے امکانات کی جستجوکرتے ہیں ۔ خدمت ِ خلق کے ذریعے حاصل ہونے والی نیک نامی کو یہ لوگ دائمی سمجھتے ہیں جب کہ تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو یہ سیلِ زماں کی زد میںہونے کی وجہ سے عارضی قرار دیتے ہیں۔بشارت حسین وقار کا کہنا ہے کہ زندگی کے تلخ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی تو ممکن ہے لیکن اس مہلک غلطی کے مسموم اثرات اور سمے کے سم کے ثمر سے گلوخلاصی کی کوئی ممکنہ صورت موجود نہیں ۔پھول بھی توقیر عباس کے قدموں کی دُھول تھے اور نا ممکن کو بھی ممکن بنانا اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ وہ ایسا دائرۃ المعارف تھا کہ جب وہ کسی علمی وادبی موضوع پر اپنے دلائل کا آغاز کرتا تو سارے سگھڑ سیانے ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے ۔عام طالب علم تو صرف وہی کام کر تے تھے جو اُن کی بساط کے مطابق ہوتاتھامگر توقیر عباس ستاروں پر کمند ڈالتا اور وہ کٹھن مر حلہ بھی طے کر لیتا جو کہ اقتضائے وقت کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔ علاقے کے لوگو ں کا کہنا ہے کہ اس شریف اور وضع دار خاندان کے مخالف سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ایسے وضیع ذہنی مر یض ہیں جنھوں نے ان فیض رساں شرفا پر عرصۂ حیات تنگ کر دیاہے ۔ اعدا کے مظالم کے نتیجے میں بشارت حسین وقار کے خاندان کی راتوں کا نیندوں سے تعلق ختم ہو چکاہے اور اب توشب بیداری ہی پس ماندگان کا مقدر ہے ۔ بشار ت حسین وقار کا جن کینہ پرور حاسدوں سے واسطہ ہے ان کا اصل مقام یا تو جنگل ہے یا چڑیا گھر۔ بشارت حسین وقار کے اعدا بہت ظالم ہیں جنھیں حرص و ہوس کی آگ نے بصارت سے محروم کر دیاہے ۔ فسانہ سازیوں پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جنگل بیلہ میںمقیم ان جہلانے اپنے بد بختانہ ظلم سے ایک عطر بیزغنچے کو دریا برد کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو رُوسیاہی اور تباہی کی آ گ میں جھونک دیاہے ۔ توقیر عباس کے ایک ساتھی نے بتایاکہ گھنے سیا ہ بال ،چاند چہرہ ،لب گُل ،چہرہ چنبیلی ،دہن لالہ اور سر و قامت نوجوان توقیر عباس کو کسی حاسد کی نظر کھا گئی ۔ کینہ پرور لوگ ہر وقت یہی سوچتے تھے کہ مہربان ماں جب اس ہو نہار نو جوان کو پالے گی تو اِس کی یہ اُٹھتی جوانی کیا کیا رنگ بنائے گی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی ۔ چمن دہر میں توقیر عباس جیسے پھول کم کم کِھلتے ہیں جن کی عطر بیزی سے قریہ ٔ جا ںمہک اُٹھتاہے ۔ میں نے ایک وڈیو میں رشک ِچمن توقیر عباس کو تقریر کرتے سنا ۔ وہ جوان رعنا جب اپنے دبنگ لہجے میں بولتا تو باتو ںسے پھول جھڑتے تھے اُس کے الفاظ کی ترنگ سامعین کو مسحور کر دیتی تھی ۔ بشارت حسین وقار کو آب دیدہ دیکھ کرمر ے قلب ِحزیں میں سیلِ اشک نے ایسا طوفان اُٹھایا کہ میرا دِل بیٹھ گیا اور آ نکھوں میں صبح ِ قیامت جھمک گئی ۔ انصاف کے حصول کے لیے بشارت حسین وقار نے اپنی اہلیہ اور چار بیٹیوں کو ساتھ لیا ۔پہلے دریائے جہلم کے کنارے اور اس کے بعد جھنگ صدر کے ایک مرکزی چوک پر دھرنا دیا مگر اس کی فریاد صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔میں سمجھ گیا کہ الم نصیبوں جگر فگاروں کے حالات ہر دور میں جوں کے توں رہتے ہیں صرف نئے کردار سامنے آتے رہتے ہیں مگر ہر بار وہی قدیم ناٹک دہرایا جاتاہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے کااس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جوہرِ قابل کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر جاہل غاصب اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتے ہیں ۔معاشرتی زندگی میں انصاف کُشی اس قدر عام ہو جاتی ہے کہ با صلاحیت اور ناہل کا امتیاز کیے بغیر ہر آمر اپنی ساری رعایا کویک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے ۔ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈ لانے لگا ہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اقوام کے جاہ و جلال ،سطوت و ہیبت کو تو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب ان سے محفوظ رہتی ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کی تعلیم کے وسیلے سے تہذیبی میراث کو نئی نسل کومنتقل کیا
جاسکتاہے ۔سقراط (Socrates) ہو یا جیور ڈانو برونو (Giordano Bruno)، ڈک ٹرپن (Dick Turpin)ہو یا ہورتیا بوٹملے (Horatio Bottomley)سب کے سب شامت ِ اعمال یا فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ کر فسطائی جبر کے مہیب پاٹوںمیں پِس جاتے ہیں مگر کوئی آنکھ ان کے دلِ شکستہ پر نَم نہیں ہوتی ۔ توقیر عباس اکثر یہی کہتا تھاکہ تہذیبی میراث کے حصول کے لیے نئی نسل کو سخت محنت کو شعار بنانا پڑتا ہے ۔لسانیات میں اس نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی وہ اس نتیجے پر پہنچاکہ معاشرتی زندگی میں لسانیات کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی دستور ہے جہاں ترک وانتخاب کا سلسلہ ہمیشہ جاری ر ہتا ہے اور ماضی کے کئی حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔ وہ تاریخ ادب کے حوالے سے یہ بات واضح کر دیتا کہ دکن میں قطب شاہی دور میں ادب ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے وابستہ فعالیتیں جو ابتدائی ادوار میں تہذیب و تمدن کے فروغ کے سلسلے میں معمولی زاد ِ راہ سمجھی جاتی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی فعالیتیں معاشرتی زندگی کے لیے ناگزیر ضرورت بن گئیں ۔ توقیر عباس کو ماہرین لسانیات کے خیالات سے اتفاق تھا کہ لسانیات میں سُود و زیاں کا کوئی تصور ہی نہیںکسی زبان کی پزیرائی ہی کو اس زبان کی حقیقی فیض رسانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ عالمی کلاسیک کے مطالعہ کے بعد وہ یہ بات یقین کے ساتھ کہتاتھا کہ افراد کی معاشرتی زندگی میں اظہار و ابلاغ میں تجریدی پیرایۂ اظہار کے بجائے اس سے وابستہ حرکت و حرارت اور مزاج و کیفیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں وہ اقدار جن کا تعلق معاشرے کی اجتماعی زندگی تھا پیہم تغیر و تبدل کی زد میں رہی ہیں لسانی ارتقا بھی اس عمل سے بے نیاز نہ رہ سکا ۔لسانی حوالے سے ادب محض اُن تجربات،احساسات ،واقعات اور ان سے متعلق تفصیلات پر انحصار نہیں کرتا جو تخلیق فن کے لمحوں میں پیش نظر رہے بل کہ ایک اجتماعی جذبِ دروں کی دھنک رنگ کیفیت اس کے پسِ پردہ کارفرما رہتی ہے ۔اس طرح تخلیق کار جس نوائے سروش سے سرشار ہو کر اپنی گُل افشانی ٔ گفتارکے جوہر دکھاتاہے اس کے حرکیاتی کردار سے معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا چلا جاتاہے ۔
دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر تھل میں واقع گاؤں بیلہ،چاندنہ ،ماڑی اور شاکر کے نزدیکی صحرامیں میلو ں تک پھیلے چنے اور گوارا کے کھیتوں کے کنارے سر کنڈے اورکریروں کے خود رو جھاڑ کھڑے تھے ۔صحرا میں نگینہ نگینہ اُگی کریروں کا عالم دیکھنے والوں کو مد ہوش کر دیتاتھا۔کریروں کی جواں سال شاخوں پر فطرت نے سُرخ و سبزڈیہلوں کے بُندے سجادئیے تھے۔کریروں سے کچھ فاصلے پر ایک بروٹی کا درخت تھاجس پر سرخ بیر لگے تھے۔بروٹی کی بلند شاخون پر جن پرندوں کے گھونسلے تھے ان میں انسانوں کی طرح بولنے والے دو طیور بالی مینا اور طوطا بھی شامل تھے ۔ جب سے سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے بشارت حسین وقار کے گھر کا سفینہ جس پُر اسرار انداز میں دریائے جہلم کے گرداب میں پہنچادیا یہ طیور صدمے سے نڈھال تھے ۔طوطا جو پہلے بروٹی کے بیر بڑے شوق سے کھاتا تھااور بالی مینا جو روزانہ کریروں پر لگے ڈیہلے کھاکر پیٹ بھرتی تھی ۔آج دونوں طائر منقار زیرِ پر بھوکے پیاسے بیٹھے تھے اور ان کی آ نکھوں سے جوئے خون روا ں تھی۔ بالی مینا اور طوطا اس سانحہ پر غرقاب ِ غم تھے کہ انسانوں کا خون کس قدر پتلا ہو گیا ہے ۔ توقیر عباس کی خالہ کے بیٹے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مِل کر نوجوان توقیر عباس کو دریائے جہلم کے پندرہ فٹ گہرے گرداب میں دھکا دیا ۔ڈوبنے والا سرِ گرداب مدد کے لیے پکارتا رہا مگر کسی نے اُس کی آواز پر توجہ نہ دی ۔بالی مینا نے جب ایک بے بس مہمان کے ساتھ یہ شقاوت آمیز نا انصافی دیکھی تو وہ تڑپ اُٹھی ۔اس ظلم و ستم اورکرب ناک سانحہ پر بالی مینا نے اُردو کے ممتاز شاعر طفیل ہو شیار پوری کے پاکستانی فلم ’’ قاتل ‘‘ ( 1955)کے لیے لکھے ہوئے ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں اپنے عہد کی مقبول مغنیہ کوثر پروین کے گائے اُس درد بھرے نغمے میں توقیر عباس کے حوالے سے کچھ ترمیم کی اور یہ بو ل دہرائے جسے سُن کر پوری فضا اشک بار ہ گئی اور طیور کے درد انگیزنالے سنائی دینے لگے ۔
او مینا !نہ جانے کیا ہو گیا
کہاں توقیر کھو گیا
لہروں سے نین مِل گئے
آہوں کے پُھول کِھل گئے
غم زدہ والدین کے دِل کے تار ہِل گئے
بالی مینا کی آہ و فغاں سُن کر ماسٹر یامین ساحر نے دِل تھام لیا اور گلو گیر لہجے میں کہا:
’ ’ بشارت حسین وقار کا علم دوست اور ادب پرور گھرانہ سالہا سال سے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہے۔یہی وجہ ہے کہ تخلیقِ ادب کی قلم رو میںاُن کے اسلاف کا اجارہ نسل در نسل مسلمہ رہا ہے ۔اس سانحہ کی خبر سُن کر ادراک اور فہم و فراست کے ہوش اُڑ گئے ہیں۔ انسانیت شناسی ایک کٹھن مر حلہ ہے ،اس کے لیے شخصیت کی گہرائی میں اُترنا پڑتاہے اور اس کے معمولات پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ جنگل کے قانون کے تحت یہاں چور اور چوب دار کی مِلی بھگت سے ظلم و ناانصافی کا سلسلہ بڑھ رہاہے ۔ جس بے حِس معاشرے میں ایک معلم کے بیٹے کے ساتھ ایسا ظلم کیا جائے وہ اُس کی دادرسی نہ کی جائے وہ مقتدر حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ نوجوان توقیر عباس کا المیہ اور اس کے بعد داروغہ کی سازش بے حس معاشرے کے منھ پر طمانچہ ہے ۔ اس سانحہ کے بعد جنگل بیلے کے شجر حجر پہ غم کی گھٹائیں چھا گئی ہیں اور بے چراغ صحرا کا پورا ماحول دھواں دھواں ہے ۔ تھل کے ریگستانوں میں چلنے والے گردبا دا ور بگولے بھی خستہ حالی اور درماندگی کی وجہ سے سہم گئے ہیں ۔ارے یہ تو طوطا اور بالی مینا ہیںجو گرم اُداس فضاؤں کی آنکھوں میں آ نسو دیکھ کریہاں ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پہنچے ہیں۔ اے طائران ِجہاںدیدہ سناؤ کس حال میں ہو اور کس خیال میں ہو؟ پس ماندگان کی نواہائے خونچکاں سُن کر سینۂ ہستی کی نازک رگیں ٹُوٹ رہی ہیں ۔توقیر عباس تو ہم سب کی آرزوئے جان اور جانِ آ رزو تھا۔اُس کے اُٹھ جانے کی خبر سُن کر میرادِل بیٹھ گیا ہے اور زندگی کی سب رُتیں بے ،آہیںبے اثر،زندگیاںمختصر اور آبادیاں پُر خطر ہو گئی ہیں۔ توقیر کی جدائی کے بعد اس عالمِ آب و گِل کی سب رعنائیاں ماند سی پڑ گئی ہیں ہم کچھ نہیں جانتے کہ قشرِ ارض اور گنبد ِ نیلوفری کہاں کھو گئے ہیں ۔سبز باغ، جنگل بیلہ ،سیاہی وال اور چاندنہ کے کینہ پروراور حاسد لوگ تو نظروں سے گِرنے کے بعد اہل ِدردکے ہاتھوں کی لکیروں سے بھی نکل چُکے ہیں۔بشارت حسین وقار کے چاندکو دریا میںڈبونے والے بہت جلد فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ ئیں گے ۔ بشارت حسین وقار کاروانِ حسین ؑ کا آبلہ پامسافر ہے جو بڑی استقامت سے صعوبتوں کے سفر میں ہے وقت کاکوئی شمر اُسے ڈرا نہیں سکتا۔حیف صدحیف کہ اس آفتاب کے دریا میں ڈُوبنے کے سانحہ نے کنارے پر بیٹھے اس کے والد ،والدہ اور چا ربہنوںکی باقی ماندہ زندگی کی سب رُتیں بے ثمر ،گلشن ہستی کی کلیاں شرر،زندگیاں مختصر ،آہیں بے اثر ،رہائشی گھر پُر خطر ،آنگن خوں میں تر ، مخلص احباب خاک بہ سر، نگاہیں بے بصر اور تمنائیں در بہ در کر د ی ہیں ۔بعض کینہ پرور درندوں کی وجہ سے جنگل بیلہ ایک ایسا شہر سنگ دِل بن چکا ہے جس میں ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتا نظر آتا ہے کوئی بھی شخص توقیر عباس کے والدین کی آ نکھوں سے رواں جوئے خون کی طرف دیکھنے کے لیے مر ہم بہ دست نہیں پہنچا ۔پوری فضا سوگوار خاندان کے اشکوں میں نہائی ہوئی ہے جس سے بُت کدہ ٔ آذر پر بھی لرزہ طار ی ہو گیاہے ۔ گاؤں سیاہی وال ،سبز باغ اور جنگل بیلہ کے مکینوں کی بے حسی دیکھی تو میرے ذہن میں منیر نیازی کے یہ اشعارگردش کرنے لگے:
اِس شہرِ سنگ دِل کو جلا دینا چاہیے
پھر اِ س کی خاک کو بھی اُڑ ا دینا چاہیے
مِلتی نہیں پناہ ہمیں جِس زمین پر
اِک حشر اُس زمیں پہ اُٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسمِ قاہری
اِس دہر کو اَب اِس کی سزا دینا چاہیے
اِک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
شاخ پر اُداس بیٹھے طوطے نے ایک فلسفی کے انداز میں تمام گفتگو نہایت توجہ سے سُنی اور کہنے لگا :
’’ مرزا یامین سا حر اپنی عملی زندگی میں تم تو خود گردشِ ایام سے کئی مرتبہ لڑے ہو۔ تمھیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ اساتذہ کے ایک شریف اور وضع دار خاندان کے ایک چشم و چراغ کے ساتھ ہونے والی اس سفاکی میں پورا بے حس معاشرہ شامل ہے جس نے ہوائے جو ر و ستم میں اس خاندان کا ساتھ نہیں دیا ۔ اس خاندان کے افراد پہ جو گزری ہے اُس کے نقوش ان کی پُر نم آنکھوں میں اُتر آ ئے ہیں ۔ توقیر عباس کے نہ ہونے کی ہونی کوہم سب نے دیکھا ہے۔ ہماری آ نکھوں میں جھانک کر دیکھو تو تمھیں صدیوں کے تحیر کی لکیریں اور قسمت کی لکیریں صاف دکھائی دیں گی اور تم سب معاملات کی تہہ تک پہنچ جاؤ گے ۔تم کہاںتک سنو گے اور ہم کہاں تک اپنا حالِ دِل بیان کریں ہمارے دِل میں غم کا جو طوفان پنہاں ہے اس کو لب پر کیسے لائیں ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں خوابوں کی اذیت ناک کہانیوں کے بارے میںکچھ کہنا چاہتا ہوں۔جس دِ ن توقیر عباس کو دریائے جہلم میں دھکا دیا گیااُس سے پہلی رات میںنے ایک عجیب خواب دیکھا تھا۔ایک گہرا دریائی نالہ ہے جس میں پانی تیزی سے شمال سے جنوب کی جانب بہہ رہاہے ۔پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے مغربی جانب کچھ کچے گھروندے ہیںجب کہ مشرق کی سمت سر سبزوشاداب کھیت ہیں۔ اجنبی راہ گیر پگڈنڈیوں اور آبشاروں کو دیکھ کر سہم جاتے اور اپنا راستہ بدل لیتے تھے ۔اِس انتہائی گہرے اور خطر ناک دریائی نالے پر کوئی پُل موجو دنہ تھا۔ صدیو ںپہلے دوبھاری پتھر پہاڑوں سے بہتے ہوئے یہاں آکر جم گئے ۔ہر پتھر کے درمیان چار فٹ کا فاصلہ تھاگویا مجموعی طور پر آ ٹھ فٹ کا فاصلہ تھا جسے دو لمبی لمبی چھلانگیں لگا کر عبور کرنا پڑتاتھا۔اگر کوئی مہم جُو چھلانگ نہ لگا سکے تو وہ نیچے بہتے گہرے پانی میں ا ٓبشار کے مانند جا گرتا اور آبشار کی زد میں آنے والا اچانک غرقاب ہو جاتاتھا۔ پتھروں سے پھسل کر گرنے والے اجل گرفتہ لوگوں کے لیے سنگلاخ چٹانوں اور نو کیلے پتھروں کو بالکل ملال نہیں ہوتاتھا۔ ‘‘
بالی مینا کی آ نکھیں پُر نم ہو گئیں اور اُس کی آ نکھوں سے آبشار کی طرح آنسوگرنے لگے ۔بالی مینا کے آنسو اپنے غم کا فسانہ کسی سے نہیں کہہ رہے تھے مگر دیکھنے والے جانتے تھے کہ توقیر عباس کے دریائے جہلم میں ڈُوب جانے کا سانحہ دیکھنے کے بعد یہ طائر بہت دِل گرفتہ ہے ۔کچھ دیر بعد بالی مینانے کچھ سوچتے ہوئے کہا :
’’ میرے خیال میں یہ ایک ڈراونا خواب نہیں بل کہ تمھارے دِل میں موجود سب صداقتیں اس خواب میں سمٹ آئی ہیں۔ تمھاری تلخ یادیں اس بھیانک خواب میں شامل ہو گئی ہیں۔ایسے خوابوں سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نیند سے بیدار ہو کر زندگی کے تلخ حقائق کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا جائے ۔جو کچھ تم نے دریائے جہلم کے کنارے دیکھا وہ ہر وقت سائے کی طرح تمھارے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور گزرا وقت رات کی تاریکی اور سناٹے میں ہاتھ مَلتاہے ۔جس مقام پر دریاؤں کے آبِ رواں کی طوفانی لہروں کی شاہی ہوتی ہے وہاں نشیبی زمین میں تعمیر کیے گئے کچے گھروندوں کی تباہی نوشتۂ دیوار بن جاتی ہے ۔اگرچہ یہ بہت ڈراونا خواب ہے مگر پتھر کے حوالے سے یاد آیا اس صحرائی علاقے کے کچھ باشندوں پر حرف صداقت بھی پتھر کے مانند گرتاہے ۔ اس تھل میں تو ریت سے مجسمے بنانے کا رواج ہے جہاں پتھر ہی فن کے نشان قرار پائے ہیں ۔ گہرے دریائی نالے کے تیز پانی میں تم نے بھاری پتھر کہاں سے ڈھونڈنکالے ؟۔ پتھرو ںپر نہ چل سکنے کے بعد تم پہ کیا گزری اور اس کے بعدکیا ہوا؟ قحط الرجال کے موجودہ دور میںاس دنیا کے جتنے بھی معیار ہیں سب پتھر ہیں ۔ ہاں یاد آیا ایک خواب میں نے بھی دیکھا ہے کہ ایک راہ گزر پر بے شمار سنپولیے اکٹھے ہو گئے جن کی وجہ سے را ہ گیر پریشان ہیں ۔ایک مرد ِ حق پرست عصا تھامے وہاں پہنچتاہے اور سانپ تلے کے سب بچھو ،آستین کے سانپ اور ناگنیں عصا کو دیکھتے ہی ایک گہرے گڑھے میں جا گرتی ہیں ۔ حُسن و رومان کے سرابوں میں بھٹکنے والے اے میرے رفیقو اور پیارو ! دیوداس کے مانند ناحق جی کا زیان کر کے جان مت مارو ۔ خود غرضی اور حرص و ہوس سے کُچلے ہوئے بے حِس معاشرے میں ہر کوئی اپنی فضامیں مست پھرتاہے یہاں تمھاری آہ و فغان پر کوئی کان دھرنے والا نہیں ۔کواکب جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔ اس لیے فریب نظر سے بچنے کی خاطر لکیرو ںسے نکل جانے والی خواہ وہ لال کنور ،امراؤ جان ،انار کلی ،دلارام ، چندرامُکھی ہو یا پارو سب پہ لائن مارو اور جان بچا کر اپنے گھرکو سُدھارو۔ ‘‘
کچھ عرصہ انسانوں کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے طوطے نے مکر و فریب ،بے وفائی اور محسن کُشی کے سب اندازسیکھ لیے تھے ۔وہ جانتا تھا کہ وہ المیہ جو کچھ لوگوں کے لیے ایک بھیانک خواب ہے وہی سادیت پسند سفہا کے لیے نوید ِ راحت و مسرت ہے ۔جو لوگ اپنی زندگی میںبڑے بڑے خواب دیکھنے کے عادی ہوتے ہیںبعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ سفاک ظلمتوں میں بھیانک خواب دیکھ کر اُن کا دِل دہل جاتا ہے ۔ بولنے والے طوطے نے بھیانک خواب کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا :
’’ پتھروں کی اس بستی کا ماحول دیکھ کر میں لرز اُٹھا جہاں ہر شخص ردائے بے حسی اوڑھ کر کھڑاتھا۔میں نے وہاں دیکھا کہ ایک شخص گہری سوچ میں ڈُوبا، حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال وہاں کھڑا تھا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ اس قدر خطر ناک چھلانگ لگانا اُس کے بس سے باہر ہے ۔ اسی سوچ میں تھاکہ وہ دریائی نالے کی دوسری جانب کیسے پہنچے ۔اچانک اُس نے چار نو جوان لڑکوں کواپنی طرف آتے دیکھا۔لڑکوںنے اُسے پہچان لیا اور اجنبی مسافرکا نام بھی پکارا مگر کچھ دُور کھڑی ان کی ماؤں اور بہنوں نے انھیں آواز دے کر واپس بُلالیا اور کسی پُر اسرار مہم پر روانہ کر دیا۔نوجوان لڑکوں کے چلے جانے کے بعدوہ مسافر بہت پریشان تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ مسافر دریا کے کنارے بر ہنہ پا دوڑتا پھرتاہے اور اپنے بیٹے کو پکارتا ہے ۔ وہ یہ بات دہراتا تھا کہ میںنے اپنے لختِ جگر کے روشن مستقبل کے بارے میںجو عظیم الشان خواب دیکھا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی ۔مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم نہیں ہو سکی مگر مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں کوئی چڑیل یاڈائن میرے چاندکو گہنا نہ دے ۔ کیا عجب کہ وہ سچائیاں جو سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی بھینٹ چڑھ گئیں کسی روز وہ سامنے آ جائیں۔ کبھی کبھی تو یہ سوچ میرے لیے سوہانِ رو ح بن جاتی ہے کہ زندگی کے سب تلخ حقائق فرسودہ تصورات پر مبنی ہیں جب کہ اکثر خواب صداقتوں کے امین ثابت ہوتے ہیں۔ ‘ ‘
مابعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی پر مبنی تصورات کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ فکر وخیال کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں جب کہ آزمائش اور ابتلا کی گھڑیوں میں دیکھے جانے والے خواب راحت اور سکون کی نوید لاتے ہیں اور اتحاد کا درس دیتے ہیں۔ زندگی کے تلخ حقائق کی فضا میں پرواز کرنے والی بالی مینا بھی خوابوں کی رسیا تھی۔ اپنے ہم نوا طیور سے وہ اکثر یہی کہتی تھی کہ خواب طلسم ہوش رُبانہیں بل کہ آہوں اور آ نسوؤں کے معدن کے ایسے لعل و جواہر ہیں جن کی تابانی کبھی کم نہیں ہو سکتی۔اس خواب کے بارے میں بالی مینا نے کہا :
’’ ہمارا مشاہدہ ہے کہ زندگی ایک معمول کے مانند گزرتی رہتی ہے اس دوران میں بعض رفیق دِل میں اس طرح بس جاتے ہیں کہ محسوس تک نہیں ہوتا مگر جب یہی دیرینہ ساتھ دائمی مفارت دے جاتے ہیں تو زندگی بھاری لگتی ہے ۔ دنیاوی معاملات کے بارے میںہمارے اندیشے ،تفکرات اور لا شعوری یاس و ہراس جب حد سے بڑھ جائیں تو یہ رات کو بھیانک خوابوں کی صورت میں ہمیں دبوچ لیتے ہیں۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گر دانی کرنے والے جانتے ہیں کہ بیتے لمحات دراصل آج کی یادوں کا مخزن ہیں اور آج ہم جو کچھ سوچتے ہیں وہ آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر اور پر شکوہ مستقبل کے بارے میں ایک خواب ہی تو ہے ۔ ایک عظیم خواب اپنی نوعیت کے لحاظ سے کئی بار مسلمہ حقائق سے بھی بازی لے جاتاہے ۔ جس شخص کا تذکرہ خواب میں کیا گیاہے اُس نے اپنی رو ح اور قلب کی غواصی کرکے جو خواب دیکھا ہے وہی اُس کی پہچان بنے گا۔ قدرت کاملہ کی طرف سے اُس شخص کوایسی جرأت اور استعدادسے متمتع کیا گیا ہے کہ اُس نے جو خواب دیکھا ہے اُسے حقیقت میں بدل دے ۔ خوابوں کی خیاباں سازیو ں کا معاملہ بھی عجیب ہے اپنی اصلیت کے اعتبار سے خواب ایک خوردبین کے مانندہیں جو رو ح اور قلب کی گہرائیوں میں پنہاں خرد کی گتھیوں کو واضح کر دیتے ہیں۔ یہ خواب تو پتھر کے زمانے کے ماحول کی یاددلاتاہے ۔میرا گمان ہے کہ وہ شخص جو سنگ دِل لوگوں کے نرغے میں آ گیا تھاوہ ہم نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے ۔ کاش الم نصیب جگر فگار جلدخواب سے بیدار ہوں اور موذی ومکار درندوںکا قلع قمع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ روشن مستقبل کے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرناچاہیے۔ ‘‘
دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر واقع جنگل بیلہ ،سیاہی وال ،سبز باغ اور چاندنہ کے سائیں سائیں کرتے آسیب زدہ ریگستان میںجنڈ ،پیلوں ،لانی اور کریروں کا گھنا جنگل ہے جہاں ظاہر ہے جنگل کا قانون نافذ ہے ۔جفاکش گلہ بان اور شتربا ن بھی اس علاقے میں جانے سے گریز کرتے ہیں ۔شتربانوں کے قافلے جب اس پُر اسرار جگہ سے گزرتے ہیں تو سب اونٹ خوف کے مارے بغبغانہ شروع کر دیتے ہیں۔صحرا میں پرانے زمانے کے کھنڈرات ہیںیہاں جنڈ،پیلوں ،کریریں ،اکڑا ،پوہلی ،لیدھا ،ہرمل ،حنظل،دھتورا ،جوانہہ اور دھمانہہ کثر ت سے پائے جاتے ہیں۔ اسی جگہ سانپ ،بچھو ،کنڈیالے چوہے ،خا ر پُشت اور اژدہا بھی دیکھے گئے ہیں ۔کھنڈر کے جنوب میں جنڈ کے ایک سوکھے ہوئے درخت کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ درخت گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق ہے ۔اسی آسیب زدہ جنڈ کے نیچے ایک گہرے غار میں،گنوار انتھک ، رمجانی، تیامت ،تسرینہ ،تفسہہ اور مصبہا بنو کے وضیع خاندان کے مورث ادنیٰ بہرام ٹھگ کا بسیرا تھا جہاں اب بڑی تعدا دمیں چمگادڑ، کن کھجورے ، چھپکلیاں،سنپولیے ،کاکروچ ،چھچھوندراور بچھو روشنی سے آ نکھیں چُرا کر اندھیروں سے پیمان ِ وفا باندھتے ہیں۔کھنڈرات کی چوٹیوں پر چُغد ،کرگس،زاغ و زغن اور شکرے بیٹھے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے والوں کی نوحہ خوانی کرتے تھے۔ کئی اُلّو اور اُلّو کے پٹھے شام کے بعد نواحی بستیوں کے بے چراغ گھروں سے نکلتے اور ان کھنڈرات میں منشیات،جنس و جنوں اور لُوٹ مار کے افسانوں میں کھوجاتے تھے۔
ممتاز ماہر تعلیم بشارت حسین وقار کے شیر کو جِن شکھنڈی گیدڑوں ،لومڑیوں ،چمگادڑوں،جنگلی بلیوں اور زاغ وزغن نے اپنے مکر کی چالو ںسے دریائے جہلم کی طوفانی لہروں میں دھکا دیا،ان سادیت پسندموذیوں کو دیکھ کر باؤلے سگ بھی دُم دباکر بھاگ نکلتے تھے ۔ فرطِ غم سے نڈھال طوطے اور بالی مینا کے راز ونیاز کے مکالمے وقفے وقفے سے ٹُوٹ ٹُوٹ جاتے تھے ۔اسی اثنا میں ایک خزاں دیدہ اور ویراں برباد چُغداپنے عفونت زدہ بِکھرے ہوئے پر جھاڑتا ہوا وہاں آ پہنچا۔اس بوڑھے چغد کے ساتھ جو طائرانِ بد نوا تھے اُن میں کرگس، شکرے،چمگادڑ اور زاغ و زغن شامل تھے ۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ یہ بوڑھا چغدان سب طیور ِ آوارہ و ناکارہ کا مہا گرو ہے ۔ دریا کے کنارے واقع صحرا میں بن بلائے طیور کی آمد سے نیل کنٹھ ، بالی مینا اور طوطا متوجہ ہوئے ۔ اکثر طیور کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ قدرت ِ کاملہ کی طر ف سے انھیں ایسی پُر اسرار فطری صلاحیت سے نواز گیا ہے کہ یہ آنے والے دور کے حادثات کی دھندلی سی اک تصویر پہلے ہی دیکھ لیتے ہیں۔ صورت ِ حال دیکھ کر بوڑھے چغد نے اپنے گرد آ لود پر جھاڑے ، دُم ہلائی ،منحوس آ نکھیں گُھمائیں اور اپنی ٹیڑھی چونچ کو اپنے پنجوں سے صاف کرتے ہوئے بولا:
’’ ویرانوں ،کھنڈرات اور جنگلات میں رہنے والے ہم مجبور طیور پر نحوست کی ناحق تہمت لگی ہوئی ہے ۔ جنگل بیلے کے نواح میں مقیم خانہ بدوش لڑکیوں نے اپنے حُسن و جمال سے علاقے کے نوجوان کو اس قدرلُوٹاہے کہ وہ اب دیوداس کی طرح نشاط کی جستجو میں مے نوشی کے عادی بن گئے ہیں اور چنڈوخانوں میں دولت لُٹا دیتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب ماندنہ ،چاندنہ، سبز باغ،سیاہی وال اور جنگل بیلہ جیسی بستیوں سے عناد ل نے کُو چ کر لیا ہے تو کیا وہاں کے باشندے ہم جیسے طیور ناکارہ کے رحم و کرم پر ہیں ۔ سولہ دسمبر 2014ء کو پشاور کے ایک پبلک سکول میںایک سو پچاس انسانی جانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے کون تھے ؟ وہ شقی القلب درندے جنھوں نے توقیر عباس کو دریائے جہلم کے گہرے پانیوں میں دھکا دیا وہ سب وضیع اسی بے حس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نو جنوری 2022ء کو ملکہ کوہسار مری میں ہمارے قبیلے والوں نے کاروں کو تابوت میں بدل کر سیاحوں کو برف کا کفن پہنا دیا۔ معصوم انسانوں کے درپئے آزاررہنے والے دراصل خود اپنی ہی تخریب کر ر ہے ہیں اور اِن آدم خوروں کی نحوست کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ۔جن درندوں کی سفاکی کے نتیجے میں بے بس انسانوں پر کوہِ ستم ٹُوٹتا ہے اُن کا ٹھکانہ ہاویہ ہی ہے ۔ اکثر خواب سچے نہیں ہوتے مگر بھیانک خواب اس لیے ہمارا تعاقب کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے سچ بن جانے کا اندیشہ ہوتاہے ۔جب سے میں نے عید الفطر کے موقع پر جنگل بیلہ میں لرزہ خیز سانحہ دیکھا ہے میری نیندیں اُڑ گئی ہیں اور میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ کارِ جہاں اور زندگی محض خیال و خواب ہے ۔ ‘ ‘
جنگل بیلہ ،ماندنہ اور سیاہی وال کے اُس آسیب زدہ علاقے میں جہاں تفسہہ ،مصبہا بنو ،شگن ،سمن ، تیامت اورتسرینہ کا ٹھکانہ تھا وہاں بڑ ی تعداد میںچھچھوندروں ،چھپکلیوں اور سانپوں کا بسیرا تھا۔ان کے ساتھ چھچھوندر، گرگٹ ،سانڈے ،بچھواور کاکروچ بھی رہتے تھے ۔ اس پُراسرار بستی کی گلیوں اور گھروندوں پر برساتی سیلن اور متعفن نمی کے باعث وہاں سے گزرنا محال تھا۔مئی کا مہینا آیا تو کسی ان جانے خوف کے باعث یہ سب رینگتے ہوئے دریا کے کنارے اُگی خود رو گھنی خاردار جھاڑیوں میں پہنچے ۔گرگٹ نے سنگِ راہ کے نیچے چُھپے چھچھوندر اور طفیلی مخلوق کو دیکھا تو اُس نے فوراً اپنا رنگ بدل لیااور کہا:
’’ اس صحرا میں ایسے سازشی غدار اور کینہ پرور حاسد روپوش ہیں جو اعدا سے کہیں بڑھ کر تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔یہاں کے باشندے اس قدرعیار ہین کہ جس کو چاہیں اور جب چاہیں اُسے اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں۔ان ظالموںکے جال میں پھنسنے والے اپنی جان بچانے کے لیے اِن کے آ لۂ کار بن جاتے ہیں۔ اس قماش کے ٖداروں کے کریہہ چہرے سے جلد از جلد نقاب اُٹھا نا اس لیے بے حد ضروری ہے تا کہ سادہ لوح لوگ ان کی ایذا رسانی سے محفوظ رہیں ۔اس سال مئی کا مہینا آتے ہی اس پُر اسرار جنگل بیلے میں ہم نے کئی بد شگونیاں دیکھی ہیں۔چڑیلوں ،ڈائنوں اور آدم خوروں کی نحوست،ذلت اور تخریب کی وجہ سے ہر طرف ویرانی کا راج ہے ۔تیامت اور تسرینہ کے بد بختانہ طرزِ عمل کی وجہ سے بہت سی خود رو جڑی بُوٹیاں سُوکھ گئی ہیں۔وہ صحرا جہاں جنگلی پودینہ ،کھمبیاں،پیلکاں،چِبھڑ،الونک ،اکروڑی ،تاندلہ ،کاسنی اور باتھوکی فراوانی ہوتی تھی اب وہاں ہر طرف دُھول اُڑتی ہے ۔ سیاہی وال کی نائکہ تفسہہ،رذیل طوائف مصبہا بنو،سبز باغ کی طوائفوں سمن اور شگن اورجنگل بیلے کی تسرینہ اور اُس کی ماں تو میسوپوٹیمیا کی سمندری بلا تیامت کی پرستار ہیں ۔ ان چڑیلوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں آئینہ دکھایا جائے ۔ان کے چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں مقیم حشرات الارض سے نجات حاصل کرنے کے لیے حق گوئی کاسپرے ضروری ہے ۔جنگل بیلے کے ظالم و سفاک مکینوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ بُور لدے چھتناراور اثمار و اشجار کے کٹ جانے سے بہار کی آمد کو روکنا بعید از قیاس ہے ۔ فصلِ خزاں میں ٹُنڈ مُنڈ درخت کے نیچے بیٹھ کر دم لینے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ دِن دُور نہیں جب ان درختوں پر پھر سے پھول کھلیں گے ۔ اپنی منزل سے آشنا کِشتِ جاں میںانگور اُگانے والے جانتے ہیں کہ ان کی محنت رنگ لائے گی اور اس جگہ اب حنظل اور زقوم کبھی نہیںاُگیں گے ۔ ‘ ‘
دریا کے کنارے خود رو کریروں کے جُھنڈ میں چُھیکچھ سانڈے جو دشت کی طویل مسافت طے کر کے یہاں پہنچے تھے وہ یہ دیکھ کر مایوس ہو گئے کہ کریروں کی سوکھی شاخوں پر ڈیہلوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ایک جہاں دیدہ سانڈا جو اپنی کراہت و نحوست کی وجہ سے سانڈوں کا سرغنہ دکھائی دیتاتھاکہنے لگا:
’’ حرص و ہوس اور جنس و جنوںمیں شگن ،سمن ، تیامت ،تسرینہ ،تفسہہ اور مصبہا بنوکا ایذا رسانی میں کوئی ثانی نہیں ۔ یہ فربہ بھیگی بلیاں اور عفونت زدہ پانی میں لتھڑی بڑی بڑی موٹی مرغیاںاس قدر قابلِ نفرت ہیں کہ اِن کی پھیلائی ہوئی نفرت اور منافقت کاکوئی تریاق ہیں نہیں ۔اپنی نجی ، معاشرتی اور پوشیدہ زندگی کی تاریکیوں میں پلنے والی یہ چڑیلیں جو کالی دیوی کی پُوجا کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ یہ سیفو اور ورجینا وولف سے بہت متاثر ہیں ۔ وقت کی نزاکت کا احسا س انھیں اس وقت ہو گاجب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا ہو گا۔کالا دھن کمانے والے سب لُچے اور ٹُچے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی اِن رذیل طوائفوں کے ہم نوا بن گئے ہیں۔ پُر خلوص چاہت اور دولت کی مبارزت میں یہ ہوس پرست سدادولت کی طرف لپکتی ہیں ۔ ذلتوں ،رسوائیوں اور حقارتوں کی روندی ہوئی یہ طوائفیں اپنے کریہہ چہرے پر لیپا پوتی کر کے نکلتی ہیں اورسادہ لوح لوگوں کولُوٹ لیتی ہیں ۔ ان چڑیلوں کی کرگسی آ نکھوں سے سفاکی،نحوست اور جنسی جنون کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ اپنے شکارکو نوچنے کی خاطر ان ڈائنوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی کریہہ اُنگلیوں اور انگوٹھوں کے ناخن بڑھا رکھے ہیں ۔انھیں دیکھتے ہی لوگ لاحول پڑھتے ہیں اور کسی کھٹ پٹ میں پڑنے کے بجائے جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کرتے ہیں۔اگر یہ چڑیلیںکسی کا راستہ کاٹ لیں تو اُس کی تباہی یقینی ہو جاتی ہے ،عفونت زدہ گندی نالیو ںمیں پلنے والی اور خود ستائی کی عادی ان ڈائنوں نے ہم بے ضرر سانڈوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔سانڈوں کو پکڑ کر ان کو مار ڈالنا اور ان سانڈوں کی چربی کے تیل سے مساج کر کے لطف اندوز ہونا ان چڑیلوں کا معمول ہے ۔ ان چڑیلوں کی منحوس بقا نے ہماری زندگی خطرے میںڈال دی ہے ۔ ‘ ‘
چمگاڈر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ تباہیوں کے بارے میں خوابوں کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ایسے تہلکہ خیزخواب انھیں سورج کی ضیا پاشیوں سے بچاتے ہیں ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے انسان کی نیند اُڑا دیتے ہیں اور وہ خواب سے نکل کر حقائق کی دنیا میں پہنچنے پر توجہ دینے لگتاہے ۔ تاریخ کے سانحات کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ یہ بھی بھیانک خوابوں کے مانندہیں جو زندگی بھر کے لیے انسان کے اعصاب پر سوار ہو جاتے ہیں اور صبر و سکون کو غارت کر دیتے ہیں۔خونخوار جنگلی درندے بھی اس بیلے کے ظالم ،بے غیرت اور بے ضمیر باشندوں سے مات کھا گئے تھے ۔ دِن کی روشنی میں گھوڑے بیچ کرسونے اور خواب دیکھنے کے عادی چمگادڑ نے سانڈے کی باتیں توجہ سے سُنیں ۔روشنی کو دیکھ کر یاس و ہراس کا شکار ہوجانے والے چمگادڑ نے گھبرا کر کہا:
’’کالی دیوی کی پرستش کرنے والے درندوں کے ستم اور خزاں کے سیکڑوں مناظر میں کوئی فرق نہیں۔ اس تلخ حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرناچاہیے کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے کبھی تیزی سے گزر نہیں جاتے بل کہ یہ تو ایک دائرے کی صورت میں سدا رواں دواں رہتے ہیں ۔جس طرح سیاہی وال میں تفسہہ اور مصبہا بنو ،سبز باغ میں شگن اور سمن نے دُکھی انسانیت کی زندگی کی سب رُتیں بے ثمر کر دیں اُسی طرح ماندنہ،چاندنہ، جنگل بیلے میں تیامت اور تسرینہ نے بے بس انسانوں کی زندگی کی شمع بُجھا دی ۔جنگل بیلے ،ماندنہ اور سیاہی وال کی آدم خور چڑیلیں غضب ہی ہوتی ہیں جو اپنے شکار کی آ نکھیں پھوڑ اور گردن مروڑکر نوچ کر کھا جاتی ہیں ۔ جنگل بیلے کی اس آسیب زدہ بستی کے نواحی صحرا میں اکڑے کے پھول بھی سُوکھنے لگے ہیں ،پیلوں کے درختوں سے کچا پھل جھڑنے لگاہے ،حنظل کی کڑواہٹ سے قدر بڑھ گئی ہے کہ اونٹ بھی اُس کی طرف آ نکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے،جنگلی پھول اور خود رو جڑی بُوٹیاں مُرجھانے لگی ہیں ۔یہ سب شگون اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ نا پرساں کی اس بستی میںذلت ،تخریب ،نحوست ،بے برکتی ،بے ضمیری ،بے حسی اور بے غیرتی اپنی انتہا کو پہنچ چُکی ہے ۔ میرا گمان ہے کہ اس پر اسرارجنگل بیلے کے کچھ درندے اپنی پہلی زندگی میں چھپکلی،ناگ،بچھو ،کرگس،زاغ ،زغن، چمگادڑ اور کچھ چُغد تھے ۔ گُرگ آشتی اس بستی کے منحوس بدطینت ، اخلاقیات سے عاری اور شقی القب مکینوں کی پہچان ہے اور یہاں کے موذی و مکار مکینوں کے جسم میں ایک درندہ پنہاں ہے ۔یہاں ایسے بھیڑیے کثرت سے ملتے ہیں جنھوںنے بھیڑ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ گرگ آشتی کو وتیرہ بنانے والے اِن خون آشام بھیڑیوں کا خون سفید ہو چکاہے اور یہ اپنے عزیزوں کو بھی معافنہیں کرتے ۔یہاں کے زہریلے عقرب اپنے اقربا کو ڈس لیتے ہیں۔یہاں ایسے کالے ناگ پائے جاتے ہیں جو معصوم بچوں کو کاٹ کھاتے ہیں اور پھر اُنھیں دریا بُرد کر دیتے ہیں ۔ سفاک احمقوں کے قلعۂ فراموشی میں مقیم ان درندوں کو یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے بے بس انسانوں کو جس بھیانک خواب سے دوچار کر دیا ہے وہ دِن دُور نہیں جب اُن کا بھی ایسے بھیانک خوابوں سے واسطہ پڑ سکتاہے ۔ جنگل بیلہ کے یہ مکین اپنی جگہ خود ایک ایسا بھیانک خواب ہیں جو فطرت کی تعزیروں کی زد میں آنے کے بعد کسی وقت بھی بکھر سکتاہے ۔ جنگل بیلے میں آدم خور درندوں ،ڈائنوں اور چڑیلوں کی کثرت ہے اس لیے اس آسیب زدہ بستی کے در دیوار پر ذلت،نحوست ،تخریب ،نجاست،خِست و خجالت ،بے بر کتی ،بے توفیقی ،بے غیرتی ،بے ضمیری ،بے ایمانی ،بے لحاظی،بے شرمی اور بے حیائی کے کتبے آویزاں ہیں۔یہاں کے بے حِس لوگوں کی کور چشمی کا احوال سُن کر تو بصارت سے محروم چمگادڑ بھی سکتے کے عالم میں ہیں ۔ہم بے بال و پر ہوتے ہوئے بھی اپنی جلد پر بھروساکرتے ہوئے رات کی تاریکی میں کُھلی فضا میں لمبی اُڑان بھرتے پھرتے ہیں جب کہ جنگل بیلے کے مکین کنویں کے مینڈک بن چکے ہیں۔اس پس ماندہ علاقے میں جہالت نے ایک مہلک ہتھیا رکی صورت اختیار کر لی ہے ۔یہاں ایسے کو ر مغز،بے بصر اور سفلہ شکاری رہتے ہیں جو اپنے مہمانوں اور قریبی عزیزوں پر تیر انداز ی کر کے اُن کا خون پی جاتے ۔ان کی سفاکی کے نتیجے میں جذباتی اور جسمانی صدموں سے نڈھال بے بس انسانوں کی آرزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں۔ اَجل کے بے رحم ہاتھوں کو مزیدکسی سفاکی کی احتیاج ہی نہیں ایک بے بس نوجوان کو دریا کی طوفانی لہروں میں دھکا دینے سے بڑی بے دردی اور ظلم کیا ہو سکتاہے ؟ ‘‘
ایک مُردار خور کرگس جس کے پنجوں میں کسی مرے ہوئے جانور کے استخواں تھے یہ سب باتیں بڑی توجہ سے سُن رہا تھا۔وہ جانتاتھا کہ کسی جان دار کی مرگ نا گہانی اپنی جگہ ایک بڑا صدمہ ہے مگریہ دائمی مفارقت پس ماندگان کے لیے یہ صدمہ ایک لرزہ خیز،اعصاب شکن اور خو ف ناک سانحہ ہے ۔ کرگس نے خون میں لتھڑے اپنے بد وضع پر پھیلا کر کہا:
’’ دریائے جہلم کے کناروں پر واقع ماندنہ ،جنگل بیلہ ،موچیوال ،ساہجھو وال اور سیاہی وال کے دیہاتوں کے نواحی جوہڑوں میں ایسے جہاں دیدہ ضعیف کچھوے پائے جاتے ہیں جن کی نگاہ میں شان سکندری آج بھی بسی ہوئی ہے۔اس علاقے کے مگر مچھ اپنے شکار کونگلنے کے بعدجب آ نسو بہاتے ہیں تو دیکھنے والے بھی تڑپ اُٹھتے ہیں۔ دریائے جہلم میں سیلاب سے قبل طیور آوارہ نے اپنے آشیاں اس علاقے سے اُٹھا لیے تھے۔گلہ بان اور چرواہے جو مویشیوں کی حرکات سے آنے و الے خطرات کا بھانپ لیتے ہیںاُن کا کہنا تھاکہ اس علاقے کی زمین جو دِل کے مانند دھڑک ہے یہ مستقبل قریب میں رُو نما ہونے والے کسی الم ناک سانحے کی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ بھیڑ ،بکریاں ،گائیں ،بھینسیں ،بیل اور اونٹ اِس جنگل بیلے سے دُور بھاگنے لگے تھے۔ ہم سب کرگس جنگل بیلہ میں اپنے قبیلے کے افراد سے ملاقات کر کے یہاں پہنچے ہیں ۔ باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے بزرگوں کا مشکوک نسب کے ان سفہا اور اجلاف و ارذال کے بارے میں کا کہنا ہے کہ شقاوت اور بے حسی میں یہ اپناثانی نہیں رکھتے اور جنگلی درندوں کی سفاکی بھی جنگل بیلے کے مکینوں کے سامنے ہیچ ہے ۔اکثر لوگ انھیں کرگس زادے کہنے پر مُصر ہیں مگر ہم اس فرضی تعلق پر دُکھی ہیں ۔ہمار ی اولاد تو صرف مُردار کھاتی ہے لیکن یہ درندے تو بھوتوں ،چڑیلوں ،ڈائنوں اور آسیب کے مانند زندہ انسانوں کا خون پی جاتے ہیں ۔ جنگلی درندے تو اپنی بھوک مٹانے کے لیے زندہ جان داروں کو ہلاک کرتے ہیں مگر جنگل بیلے کے مکین جنس و جنوں اور زرومال کی ہوس میں بے گناہ انسانوں کی زندگی کی مشعل بجھا دیتے ہیں۔توقیر عباس کے ساتھ فریب کرنے والے موذی،مکار اور آدم خور درندے فطرت کی سخت تعزیروں اور اٹل حقیقت سے غافل نہ رہیں کہ مظلوم کا خون ِ ناحق اس قدرطاقت رکھتاہے جو ضرور رنگ لاتاہے اور کبھی رائیگاں نہیں جاتا ۔ یہ ایسے بزدل شکھنڈی استر ہیں جنھوںنے ایک نہتے بچے کی زندگی کی شمع بجھا دی اور ہنہناتے ہوئے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے ۔ یہ آستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے محسن کُش جب کوہِ ندا کی صدا سُن کر ساتواں در کھول کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھاریں گے تو دخمہ میں ہجوم کرگساں ان ننگ ِ انسانیت درندوں کے عفونت زدہ اجسام پراپنی چونچوں کے وار کر نے کے لیے تیار ہو گا۔‘‘
جنڈ کے سُوکھے درخت پر بیٹھی چِیل کی چونچ خون سے آلودہ تھی ۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے تک کسی مردہ جانور کا گوشت اورڈھانچہ نوچ کر کھاتی رہی ہے ۔اپنے ایک پنجے سے اپنے عفونت زدہ پر کُھجاتے ہوئے چیل نے اپنے ساتھی پرندو ںسے کہا:
’’ کاش اس علاقے کے لوگ اپنی جہالت کے افلاس اور والدینی سڑاند کو دُور کرنے کے لیے حصولِ علم پر توجہ مرکوزکریں ۔ جنگل بیلے کے مکینوں کے لیے پیمان ِ وفا ،مہمان نواز ی،رشتہ و پیوند سب کچھ چیتھڑے کی حیثیت رکھتاہے ۔مردار خور طیور کو منحوس کہنے والے خود اپنی تخریب میں جی کا زیاں کرتے ہیں ۔مردہ جان دارو ں کے اجسام کو نوچنا اور کھدیڑنابھی جنسی جنون کے مانند ہے ۔ طیورِ آوارہ و ناکارہ سب سے پہلے توپیٹ کا دوزخ بھرنے کی غرض سے ایسا کرتے ہیں ۔اس کے بعد اپنے بچوں کی خوراک اس میںسے تلاش کرتے ہیں ۔جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے وہ حرص و ہوس اور کینہ کا شکار ہو کر اپنے ابنائے جنس کا خون پینے پر تُل جاتے ہیں۔مظلوموں کی کہانی باقی رہتی ہے جب کہ ظالم و سفاک درندوں کا نام و نشا ںتک مٹ جاتاہے۔دریائے جہلم کے کنارے توقیر عباس کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر علاقے کی پوری فضا سوگوارہے ۔ کالی دیوی کے زیر اثر ظلمتوں کے بے رحم پجاریوں نے بشارت حسین وقار کے خورشید کودریا میں ڈبونے کی جوظالمانہ سازش کی ہر عہد کا مورخ اس درندگی کی مذمت کر ے گا۔ اس دِل دہلا دینے والے سانحہ کو احاطہ ٔ تحریر میں لانا اس عہد کے اہلِ قلم کی ذمہ داری ہے ۔‘‘
صحر امیں ، کھجوروں ،کریروں ، بیری اور پیلوں کے سُوکھے اشجارکو دیکھ کر گمان گزرتا تھا کہ کوئی آدم خور یہاں سے گزرا ہے ۔کریروں کی جواں سال شاخوں پر ڈیہلوں کے بُندے سُوکھ گئے تھے ،بیری کے درخت پر لگے بیر بھی پت جھڑ کی مسموم ہوا کے باعث گرنے لگے تھے ،کھجور کے درخت پر تلیر اور کوئل کی آواز بھی درد میں ڈُوب گئی ،بگلے ،مرغابیاں ،بطخیں،شکر خورے نقل اُتارنے والے پرندے ،اور ماہی خور طیور یہاں سے غائب ہو گئے ۔ جانگسل تنہائیوں کے باعث ہر طرف ہُو کا عالم تھا ۔ ضعفِ پیری سے نڈھال چُغد کچھ دیر منقار زیرِ پر رہا اس کے بعد اُس نے اپنی نظریں گھمائیں اور وہاں موجود اپنے ہم راز طیور سے مخاطب ہو کر بولا ـ:
’’ اس صحرا میں زمانے کے عجیب رنگ دیکھے جا سکتے ہیں جس طرف نظر دوڑاؤ درندوں کی فراوانی ہے ۔جنگل بیلے میںاکیلے رہنے والی تیامت اور اس کی بیٹی تسرینہ خود فریبی اور سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جنسی جنون کی تسکین کے لیے تسرینہ کو تو صرف راسپوٹین کی تلاش ہے اس لیے کوئی نوجوان اس کی نظروں میںجچتا ہی نہیں ۔تسرینہ اور تیامت کے جورو ستم کے سوتے حرص و ہوس اور جنسی جنون سے پھوٹتے ہیں۔اگرچہ ان کے حُسن وشباب کا چمن سیکڑوں مرتبہ لُوٹا جا چُکا ہے مگر ان کی جنسی تشنگی کی تسکین کے امکانات کم کم ہیں ۔جنگل بیلے میں آج بھی پتھر کے زمانے کا ماحول ہے یہاں کے باشندوںکی غربت، سفاکی ، شقاوت اور بے حسی کی کوکھ سے سنگین جرائم جنم لیتے ہیں۔وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے اس صحرا میں جنگل کا قانو ن پوری قوت سے نافذ ہے اور پورے علاقے میں اس کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ کالی دیوی سے عقیدت رکھنے وا لی مصبہا بنو ،تفسہہ ، تسرینہ اور تیامت سے نجات حاصل کرنے کے لیے باتوں کے بجائے لاتوں کی ضرورت ہے ۔ توقیر عباس کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ محض ایک بے بس نوجوا ن کا مسئلہ ہر گز نہیں بل کہ اپنے خاندان کے افراد کی شہ پر مصبہا بنو ،تفسہ،تسرینہ اور تیامت نے تو پوری انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے ۔ قتل و غارت ،قزاقی ،چوری ،ڈکیتی اور ٹھگی سے ان درندوں نے اس قدر زر و مال جمع کر لیا ہے کہ اب یہ کسی اخلاقی معیار کی پروا ہی نہیں کرتے ۔دُکھی انسانیت پر ان سفاک ٹھگوں کی وجہ سے جو کوہِ سِتم ٹُوٹاہے اُس کے مسموم اثرات اہلِ درد صدیوں تک یاد رکھیںگے ۔ ‘‘
کشتگانِ غمزۂ ساحل کی آنکھوں سے جوئے خوں روا ں تھی ۔وہ ہاتھ ملتے ہوئے دامن جھاڑ کر دریائے جہلم کے کنارے سے بے نیلِ مرام ایسے اُٹھے جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتاہے ۔ اُن کے لبوں پر یہی فریاد تھی اب اہلِ طوفاں ہی یہاں من مانی کریں گے ۔ ابد کی منزل کے مسافروں کے بے خواب دھڑکنو ں کی دھمک کو ماند پڑتے زمانوں کے حوالے کر کے جانے والوں کی نئی منزلوں کا آشنا اور کو ہ ندا اور کوہ ِ کاف کی وسعتوںاور مقاماتِ طیور کا رمز آشنا سیمرغ جوکافی دیر سے طیور و حشرات کی گفتگو سُن رہا تھاکہنے لگا:
’’ دلِ بینا رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پر اسرار ویرانے کاالمیہ یہ ہے کہ جنگل بیلے ،سیاہی وال ،چاندنہ ،ماندنہ ،کانڈی وال اور اکڑیاں والا کے صحراؤں میں تفسہہ ،مصبہا بنو ،تسرینہ اور تیامت کے آسیب کے باعث یہاں کی اکثر ہوس پرست دوشیزائیں تباہیوں اور رُوسیاہیوں کے ملال سے بے خبر ہارون الرشید کے عہد کی عباسہ کے مانند موقع مِلتے ہی کسی نہ کسی قسمت سے محروم جعفر برمکی سے پیمانِ وفا باندھ لیتی ہیں ۔ اس آسیب زدہ ریگستان کے نوجوانوں کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ وہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے شیدائی ہیں اوراپنے ضعیف والد کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جواورنگ زیب نے اپنے والد شا ہ جہان کے ساتھ کیاتھا۔ اس صحرا میں مقیم والدین وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے والی نو جوان دو شیزاؤں کے ساتھ وہی روّیہ رکھتے ہیںجواورنگ زیب نے اپنی بیٹی زیب النسا مخفی کے ساتھ روا رکھا تھا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے نظریات اور تصورات کو خس و خاشاک کے مانندبہالے جاتے ہیں مگرفیضانِ نظرکا کمال یہ ہے کہ اس کے اعجازسے اسماعیل ؑکو آدابِ فرزندی نصیب ہوتے ہیں ۔توقیر عباس کے والدین کو یقین ہے کہ غم کی شام بہت جلد بکھر جائے گی اور رنج و کرب کی یہ سب صورتیں تاریخ ابلق ِایام کے سُموں کی گردمیں اوجھل ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں گی۔ جنگل بیلے کے نواح میں واقع بے آب و گیاہ صحر کے ریتلے ٹیلے مایوس لوٹنے والے سوگوار خاندان کے قدموں کے نشان دیکھ کر پشیمان ہو ں گے ۔ توقیر عباس کے جگر فگار والدین اور اُن کے آبلہ پا غم گساروںکا یہ کاراںایسی اَن جان مسافت پر چل پڑا ہے جہاں کی ہر راہ پُر خار ہے ۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ آہ !جس مقام پر ذوق نظارہ کی فراوانی کی وجہ سے کیف و مستی کی محفلیں رنگ پر آ جاتی ہیںاس کے بعد ہونی یہ رنگ دکھاتی ہے کہ اُسی مقام پرماتمِ یک شہر نگاراں کا لرزہ خیز عالم دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتاہے ۔ جنگل بیلے ،ساجھوال ، سبز باغ ،سیاہی وال اور تریموں کے نواحی صحرا میں صدیوں سے نسل در نسل اُن آدم خور درندوں کا بسیرا ہے جنھوں نے اس علاقے کے بے بس انسانوںکی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ سیاہی وال ، مستریاں والی بستی ،سبز باغ اور جنگل بیلے کی گھنی خاردارجھاڑیوں میں رہنے والی کاتک کی کتیاؤں کے بارے میں ایک حکایت میں نے اپنے بزرگ طیور سے سُنی ہے۔دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر واقع خاردا رجھاڑیوں کے ایک جنگل میں ایک شیرنی اپنے دو بچوں کو کر دریا سے پانی پلا رہی تھی ۔کچھ دُور جنگل بیلے سے آنے والی ایک کاتک کی کتیا اپنے گیارہ بچوں کو ساتھ لے کر وہاں پہنچی اور بڑے غرور سے غراتے ہوئے سامنے کھڑی شیرنی سے کہا :
’’ اونہہ ! تمھارے صرف دو بچے ہیں ؟ ذرا میری طرف اور میرے گیارہ بچوں کی طرف دھیان دو تمھاری آ نکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جائیں گی۔تم ایک سال میںصر ف دو بچوں کو جنم دیتی ہو جب کہ میں اور میری ساتھی کاتک کی کتیائیں جو بچے پیدا کرتی ہیں اُن کی تعدادکم از کم گیارہ ہوتی ہے ۔ تمھارے صرف دو بچے ہیں جو تمھاری روح اور قلب کی تنہائیوں کا مداوا نہیں کر سکتے۔تم محض ایک شیر کو مرکز نگاہ بنا لیتی ہو مگر میں کاتک کی کتیا ہوں اور میں کسی ایک کتے تک محدود نہیں رہ سکتی ۔ گلی اور محلے کے سب کتے مجھے اپنی کرگسی نگاہوں میں بسا لیتے ہیںاور دُم ہلاتے میرے پیچھے پیچھے چلے آ تے ہیں ۔ اپنی جنسی ہوس کی تسکین کی خاطرمیں سب سگان ِ راہ کواپنی سوچوں کے پنجرے میں محبوس کر کے سکون محسوس کرتی ہوں ۔ ‘‘
شیرنی نے بڑے تحمل سے کاتک کی کتیاکی بات سُنی اور اُسے جواب میں کہا:
’’ لاف زنی جب سُنی تمھاری پھڑک اُٹھی ظرافت کی رگ
شُوم نسل کا ہجوم نہ دیکھوسگ کے بچے سب ہوتے ہیں سگ
آج خلاف معمول دریا کے کنارے تمھارے سبز قدم دیکھ کر حیرت ہوئی تم تو گندے پانی کے عفونت زدہ جو ہڑوں اور گلیوں میں بہنے والی سنڈاس سے اٹی نالیوں سے پانی پینے کی عادی ہو ۔ سیاہی وال ،جنگل بیلے اورسبز باغ میں رہتے رہتے تم سوچ سمجھ سے عار ی ہو چُکی ہو اس لیے تمھاری کالی زبان آری کی طر ح چل رہی ہے۔یہ جو دو بچے میرے ساتھ ہیں یہ جنگل کے بادشاہ شیر ببر کے بچے ہیںاور تیرے پیچھے جو مشکوک نسب کے خارش زدہ بچے دُم ہلا کر چل رہے ہیں وہ کسی سگِ راہ کی نسل ہے۔ اِ ن کتے کے بچوں کی تعداد پر اس قدر گھمنڈ نہ کرو یہ باولے ہو کر تمھیں بھی نہ چھوڑیں گے اور اپنے ساتھیوں سے مِل کر تمھیں نوچیں اور بھنبھوڑیں گے ۔اِن سب سگان ِ راہ کی بد بختانہ نافرمانی ،درندگی اور ہوس انھیں ایک ایسی بے ڈھنگی چال پر ڈالے گی جو تمھارے لیے وبال بن جائے گی ۔‘‘
جنگل بیلے کی ہلاکت خیزیوں کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے جو ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں اُن میں حیرت ، یک جہتی ، استغنا ، معرفت ، جستجو ، پیار اور مفلسی شامل ہیں۔گردش ِ ایام اور تقدیر ِ جہاں کے اسرار آج تک کون سمجھ سکا ہے ۔جو مہم جُو بھی اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس آسیب زدہ ریگستان میںآدم خور درندوں کی شناخت کے لیے پہنچتاہے وہ کسی نہ کسی منزل پر اپنا اسباب لُٹوا بیٹھتاہے۔ مہم جُو اِس لیے مات کھا جاتے ہیں کہیہاں کے پکھنڈی اور شکھنڈی مکین اپنے مکر کی چالوں سے بازی لے جاتے ہیں اور اُنھیں اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ۔ جنس و جنوں اور جرائم کی وادی میںہر مہم جُو کو روش روش پر ا پنا ہی عکسِ جلی دکھائی دیتاہے ۔دائمی مفارقت دینے والوں کے قلبِ حزیں میں آنسوؤں کی اُبھرتی ہوئی جھیل دریا کے ہر اُس کنارے تک پہنچتی ہے جہاں یادوں کا طوفان اُٹھتاہے ۔قلعۂ فراموشی کے اسیر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اوج بن عنق ہیں اور کوئی انھیں نیچا نہیں دکھا سکتا۔اس جنگل میںجنگل کا قانون نافذ ہے اور یہاں کے سب معیار پتھر ہیں ۔سنگلاخ چٹانوں اور کالے پتھروں میں گھرے اس صحرا میں عدل و انصاف کا سنگِ گراں صرف اُسی کے ہاتھ لگتاہے جس نے ہاتھ میں تیشۂ زر تھام رکھا ہو۔ توقیر عباس کی بے بسی دیکھ کر میری روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو گیاہے ۔
جس وقت مقامی تیراک ،ریسکیو کے رضاکار ، بحریہ کے تیراک اور غوطہ خور توقیر عباس کے جسدِ خاکی کو دریائے جہلم کی لہروں میں تلاش کر ر ہے تھے اُس وقت توقیر عباس کے کچھ ہم جماعت جو جھنگ سے آئے تھے دریا کے کنارے کھڑے گریہ و زاری کر ر ہے تھے ۔ایک بوڑھے ملاح نے اُن سے اتنی لمبی مسافت طے کر کے یہاں پہنچنے کا مقصد پہنچا تو ایک نو جوان نے دریا کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ دریا کی لہروں کی روانی کس قدر پُر شور ،پُر اسرار اور دِل دہلا دینے والی ہے ۔ان گہرے پانیو ںنے کتنے ایسے حسین پھولوں کو نگل لیاہے جو کُھلی فضا میں اپنی عطر بیزی سے قریۂ جاں کو معطر کر دیتے تھے۔اس وقت ہمارے پاس کوئی کیمرہ نہیں مگر لوحِ دِل پر اس خطرناک مقام کی تصویر بن چُکی ہے جہاں درندو ں نے توقیر عباس کو دریائے جہلم کی طوفانی لہروں کے سپرد کر دیا۔پرِ زمانہ پروازِ نُور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے ،لمحات بِیت جاتے ہیں ،مختلف یادوں کی کیفیات بھی ماندپڑ جاتی ہیں ،درد و غم کے صدمات کے مندمل ہو جانے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں ،چاند ،تارے اور مرغ و ماہی اپنا سفر جاری رکھتے ہیں مگر کسی گھر کا چاندجب دریا میں ڈُوب جاتاہے وہ تو آخر ی سانس تک اپنی آ نکھو ںکے نُور اور دِل کے اُجالے کی جستجو جاری رکھتے ہیں۔ سوزِ الم سے آ شنا بشارت حسین وقار جیسے صابر لوگوں کی یہ جرأت آموز مہم جوئی آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوتی ہے۔ موسمِ گُل کی تلخ انجامی اور زندگی کی سر خوشی کی بے ثباتی پر عنادِل کی فریاد پر ہر آ نکھ اشک بار تھی۔ ریگستان کی ریت کے ٹیلوں میں گھرے اجنبی ماحول کو دیکھ کر طالب علم نے آہ بھر کر کہا:
’’ درد آ شنا غم گسار یہ جانتے ہیں کہ وہ بشارت حسین وقار کے انداز ِ فکر کو سمجھے بغیر اس کے دکھوں کا مداوا کرنے سے قاصر ہیں۔اِس معلم کے قلبِ حزیں میں اشکوں کے سیل ِ رواں سے جو طوفان اُٹھا ہے اُس کے نتیجے میں پورے خاندان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ اہلِ درد یہ بھی دیکھیں کہ توقیر عباس کے بعد اس خاندان کے زخموں پر مرہم کون رکھے گا؟ ہوائے جور و ستم کے پیدا کردہ گرداب حوادث کے طوفان سے بچنے کے لیے کشتیٔ نوح ؑ کی احتیاج ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ صبر کے دریا کو عبور کرنا سہل نہیں یہ وہ مر حلہ ہے جہاں نوحؑ کی کشتی بھی دریا کی طوفانی لہروں اور گرداب کو دیکھ کر خوف سے ہچکولے کھانے لگتی ہے ۔ بشارت حسین وقار نے اپنے دوستوں کے انتخاب میں کبھی کوتاہی نہیں کی مگر اپنے خاندان کے انتخاب میں وہ اپنی سادگی کے باعث مات کھا گیا۔ وہ سدا اپنے ہاتھوں میں پھول رکھنے پر اصرار کرتاہے مگروہ پہلو میں چُھپے خنجروں اور نیزوں کو نہ پہچان سکا۔ جنگل بیلے ،چاندنہ ،ماندنہ،سیاہی وال اور مکر وال جیسے آسیب زدہ مقامات کے لوگوں کی اجنبی آ شنائی کے جال کو وہ نہ دیکھ سکا ۔ حسرتِ انتظار یا رکی شدت کے بارے میںکیا کہوں؟اپنے ساتھی کی جدائی میںرَت جگوں کا کرب ہمیں اس مقام پر لایا ہے جہاں زندگی بسر کرنے کی ٹِیس بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ ریگِ صحرا پر ہماری بیش بہا میراث کی گم شدگی یا توقیر عباس کی باز یافت کی کوئی نشانی ضرور موجود ہے ۔ اس صحرا کے خانہ بدوش اس حقیقت سے آشنا نہیں کہا کہ اجنبی معلم کی زندگی کو وقفِ خزاں کرنے والے درندوں نے کتنا بڑا ظلم کیا۔ اس متاع ِ بے بہا کے کھو جانے سے دِل و جگر کو یک جان کر دینے والی شگفتہ مزاجی عنقا ہو گئی ہے اور یاس و ہراس سے زندگی کے سب سکون اور روشن مستقبل کے سب طلسم کر چیوں میں بٹ گئے ہیں۔ تھل کے ٹیلوں کی طرف جب نگاہ اُٹھتی ہے تو ہر ٹیلے سے اُٹھنے والے ہوائے جو ر و ستم کے بگولے آنکھوں میں بسی انتظار کی دنیا کے گلشن کو جُھلسا دیتے ہیں ۔ یہ کیسا مقام ہے جہاں دِن کی روشنی میں بوڑھے والدین کی توقعات ، روشن مستقبل کے خوابوں اور آسروں کو حادثات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔دعا کرو کہ کوئی شخص کبھی پردیسی نہ ہو اس لیے کہ عام آدمی کی سطحی نظر میں گلیوں کے تنکے بھی پردیسی سے زیادہ وقعت رکھتے ہیں۔ توقیر عباس کی جوانی اس پردیس کے ریگ ِ صحرا یا متلاطم دریا میں کہیں کھو گئی ہے ۔ نا مختتم مایوسی کے عالم میںہمیں تو بیلے کے لوگوں نے کپڑے کے پرانے اور بوسیدہ چیتھڑے کے ماننداُڑا کر کیکر کی خار دار شاخ میں لٹکا دیاہے ۔‘‘
دوسرے طالب علم نے اپنے قلب ِحزین کے ارمان جو آنسوؤں کی صورت میں بہہ نکلے تھے صاف کیے اور گلو گیر لہجے میں کہا:
’’ توقیر عباس کا یوں پُر اسرار اندا زمیں کھو جانا ہم سب کے لیے صدمہ انگیز ہے ۔ ہم تشنہ لب پردیسی اس آسیب زدہ صحرا میں جس سمت بھی جاتے ہیں قدم قدم پرمحرومیاں ،مایوسیاں اور حسرتیں زندگی اور موت کی سر حد پر بیٹھی اپنے بال کھولے آہ و فغاں میں مصرو ف دکھائی دیتی ہیں ۔ ایک آواز سنائی دیتی ہے اے پردیسیو ! تم ایسے وقت یہاں پہنچے ہو جب آرزو کی سب مشعلیں گُل کر دی گئی ہیں۔ریگستان اور صحرا کی اس اقلیم میں دُور دُور تک پانی کا وجود نہیں صرف موہوم سائے اور سراب ہی موجودہیں۔خدا جانے کب یہاں جور و جفا کا اعصاب شکن ماحول بدل جائے اور کٹھن وقت ٹل جائے ۔اس و قت زندگی کی رعنائیاں پھر یہاں پلٹ آ ئیں گی ۔ ہماری آ نکھوں میں تیز دُھوپ کے نیزے گڑے ہیں مگر ہم صبح سے اپنے ساتھی توقیر عباس کے انتظار میں یہاں کھڑے ہیں۔ ہم زندگی کی جستجو میں یہاں پہنچے ہیں اور امن و عافیت کی دولت کو عام کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘
توقیر عباس کی تلاش میں آنے والے ایک نو جوان طالب علم نے پنجابی زبان کے لوک گیت کے یہ دردنا ک بول الاپے پوری فضا غم میں ڈُوب گئی۔ :
اسانوں توقیر عباس دے مِلنے دی تانگ اے
سینے وجی ہجر دی سانگ اے
ترجمہ: ہمارے دِل میں توقیر عباس سے ملاقات کی تمنا ہے
ہمارے قلبِ حزیں میں ہجر و فراق کی برچھی پیوست ہو گئی ہے
ایک اور طالب علم جس کی آنکھیںپیہم گریہ و زاری کی وجہ سے سر خ تھیں آگے بڑھا اور اُس نے آہ بھر کر کہا:
’’ مجھے دکھ ہے کہ بہرے معاشرے کے بے حس مکین بے بس والدین کی سرگوشیوں کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔ توقیر عباس کی جدائی کے بعدگلشنِ ہستی کے طائرانِ خوش نوا اپنے منھ کو دامن ِ گُل سے ڈھانپ کر گریہ و زاری کریں گے نسیم ِ سحرہر روِش خاک اُڑائے گی ۔ اگر اس سانحہ کے بعد بھی وہ مظلوں کے ساتھ اظہار یک جہتی نہ کریں گے توپھر فطرت کی سخت تعزیریں ان کا تعا قب کریں گی جس کے بعد جنگل بیلے اور اس کے نواحی خاک داں کی بربادی نوشتۂ تقدیر بن جائے گی ۔عالمی کلاسیک اور پاکستانی ادبیات ہی توقیر عباس کا اوڑھنا بچھونا تھااپنی جرأت اظہار کی بنا پر سب لوگ شہرکا ضیغم کہہ کر پکارتے تھے۔ جنگل بیلہ کی جھاڑیوں میں گھات میں چُھپے سیکڑوں بھیڑیوں اور خنزیروں کے نرغے میں آ جانے والے اس تنہا شیرکی بے بسی کے بارے میںسُن کر ہر آ نکھ سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ توقیر عباس سے وابستہ یادیں قلب ،روح ،دماغ اور جگر میں سماگئی ہیں۔اس وقت یہی یادیںمیری آ نکھوں سے جوئے خوں کی صورت میں بہہ نکلی ہیں۔ دریائے جہلم کے کنارے اس ویران صحرامیں نوجوان توقیر عباس کا پُر اسرا ر اندا ز میں کھو جانا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن ہی نہیں۔یہ ایسا جان لیوا صدمہ ہے جس نے ہم الم نصیبوںکو جیتے جی مارڈالا ہے ۔توقیر عباس جسمانی طور پر تو ہمارے درمیا ن موجود نہیںمگر اُس نے خلوص اور وفا کی جو مشعل فروزاں کی وہ ہمارے دِل کی انجمن میںاس وقت بھی ضوفشاںہے ۔اُس کی دائمی مفارقت کے بعد مسائل اور مصائب و آلام کاایک غیر مختتم سلسلہ ہے جو آخری سانس تک ہمارا تعاقب کرے گا۔ اس سانحہ کے بعدہمارا پورا وجودکر چیوں میں بٹ گیاہے ۔ شیشوں کا مسیحا تو رخصت ہوا اس کے بعد تقدیر نے ہمیں یہ دِن دکھائے کہ ہم آخری سانس تک اپنی راہ میں بکھرے شیشوں کی کرچیا ںچُن کر اپنے دامن میں سجاتے رہیں گے ۔کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا خیال اب ہمیں ستانے لگاہے ۔ہم لوگوں کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ جائے گا مگرہمارے دل کی انجمن سُونی ہی رہے گی۔‘‘
توقیر عباس ایک وسیع المطالعہ محقق اور نقاد تھا۔اس نے معاصر ادب ،عالمی کلاسیک اور جدید تنقید کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔ علم وادب کے ریاکار پرستارں کے خلاف اُس نے سداایک قلم بہ کف مجاہدکا کردارادا کیا ۔معاصرادبی تنقید کے موضوع پر وہ کلیم الدین احمد کے خیالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاتھااور نقادوں کواس جانب متوجہ کرتاتھا کہ وہ حرفِ صداقت لکھنااپنا شعار بنائیں ۔ رد تشکیل، جدیدیت ،مابعد جدیدیت ،ساختیات اورپس ساختیات اُس کے پسندیدہ موضوعات تھے ۔ بھارت کے ممتاز نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ ( 15-6-2022 11-2-1931 ,D: B: )کی تنقیدی کتب کے مواد اورماخذکے بارے کچھ لوگوں کے تحفظات کے باجود وہ ان کی اہمیت و افادیت کا قائل تھا۔ متنوع مشاغل اور تخلیقی فعالیتوں میں گہری دلچسپی لینے والے نوجوان ادیب توقیر عباس نے معاصرادبی تھیوری کے حوالے سے ایک ادبی نشست میں کہا:
’’ یاد رکھنا چاہیے کی سطحِ آب سے ہونے والا عملِ تقطیر فضا میں نمی ،ابر اور باراں کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔اس عالمِ آب و گِل میں روئیدگی اور نشوو نما کا تمام تر انحصار رزق پر ہے ۔جب آسمان سے ابرِ رحمت برستا ہے تو تھل کے ریگستانوں میں چنے کی فصل خوب ہوتی ہے ۔صحراؤں اور ریگستانوں کے مکین اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ قدرتِ کاملہ نے ان کی فصلوں کو سیراب کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے اس لیے وہ دِل کھول کر راہِ خدا میں رقوم خرچ کرتے ہیں ۔اُن کی یہی نیکیاں معاشرتی زندگی کے لیے راحت کا اہم ترین معدن ہیں۔ حریت ضمیر سے جینے والے کبھی ہجوم یا جم غفیر کو خاطر میں نہیں لاتے بل کہ کسی مصلحت کی پروا کیے بغیر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بے خطر آتشِ نمرودمیں جست لگا دیتے ہیں۔ زندگی کی حیات آفریں اقدار وروایات سے قلبی وابستی پروفیسرگوپی چندنارنگ کے اسلوب کا امتیا زی وصف ہے ۔ پس نوآبادیاتی دور میںاردو تنقید میںساختیات ،جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے موضوع پر گوپی چندنارنگ نے جن مباحث کاآغازکیاانھیں افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب پیش قدی کی ایک کاوش سے تعبیر کیا جا سکتاہے ۔ الفاظ کی مسحور کُن طلسمی تاثیر کا وہ معترف تھا اور وہ یہ چاہتاتھا کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں الفاظ کے روایتی مفاہیم کے بجائے نئے زمانے نئی صبح و شام کی تخلیق پر توجہ دی جائے ۔عملی زندگی میں رسمی تجسس اور جدت فکر کو مزاج کا حصہ بنانا چاہیے اس طرح نئے علوم و فنون کے اسرار و رموز کی تفہیم ممکن ہے ۔ وہ دِ ن دُور نہیں جب کلانونت اور نقارچی اپنے دُکان بڑھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔پس نوآبادیاتی دور میںاکثرنئے لکھنے والے کاتا اور لے دوڑا کی مثال بن گئے ہیں۔ تنقیدی موضوعات پراپنے خام مضامین کے بارے میں نوآموز محققین یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا انھوں نے تخلیق ادب کے لمحوں میں قلم توڑ دیاہے ۔ ان کایہ زعم عجب نہیں اپناقلم توڑ کر ان مبتدی ناقدین اور محققین نے پاتال کی طرف جست لگائی ہے ۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ جب مخبوط الحواس اور فاتر العقل بونے اپنے تئیں باون گزے اور عوج بن عنق بن بیٹھیں تو اُن کی تحریریں جو پشتارۂ اغلاط ہوتی ہیں سنجیدہ قارئیناُن کے تجزیہ کے بعدنہ صر ف اِ ن چربہ ساز،سارق او رکفن دُزدمضمون نگاروں کا قلم توڑ دیتے بل کہ انھیںجھنجھوڑ کران کا سر بھی پھوڑ دیتے ۔ وہ وقت ضرور آئے گا جب لوگ میر ی باتوں کو دہرائیں گے اور مجھے بہت یاد کریں گے۔ روزمرہ زندگی میں مناظر بالعموم طلوع ِ صبح کے وقت نگاہوں کو بھلے لگتے ہیں مگر شام تک ان کی دل کشی بر قرار نہیں رہتی یہی اصولِ فطرت ہے ۔ جب تکلم کے سلسلے رُک جائیں گے تو میرے چاہنے والے دیدۂ گریا ںکو اظہارو ابلاغ کا وسیلہ بنائیں گے۔ ‘‘
تاریخ اور اُس کے پیہم روا ںعمل کوتوقیر عباس نے ہمیشہ اذہان کی تطہیر وتنویر کا وسیلہ قراردیا۔ وہ جب بھی شہید روڈ جھنگ سے گزرتا توتاریخی مسجد نور میں ضرور جاتا جس کے مرکزی درواز ے کی جنوبی جانب ایک گوشے میں تحریک ِ آزادی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والا نو جوان طالب علم قاضی محمد شریف آسودۂ خاک ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں اس نوجوان طالب علم نے بر طانوی استعمار کے خلا ف ایک پر امن جلوس میں شرکت کی۔امرتسر کے قصاب ( ڈائر )کابھانجایہاں کی پولیس کا اعلیٰ افسر تھا۔اُس نے نہتے طالب علموں پر فائرنگ کا حکم دیاجس کے نتیجے میں سیکڑوں طالب علم شدیدزخمی ہوئے اور نو جوان طالب علم قاضی محمد شریف نے جام شہادت نوش کیا ۔اس طالب علم کا لہو آزادی کے افسانے کی شہ سرخی بن گیااور اسی کے نام پر یہ سڑک شہید روڈ کہلائی ۔ توقیر عباس کاخیال تھاکہ اگر مورخ اپنے قلم کو عصبیت سے آلودہ نہ ہونے دے تو تاریخ ہر دور میں فکر و خیال کومہمیز کرتی رہے گی۔حاجی حافظ محمدحیات کی معرکہ آرا تصنیف ’’ نور ِحیات ‘‘( مطبوعہ 1990)کوتوقیر عباس نے فلسفہ ،نفسیات ،تاریخ اور علم بشریات کاایک معتبرحوالہ قراردیا۔لائق مصنف نے ما بعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی کے موضوعات پر نہایت عالمانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔جھنگ کو اس لیے شہر سدارنگ کہا جاتاہے کہ یہاں کے فطین نو جوان ہردور میں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے وجود کا اثبات کرتے چلے آ ئے ہیں۔اس کاکہناتھا کہ قدرت کے کارخانے میں سکوں کا تصور محال ہے یہاں کی ہر چیزتیزی سے بدل رہی ہے اور جہاں تک ثبات کا تعلق ہے یہ تو محض تغیر کو حاصل ہے ۔اس عالمِ آب و گِل کی تیزیسے بدلتی ہوئی کیفیات کے بارے میںوہ اکثر کہتاکہ اگرچہ تغیر کا یہ سلسلہ قدر ے دھیماہے مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل جاتاہے اور ہماری متجسس نگاہیںدیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہیں۔توقیر عباس کو اپنی جنم بھومی سے تعلق رکھنے والی اقلیم معرفت کی پُر اسرار ہستیوں کے بارے میں بہت معلومات حاصل تھیں۔اپنے خالق کو نہ پہچاننے والے محتاج ِ ملوک بن کر ر ہ جاتے ہیںاور جواپنے خالق کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں ، پارس جیسے پتھر بھی اُن کی ٹھوکروںکی زد میں ہوں گے ۔اقلیم معرفت کی پر اسرار ہستیوں کے کشف و کرامات دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ایک ادبی نشست میں رانا سلطان نے جھنگ میں مقیم اقلیم معرفت کی پُر اسرار ہستیوں کے بارے میں یہ خیال افروز باتیں کیں:
’’درندوں سے بھرے جنگل بیلے کے دَم گُھٹنے والے زندان میں پھنس جانے والے اسیروں پر قیامت گزرگئی ۔ بشارت حسین وقار جیسے پر عزم لوگ اگرچہ زمین کی پستی کے حقائق سے آگا ہ ہیں مگر اُن کی نگاہ سدا سوئے افلاک رہتی ہے ۔ طلوعِ صبح بہاراں پر یقین رکھنے والے ظلمت ِ شب سے کبھی ہراساں نہیں ہوتے ۔اس عالمِ آب و گِل میں آنے والے طوفانِ حوادث کی زدمیں آنے والے اشجارجب گر پڑتے ہیں تو وہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طر ح اپنی جڑوں سے رابطہ بر قر ار رکھیں اور پھر سے فضا کی بلندی کے مناظر دیکھیں ۔ یہ جھنگ ہے جس کا رنگ عجب سے عجیب ہے۔فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے و الے یہاں کے باشندے مکئی کی روٹی ،سرسوں کا ساگ اور کنگ پی کر اپنے خالق کی عظمت کے راگ گاتے ہیں۔ایسے ایسے نابغۂ روزگار درویش ا ِس شہرسے اُٹھے جنھوں نے اپنے کشف و کرامات سے یہاں کے لوگوں کی دنیا بدل دی ۔کون ہے جو میاں مراد علی، میاں موچڑا ،روڈو سلطان ،میاں بکھا،شاہ زندہ ،نِبر شہید ،کرموں موچی ،اللہ دتہ حجام( بابا ایک آنہ والا)، پیر عبدالرحمٰن ،شاہ جیونہ ،سلطان باہو،حکیم احمد بخش نذیر ( چونی والا حکیم )،دُڑکی شاہ، حاجی یوسف ،بابا صالح ،لُوہلے شاہ،قاضی محمد شریف،پیر ولایت شاہ اور پنج پیرکا معتقد نہیں ۔ یہ ایسے بزرگ ہیں جنھوں نے سفاک ظلمتوں میں حوصلے اور اُمید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کیا اور ہوائے جورو ستم میں بھی رُخ وفا کی تابانی میں کمی نہ آنے دی ۔‘‘
توقیر عباس نے ایام گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی کرتے ہوئے کچھ سوچتے ہوئے کہا:
’’ اس دنیا کی ہر شے مسافر اور ہر چیز راہی ہے اور اس دنیا کی ہر چیز فنا کی زد میں ہے اور بقا تو صرف خالقِ کائنات کو حاصل ہے ۔ رخشِ حیات پیہم رو میں انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب مین ہیں۔موت سے کسی کو رستگاری نہیں اس لیے یہ بات بلاخوف ِتردیدکہی جا سکتی ہے کہ اس عالمِ آب وگِل میںحیات انسانی کے دوام کے بارے میں سوچنا خام خیالی ہے ۔ یہ نیر تاباں اُفق عالم سے غروب تو ہو جاتے ہیں مگر اپنی تابانیوں اور ضیاپاشیوں کی ابد آشنا داستانیں چھوڑ جاتے ہیں۔ مصائب و آلام بھی ایک اعتبار سے قدرِ کامہ کی طرف سے کوئی پیغام لاتے ہیں کاش ہم ان پر توجہ دے سکیں اور ان کی تفہیم کی استطاعت سے متمتع ہو جائیں ۔ یاد رکھنا چاہیے صرف اپنے قلب کی غواصی کرنے سے ہی زندگی کا سراغ ملتاہے ۔ اللہ کریم کے یہ بر گزیدہ بندے اپنی دنیا کے ایسے بادشاہ ہیں جن کے قلوب میں پوری کائنات کے خزائن سمٹ آ تے ہیں ۔ ۔ اپنے زہد وتقویٰ کی بنیاد پر ان ہستیوں نے اپنے خالق کی معرفت حاصل کی۔ اپنے خالق کی معرفت رکھنے والے اقلیم معرفت کے یہ سکندر اس دنیامیں فقیرانہ آتے ہیں صداکرتے ہیں اور سب کے حق میں دعا کر کے چلے جاتے ہیں ۔ صوفیانہ خاموشی کو شعار بانے والی ان یادگارِ زمانہ لوگوں نے ایسی زندگی بسر کی کہ لوگ رہتی دنیا تک ان کے اعمال و افعال پر رشک کریں گے ۔اِن کا دامن دنیا وی حرص وہوس سے کبھی آلودہ نہیں ہوتا اس لیے ان کی روح کو زوال کا کوئی اندیشہ نہیں۔ محمد شیرافضل جعفری نے جھنگ کو شہرِ سدا رنگ کا نام دیا تھا اُن کے قول کو اندیشۂ زوال نہیں ۔ اس شہر بے مثال کی زمین بھی پارس کے مانند ہے جو خاک کو اکسیر کر دیتی ہے اور یہاں ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر ہیں ۔ یہاں کے صابر و شاکر قناعت پسند لوگ ایک شان استغناکے ساتھ زندگی بسرکرنے کے عادی ہیں اس لیے یہ اپنے استحقاق کے بغیرشہد یا شہد کی مکھیوں کی جستجومیں جی کا زیاں کرنے سے بالعموم گریز کرتے ہیں ۔ اس شہر میں حُسن ورومان کی لازوال کہانیوں کو ادب کی زینت بنایا ۔بادِ سموم کی کیامجال کہ یہاں کے گلشن کی شگفتگی کو متاثر کر سکے ۔ اس شہر کی ہر چیزحسن و جمال کی دولت سے متمتع ہے جہاں کہیں بھی پھولوں کے ساتھ خار نظرآئیں وہ بھی بہت جلد جھڑ جائیںگے اور اُن کی جگہ نئی شاخوں پر عطر بیز گلاب کے پھولوں کے شگوفے قریۂ جاں کو معطر کرنے کے لیے نمو پانے لگیں گے ۔ ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ گل ہائے رنگ رنگ کی شگفتگی صرف اُس وقت تک بر قر اررہتی ہے جب تک شاخِ گُل پر تروتازہ رہتے ہیں اس کے برعکس کردارکی عظمت ،خوش اخلاقی اور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ایسی صفات ہیں جوابدآ شنا ہیں۔‘‘
سال 1926ء میں روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج ،جھنگ سے توقیر عباس کو بہت محبت تھی ۔وہ اس درس گاہ کوایک درگاہ کا درجہ دیتااور جب بھی اس عظیم تاریخی درسگاہ کے پاس سے گزرتا اس کی روایات کے احترام میں اس کی آنکھوں میںایک شان ترفع بکھر جاتی اور وہ اس کے دروبام پر عقیدت کے پھول نچھاورکرتاتھا۔ایک مرتبہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا :
’’ اس درس گاہ میں جو یادگارِ زمانہ ادیب تدریسی خدمات پر ماموررہے ہیں اُن کی بین العلومیت کی مظہر خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔حیف صد حیف صد حیف اب علم و ادب کی یہ فقید المثال کہکشاں عنقا ہے ۔ اس ادارے سے وابستہ علم و ادب کے ہمالہ کی جو سر بہ فلک چوٹیاں صر صرِ اجل سے زمیں بوس ہو گئیں اُن میں رانا عبدالحمیدخان، غلام رسول شوق ،تراب علی ،مرتضی شاکر ، ابو بکر صدیقی ، احمد بخش ناصر، اسحاق مظہر ،حاجی احمد طاہر ملک ،شیخ ظہیر الدین ، عبدالستار چاولہ ،ڈاکٹر سیّد نذیر احمد،بشارت خان ، تقی الدین انجم ( علیگ ) ،دیوان احمد الیاس نصیب ، سیّدعبدالباقی ( عثمانیہ) سمیع اللہ قریشی ،شفیع ہمدم ، عباس ہادی چغتائی ، فیض محمد خان ،خلیل اللہ خان ،عبدالبار ی عباسی ،عاشق حسین فائق،نور احمد ثاقب ،شریف خان ،اقتدار واجداوراکمل بخاری کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ توسنِ فکر و خیال کی باگ کو مضبوطی سے تھام کر نادر ادب پارے تخلیق کر نے والے ان نابغۂ روزگار ادیبوں کے بارِ احسان سے اردو داں طبقے کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرے ایسی نابغۂ روزگارہستیاں پھر کبھی پیدا نہ ہو سکیںگی ۔یہ سب مشاہیر اپنی ذات میں انجمن ،دبستان ِ علم و ادب اور دائرۃ المعارف تھے ۔ دیانت ،خلوص ،ریاضت اور خونِ جگر سے مزین ان کی ادبی تخلیقات کے مطالعہ سے تخیل کی مغائرت اور بیزار کُن یکسانیت کی پیدا کردہ اکتاہٹ سے نجات مل جاتی تھی ۔ زندگی کی راہ میں دائمی مفارقت دینے والے محسنوں،متاعِ فکر و نظر کو معتبر کرنے والے اساتذہ اوروقت کی گردمیں کھو جانے والے ان دانش وروں کو یادرکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ یہ جلیل القدر ہستیاں اس خطے کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و رویات کی محافظ تھیں ۔ اِ ن کی رحلت پر ارضِ وطن کی تہذیب و ثقافت کے افق پر غم کی غم کی گھٹاچھا گئی ہے ۔
یادگارِ زمانہ تھے یہ لوگ
سُن رکھوتم فسانہ تھے یہ لوگ
ساتھیو! اگر سر بلندی کی تمنا رکھتے ہو سنگ ِستم کے نشانوں سے کبھی ہراسا ںنہ ہونا۔ منزلوں کی جانب بڑھتے رہوگے تو زمین قدموں میں بچھتی چلی جائے گی اگر غفلت کا شکار ہوکر رُک گئے تووقت کی سنگلاخ دیوارگر کرتمھیں دبا دے گی ۔ اپنے خالق کے حضور التجا کرو کہ وہ تمھیںروشن مستقبل عطا کرے اور بھیانک تاریک راتوں کے سناٹوں سے بچائے ۔ ‘‘
توقیر عباس نے اپنے کئی عزیزوں کوعدم کے کُوچ کے لیے رخت ِسفرباندھتے دیکھا ۔چار برس قبل اپنے بھائی کی اچانک وفات کے بعد اس کے والدین کی طبیعت مضمحل رہنے لگی توبہت مضطرب تھا۔کہتے ہیں اگر کسی نخل تناورکی جڑوں کو دیمک لگ جائے اور کسی فرد کے دِل میں غم اور سمے کے سم کا ثمر سرایت کر جائے تو دونوں کے بچنے کاامکان کم کم ہوتاہے ۔ ہجوم ِ یاس و ہراس کو دیکھ کر جب بشارت حسین وقارکاسینہ ودِل حسرتوں سے چھا گیا تواُس کانوجوان بیٹا توقیر عباس بہت گھبرا گیا۔ اس اعصاب شکن صورت حال کے باوجود وہ زندگی بھر اپنے رفتگاں کی یاد کے درد سے دِل کی بستی کوآباد رکھنے کی سعی میں مصروف رہا۔اپنے رفتگاں کو یاد کرکے توقیر عباس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔اپنے عالم بزرگوں کی علم دوستی پر اُسے نازتھااور وہ یہ بات برملا کہتاتھاکہ علم کی برکت اور عظمت کا اعتر ف ہی اُس کے آبا و اجداد کا منشور تھا ۔وہ خود بھی ایک طالب علم ہے اوراُس کے آباواجدادکی علم دوستی اور ادب پروری کا ایک عالم معترف تھا۔ تحقیق ،تنقید اور علم عروض کے بارے میں اس نے بشارت حسین وقار سے اکتساب ِ فیض کیا تھا ۔اپنے مہمانوں کے لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دینے کی روایت توقیر عباس کے خاندان کا امتیازی وصف سمجھاجاتاہے ۔ رفتگاں کی یاد سے سکونِ دِل کی تلا ش کی خاطر وہ عقیدت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں کو نہ صرف اپنے اسلاف کے مقام و مرتبے کے بارے میں آگاہ کرتا بل کہ اُن کی خود داری ،عزت نفس اور ہمتِ مردانہ پر انھیں خراج تحسین بھی پیش کرتاتھا۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ وہ عالمِ بے خودی میں اپنے مخاطب سے یہ استفسارکرتاکہ وہ اپنی زندگی کے افسانے کا آغاز کہاں سے کرے اور اِسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے کون سے مقام کا انتخاب کرے ۔ چشموں کا زیر وبم ، ندی نالوں ،دریاؤں اورمتلاطم سمندروں میں پانی کی روانی ،دُر نایاب کی آب و تاب ،موتیا ،چنبیلی اور گُلاب کی عطر بیزی اور سر و سمن کی رنگ آ میزی ،کہکشاں پر نجوم شب کی تنی ہوئی چادر،بر گِ گُل پر علی الصبح ہویدا ہونے والے شبنم کے قطرے ،زندگی کو درپیش خطرے اور حرص و ہوس کے سب دام رختِ غم کی ایک عام اور خام سی صورت ہیں ۔ توقیر عباس جدید دور میںقلعۂ فراموشی کے اسیروں کو اپنے اسلاف کے بارے میں ملیح لہجے میںسب باتیں بتاتااور کہتا:
ہمارے بعد اب محفل میں افسانے بیاں ہوں گے
بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے
دریائے جہلم کے کنارے پر حضرت ِ خضر نے چارہ گرو ںسے یہ دریافت کیا کہ تم لوگ حتمی اور بہترین صورت میں سمِ اعدا کا تریاق تلاش کرنے یہاں آئے ہو۔ تم سب اچھی طرح جانتے ہو کہ جنگلو ںاور صحراؤ ں کے بھیڑیوں نے یہاں کی مخلوق کو اپنا تابع بنا رکھا ہے ۔ تم لوگ دائمی مفارقت دینے والوں کے لیے چشم براہ ہو اور یہی مستقل مزاجی تمھاری شخصیت کو استحکام عطا کرتی ہے ۔ کاش کوئی ایسا اہلِ دِل ہو جو دریا کے ساحل سے گزر کر اپنی خودی کا مقام فاش تر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اس علاقے کے جو فروش گندم نما کینہ پرورمکین بگلا بھگت ہیں ۔سب سے پہلے تو یہ ٹھگ بڑی بے دردی کے ساتھ ہمدردی کا سوانگ رچاتے ہیں اور خلوص کی اداکاری کرتے ہوئے اپنے شکار کا کام تمام کرتے ہیں اس کے بعد مگر مچھ کے آ نسو بہاتے ہیں ۔ان لوگوں کی کرگسی آ نکھوں میں عیاری،محسن کُشی ،دغا ودُزدی کے ڈورے کھنچے ہیں۔ تقدیر کے ہاتھوں لگنے والی اس جان لیوا ٹھوکر سے سنبھلنے کے بعداُٹھ کر نئی منزل کی جستجو کرنا ہی مصلحت ہے ۔ آستین کے سانپوں کے زہر ،احباب کی فریب کاری اور برادرانِ یوسف کی سازش کے نتیجے میںاعصاب جواب دے جاتے ہیں ۔ تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے والے بشارت حسین وقار اور اُس کے فطین فرزند توقیر عباس نے سدا ایسے چربہ ساز ،سارق ،کفن دُزد اور جعل سازوں کے مکر کا پردہ فاش کیا جو گیلی زمین کی کھدائی کر کے فرہاد بن بیٹھے تھے ۔ حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیر ؓ کو زادراہ بنانے والے حریت فکر کے اِن مجاہدوں کے سامنے کوئی اوج بن عنق آج تک ٹھہر نہیں سکا۔ اقلیم معرفت کے ان نیک لوگوں کو آستین کے سانپوں کے دکھائے ہوئے سبز با غ اور موہوم اُمیدوں کے خوش ذائقہ پھل کھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ اِن دانش وروں نے اُن بونوں کو آئینہ دکھایا جو اپنے زعم میں باون گزے بن بیٹھے تھے۔ کینہ پرور اعدا نے جب سے توقیر عباس کو اپنے والدین کے گھر سے غائب کر دیاہے ،اس کے سب رشتہ دار غرقاب ِ غم اور نڈھال ہیں ۔ گلی کوچے اور محلے میں دنیا داری کا سلسلہ جاری رہتاہے مگرجب وہ فرطِ غم سے نڈھال اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو اپنے گم شدہ چاند کو تلاش کرتے رہتے ہیں ۔وہ اکثر سوچتے ہیںجس بر ق رفتاری کے ساتھ موسموں کے تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری ہے نا معلوم گردشِ ایام اب کون سا موسم اس خاندان کے نام کرتی ہے ؟
سفاک حاسدوں اور اعدا کی کینہ پروری اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کا جواب تصادم نہیں بل کہ صبر ہے ۔صبر کومُونس ہجراں سمجھنے والے یقیناً منزلوں کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی کر سکتے ہیں ۔ صبر کی فقید المثال کامرانی یہ ہے کہ وہ کٹھن مرحلہ جہاں انسان کی قوت ارادی جواب دے جاتی ہے صبر اُس سے بھی آگے لے جاتاہے۔ جب کینہ پروراعدانے ایک سازش کے تحت توقیر عباس کو دریائے جہلم کی طوفانی لہروں میں دھکا دیا تو اس کے احباب انصاف کے حصول کے لیے ضلع کونسل کے جناح ہال کے سامنے واقع مجید امجد پارک میں اکٹھے ہوئے تاکہ اپنی نوائے رنج و الم اور فغانِ فراق سے ضلعی انتظامیہ اور مقتدر حلقوں کو متوجہ کرنے کے لیے زنجیرعدل کوہلایا جائے ۔ وہ مستقبل قریب میں انصاف کا بول بالا ہونے کی گھڑی دیکھنے کے شدت سے منتظر تھے ۔وہ سب یہی چاہتے تھے کہ اس سانحہ کو حجابِ وقت سے نکالیں اور مصلحت ِ وقت کے باعث بے حس معاشرے کی رُکی رُکی سی دھڑکن کا احوال بیان کیا جائے ۔ کئی راہ گیر بھی وہاں جمع ہو گئے اور جب انھوں نے یہ سنا ہے کہ دائمی مفارقت دینے والے نو جوان کی اُٹھا ن دیدنی تھی تو اُن کے قلب ِ حزیں سوزِ دروں سے سُلگنے لگے ۔ نوجوان طالب علموں اور سوگوار خاندان کی آ ہ و فغاں کی آ نچ سے آکاش بھی دہک اُٹھا ۔ مظلوموں کی آ ہیں مقتدر حلقوں کے دفاتر کے سامنے اُگے بُو ر لدے چھتناروں کی بے ثمر ڈالیوں کو جھنجھوڑنے لگیں مگر وہا ںتو اتھاہ سکوت کے باعث ہُو کا عالم تھا۔ چشمِ تصور سے فرقِ گیتی پر خارِ مغیلاں کا تاج دیکھ کر سوگواروں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پوری فضا دھواں دھواں سی تھی اور ہوا بھی رُکی رُکی سی کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔سب لوگ بشارت حسین وقار کی بے کسی پر آہ و فغاں کر ر ہے تھے جو منزل کی جستجو سے سے مایوس ہو کر اور تھکن سے نڈھال ہو کر سراب کے سامنے بیٹھ گیاتھا۔ جنگل بیلے کے درندوں اور گروکلوں کے مظالم سے عاجزآ کر علاقے کے کچھ حساس انسان یہاں جمع ہو گئے تھے ۔ زندگی کی سخت ترین آزمائش کا سامنا کرے والے معلم بشارت حسین وقار کے سب چارہ گر یہ بات اچھی طرح جانتے تھے ظلم کی معیاد کے دِن تھوڑے ہیں اور توقیر عباس کے بے بس والدین کی فریادضرور سُنی جائے گی ۔ قرائن سے معلوم ہواکہ صبر و استقامت میں فرہاد ،پنوں ،مہینوال اور قیس کے ساتھ ساتھ دار و رسن پر بھی کڑا وقت آ گیاہے ۔ جنگلوں اور ویرانوں میںانصاف کُشی ایک لا متناہی سلسلہ ازل سے جاری ہے ۔یہاں جمع ہونے والے سوگوار لوگ بشارت حسین وقار کی مثال کے ذریعے انصاف کی جستجو کر رہے تھے ۔اس موقع پر توقیر عباس کے ایک رفیق نے پیہم رونے کے بعد رندھے ہوئے گلے سے کھڑی شریف ( آزاد کشمیر ) میں آسودۂ خا ک پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش ( ۱۸۳۰ ۔ ۱۹۰۷) کی تصنیف ’’ سیف الملوک‘‘کے یہ اشعار پڑھ کر دائمی مفارقت دینے والے اپنے ساتھی کے حضور آنسوؤں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اُس کے دِل کی کسک جب ایک ہُوک بن کے اُٹھی تو مجید امجد پارک میں بیٹھے سوگوارسامعین کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں اور سب کی ہچکی بندھ گئی :
لے او یار حوالے رب دے اج مِل لے جاندی واری
اس ملنے نوں توں یاد کریسیں تے روسیں عمراں سار ی
توں بیلی تے سب جگ بیلی ان بیلی وی بیلی
سجناں باہجھ محمد بخشا سُنجی پئی اے حویلی
سرو اُداس حیران کھلوتے پیر زمیں وِچ گڈ ے
اُچے ہو ہو جھاتیاں مارن متاں یار کِدوں سر کڈے
کلا چھڈ کے ٹُر گئے تے سجن کر گئے بے پروائیاں
مدتاں ہوئیاں سُکھ دیاں گھڑیا ں فیر نہ مُڑ کے آئیاں
ٹُر گیو ںسجنا ں چھڈ کے سانوںتے پا گیوں وِچ فکراں
پاٹی لِیر پرانی وانگوں ٹنگ گیوں وِچ کِکراں
دُکھیے دا دُکھ دُکھیا جانے سُکھیے نوں کیہہ خبراں
ٹُر جاندے نیں سجن جنہاندے اوہ روون تک تک قبراں
سئے سئے جوڑ سنگت دے ویکھے آخر وِتھاں پئیاں
جنھاں بناں اِک پل سی نہ لنگھدا اوہ شکلا ں وی بُھل گئیاں
سال 2022ء کے آغاز کے ساتھ روزمرہ زندگی کے معمولات پر توجہ دی جانے لگی ۔ زندگی کی مثال جوئے شیر ،تیشہ و سنگ ِ گراں کی سی ہے ۔کاروان ِ حیات ہر حا ل میںرواں دواں رہتاہے ۔ کچھ لوگ اس کائنات کو توہم کے کارخانے سے تعبیر کرتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ روح اور قلب کا توہم سے وہی تعلق ہے جو کرۂ ارض کا ماحول کے ساتھ ہے ۔بشارت حسین وقارنے گبریل گارسیا مارکیز کی طلسمی حقیقت نگاری کا عمیق مطالعہ کیاہے اس لیے وہ وہم و گماں سے اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیتا۔ وہ کثیر الجہات اندازکے طرزِ عمل کو پیشِ نظر رکھنے پر تو جہ مرکوز رکھتاہے ۔ گردشِ ایام کے نتیجے میں اس کی زندگی ایک مقام پر رُک سی گئی ہے اور وہ سوچتاہے کہ اب کس سمت میں سفر کا آغاز کیا جائے ۔ جو جملے وہ زبان سے کہنے سے قاصر ہے وہ اس کی پر نم آ نکھیں ادا کر دیتی ہیں ۔ اس برس شعبان کے مہینے میں بشارت حسین وقار سے ملاقات ہوئی تو اُس نے بتایا :
’’ ہماری آ نکھوں سے رواں ہونے والی جوئے خون اگرچہ خطرے کے نشان تک پہنچ چُکی ہے مگر یہ ہمارے ضبط کے پُشتے کو کبھی نہیں توڑ سکتی ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہمارے خسارے اور مصائب و آلام کے گوشوارے ایک جیسے تحریر کیے ہیں مگر گردشِ ایام کے استعارے جداگانہ حدتک لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہیں۔ تقدیر نے آپ کو گوشہ نشینی پر مجبور کر دیا مگر میری مثال اُس آبلہ پا مسافر کی سی ہے جو موہوم منزلوں کی جستجو میںسرابوں کے عذابوں کو سہہ کر پیہم صحرا نوردی پر مجبور ہے ۔ آ پ کا شمار ان صابر و شاکر لوگوں میں ہوتاہے جنھوں نے اپنے لختِ جگر کی دائمی مفارقت کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر اس کے سامنے سر تسلیم کردیا۔میں اسی سوچ میں گم ہوں کہ میرا چاند کہاں غروب ہو گیا ۔ ہمارے باغِ تمنا میں ہماراچاندہمہ وقت گردش کرتا رہتاہے ۔سوچتاہوں کہ اگر خاموش بیٹھ جاؤں تو جبر کی میعادمیں اضافہ ہونے کااندیشہ ہے اگر گریہ و زاری کروں تو وقت کے فراعنہ کہیں حلقۂ زنجیرنہ کس دیں ۔توقیر عباس کی بہنیں اور جگر فگار والدین اس انتظار میں ہیںشاید کسی دِن اُن کا ماہتاب رنگ ،خوشبو ،مسرت ،حُسن و خوبی کے سبھی استعاروں سمیت گھر کے بے خواب کواڑوںپر دستک دے کر ان کے لیے عید کی گُم شدہ خوشیاں ساتھ لائے۔ عرصۂ دشت میںہم برسات کا شدت سے انتظارکر ر ہے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ عید الفطر سے ہم ایک جان لیوا صدمے سے دو چار ہیں۔ توقیر عباس کی مفارقت کے اعصاب شکن سانحہ کے مسوم اثرات سے نجات حاصل کرنے کی خاطر اس برس توقیر عباس کی ماں اور بہنوں کی خواہش پر ہم رمضان کے مہینے میں عمرہ و زیارات کے لیے حجاز ،ایران ،عراق اور شام روانہ ہو رہے ہیں ۔اس سال ہم عید الفطر کے موقع پر دریائے فرات کے کنارے خیمہ لگائیں گے۔ اس دنیا کے مسافر خانے میں قزاق ِ اجل کی مبارزت کے نتیجے میںہم اپنے مخلص احباب سے بے تعلق سے ہو گئے ہیںگزشتہ عید الفطر کے موقع پر توقیر عباس کی جدائی سے جو خلا پیدا ہوا وہ اس عید الفطر پر اُس کی یادوں سے پُر کرنے کی مہم پر نکلیں گے یہ بات درست ہے کہ رمضان المبارک کے بعد عید الفطر خوشی کا ایک موقع ہے مگر ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو گردشِ ایام کی زد میں آنے کے باعث آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِس رہے ہیں اوراپنی زندگی میں اُنھیں راحت اور شادمانی کے مواقع شاذ و نادر ہی نصیب ہوتے ہیں۔عید الفطر کے موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عالمی وبا کورونا نے ہزاروں گھر بے چراغ کر دئیے ۔اس وقت مجھے غالبؔ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے جو میرے حسبِ حال ہے۔
خزاں کیا فصلِ گُل کہتے ہیں کِس کوکوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے ۔ ‘‘
اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس خاندان کے افرادکی دیدۂ گریاں کے سب خواب جس بے دردی سے کچل کر پھینک دئیے اُن کے تصور ہی سے کلیجہ منھ کو آتاہے۔ زندگی بھر بے لوث محبت اور ادبی محفلوں کو زادِ راہ بنانے والے بشارت حسین وقار کا توقیر عباس کی جدائی کے بعدجھنگ کے گلی کوچوں سے چُپکے سے سر جھکا کر گزرنا اب معمول بن گیاہے ۔ بشار ت حسین وقار اور اُس کے فطین بیٹے توقیر عباس نے ہمیشہ زندگی کو ایک متاع ِ بے بہا قرار دیا۔ دائمی مفارقت دینے والے لختِ جگرکے کرب کو کلیجے سے لگائے یہ ماہر تعلیم زندگی کے دِن پورے کر رہاہے ۔ گردش ایام کے نتیجے میں اُسے سہنے کوایساکرب مِلا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ کہنے کا حوصلہ ہی عنقا ہوگیاہے۔ کہکشاں پر سوچاندبھی اپنی تابانیاں بکھیریں تو اِن جگر فگاروں کواِس کی کوئی پروا نہیں۔باغبانی ٔ صحرا و ریگستان کے ضوابط لکھنے کی خاطر انھوں نے خون ِ دِل میں انگلیاں ڈبو لی ہیں ۔ اسی مقصد کی خاطر اُنھوں نے جنڈ ،کریروں ،پُٹھ کنڈا، ببول ،لیدھا ،کھجوروں اور خارِ مغیلاں کی ہر نوک کو اپنے دِل و جگر کے خون سے سیراب کیا ہے ۔اس دشتِ عقوبت میں جہاں کوئی اِن کا پُرسانِ حال نہیں اگر وہ کسی ہوا خواہ ِ گلشن ،چارہ ساز یا غم گسار کوپکاریں تو مہیب سناٹے آواز کے پُرزے اُڑ ادیتے ہیں ۔ ماندنہ ،سیاہی وال ،سبز باغ اور جنگل بیلے کے نواح میں واقع قلعۂ خاموشی اور صحرائے اذیت میں اُگنے والی سادیت پسند خار دارجھاڑیوں نے اِس آس پر اپنے ہر کانٹے کی نوک کو تیز کر رکھاہے کہ شاید اِن الم نصیبوں کے بعد بھی کسی آبلہ پا کا اس جانب سے گزر ہو۔ اِن کی شب تاریک میں اُجالا تو اس وقت ہوگا جب اُن کا چاند توقیر عباس اِن کے گھر کے آ نگن میں اُترے گا۔ ہونہار توقیر عباس ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتا تھا کہ زندگی کے تلخ حقائق سے شِپرانہ چشم پوشی کرنے والے راحت و مسرت کی تلاش میں سرابوں کے عذابوں میں جی کا زیاں کرتے ہیں ۔ اس خاندان کے اچھے دِ ن تو کب کے بِیت گئے۔ بشارت حسین وقارکے گھر کے اُداس بام اور کُھلے در توقیر عباس کی مفارقت کے سانحہ کے بعد تاریک راتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کی زد میں ہیں۔ عیدالفطر گزر گئی اس کے بعد شوال اورذیقعد کے مہینے بھی بھی بیت گئے مگر بشارت حسین وقار کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا ۔اس عظیم انسان ،ادیب ،محقق ،نقاد اور دانش ور کے حالاتِ زندگی کو مستقبل کاسوانح نگار کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ جب تک دیانت دار سوانح نگار اس صا بر و شاکر انسان پر ٹوٹنے والے کوہِ ستم کی حقیقی لفظی مرقع نگاری نہیں کریں گے لوگ یہی سمجھیں گے کہ شاید کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا۔ چھے جولائی 2022ء کو ذی الحج کے مہینے میں جب عید الاضحٰی قریب تھی بشارت حسین وقار کا فون آ یا ۔اُس نے مجھے بتایا :
’’ اس وقت مجھے آستین کے سانپوں نے گھیر رکھا ہے اور میں عصائے موسیؑ تھامے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہوں ۔ میں نے ہمیشہ یہی تمنا کی ہے کہ وطن عزیز میں مقیم تمام شہریوں کو بلاامتیاز انصاف فراہم کیا جائے ۔میں نے ماہرین علم بشریات اور ماہرین عمرانیات سے سناہے کہ چاہتوں اور محبتوں کا قرض رنج و غم کی صورت میں چکانا پڑتاہے ۔ مصائب و آلام کے نِیل سے بچنے کے لیے میں اسی عصائے موسیؑ پر انحصار کرتاہوں ۔مجھے یقین ہے کہ وقت کے فراعنہ بہت جلد دریائے نِیل کی طوفانی لہروں میں غرقاب ہو جائیں گے ۔مشیت ِایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے ہی میرا نصب العین ہے اور ارفع نصب العین ہی ہمیشہ خضر ِ راہ ثابت ہوتا ہے ۔جب یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا ثمر ِنو رس نہال سے نہیں گرا بل کہ اِسے نہایت بے دردی سے ٹہنی سے توڑ لیا گیاہے توغم و آلام کی لہریں صبر و سکون کو بہا لے جاتی ہیں ۔ جس وقت غم اعصاب پر پہرے بٹھا دیتاہے اُس وقت ہمیں چاہیے کہ آزمائش و ابتلا کی اس گھڑی میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا مناسب ہے ۔انصاف کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتاہے کہ یہ معروضی معاملہ ہے ۔ اکثر درد آشنا لوگ مجھے صبرکی تلقین کرتے ہیں اور میں جواب میں یہی کہتا ہوں :
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دِل پہ سِل رکھنا
سالِ رواں کے آغاز میںہم ایران ،عراق ،شام اور سعودی عرب کے مقامات مقدسہ کی زیارات کے بعد گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں اپنے قادرِ مطلق کی رحمت پر یقین ہے کہ اُس کے فضل سے مصائب و آلام کی یہ جان لیوا شام بہت جلد بکھر جائے گیاور جبر و استبدادکے مسلط کردہ مسموم رنگ تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں گے ۔ خالقِ کائنات کی عطا ہے کہ ہمیں عمرہ و زیارات کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ کاسۂ گدائی تھامے شہرِ علم کے درواز سے فقیرانہ گزر ے اورصبر وقرارکی خیرات طلب کی۔جاگیر علی اکبرؓ اور گنج ِ شہدا سے مشیت ایزدی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے دُرِ نایاب مِلے ۔ بابِ صغیر ،دمشق کابازار اور زندانِ شام دیکھنے کے بعدجگرسے ایک ہُوک اُٹھی اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ خاندان ِ رسالت کو اکسٹھ ہجری میں جن مصائب وآلا م کاسامنا کرنا پڑا اُن کے سامنے توہمارے دُکھ تو ہیچ اور بے معنی ہیں ۔ معاشرتی زندگی میںاکثر دیکھا گیاہے کہ ہوائے جور و ستم کے مہیب بگولوں سے گھبرا کر کچھ لوگ شعبدہ باز عاملوں ،پینترے باز ٹھگوں اورنجومیوں کے پاس جاتے ہیں،کچھ لوگ گنڈوں اور ٹونے ٹوٹکوں کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوہوش و خرد کی دنیا سے ناتہ توڑ لیتے ہیں او ر گوشہ نشین ہوجاتے ہیں ۔صبر کی روایت اور مشیت ایزدی کے اسرار و رموز کی تفہیم کسی رمال ،منجم اور قیافہ شناس کے بس کی بات نہیں۔ہم نے تاریخ ِ اسلام کی ان جلیل القدر ہستیوں کے آستانے پر حاضر ی دی ہے جن کے نام تا ابد اُفق تاریخ پر مثلِ آفتاب ضوفشاں رہیں گے ۔ کر بلا کی خاک سے آج بھی یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ مظلوم جب اپنی جان کی قربانی دیتے ہیں تو انھیں حیات ابدی نصیب ہوتی ہے اور آنے والی نسلیں اُن کی قربانی کو دیکھ کر زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا ہوتی ہیں۔جو صدمے
ہم پر موجودہ وقت میں گزررہے ہیں اُن کے اسباب کی گرہ کشائی کے لیے ہمیں ایام گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی پر توجہ دینی چاہیے ۔ آنے والی نسلوں کو ہمارے مصائب و آلام اور مظلومیت سے آ گاہ کرنا اور اُنھیں مکر کی چالوں کے بارے میں سمجھانا لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والے فرض شناس اہلِ قلم کا فریضہ ہے ۔ دیو جانس قلبی کی طر ح دوپہر کے وقت مشعل فروزا ںکر کے انسانیت کی تلاش میں خجل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ہم اس معاشرے میں سانس لے ر ہے ہیں جہاں رفیق بھی عدو سے کہیں بڑھ کر درپئے آزار ہیں ،یہاں ہر اتائی بہ ظاہر مرہم بہ دست آتاہے مگر وہی سسکتے بیمار کو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب دھکیل دیتاہے ۔ یہا ں ایسے چوب دار موجود ہیں جوصبح خیزیے، نقب زن ،ٹھگ ،لُچے اور اُچکے سے زیادہ مُوذی و مکار ہیں ۔یہاں کی دیہی معاشرت میںپنچایتوں اور ستھوںپر اہلِ ہوس مجرموں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھاہے ۔ یہاں کے لکڑہارے اپنے تیز دھار قاتل کلہاڑوں کے وار سے ہر ے بھرے اشجار کے اجسام کو چِیر کر ر کھ دیتے ہیں اس کے باوجود سہمے ہوئے خستہ حال مالی کسی مصلحت کے تحت لکڑہارے اور کلہاڑے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور ہنہناتے ہیں ۔ ایام گزشتہ کی کتاب کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طر ح واضح ہو جاتی ہے کہ جب ہوائے جور و ستم کے مہیب بگو لے رُخ وفا کو بُجھانے اور مظلوموں کی حیات کے دامن کی دھجیاں اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں تو اشہب قلم کی جولانیاں دکھانے والے حریت فکر کے مجاہد خون ِ دِل میں اُنگلیاں ڈبوکر درد کی ایسی حقیقی روداد لوح ِ جہاں رقم کرتے ہیں جس کے مطالعہ سے آنے والی نسلیں خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر ہو جاتی ہیں۔تمھارے جیسے حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے والے جری تخلیق کار جب تیشۂ حرف تھام لیتے ہیں تو قلم کی قوت اور حرف صداقت کے اعجاز سے وقت کے فراعنہ کو نیست و نابود کر کے قصرِ فریدوں کی بنیادیں بھی اُکھاڑ دیتے ہیں ۔ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا زندہ اور با ضمیر اقوام کا شیوہ نہیں ۔ دنیا کو اس حقیقت سے آ گاہ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ نو جوان اولاد کی دائمی مفارقت کے صدمے سے والدین زندہ در گور ہو جاتے ہیں۔ تاریخ ایک ایسے پیہم روا ںعمل کا نام ہے جو خاموشی سے روشنی کا سفر جاری رکھتاہے۔ سب سے پہلے تو اس جان لیوا صدمے کا ذکر کیاجائے جس میں سے ہم گزرے ہیںاس کے بعد چور محل میں پروان چڑھنے والے اور چور دروازے سے گُھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے غارت گروں پر کاری ضرب لگائی جائے جنھوں نے اپنی شقاوت آمیزناانصافیوں سے ہمارے مستقبل کے سب خواب اور ہماری زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں ۔ ہماری زندگی ایک ایسے موڑ پر آپہنچی ہے کہ جس کے آگے کوئی رستہ سُجھائی نہیں دیتا ۔عیدیں آئیں اور گزر گئیں مگر ہماری کوئی اُمید بر نہ آئی اور نہ ہی توقیر کی واپسی اور اُس سے ملاقات کی کوئی صورت نظر آئی۔حالات ہمیں اُس موڑ پر لے آئے ہیںکہ ہمیں وعدوں پر ٹالنے والے سب ستھی اپنی صورت سے خفا دکھائی دیتے ہیں ۔ ہمارے سانحہ کے بارے میںاہلِ ہوس ،پنچایت اور چوب دار کی مجرمانہ خاموشی دیکھ کر ہر باضمیر شخص تڑ پ اُٹھاہے ۔ ہمارے اعدا نے جو مہلک غلطیاں کی ہیں اُن کی بنا پر دِلِ بینارکھنے والوں نے اُن کو نظروں سے گرا دیاہے۔ دریا اور ندی نالے اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ وہ دِن دُور نہیں جب پُر شور موجوں کی طغیانی کا یہ بہاؤ سمندروں کی خاموشی میں بدل جائے گا۔ بیتے لمحات کی چاپ سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ فرصتِ زندگی کی قدر کرنا اور کٹھن مراحل میں صبر و استقامت کو شعار بنانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ مجھے یقین ہے توقیر عباس کو دریائے جہلم کی طوفانی لہروں میں دھکادینے کی سازش کرنے والی ڈائنین بھی جلدسیفو اورورجینا وولف جیسے عبرتناک انجام کو پہنچیں گی۔ اپنی خدادا صلاحیتوں کی بنا پر توقیر عباس ہمارے خاندان کا فخر تھا۔اُس نے پاکستانی ادبیات اور عالمی کلاسیک کے مطالعہ سے ستاروں پر کمند ڈالی اور ایسی لائق ِ صد رشک و تحسین منزل حاصل کی جس تک رسائی کے لیے خدا جانے کتنی نسلوں کو خونِ جگر دینا پڑے گا۔ تہذیبِ ظرف سے عاری اور دریدہ دہنی کو وتیرہ بنانے والے اپنے کینہ پرور اعدا کی شقا وت آمیز سازشوں کے جواب میں محبوب خزاں کا یہ شعراکثر میں دہراتا ہوں :
دُشمنی ہے تو دُشمنی ہی سہی
میں نہیں یادُکانِ شیشہ نہیں
میرے دِل سے آہ نکلتی ہے کہ اب تو سُورج کو سوا نیزے پر آ جانا چاہیے ۔ ہمارے ویران دِل میں اُمید کی مشعل اور چراغ ِ گماں فروزاں کرنے سے سفاک ظلمتوں کے خاتمے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔ کوہ کن کے بارے میں مشہورہے کہ اُس نے تیشے سے پہاڑ کاٹ ڈالے مگر ہم نے جس طرح اپنی ڈُوبتی سانس کی لے سے زندگی کاٹی ہے اُسے زمانہ یاد رکھے گا۔ آخر میں افسانہ و افسوں سے وابستہ اپنے غم گساروں سے میری ایک گزارش ہے میں نے اپنی داستانِ الم سے سب اہلِ قلم کو آ گا ہ کر دیا ہے اسے تاریخ کا معتبر حوالہ بنانا اب لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والے حریت ِ فکر کے مجاہدوں کی ذمہ داری ہے ۔آپ کے قلم میں وہ تاثیر ہے کہ آپ جگر کی آگ اور بدن کی حدت کو سامنے لا سکتے ہیں ،آپ کا منفرد اسلوب استعارات،تلمیحات اور تشبیہات کے اعجاز سے نظا م ِ استخواں کے مانند سخت ثابت ہو سکتاہے اور مظلوموں کے لیے پُر خلوص جذبات پر مبنی اندیشۂ زوال سے نا آ شنا آپ کے الفاظ قارئین کے پورے نظام عصبی کو اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں ۔ ‘‘
پس نو آبادیاتی دور میں پروفیسر بشارت حسین وقار کو عالمی کلاسیک اور پنجابی ادبیات کے ایک ایسے اسطور کی حیثیت حاصل ہے جنھیں دیکھ کر تخلیقِ ادب کے حوالے سے قارئین کے دلوں کو ایک ولولہ ٔ تازہ نصیب ہوتا ہے ۔ معیاری ادب اور غیر ادب میں پائی جانے والی حدِ فاصل کو سمجھنے والا یہ جر ی نقاد اور محقق پاکستانی ادب کا بیش بہا اثاثہ ہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جس صبر و استقامت اور خلوص کے ساتھ یہ تخلیق کار پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنااورصبر و تحمل ہی اس کی پہچان ہے۔ اپنے خلوص کے اعجاز سے وہ ہر ملاقاتی کا دِل موہ لیتاہے۔ وہ جانتاہے کہ صبر کے لیے دِل پر جبر کرنا پڑتاہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ اس حقیقت سے بھی با خبر ہے کہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا اجر عظیم دنیا اورآخرت میں سکون عطا کرتاہے ۔
پروفیسر بشارت حسین وقار کے خاندان کے سب افراد کا کہنا ہے کہ استحصالی معاشرے میں اخلاقی اقدار کو بارہ پتھر کر دیا جاتاہے ۔ ان مخلص لوگوں نے رفاقتوں ،شناسائیوں اور درد آ شنائیوں کو جو قصر عالی شان تعمیر کیا ہے وہ کرداراور ذہانت کی اساس پر استوارہے۔ حیات و کائنات کے تمام مسائل فضائے حیرت آبادِ تمنا کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔یاس و ہراس کے کرب کی تاب لانا انتہائی جان جوکھوں کا مرحلہ ہے مگر بشارت حسین وقاراپنے لہو سے ہولی کھیلنے اور دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پرجھیلنے کا حوصلہ رکھتاہے۔ بے حِس معاشرے میں مظلوموں کے دِل حزیں سے نکلنے والی آہ و فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے ۔ خود غرضی اور انتشار کے موجودہ دور میںمعاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہے ۔ اس خاندان کے واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ ان صبر آزما حالات میں اگر کوئی مُونس و غم خوار اظہار ہمدردی کی خاطر کوئی جملہ کہہ دیتاہے تو اسے بھی محض اتفاقی امر سے تعبیر کرنا چاہیے ۔ ہوائے جو ر و ستم میں قناعت، وفا ،صبر و استقامت کی مشعل فروزاں رکھنے والے معلم بشارت حسین وقار نے اپنے شکستہ دِل پر اس لیے صبر کی سِل رکھ لی ہے کہ غم و آلام کی مسموم ہوائیں کہیں مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے اس خاندان کے افراد کے عزم کو متزلزل نہ کر دیں ۔ بشارت حسین وقار کی داستانِ غم سُن کر میں نے محسوس کیا کہ زندگی کے جو موسم اس میں سمٹ آ ئے ہیں ان میں حال اور ماضی کے سب طوفان بلائے جان بن گئے ہیں۔ اس نے جس وثوق انگیزی کو اپنے غم کا فسانہ مجھے سنایا ہے وہ دِل میں اُتر گیا ہے ۔ رنگ ،خوشبو ،حسن ، خوبی اور جلال و جمال کے سب استعاروں کے اس با وقار نقیب کی لمبی زندگانی کے لیے دِل سے دعا نکلتی ہے ۔ ہر صبح خورشید جہاں تاب کی شعاعیں یہی پیغام دیتی ہیں کہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ایک صا بر و شاکرنسان تُو جُگ جُگ جیے ۔میںاِس رودادِ غم کے بارے میںبہت کچھ لکھنا چاہتاتھا مگر میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور آ نکھوں سے جوئے خوں رواں ہے۔ میری یہ تحریر بارش کا پہلا قطرہ ہے وہ وقت ضرور آ ئے گاجب کوئی جری سوانح نگار حقائق کی لفظی مرقع نگاری کر کے اس خاندان کے زخموں پر مرہم رکھے گا۔ٹُوٹے پُھوٹے الفاظ کی ترتیب سے میں نے جیسے تیسے یہ رُوداد غم لکھی ہے ۔ میر ے الفاظ میری روح اور قلب کے جذبات کے ترجمان ہیں ۔سوچتا ہوں یہ الفاظ لکھنے کے بعد میں کس طرح مرہم بہ دست بشارت حسین وقار کے پاس پہنچوں ۔ان حالات میںمیری یہ تحریر پڑھنے کے بعد توقیر عباس کے جگرفگار والدین اگر اِسے جواز اعتبار سے نوازیں تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ میں جب بھی بشارت حسین وقارکے بارے میں سوچتاہوںکہ تپتے صحراؤں اور کھنڈرات کے آبلہ پا مسافروں کو خنک چھاؤںفراہم کرنے اور بے آ ب و گیاہ ریگستانوں کو سیراب کرنے والے اس ابرِ کرم نے اپنی خشک آ نکھوں اور اظہار و ابلاغ میںتحیر آفرینی سے خونِ دِل چھلکانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ تاریخ کا ایک لرزہ خیز ، اعصاب شکن اور جان لیواسانحہ ہے ۔ اُسے دیکھ کر ہر شخص کے ذہن میں اکسٹھ ہجری کے عظیم سانحہ کی یاد گردش کرنے لگتی ہے ۔ جسے اُرد و زبان کے ممتاز شاعرمجید امجد نے اِس شعر کے قالب میں ڈھالا ہے :
سلام اُن پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تُو چاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔