کیا خوبصورت شاہراہ تھی۔ ہریالی کا ایک جہان تھا جو دونوں طرف لہلہا رہا تھا اور جگمگا رہا تھا۔ ہر موڑ مڑنے کے بعد نظروں کو پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈک میسر آتی تھی۔ پھر ایک بورڈ نظر آیا۔ شیلانگ۔ چالیس میل۔ بارڈر پر جا کر ہم رک گئے۔ سامنے پہاڑ تھے اور آبشاریں۔ اُس طرف بھارت تھا۔ شیلانگ آسام کا دارالحکومت تھا۔ ہم سلہٹ سے چلے تھے۔ سرحد کی سیر کر کے واپس سلہٹ کا رُخ کیا۔
یہ سالہا سال پہلے کا قصہ ہے۔ کالم نگار ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ جہاں گردی کا شوق تو تھا ہی‘ مشرقی پاکستان کا ہر گوشہ دیکھنے کی آرزو اس پر مستزاد تھی۔
کچھ عرصہ پہلے جب یادداشتیں کچھ ذہن میں الٹ پلٹ کر دیکھیں اور کچھ کاغذوں پر بکھری ہوئیں تلاش کیں تا کہ اس خودنوشت میں قیام ڈھاکہ کا باب باندھا جائے جو چیونٹی کی رفتار سے وجود پا رہی ہے تو معلومات تازہ کرنے کے لیے کچھ مطالعہ کیا اور کچھ فاصلے اٹلس پر چیک کیے۔ پتہ چلا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ شیلانگ شیلانگ ہی ہے لیکن اب وہ آسام کا دارالحکومت نہیں بلکہ ایک اور ریاست میگھالایا کا صدر مقام ہے۔ میگھالایا آسام کو تقسیم کر کے تشکیل کی گئی۔ آسام کا دارالحکومت گوہاٹی منتقل ہو گیا۔
میگھالایا واحد ریاست نہیں جو آسام کے بطن سے نکلی۔ ہم میں سے وہ جو تقسیم ہند کے بعد کی پیدائش ہیں‘ ہندوئوں کا زمانہ نہیں دیکھ پائے لیکن سب نے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ ہندو بہت کائیاں تھا۔ چالاک تھا۔ مثلاً یہ مثال دی جاتی تھی کہ ہندو دکاندار بچے کو بھی اُسی نرخ پر سودا دیتا تھا جس پر بڑے کو دیتا تھا اس لیے کہ اُس کا مقصد دکانداری کو چمکانا اور بِکری زیادہ کرنا تھا جب کہ مسلمان دکاندار ایک ہی بار ہاتھ مارنا چاہتا تھا۔ یہ زبانی روایتیں ظاہر ہے کوئی سائنسی حقائق نہیں بس تاثرات تھے۔ لیکن بھارت کی حالیہ تاریخ کا اپنی تاریخ سے موازنہ کریں تو دل ساتھ دے یا نہ دے‘ دماغ یہی کہتا ہے کہ واقعی ہندو کائیاں ہے‘ ہوشیار ہے اور مستقبل میں دور تک جھانکتا ہے۔ پچاس کا عشرہ شروع ہوا تو بھارت نے زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا۔ راجواڑے اور نوابیاں ختم کیں۔ آج مشرقی پنجاب جو ہمارے پنجاب سے کہیں چھوٹا ہے‘ پورے بھارت کو گندم مہیا کر رہا ہے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن دیکھ لیں۔ اس کے اختیارات کا ہم غالباً سوچ بھی نہ سکیں۔
یہی ہوشیاری اور مستقبل بینی بھارت نے صوبوں کے ضمن میں دکھائی۔ (صوبے کو وہاں ریاست کہا جاتا ہے)۔ کمیشن بنائے گئے۔ عوام کی ان خواہشات کو تسلیم کیا گیا جو نسلی اور لسانی حوالوں سے انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ آسام سے ایک میگھالایا نہیں‘ چار ریاستوں نے جنم لیا۔ ناگالینڈ 1963ء میں وجود میں آئی۔ 1972ء میں میزورام الگ ریاست بنی اور کچھ برسوں بعد اروناچل پردیش کے نام سے ایک اور ریاست باقی ماندہ آسام کو کاٹ کر تشکیل دی گئی۔ پنجاب کو دیکھیے۔ پنجاب کی ’’تنظیمِ نو‘‘ کا ایکٹ پاس ہوا اور شملہ‘ کانگڑہ‘ امبالہ ضلع کے کچھ حصے‘ لوہارا اور امب کے علاقے اور ہوشیارپور اور گورداسپور کی کچھ تحصیلیں جوڑ کر ہماچل پردیش کی ریاست بنا دی گئی۔ 1966ء میں شاہ کمیشن بنایا گیا۔ اس کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر حصار‘ مہندرگڑھ‘ گڑگائوں‘ رہتک کرنال اور کچھ علاقوں کو ملا کر ہریانہ کی ریاست وجود میں لائی گئی۔ آندھرا پردیش کو دیکھیے۔ تلنگانہ کی تحریک چلی۔ کئی اتار چڑھائو آئے۔ گزشتہ جون میں آندھرا پردیش کو تقسیم کر کے تلنگانہ ریاست بنا دی گئی۔ مدھیا پردیش کو 2000ء میں دو حصوں میں کاٹ کر چھتیس گڑھ کی ریاست بنائی گئی۔ اسی سال یوپی میں سے اُترکھنڈ کی ریاست نکلی۔ معروف و مشہور ڈیرہ دُون اسی کا صدر مقام ہے۔ بہار کے جنوبی حصے کو الگ کر کے جھاڑ کھنڈ کی ریاست بنائی گئی۔ یہ ایک تحریک کے نتیجے میں ہوا۔ الگ شناخت کا مسئلہ تھا۔
یہ سب کچھ بھارت میں ہوا۔ آسمان ٹوٹا نہ قیامت برپا ہوئی۔ زمین سے تنوروں نے پانی اُگلا نہ خلا سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ اس لیے کہ بھارت کو اپنے اوپر اعتماد تھا کہ وہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ عوام کے لسانی اور نسلی پہلوئوں کو خاطر میں لانے سے ٹوٹ جائے گا۔ ان نئی ریاستوں کی تشکیل سے بھارت میں جمہوریت مضبوط تر ہوئی۔ نئی ریاستوں کے باشندے پہلے بھی بھارتی تھے۔ بعد میں بھی بھارتی ہی رہے!
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جو کچھ ہوا اور جو کچھ نہیں ہوا‘ ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے اپنے کیے کی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ صاحب! جو کچھ ہوا‘ اُس پر افسوس ہے مگر جو نہیں ہوا‘ اُس پر زیادہ افسوس ہے۔ ہمارا اسلام اتنا کمزور ہے کہ کرکٹ میں ہارنے سے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارا ملک اتنا کمزور ہے کہ کسی کو اُس کا لسانی‘ نسلی یا شناخت کا حق دیا جائے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت اتنی ضعیف ہے کہ کسی مسئلے پر عوام احتجاج کریں تو جمہوریت بچانے کی فکر جائز مطالبات کو دھوئیں میں لپیٹ کر آنکھوں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ ملک نہ ہوا طوطے کا وطن ہو گیا۔ طوطے کے وطن کا قصہ یوں ہے کہ کچھ طوطے پردیس میں اکٹھے رہتے تھے۔ ایک طوطا اکثر و بیشتر وطن کو یاد کر کے مسحور کن تذکرے کرتا تھا۔ ’’میرے وطن کی کیا بات ہے! دیکھو تو پتہ چلے‘‘۔ تنگ آ کر سب اس کا وطن دیکھنے چل پڑے۔ دور ایک تالاب تھا۔ اُس کے کنارے درخت تھا۔ درخت پر ایک شاخ یوں تھی کہ زور سے ہوا چلتی تو تالاب کے پانی میں ڈوب جاتی۔ پھر باہر آ جاتی۔ اس پر گھونسلا تھا۔ طوطا فرطِ مسرت سے چلایا‘ وہ دیکھو‘ گھونسلا اور وہ دیکھو پانی میں ڈوبتی‘ ابھرتی‘ باہر نکلتی شاخ۔ وہ میرا وطن ہے۔ ہمارا بھی کم و بیش وہی حال ہے!
الطاف حسین سے کئی اختلافات ہیں۔ اس قلم کار نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر توازن سے تجزیہ کیا جائے۔ ایم کیو ایم کی تشکیل‘ دوسری شناختوں کے رویے کا ردعمل تھا۔ تاہم یہ ردعمل بیلنس کھو بیٹھا اور مڈل کلاس کی بنیاد پر ملک گیر ہونے کے بجائے دو تین جنوبی شہروں میں محدود ہو کر رہ گیا۔ ٹیلی ویژن اور وی سی آر فروخت کر کے کلاشنکوف خریدنے کا نعرہ بھی غلط تھا۔ اس کا نقصان زیادہ اور فائدہ محض وقتی اور سطحی ہوا۔ مگر یہ جو الطاف حسین نے نئے صوبے کی بات کی ہے تو اس پر واویلا مچانے کا بھی کوئی جواز نہیں! نئے صوبے سے قیامت نہیں آئے گی۔ سندھ اتنا بھی کمزور نہیں۔ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی چیخ و پکار بلیک میلنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ سندھ کارڈ کھیلنے والے یہ بھی تو بتائیں کہ انہوں نے سندھی عوام کو کیا دیا ہے؟ جناب قائم علی شاہ اپنی کامیابیاں اور ظفریابیاں بھی تو گنوائیں۔ کراچی میں پانچ کلو میٹر کی ٹرام تو وہ چلا نہ سکے۔ پانی کا مسئلہ ایک ڈرائونے خواب کی طرح شہریوں کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ پولیس ایک سو دس فیصد سیاسی کیچڑ میں لتھڑی ہوئی ہے۔ سندھ حکومت جس جنونی کیفیت میں ’’فرائض‘‘ سرانجام دے رہی ہے اس کی صرف ایک جی ہاں… صرف ایک جھلک دیکھیے۔ انصاف اور میرٹ پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ گریڈ ایک سے لے کر اوپر تک کی ساری بھرتیاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائیں تاکہ سفارش‘ اقربا پروری اور رشوت کا خاتمہ ہو مگر سندھ میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ چیف سیکرٹری کو سمری بھیجتے ہیں کہ گریڈ سولہ اور سترہ کی تعیناتیاں بھی سندھ پبلک سروس کمیشن کے ہاتھ سے چھین لی جائیں اور ایک ’’سلیکشن‘‘ کمیٹی کے سپرد کر دی جائیں۔ مقصد واضح ہے کہ اہلِ اقتدار اپنے ’’ہونہار‘‘ رشتہ داروں اور دوستوں کو نواز سکیں۔ نہیں معلوم یہ تجویز عملی جامہ پہن سکی یا نہیں لیکن اس سے اُس ’’شفافیت‘‘ کا پتہ چلتا ہے جو سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگانے والے اپنے نامۂ اعمال میں سجائے ہوئے ہیں۔
نئے صوبے بننے چاہئیں۔ نئے صوبے بنانے ہوں گے۔ نئے صوبے بنانے پڑیں گے۔ سندھ میں‘ پنجاب میں بھی اور کے پی سمیت دوسرے علاقوں میں بھی۔ مانسہرہ کا شہری اپنے جائز کام کے لیے پشاور کیوں جائے؟ اس کا کام ایبٹ آباد میں کیوں نہ ہو؟ بہاولپور اور لودھراں والے لاہور کیوں جائیں؟ پنجاب حکومت کے منشی ذرا اٹک‘ مکھڈ یا تلہ گنگ سے بس میں بیٹھ کر لاہور تک کا سفر کریں۔ اللہ کے بندو! بلوچستان کا رقبہ دیکھو۔ فاصلے ماپو! چند سرداروں کو دیکھو۔ دور افتادہ عوام پر بھی ایک نظر ڈال لو۔ اختیارات کا ارتکاز نہ کرو۔ ا ختیارات کو عوام کی دہلیز تک پہنچائو۔ عقل و دانش صرف لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور پر نہیں اتاری گئی‘ ایبٹ آباد‘ چترال اور ڈی آئی خان کے لوگ بھی کھوپڑیوں میں بھیجا لیے ہوئے ہیں۔ شکارپور‘ خیرپور اور دادو کے رہنے والے بھی نوالہ کان میں نہیں‘ منہ ہی میں ڈالتے ہیں۔ سبی اور گوادر والے بھی حکومت چلانے کے اہل ہیں۔ راولپنڈی‘ ملتان اور بہاولپور بھی صوبائی ہیڈ کوارٹر بن سکتے ہیں۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے عقل و دانش سندھ پبلک سروس کمیشن کے تصرف میں نہیں ورنہ وزیراعلیٰ ایک اور سمری جاری کرتے کہ آئندہ عقل و دانش بھی ’’سلیکشن‘‘ کمیٹی بانٹا کرے گی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“