وہ جو کہتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے بارے میں لوگ مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں تو اس تعریف کا اطلاق حسن نثار پر بھی ہوتا ہے۔ ان کے چاہنے والے بے شمار ہیں اور برا بھلا کہنے والوں کی بھی کمی نہیں! یو ٹیوب پر ’’عُشاق‘‘ نے کیا کیا مہربانیاں کی ہوئی ہیں! یوں بھی عربی میں کہتے ہیں کہ مَن صَنَّفَ قَدِ استَہدَفَ۔ جس نے بھی نیا راستہ نکالا، تنقید کا ہدف بنا۔ مجھے بھی ان سے کچھ معاملات میں اختلاف ہے۔ مثلاً ان دنوں ان کا میلان کچھ کچھ اس طرف ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو بھی آزمایا جایا جائے اور اُسے ووٹ دیے جائیں۔ اس فقیر کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ علماء کا اصل کام دعوت و تدریس ہے اور حکومت کا محاسبہ کرنا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد جیسا کہ تجربے نے ثابت کیا ہے، علماء بے توقیر ہو جاتے ہیں اور کم فہم لوگ ذمہ داری دین پر ڈالتے ہیں۔ بہرحال میں کیا اور میرا اختلاف کیا۔ ایک طالب علم ہوں اور حسن نثار سے اور تمام سینئرز سے، اختلافِ رائے سے قطعِ نظر، ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔
بات دوسری طرف نکل گئی۔ حسن نثار کا تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ چند دن پہلے ان کے ٹی وی پروگرام ’’میری دنیا‘‘ کے حوالے سے خبر پڑھی جس میں ایک ایسی بات تھی جو فکر کو مہمیز لگا گئی؛ اگرچہ ان کا یہ کہنا بھی کہ پرویز مشرف‘ نوازشریف ہی کا تحفہ تھے ، توجہ کا مستحق ہے اور اس فقیر نے بھی متعدد بار بے حد خلوص نیت سے عرض کیا ہے کہ میاں صاحب کو اس بات پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے کہ انہوں نے میرٹ کو پس پشت ڈال کر ایک پلے بوائے کو عالمِ اسلام کی عظیم الشان سپاہ کا سالار بنا دیا۔ حالانکہ خدا کی کتاب میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ امانتیں صرف انہی کے سپرد کرو جو اہل ہوں۔ لیکن حسن نثار کی جو بات ان سطور کا محرک بنی وہ اور ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ ملک سے دور نہیں رہ سکتے۔ لیکن بچوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شاید انہیں بیرون ملک بھجوا دیں۔ یہ بات اگر کوئی ایسا بابو یا برائون صاحب کہتا جو گرمیوں کی تعطیلات یوں بھی الپس کے پہاڑوں میں گزارتا ہے اور بچوں کو ڈزنی لینڈ کی سیر کے لیے بھیج دیتا ہے تو تعجب کی بات نہیں تھی اور ایسے بابو اور برائون صاحب بدعنوانی کے اس عہد نامسعود میں روپے کے دس مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات اگر ایسا دیسی شخص کہہ دے جو شہر سے اٹھ کر جنگل میں جا بسے اور پرندوں اور پھولوں کے درمیان بسیرا کر لے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع
چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں، ہم نہ کہتے تھے!
طوطا اپنے وطن سے دور دیارِ غیر میں محنت مزدوری کر رہا تھا۔ جب بھی شام کو دوسرے طوطوں کے ساتھ گپ شپ کے لیے بیٹھتا تو آہ بھر کر کہتا: ’’ہائے میرا وطن! بہت یاد آ رہا ہے!‘‘ دوسرے طوطے پوچھتے کہ اتنی سرد اور لمبی آہ جو بھر رہے ہو تو کیا تمہارا وطن بہت دلکش ہے؟ طوطا جواب دیتا کہ میرے وطن کا جواب ہی نہیں! روئے زمین پر اس سے زیادہ دل نشیں گوشہ کوئی نہیں، یہ وطن تو میری روح اور میری زندگی ہے! روز روز کی اس قصیدہ خوانی سے طوطے اکتا گئے اور ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ ذرا اس کا وطن دیکھیں تو سہی؛ چنانچہ سارے طوطے اس کی قیادت میں جو ہر وقت وطن کی تعریفیں کرتا رہتا تھا اڑ کر اس کے وطن آ پہنچے۔ تجسس اور اشتیاق ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا تھا کہ آج اس طوطے کا وطن دیکھیں گے۔ طوطا انہیں ایک تالاب پر لایا جو پانی سے لبالب بھرا تھا۔ تالاب کے کنارے ایک درخت تھا۔ درخت کی ایک ٹہنی زمین سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔ اس ٹہنی پر ایک اجاڑ سا گھونسلا بنا ہوا تھا۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹہنی ہوا کے زور سے جھُکتی اور آدھا گھونسلا پانی میں ڈوب جاتا۔ پھر ٹہنی اوپر کو اُٹھتی اور گھونسلے سے پانی نچڑ کر نیچے بہہ جاتا۔ طوطے نے کہا یہ گھونسلا اور یہ ٹہنی میرا وطن ہے۔ دوسرے طوطوں نے ملامت کی کہ کیا اس وطن کے لیے رات دن تمہارا سینہ لوہار کی دھونکنی کی طرح چلتا تھا۔ طوطے نے کہا ہاں! جیسا بھی ہے، یہی میرا وطن ہے اور اسی پر میں فدا ہوں۔ لیکن تماشا یہ ہوا کہ طوطے کے بچے بھی یہ مکالمہ سُن رہے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا آگے بڑھا اور باپ سے کہنے لگا، ابّا بہت ہو گئی، ہم اس سیلاب کے گھر میں مزید نہیں رہ سکتے، درخت اور بھی بہت ہیں اور ہمارے پروں میں طاقت بھی بہت ہے!
زندگی جذبات اور رومان میں نہیں گزر سکتی۔ انسان ہمیشہ انصاف کا طلب گار رہا ہے اور انصاف کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ اُس کی محنت کا جائز پھل ملے، اُسے ذلیل نہ کیا جائے اور ایک مخصوص طبقے کو دیکھ کر اُسے اپنی بے بضاعتی کا احساس نہ ہو۔ آپ تصور کیجیے، پچیس سال کا ایک نوجوان، جس نے سکول کالج اور یونیورسٹی میں ہمیشہ محنت کی، اپنے ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی سے پڑھ کر اعلیٰ ڈگری لی اور پھر یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ اُسے ملازمت بھی مل گئی، اپنے شب و روز کیسے گزارتا ہے!
وہ رات کو جلد سوتا ہے کہ صبح سات بجے اُس نے دفتر کے لیے روانہ ہونا ہے۔ لیکن رات کو ایک بجے اس کی بیوی اُسے جگاتی ہے کہ یوپی ایس چلنا بند ہو گیا ہے اور اُن کا تین ماہ کا بچہ رو رہا ہے۔ اندھیرے میں وہ اُس کا دودھ فیڈر میں کیسے ڈالے۔ وہ آنکھیں ملتا اُٹھتا ہے اور موبائل فون کی روشنی میں بیٹریوں کا پانی چیک کرتا ہے۔ پانی تو کم نہیں، پرسوں ہی ڈالا تھا۔ پھر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ بیٹریاں وقت پورا کر چکی ہیں اور دو نئی بیٹریوں کا خرچ کم از کم اٹھارہ ہزار روپے ہے۔ جوں توں کرکے رات گزرتی ہے، صبح وہ اپنی پتلون استری کر رہا ہے کہ بجلی پھر چلی گئی، ناشتہ آدھا ہی کر پاتا ہے اور چل دیتا ہے۔ آج نو بجے دفتر میں میٹنگ ہے اور اُسے ایک پریزنٹیشن دینا ہے۔ ابھی دفتر سے دو میل دور ہے کہ پولیس کا سپاہی چوک پر اُس کی ننھی منی مہران گاڑی کو ہاتھ دے کر روک دیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ
چوک کے دوسری طرف بھی گاڑیاں رُک گئی ہیں۔ پندرہ منٹ گزرتے ہیں پھر بیس منٹ ہو جاتے ہیں، پھر آدھا گھنٹہ، ایک سپاہی اس کے پاس سے گزر رہا ہے، وہ شیشہ نیچے کرکے پوچھتا ہے کہ ٹریفک کیوں روکی گئی ہے، سپاہی اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالتا ہے اور بے بسی سے بتاتا ہے کہ رُوٹ لگا ہوا ہے، فلاں حکمران ائرپورٹ جا رہا ہے۔ وہ پیچ و تاب کھاتا ہے، فراٹے بھرتی جہازی سائز کی گاڑیوں کا قافلہ زن سے گزرتا ہے، اُسے اپنی عزتِ نفس تیزاب میں گھُلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ دفتر پہنچتا ہے۔ میٹنگ شروع ہو چکی ہے، اُس کا باس اُس کی روداد سنتا ہے تو مشورہ دیتا ہے کہ یار! ذرا پہلے نکل آیا کرو نا گھر سے! وہ بُجھا ہوا شکستہ حوصلے کے ساتھ اپنی سیٹ پر آتا ہے۔ ابھی اُس نے لیپ ٹاپ آن کیا ہی ہے کہ بیوی کا فون آتا ہے، گیس کا پریشر برائے نام ہے۔ کھانا نہیں پک رہا، آتے ہوئے کچھ لے آنا۔ دو گھنٹے بعد پھر فون آتا ہے۔ سرکاری سپلائی والا پانی دو دن سے نہیں آیا، انڈر گرائونڈ ٹینک خالی ہو گیا ہے۔ وہ ٹینکر والے کو فون کرتا ہے۔ ٹینکر والا وعدہ کرتا ہے کہ چند گھنٹوں میں پانی لے آئے گا لیکن ساتھ ہی کہتا ہے… ’’صاب! ریٹ بڑھ گیا ہے۔ اب ٹینکر تیرہ سو کا نہیں، پندرہ سو روپے کا ہوگا۔‘‘ شام کو وہ انتہائی انہماک سے ایک پروجیکٹ کے لیے سلائیڈز تیار کر رہا ہے کہ اچانک انٹرنیٹ کا کنکشن غائب ہو جاتا ہے۔ وہ متعلقہ محکمے کو فون کرتا ہے لیکن فون کوئی نہیں اٹھاتا۔ وہ بے بسی سے بیوی کو بتاتا ہے کہ اب انٹرنیٹ کل ہی بحال ہوگا، وہ بھی سفارش کرانا پڑے گی۔ اچانک اُسے یاد آتا ہے کہ بیٹا تین ماہ کا ہو گیا اور ابھی تک اُس کا ’’ب فارم‘‘ نہیں بنا۔ ب فارم بنانے والے، پیدائش کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے تھے اور میونسپلٹی کے کئی چکر لگانے کے باوجود متعلقہ کلرک سرٹیفکیٹ نہیں دے رہا تھا حالانکہ ہسپتال سے بنا ہوا سرٹیفکیٹ اس نے میونسپلٹی والے بابو کو دو ہفتے پہلے دے دیا تھا۔ بابو نے اُس سے پوچھا تھا کہ وہ ملازمت کہاں کرتا ہےاُس نے بتایا کہ کمپیوٹر والی ایک کمپنی میں، اس پر بابو نے بڑی ڈھٹائی سے اسے بتایا کہ اسے ایک ڈیسک کمپیوٹر کی ضرورت ہے، کیا وہ اسے ’’اُدھار‘‘ دلوا سکتا ہے؟ ابھی وہ یہ ساری بات سوچ ہی رہا ہے کہ نظر اچانک اخبار پر پڑ جاتی ہے جو بیوی پڑھتے پڑھتے اُس کے سامنے پھینک کر روتے ہوئے بچے کو اٹھانے کمرے میں چلی گئی ہے۔ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا اُس کا خواب ہے اور اخبار کی خبر اُس کے سینے میں خنجر کی نوک کی طرح اترتی جا رہی ہے…‘‘ ڈاکٹر نیازی پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں 20 ویں گریڈ کے سینئر ڈاکٹر تھے۔ 14 فروری 2012ء کو انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال راولپنڈی میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا۔ چار دن بعد یعنی 18 فروری کو راولپنڈی کے ایک بااثر سیاسی رہنما کی فرمائش پر انہیں او۔ایس۔ ڈی بنا دیا گیا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کو دو سال رہ گئے ہیں وہ دل کے مریض ہیں۔ انہیں تعیناتی کے لیے پورے آٹھ ماہ انتظار کی اذیت میں رکھا گیا۔ انہیں بہاولپور تعینات کیا گیا جس کا مقصد خود ڈاکٹر نیازی کے بقول صرف یہ سبق سکھانا تھا کہ اگر میں نے ایک سیاسی شخصیت کے خلاف ڈٹ جانے کی جرأت کی تو صوبے کے کسی دور افتادہ کنارے پر پھینک دیا جائوں گا۔‘‘ خبر میں آگے کچھ اور بھی ’’اصول پرستیوں‘‘ کی تفصیل ہے لیکن وہ پڑھنے کی ہمت نہیں پاتا۔ وہ اپنے بچے کو غور سے دیکھتا ہے۔ پھر اُس کے منہ سے دو لفظ نکلتے ہیں… ’’نہیں۔ نہیں۔‘‘ وہ اپنے چچازاد بھائی کو ناروے فون ملاتا ہے جس نے اُسے بتایا تھا کہ جو کوالیفکیشن اُس کے پاس ہے سکنڈے نیویا میں اُس کی ضرورت ہے اور قدر بھی!