ہماری تشویش عارضی تھی کیونکہ ہم کسی اعلیٰ منصب پر فائز نہ تھے اور نہ ہی ایوانِ بالا کے انتہائی فیصلے لینے والے مگر جب سے یہ خبر سرخیوں میں آئی کہ طوطے کو آزادی دینے کی راہ ہموار ہورہی ہے تو سوچا "اُن کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔" لیکن آزادی دینے والے اس کے منفی عواقب سے نا آشنا ہے۔ انسانوں سے مانوس یہ بولتا طوطا آزاد فضاؤں میں اپنے ہم جنسوں کی زیادتی کا شکار ہوسکتا۔ دوسری بڑی خبر سے ہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ اب اگر دانستہ یا نا دانستہ "مٹھو بیٹے پپی دو"، اس محبت بھرے جملے کا ادا ہونا ہی جرم کے ارتکاب کا سبب بن سکتا ہے اور خواہ مخواہ نقد پچیس ہزار روپے سکہ رائج الوقت کی ٹوپی جس پر جلی حرفوں میں مٹھو میاں تحریر ہوگا پہننی پڑے گی اور سارے شہر میں ٹیں ٹیں الگ ہوں گی۔ اسی الجھن کے شکار ہم آں میاں کی جستجو میں "میاں کے تکیہ" پر جا بیٹھے۔ آں میاں کی اخبار بینی اور الکٹرانک میڈیا پر گہری نظر ہر دو طرح سے حالات حاظرہ کی آگہی اسی طرح ہے جس طرح زمین کھسکنے سے قبل ہی پیش گوئی کردی جاتی ہے۔ ہم آں میاں کی نجوم شناسی کے قائل ہیں کہ وہ ہر آنے والے خطرات سے ہمیں خبردار کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے سدباب کے آزمودہ گھریلو نسخے بھی بتلا دیتے یہ اور بات ہے ان کے سجھائے ہوئے نسخے نت نئے مسائل کھڑے کرتے ہیں لیکن ان مسائل کا حل بھی ان ہی کے پاس ہے یعنی مزید مسائل۔ آں میاں ایک مجلسی انسان ہیں، میاں کے تکیہ کے علاوہ گھاس منڈی کے چبوترے پر اکثر نظر آتے بے لاگ اور بے باک تبصروں کے سبب وہ جان محفل بن جاتے۔ پھر وہ پنالٹی اسٹروک سے گول ہو یا نو بال پر چھکا، کھیل کے میدان سے سیاسی گلیاروں تک اُن کی گفتگو میں کہیں بھی جھول نظر نہیں آتا۔ میاں کے تکیہ کی ازسرنو بازآبادکاری پر انہوں نے نوجوانان لوٹا کارنجہ کی ستائش کے ایسے پختہ پل باندھے جو آئندہ کئی برسوں تک زمانے کے قہر سے مقابلے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اپنے تفصیلی بیان میں انہوں نے یہ کہہ کر اپنا سر سارس کی طرح اونچا کیا کہ اُن کے پرکھوں نے اس عظیم تکیہ کو اپنے فرصت کے لمحات میں جلوہ افروزی بخشی تھی جہاں حضرت داغ کی طرح بیٹھ کر وہ اپنی ازدواجی زندگی کے جھمیلوں سے آزادی کے چند لمحے چراسکتے۔ ساتھ ہی امور خانہ داری کی تھیلی کو زانو تلے دباکر ہم عمر احباب کے ساتھ چائے کی چسکیوں اور سگریٹ کے مرغولوں میں ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتے چلے گئے۔ ان مرحوم بزرگوں نے بلا ناغہ تکیہ پر حاضری دی۔ آج ان کی ارواح نوجوانوں کے اس قابل قدر کارنامہ پر خوشی سے پھولے نہ سمارہی ہوں گی کہ آج ان کی نشست گاہ کو جانشین مل گئے جو چائے اور سگریٹ کی روایات کو برقرار رکھ کر موجب ایصال ثواب بنے۔ نشست گاہ کی شمالی دیوار پر تحریر "میاں کا تکیہ" اُن لوگوں پر بھی اجاگر ہوگیا ہوگاجن کے بزرگ بھی ٹہلتے ٹہلتے اس مقام کو زینت بخشے۔ رازوں سے پردے بھی یہیں پر اٹھتے اور سارے بھید کھل کر شہر خجستہ بنیاد کی فضاؤں میں بکھر جاتے۔ اسی مقام پر نئے رشتوں کی ادھیڑ بن کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ پسے ہوئے رشتے اٹوٹ ہوتے اور ان میں کبھی تلخی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ بچوں کے نام فال نیک دیکھ کر بذریعہ زائچہ یہیں پر رکھے جاتے۔ ایسے بچے اپنی ناموری میں یگانہ ہوتے اور تاحیات تکیہ کے احسان مند رہتے۔ آں میاں اپنے ماضی کو دوسرے دن کے نان و قلیہ کی طرح چٹخارے لے کر بیان کرتے۔ نشستن برخاستن کے دوران ہی اوہ! بھائی ذرا بات کو سمجھو یار جیسے تکیہ کلام کا ظہور ہوا جو آج مغرب سے مشرق تک (یعنی بڈی لین تا روشن گیٹ) زبان زد عام ہے۔ تکیہ پر کی گئی گفتگو میں کھٹے مٹھے پہلو بھی ابھر کر آتے۔ حالات حاضرہ کی طویل بحث اپنے انجام پر پہنچنے سے قبل خوش اسلوبی سے دوسرے دن کے لئےٹال دی جاتی کیونکہ ایسی بحثیں بے سروپا ہوتی۔ اب آج کی تازہ خبر کو ہی لے لیجئے طوطے کو قید و بند کی صعوبتوں سے آزادی نصیب ہورہی ہے۔ ساتھ ہی دوسری خبر دل دہلانے والی کہ طوطا پالنے پر ہزاروں روپے کا جرمانہ بھی عائد ہورہا ہے۔ یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کوبھی لے ڈوبیں گے۔ ایک عام آدمی جو اپنے ننھے منوں کو خوش نما و خوش رنگ پرندہ دکھاکر ان معصوموں کے چہروں پر ہمہ اقسام کے رنگ بکھیرتا ان کے مسکراتا چہرہ دیکھ کر بے ساختگی سے مٹھوبیٹے پپی دے کہہ کرکرتا طوطا چشمی کا کھلا شکار ہوکر محنت کی کمائی کو بطور جرمانہ ادا کرتا پھر تکیہ کا سہارا لے کر طوطے کی بدقسمتی اور فٹ پاتھ کے جیوتشیوں کی بدنصیبی پر بحث کرتا، طوطے کے سہارے لوگوں کو قسمت کا حال بتلانے والا وہ ان پڑھ جیوتشی نئے اعلانیہ کا شکار ہوجائے گا طوطا جو اس کی روٹی روزی کا ذریعہ ہے۔ وہ اس کے ہاتھوں
؎سے یوں اڑجائے گا ٹیں ٹیں فش
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے معصوم پرندوں کی چہچہاہٹ کو ان کے گلوں میں دبا دیاجائے گا۔ ساتھ ہی کسی فاختہ کو کوئی خان نہ اڑا پائے گا۔ کبوتر بازوں کو خالی دنوں میں کشادہ شادی خانوں میں اپنا شوق پورا کرنا ہوگا۔ کوئل کی کوک اور کوئے کی کائیں کائیں پر صوتی پابندی کا اطلاق ہوگا۔ ہماری بلی ہمیں سے میاؤں کا مشہور معروف محاورہ دبی زبان میں ادا کرنا ہوگا۔ ہر شاخ پر الّو بیٹھا ہے، یہ بھی چوری چھپے اشارے کنائے میں ادا کیا جائے گا۔ پتہ نہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آنے والے چند سال اشرف المخلوقات کے ساتھ ساتھ حشرات الارض اور چرندوں پرندوں پر کیا آفتیں لے کر آئیں گے۔ صرف اور صرف مُردارخوروں کا بول بالا رہے گا۔ ان حالات میں اگررہنا ہی ہے تو شیر بن کر رہنا ہوگا۔ جس کی دھاڑپر کسی میں روک لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ طویل تقریر کے اختتام پرآں میاں حیرت سے کہنے لگے:اوہ!میاں اوہ بھائی۔ ذرابات کوسمجھویاریہ ہرےرنگ اور لال چونچ والا یہ پرندہ پتہ نہیں کیسے سرخیوں میں آگیا؟ آں میاں کے اچانک سوال پر ہم نے تکیہ کی دیوار کا سہارا لیا۔ اپنی سوچ کو ایک دوسرے جانور گھوڑے کے سہارے دوڑایا۔ طویل مراقبہ سے جب ہم لوٹے تب تک آں میاں نے ہماری سوث کے گھوڑے بیچ کر لمبی تان گئے، انھیں جھنجھوڑکرجب ہم نے انھیں خواب خرگوش سے بیدار کیا تو وہ ہم پر تن گئے:اوہ!میاں!اوہ!بھائی ذرا بات کو سمجھو یار اتنی زور سے ہمیں کیوں ہلایا، تم تو اچھی طرح جانتے ہو، ہماری نیند چڑیا جیسی ہے، کان کے پاس آکر چوں چوں کرتی، ہم بیدار ہوجاتے، ہاں کہو کس نتیجے پر پہنچیں کچھ پتہ چلایا کیا معاملہ ہے۔ میاں یہ الگ معاملہ ہے، آپ اور ہم ٹھہرے عام آدمی ان جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے ایک ڈال پر طوطا بولے ایک ڈال پر مینا، اس طوطا مینا کی کہانی کو کتابوں ہی میں رہنے دیں ورنہ طوطے کے ساتھ ساتھ بے چاری مینا بھی نظر میں آجائےگی اوراس پر بھی معمولی سہی جرمانہ لاگو ہوجائے گا۔ آں میاں نے اپنے سر کو مثبت انداز میں ہلایا اور سرگوشیانہ انداز میں، گائے، بھینس اور بھیڑبکریوں کی غنیمت جانو اس سے پہلے کہ ان جانوروں کو پالنے پر جرمانہ اداکرناپڑے، ہماری آنکھیں حلقوں سے نکل آئی۔ آں میاں کی پیشگوئی اگر صحیح ثابت ہوگئی تو۔۔۔۔۔۔ رب کا شکرادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی کہتے ہوئے ہم نے آں میاں کو تکیہ کی نشست سے اٹھایا اور انھیں گھر کی راہ دکھلائی۔ جاتے جاتے یہ مشورہ بھی گوش گذار کیا کہ گھر سے ٹیں ٹیں کی آواز بھی آپ پر جرمانہ عائد ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔ لاکھ آپ اپنی صفائی میں یہ کہیں کہ ہمارے طوطے کے ساتھ ساتھ ایک عرصہ ہوا چڑیا بھی اڑگئی تھی۔