صبح ناشتے میں ٹوسٹ گرم کرنے کے لئے رکھا ہے۔ اس میں لگے فلامنٹ گرم ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ سرخ ہو رہے ہیں۔ گرم ہونے کے ساتھ یہ سرخی آخر کیوں؟
ہر چیز جو کچھ بھی درجہ حرارت رکھتی ہے، وہ الیکٹرومیگنیٹک ویوز خارج کرتی ہے۔ ریڈی ایشن کے ذریعے حرارت کی منتقلی اسی وجہ سے ہے۔ بدلتے درجہ حرارت سے کسی چیز کا یہ رنگ اس کے درجہ حرارت کا بتا دیتا ہے۔ بڑھتے درجہ حرارت کا مطلب یہ کہ خارج ہوتی ریڈی ایشن کی ویولینتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ آٹھ سو ڈگری سنٹی گریڈ پر یہ اتنی ہو جاتی ہے کہ ننگی آنکھ سے دکھائی دینا شروع کر دے۔ (اسے ڈریپیر پوائنٹ کہتے ہیں)۔ ٹوسٹر کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری ہے، اس لئے یہ چمکدار سرخ رنگ نظر آ رہا ہے۔
اس درجہ حرارت کو بڑھاتے جائیں تو رنگ بدلتا جائے گا۔ دہکتے کوئلوں کی بھٹی میں یہ چمک زردی مائل ہو گی۔ درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کر دیں تو یہ سفید ہو جائے گا اور اٹھارہ ہزار پر نیلا رنگ نمایاں ہو گا۔ (اس درجہ حرارت پر ٹوسٹ جلد گرم ہو جائے گا لیکن کچن کی خیر نہیں)۔ یہ آسٹروفزکس کا ایک بڑا اہم اصول ہے۔
ہم ستاروں کو دیکھ کیسے سکتے ہیں؟ ان کے درجہ حرارت کی وجہ سے۔ جن اجسام کا درجہ حرارت کم ہے، ان سے نکلتی ریڈی ایشن وزیبل سپیکٹرم میں نہیں اور وہ خود سے وہ روشنی خارج نہیں کرتے جسے دیکھا جا سکے۔ جن ستاروں میں ہونے والے فیوژن ری ایکشن کی وجہ سے ان کا درجہ حرارت اتنا ہے کہ ان سے نکلتی ریڈی ایشن اس سپیکٹرم میں آ جاتی ہے، وہ ہم رات کے آسمان پر یا پھر آپٹیکل ٹیلی سکوپ کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔ سورج کی سطح کا درجہ حرارت پانچ ہزار ڈگری ہے جس کی وجہ سے اس کا رنگ سفید ہے جس میں معمولی سا پیلاہٹ والا شیڈ ہے۔
ساتھ لگی تصویر آسٹروفزکس کی ایک اہم تصاویر میں سے ہے جو ہرٹزسپرنگ رسل سٹار ڈیٹا ہے۔ اس میں ملکی وے کے کچھ اہم اجسام کو روشنی اور رنگ کے گراف پر پلاٹ کیا گیا ہے۔ زیادہ تر اجسام اس میں ایک لائن پر آتے ہیں جسے آسٹروفزکس میں مین سیکیوئنس کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ والی تصویر صرف ایک خاکہ ہے۔ یہ گراف اس سے کہیں زیادہ تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔