مصنف کا نام: بلند اقبال
کتاب کا نام: ٹوٹی ہوئی دیوار
پبلشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
تاریخِ اشاعت: جولائ ۲۰۱۶
دستیابی: انڈیا کے تمام اہم بُک اسٹورز پر دستیاب ہے۔
تعارف: بیرون ملک مقیم باشعور اور کثیر المطالعہ ادب تخلیق کرنے والوں میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر بلند اقبال کا ہے، آپ ۷ اپریل، ۱۹۶۵ میں کراچی میں پیدا ہوئے اور آپکے والد جناب حمایت علی شاعر اردو شاعری کا ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ بلند اقبال ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ آپ بیک وقت میڈیسن کے ڈاکٹر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی اور ٹی وی اینکر بھی۔ آپ نے اعلیٰ ترین ملکی و غیر ملکی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے میڈیسن میں گریجویشن ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی، پوسٹ گریجویشن نیویارک میڈیکل کالج اور فیلوشپ آریگن ہیلتھ سائینسز یونیورسٹی امریکہ سے حاصل کی۔ آپ کینیڈا میں میڈیکل اسپیشلسٹ کے طور پر کئ ہسپتالوں سے منسلک ہیں۔
بلند اقبال افسانوں کی دنیا کا کوئ نیا نام نہیں ہیں ، پچھلے دس سالوں سے آپ کے افسانے پاکستان و ہندوستان کے اعلیٰ ترین ادبی جریدوں میں چھپ رہے ہیں۔
آپ کی تین شائع شدہ کتابوں کے نام ہیں "فرشتے کے آنسو"، "میری اکیاون کہانیاں " اور "سارے ہی محبت نامے مرے" اور " ٹوٹی ہوئ دیوار"
اس کے علاوہ ڈراموں کا مجموعہ " یہیں سے اٹھے کا شورِ محشر" اور مکالموں کا مجموعہ " کبھی دامنِ یزداں چاک" بھی اشاعت کے مراحل میں ہیں۔
۱۰۰۰ سے زیادہ افسانے اور مضامین کے تخلیق کار ، ڈاکٹر بلند اقبال اپنے ٹی وی پروگرامز کی وجہ سے بھی علمی و ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔آپ کا مشہور ٹی وی شو "پاسورڈ" ایشیائ ٹی وی چینل کینیڈا کے ساتھہ ہندوستان و پاکستان اور نارتھ امریکا میں بھی خاصا مقبول ہے
بلند اقبال کو نہ صرف ادبی دنیا میں عزت و احترام سے نوازا گیا بلکہ ہندوستانی کلچر اتر پردیش انڈیا اور بزم اردو ہیوسٹن کی طرف سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ٹی وی کے علمی پروگرامز کی وجہ سے آپ کو کینیڈین ساؤتھ ایشین چینلز کی طرف سے بیسٹ پریزینٹر اور کینیڈین امیگریشن اور سٹیزن شپ منسٹر مائکل کٹاؤ کی جانب سے ایوارڈ اور تہنیتی اصناف سے نوازا گیا ہے۔
کچھ باتیں کتاب کے تعلق سے: میں کوئ نقاد نہیں ہوں اور نہ ہی نثر نگار مگر جب بھی کوئ کتاب اپنے پڑھنے والوں سے متعارف کراتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ اس کے بارے میں جو کچھ میں محسوس کرتی ہوں وہ قاری تک ضرور پہنچا دوں۔ بس ایک احقر اور مخلص سی کوشش۔ بلند اقبال صاحب سے میری ملاقات بس اتنی ہی تھی کہ یہ ایک عمدہ لکھاری ہیں اور حمایت علی شاعر کے فرزند ارجمند بھی۔ یہی بہت کافی ہے شاید کسی کو جاننے کیلئے لیکن ان کی کتاب کی رونمائی جو غالباً ستمبر میں ہوئ تھی وہاں بھی سرسری سی ملاقات ہوئ کہ مجھے جلدی واپس آنا تھا مگر کتاب کے تعلق سے جو بھی پڑھا گیا اس نے میرے ذوق تجسس کو اور بھڑکا دیا۔ بدقسمتی سے کتاب بھی نہیں لا سکی مگر جب میں نے ان سے ان باکس میں پوچھا کہ آیا یہ کتاب کسی صورت مجھ تک پہنچ سکتی ہے یا نہین تو انہوں نے بلا کسی توقف کے میرا پتہ پوچھا اور جناب ہفتہ بھر مین کتاب گھر پر موجود۔ اس تعارف نے مجھ پر یہ ضرور جتا دیا کہ انتہائ قابل ڈاکٹر اور ادیب ہونے کے باوجود ڈاکٹر بلند اقبال انتہائ مہذب، شائستہ اور مرنجاں مرنج قسم کے انسان ہیں ۔ یہ خوبی انہیں یقیناً ان کے ہم عصروں میں ممتاز اور نمایاں کرنے کیلئے کافی ہے۔
کتاب کے پہلے ہی صفحہ پر لکھا ہے
" اپنے خوابوں کے نام
ایک ایسی دنیا جہاں رنگ، نسل اور مذہب کا فرق نہ ہو"
اور بس اس پوری کتاب کا ایک ایک صفحہ اس یک جہتی اس equalityy کے خوابوں سے رنگین ہے پھر چاہے وہ ادریس ہو جو مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیل رہا ہو اور یہی خون اس کے اپنے دامن تک پہنچ جاتا ہے جب اس کا اپنا بچہ عثمان اسے ایک تخریب کار سمجھ کے، خوفزدہ ہو کر اس سے بہت دور ہو جاتا ہے، گو کہ وہ مذہب کے کاروبار میں ڈھیروں منافع کما رہا ہےیا پھر پروفیسر واحدی جو رنگ نسل، قومیت اور مذہب سے ہٹ کر ایک خوشحال زندگی کو paint کرنا چاہتا ہے جس کا کینوس اس کے طالبعلموں کا ذہن ہے، ثانیہ اور دلیپ ہوں کہ جو دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک ہو جانے کے فیصلے سے بیحد مطمئن اور خوش و خرم نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں امید بھی ہے آنے والی نسلوں کیلئے اور ان گنت سوال بھی اور یہ سوال وہ ہیں جو اپنی آنے والی نسلوں کے تعلق سے ہم سب کے ذہنوں مین اٹھتے رہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب آخر وقت تک قاری کو جکڑ کے رکھے گی اور وہ جب تک اسے پورا نہ پڑھ لے، اسے رکھ نہ پائے گا۔
بلند اقبال کیلئے بہت ساری نیک خواہشات کہ وہ خوب لکھیں اور اردو ادب کو ایسی ہی عمدہ تحریروں سے نوازتے رہیں۔
https://www.facebook.com/groups/234233080269204?view=permalink&id=358470454512132
“