حنا نے غسل خانے میںپانی سے بھری بالٹی رکھی. دروازہ بند کیا. نہانے سے پہلے حسب عادت پیر سے چپل نکال کر چند لمحے نل کو گھورا اور دوتین چپل نل پر جڑ دیے . وہ زنگ زدہ نل جو برسوں سے بند تھا ، پٹتا رہا . گزشتہ پندرہ سال سے ایسے ہی پٹ رہا تھا.
پندرہ سال قبل حنا نے جب پہلی بار نل کو چپل سے مارا تھا ، تب وہ انیس برس کی تھی . اس کے والد کے انتقال کے چند ماہ بعد ہی پانی کی ٹنکی کا موٹر خراب ہوا تو دونوںبھائیوںکے آپسی جھگڑے کی وجہ سے پھر آج تک ٹھیک نہیںہوسکا. حنا جو غسل خانے میںنل کے نیچے نہانے کی عادی ہوچکی تھی ، جب پہلی بار ہینڈ پمپ سے پانی بھر کر بالٹی غسل خانے میں لے جانے کی مشقت سے جھنجھلائی تو اس نے پھولتی سانسوں کے درمیان چپل نکال کر نل پر مارتے ہوئے کہا…”لے مر!”
اب تو نہانے سے پہلے جب تک وہ نل کو پیٹ نہیںلیتی ، اسے چین ہی نہیںملتا . کبھی کبھی وہ سوچتی ، وہ ایسا کیوںکرتی ہے ؟ کیا وہ پاگل ہوتی جارہی ہے ؟کیوںپاگل ہوتی جارہی ہے ؟ فکر اسے تب زیادہ ہوئی جب اس کی بے تکلف سہیلیاںاس سے اپنی شادی شدہ زندگی کی راز دارانہ باتیں کرتیںتو اس کی آنکھوں کے سامنے نل ہی گھومتا رہتا . پھر اسے گھبراہٹ ہونے لگتی اور اسے کسی مفکر کا یہ قول یاد آتا …..” دنیا کا ہر انسان ایک ایسی زندگی ضرور جیتا ہے ، جس کا ذکر وہ کسی سے نہیں کرتا .” تب وہ سوچتی ، تو کیا ہر کنواری لڑکی چپل سے نل کو پیٹتی ہے ؟ دو مضامین میںایم ایے کرنے کے بعد بھی اس کے بھائیوں نے اس کو کہیں بھی نوکری کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ہم زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیںاور ہمارے خاندان کی لڑکیاںنوکری نہیں کرتیں . یہ الگ بات ہے کہ دونوں بھائی خود اس کے اہل نہیں تھے کہ اس کو اچھا کھلا یا پہنا سکتے .
حنا کی ماںکا انتقال اس کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا . حنا نے اپنی پڑھائی محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر پوری کی تھی . جب بھی وہ فرصت سے ہوتی باپ دادا کے زمانے کی رکھی تاریخ اور ادب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگتی . بھائیوں کا کہنا تھا کہ اس انٹرنیٹ اور رنگ برنگے چینلوں کے یگ میں بھلا کوئی کتاب بھی پڑھتا ہے ، اور وہ بھی اتنی پرانی اور سڑی گلی . بھابھیاں اسے اکیل مار کہتی تھیں. ان کا خیال تھا یہ دیواروں سے باتیں کرتی ہے . اگر پاس پڑوس یا رشتہ دار لڑکوں سے دوچار عشق کرتی تو پینتیس سال کی عمر تک کنواری نہ رہتی . بھلا اس دور میں غریب لڑکیوں کی شادی اتنی آسانی سے ہوتی ہے ….اور پھر بھائیوںکے نخرے الگ…کوئی لڑکا پڑھا لکھا نہیں ، ہماری بہن ڈبل ایم اے ہے . کوئی خوب صورت نہیں کہ ہماری بہن تو بہت خو ب صورت ہے . کوئی خاندانی نہیں کہ ہم زمین دار گھرانے کے ہیں .
حنا کو اپنی پھوپھی سے معلوم ہوا تھا . 1952 ء میں زمین داری کے خاتمے کے بعد اپنے گاؤں کی پشتینی حویلی بیچ کر حنا کے دادا عثمان احمد خان اس شہر میں آبسے تھے . علی گڑھ سے وکالت پڑھ کر آئے تھے . دس سال تک بڑی عزت اور شان سے وکالت کی . پھر وکیل صاحب ایک طوائف کے عشق میں گرفتار ہوگئے . شہر کی آبادی سے دور ایک باغ کے قریب ‘ رنڈی والا کوٹھا’ کے نام سے مشہور مکان میںزیب النساء بیگم کے یہاںجانے لگے تھے. پھر یہ ہوا کہ وہ سارا سارا دن وہیں پڑے رہتے . ان کی معمولی نین نقش کی سانولی بیوی یہ دیکھ کر ٹی بی کی مریضہ ہوکر مریں. …بیوی کے انتقال کے چند سال بعد جب سارے موکل دوسرے وکیلوں کے پاس چلے گئے اور خاندانی زیور بھی ختم ہوگئے ، تب انھیں معلوم ہوا زیب النساء بیگم کے یہاں ایک نوجوان رئیس زادہ آنے لگا ہے . انھیں بہت صدمہ ہوا ، وہ اسی صدمے کے ساتھ دنیا سے چلے گئے .
ایک دن حنا جب نل پر چپل مارنے کے بعد نہا کر باہر نکلی تو اس نے دیکھا ، پھوپھی آئی ہوئی ہیں اور آنگن میں بچھے پلنگ پر دسمبر کی دھوپ سینکتی ہوئی بڑے بھائی جان سے وہی پرانا راگ الاپا جارہا تھا. بھائی جان تمام جان کی فرصت سے ان کی باتیںسن رہے ہیں . ….پھوپھی کہہ رہی تھیں…” ارے جس زمانے میں کسی کے پاس سائیکل ہونا فخر کی بات ہوتی تھی تیرے دادا کے پاس موٹر گاڑی تھی ….موٹر گاڑی . بہت بڑے وکیل تھے. اس چوکھٹ پر بڑے بڑے افسر آتے تھے ….شیش محل کہلاتا تھا یہ عثمان منزل . درجنوںتو ملازم تھے. ”
” شیش محل !….ملازم !” حنا بڑبڑاتی ہوئی ان کے قریب سے قریب گزر گئی. حنا کو ایسی باتوں سے نفرت تھی….وہ سوچتی ، آخر کیوں یہ لوگ شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دبائے وقت نام کے شکاری سے خود کو محفوط سمجھتے ہیں .
تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے جب حنا حکومتوں کے زوال پر غور کرتی تو اسے اپنے دادا کے بارے میں پھوپھی کا یہ جملہ یاد آتا …تیرے دادا کو تو رنڈی والا کوٹھا لے ڈوبا. حنا چشم تصور سے نادر شاہ کا دلی پر حملہ دیکھتی اور شراب ، شباب ، کباب میںڈوبے ہوئے بادشاہ محمد رنگیلے کا یہ جملہ اس کے کانوں میں گونجتا … ”ہنوز دلی دوراست.”
بات اگر نل پر چپل مارنے تک محدود رہتی تو حنا اتنی فکرمند نہ ہوتی . وہ پریشان ہوئی جب اسے خوابوں میں بھی نل نظر آنے لگا. خواب میں وہ نل کو پیٹ رہی تھی . کبھی وہ دیکھتی نل بھوت بن کر اس کے سینے پر سوار ہے اور لمبا پائپ گول گول گلے میں پھنس گیا ہے ، اور اس کا دم گھٹا جارہا ہے . وہ بھابھی کو آواز دینا چاہتی ہے لیکن حلق سے آواز ہی نہیںنکل رہی ہے . وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہے . تب اس کی سانسیں تیز تیز چل رہی ہوتی ہوتیں ، دل تیزی سے دھڑک رہا ہوتا. جسم میں سنسناہٹ سی محسوس ہوتی .
صبح کو وہ رات کے خواب کی وجہ سے بجھی بجھی سی نظر آتی ، چڑچڑی رہتی . معمولی بات پر بھی غصہ آجاتا . کبھی شدید بخار آتا اور کبھی کپکپاہٹ کے ساتھ دورے پڑتے . جس کو اس کی بھابھیاں ” ڈرامے بازی” سے تعبیر کرتیں.
حنا کا یہ محلہ حنا کے بچپن تک ‘ وکیل صاحب کا پھاٹک ‘ کے نام سے مشہور رہا . اب یہ دھوبیوں والے پھاٹک کے نام سے جانا جاتا ہے . حنا کے دادا نے ‘ عثمان منزل ‘ کے سامنے زمین خرید کر جو بڑے ٹین شیڈ میں چھوٹے چھوٹے کمرے ، اپنی خاندانی روایت کو زندہ رکھنے کے لئے شاگرد پیشے کے تصور سے بنوائے تھے ، وکیل صاحب کے انتقال کے بعد باقی ملازم تو چلے گئے البتہ دھوبیوں کا قبضہ رہ گیا. بزرگ دھوبی خدا بخش کا کہنا تھا کہ وکیل صاحب ان کو ہبہ کرگئے تھے . حنا کے والد کی تمام عمر خدا بخش سے مقدمہ لڑنے میں گزری .
خدا بخش نے مقدمہ جیتنے کے بعد تین منزلہ بلڈنگ بنوائی ، کرائے دار رکھے ، ڈرائی کلین قائم کی. … اب اس کے پوتوں میں ایک ایم بی بی ایس کرچکا ہے اور ایک ایم بی اے کر رہا ہے جب کہ عثمان منزل میں دیواریں کھڑی ہوتی رہیں. حنا کے عیاش چاچا اپنا حصہ بیچ کر کرائے کے مکان میںچلے گئے . تایا اپنا حصہ بیچ کر پاکستان جابسے .
پچھلے ہفتہ دونوںبھائیوں نے ‘عثمان منزل’ کا باقی حصہ بھی بیچ دیا . یہ حصہ فروخت ہونے کی بات تو سال بھر پہلے ہی شروع ہوچکی تھی . جب مرمت نہیں ہونے کی وجہ سے بڑے کمرے کی چھت گر گئی تھی . جان کا نقصان تو نہیں ہوا تھا البتہ گھریلو ضرورت کا بہت سامان کچل گیا تھا. پڑوسیوں نے چھتوں سے خوب تماشا دیکھا اور ‘عثمان منزل’ کے اس آخری حصے کو بھی گدھو کی طرح تکنا شروع کر دیا تھا….. جس روز یہ حادثہ ہوا تھا ، اس روز ان کے یہاں کھانا نہیں بن سکا تھا . پڑوس سے آئے ہوئے ایک گھر سے کھانا کھاتے ہوئے حنا کو خیال آیا ، جس مکان کے مکین اپنی خودی فراموش کردیتے ہیں تو پھر ….آنسو کی دو بوندیں اس کی آنکھوںسے ٹپکیں اور سالن میں گھل گئیںتھیں.
آج گھر میںان لوگوںکا آخری دن تھا. تقریبا سارا سامان جاچکا تھا . دونوںبھائیوں نے الگ الگ مقامات پر کرائے کا مکان لے لیا تھا. حنا کو ابھی تک علم نہیں تھا کہ وہ کس بھائی کے ساتھ جائے گی . دونوںبھابھیاں شاید اسی مدعے کو لے کر چپکے چپکے جھگڑ رہی تھیں.
بڑے نا خوش گوار موسم کا دن تھا. افق پر کالے کالے ، اداس بادل تنہائی اور دکھ کی ماری کسی ایسی عورت کی طرح تھے جو عرصہ سے خالی پیٹ بیدار ہونے اور خالی پیٹ سوجانے کی عادی ہوچکی ہو .
نہانے کے لئے آخری بار ہینڈ پمپ سے پانی بھرتے ہوئے حنا نے اداس اداس آنکھوں سے آہستہ آہستہ سارے گھر کا جائزہ لیا . اس کی نگاہ ایک کونے میںپڑے ٹوٹے گملے کی طرف گئی ، تو اسے خیال آیا کہ اس کی زندگی بھی گملے کے اس پودے کی طرحہے ، جس کی زندگی میں اسی گملے سے شروع ہوکر اسی میںختم ہوگئی . لیکن آج یہ پودا اس گملے سے اکھاڑ کر نہ جانے کہاں لگایا جائے گا؟ اور خدا معلوم وہاں پنپ بھی پائے گا یا نہیں ؟
حنا نے پانی سے بھری بالٹی اٹھائی اور غسل خانے کی طرف چل دی . وہ سوچ رہی تھی آج آخری بار وہ اس گھر میں نہارہی ہے . اس نے غسل خانے کا دروازہ بند کیا . نہانے سے پہلے حسب عادت نل کو گھورا اور اس کو مارنے کے لئے پیر سے چپل نکالا ، لیکن اس کا ہاتھ ہوا ہی میںرک گیا. وہ چند لمںحے نل کو ایسے ہی گھورتی رہی پھر نہ جانے اسے کیا ہوا، اس نے چپل زمین پر پٹخ دیا اور نل سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹکر روپڑی .
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...