سواحلی زبان کیسے بنی؟
تنزانیہ میں سیاہ فام کیوں نہیں؟
مڈغاسکر میں انڈیونیشی ملاح کیوں پہلے پہنچے؟
تیرہویں صدی کی سب سے بڑی مسجد مشرقی افریقہ میں کیوں؟
واسکو ڈی گاما انڈیا آنے کیلئے برازیل کے قریب سے کیوں گزرا؟
ان کی وجہ زمین کی محوری گردش سے چلنی والی ہوا ہے۔ یہ کہانی کِلوا کے ساحل پر ٹوٹے برتنوں کی ہے لیکن اس سے پہلے کچھ بات موسموں کی فزکس کی۔
دنیا اپنی گردش ایک زاویے میں جھکاوٗ کے ساتھ کرتی ہے۔ خطِ استوا پر سورج کی شعاعوں سے گرم ہونے والی ہوا اوپر کو اُٹھتی ہے اور اس کی جگہ لینے والی ہوا قریب سے اس طرف بڑھتی ہے۔ اس دوران ہونے والی زمین کی گردش کا مطلب یہ کہ ہوائیں ایک خاص رخ چلتی ہیں۔ ہواوٗں کا یہ پیٹرن تجارتی ہوائیں کہلاتا ہے۔ سال کے دوران یہ رخ بدلتا ہے۔ تجارت اور مہم جوئی کرنے والے ان ہواوٗں کا فائدہ اس وقت سے اٹھاتے رہیں ہیں جب سے ہم نے کشتی رانی شروع کی ہے۔ دنیا کے سمندروں میں جہاں بحیرہ روم انسانوں کو جوڑنے والے تالاب کے طور پر مشہور رہا ہے، وہیں پر بحیرہ ہند کی اہمیت بھی ان ہواوٗں کی وجہ سے اسی طرح کی رہی ہے۔
ساتھ لگی تصویر میں ٹوٹے برتنوں کے کچھ ٹکڑے نظر آ رہے ہیں۔ یہ چینی کی برتن تنزانیہ میں کلوا کے ساحل کی ریت سے ایک ٹیلے کے نیچے سے ملے ہیں۔ عام طور پر تاریخ کو شہروں اور قصبوں، ملکوں اور پہاڑوں، دریاوٗں اور برِاعظموں کی تاریخ سمجھا جاتا ہے لیکن سمندروں میں سفر کرتے خیالات، عقائد اور لوگ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ یہ برتن سمندر پار سے افریقہ کی تجارت کی نشانی ہیں۔
افریقہ اور انڈینیشیا کا فاصلہ پانچ ہزار میل ہے لیکن ان ہواوٗں کی وجہ سے یہاں کا سفر مشکل نہیں۔ اسی طرح چین، انڈیا اور مشرقِ وسطیٰ سے مشرقی افریقہ کا رابطہ آسان ہے۔ بحیرہ ہند میں سال میں چھ ماہ ہوائیں شمال مشرق کی طرف اور چھ ماہ جنوب مغرب کی طرف چلتی ہیں۔ تاجر لمبا سفر کر سکتے ہیں اور پھر واپس بھی آ سکتے ہیں۔اس سفر میں سامان، پودے، جانور، زبانیں اور خیالات ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں۔
تیرہویں صدی میں کلوا ایک مصروف بندرگاہ تھی۔ کینیا میں ممباسا سے لے کر صومالیہ میں موگادیشو تک کی پٹی کے لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے اور سمندر پار تاجر یہاں پر آیا کرتے تھے۔ یہ ٹوٹے ہوئے برتن اس تجارت کے گواہ ہیں۔ ان میں سے ہلکا سبز ٹکڑا کسی مہنگے مرتبان سے ہے اور یہ چین سے آنے والی پورسلین ہے۔ اس طرح کے برتن اس وقت چین میں بنتے تھے اور جنوب مشرقی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کو برآمد کئے جاتے تھے۔
دوسرے ٹکڑے بھی یہاں پر بڑی دور سے آئے ہیں۔ نیلا ٹکڑا جس میں سیاہ پیٹرن بنے ہیں، یہ عرب سے آیا ہے۔ اگر اس کو مائیکروسکوپ کے نیچے دیکھا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی مٹی اس جگہ سے آئی ہے جو آج کے عراق اور شام کا حصہ ہے۔ دوسرے ٹکڑے عمان اور دوسرے خلیجی ممالک سے ہیں۔ یہ برتن ان ساحلوں پر ہونے والے گلوبل ٹریڈ کی نشانی ہیں۔
کلوا میں رہنے والوں کو امپورٹڈ برتن پسند تھے۔ کھانے کے لئے، گھروں اور مساجد میں سجانے کیلئے۔ برتن اس تجارت کا صرف ایک حصہ تھے۔ یہاں پر انڈیا سے کاٹن آیا کرتی تھی (آج بھی آتی ہے)۔ چین سے ریشم، شیشہ، زیور اور کاسمیٹکس۔ افریقہ سے اشیائے تعیش، ہاتھی دانت، سونا، موم اور غلام دوسری طرف جایا کرتے۔
انڈیا کو لوہا ایکسپورٹ ہوتا، خلیجی ممالک کو لکڑی، گینڈے کے سینگ، کچھوے کے خول اور شیر کی کھال بھیجی جاتی۔ ان میں سے کئی اشیاء افریقہ میں دور سے یہاں پہنچتیں۔ مثلا، سونا جنوب میں زمبابوے سے آیا کرتا۔ سونے کے تجارت نے زمبابوے کو آٹھ سو سال پہلے امیر اور طاقتور سلطنت بنا دیا تھا۔ یہاں پر گریٹ زمبابوے جیسی شاندار اور پرسرار یادگار اس کی طاقت کی ایک نشانی ہے۔
جہاں پر اس تجارت نے کلوا کو امیر کر دیا، وہاں پر اس کو کئی دوسرے طریقے سے بدل دیا۔ یہ تجارت ایک سالانہ ردھم پر ہوتی۔ یہاں آنے والے تاجروں کو چونکہ انتظار کرنا پڑتا تا کہ ہوائیں ان کے موافق ہوں، اس لئے یہ تاجر یہاں پر کئی ماہ رہتے۔ اس نے ان افریقی کمینویٹیز پر اپنا اثر ڈالا۔ عربی اور فارسی کے الفاظ یہاں کی مقامی بنٹو زبان کا حصہ بن گئے۔ ہونے والے اثرات نہ صرف لسانیات پر تھے، بلکہ خیالات پر، روایات پر اور جینیات پر بھی۔ صومالیہ سے تنزانیہ تک کی پٹی سواحلی پٹی ہے۔ اگرچہ بنیادی طور پر یہ افریقی کلچر ہے لیکن اس پر گہری عرب چھاپ بھی ہے۔ اس تجارت نے اس سواحلی کلچر کو جنم دیا۔ اس تجارت کا عروج دسویں سے چودہویں صدی کے درمیان رہا۔
ان ٹکڑوں میں ایک دلچسپ ٹکڑا بھورے رنگ کا ہے۔ یہ آگ میں پکی ہوئی چکنی مٹی کا ہے۔ اس پر ابھری ہوئی ڈیکوریشن ہے۔ یہ عام استعمال کا برتن ہے جو افریقہ میں بنا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ یہاں رہنے والے امپورٹڈ کراکری تو خریدتے تھے۔ مگر جیسا کہ لوگ ہمیشہ کرتے ہیں، اپنے مقامی برتنوں میں مقامی کھانے بناتے تھے۔ اور دوسری چیز یہ کہ خود اس طرح کے برتن ہمیں بحیرہ ہند کی دوسری اطراف میں مشرقِ وسطیٰ میں ملے ہیں۔ ان سے اور کئی طرح کے دوسرے شواہد سے پتہ لگتا ہے کہ افریقی تاجر بھی کشتیوں کے ذریعے انڈیا تجارت کرنے جایا کرتے تھے۔ سواحلی پٹی کے شہروں سے لوگ چین بھی جایا کرتے۔
اس پر تنزانیہ کے مورخ عبدالرزاق گماح لکھتے ہیں، “بچپن میں ہم اپنی لوک کہانیوں میں چین سے آئے لوگوں کے بارے میں پڑھتے تھے اور باہر سے آنے والے دوسرے لوگوں کے بارے میں۔ اس وقت میرا خیال تھا کہ یہ بھی اڑن قالنیوں، گمشدہ شہزادیوں کی طرح کی کہانیاں ہیں۔ جب پھر ہم یہ سب اپنے سامنے دیکھتے ہیں تو پھر پتہ لگتا ہے کہ دنیا میں بہت سے کلچرز کی لوگ کہانیاں بھی ایک جیسی کیوں ہیں۔ ہماری تہذیب صرف مقامی نہیں۔ ہم سب صدیوں سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے آئے ہیں۔ ہمارا تعلق بھی استنبول سے لے کر دارالسلام تک سب سے ہے۔”
یہ ہوائیں جنہوں نے ان تہذیبوں کو تشکیل دیا، یہ زمین کی گردش سے ہونے والا کورولئیس ایفیکٹ ہے۔