ٹوٹی ہوئی کشتی کا صرف ایک تختہ بچا ہے جس پر وہ بیٹھا ہے۔ بدن پر جانگیہ رہ گیا ہے۔ باقی سب کچھ سمندر کی نذر ہو گیا ہے۔ تختہ بہہ رہا ہے۔ اسے یقین نہیں کہ وہ خشکی تک پہنچ پائے گا۔ سمندر کا پانی ایک لمبی پٹی کی صورت زمین کے اندر تک چلا گیا ہے۔ پٹی کے دونوں طرف ویرانہ ہے۔ جنگلی جانور صاف نظر آ رہے ہیں ؎
آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں
کون ہے یہ شخص؟ آپ اگر ابھی تک اسے نہیں پہچان پائے تو یا تو آپ تارکینِ وطن میں سے ہیں یا آبادی کی اس دو فی صد خوش قسمت اقلیت میں سے جو مراعات یافتہ تو ہے ہی‘ اس کے اردگرد حفاظتی حصار بھی قائم ہے۔ تارکینِ وطن کی اکثریت جسمانی طور پر دساور میں اور ذہنی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہے۔ جب پاکستان کے مسائل کا ذکر کیا جائے تو انہیں برا لگتا ہے اس لیے کہ جس جنت میں وہ رہتے ہیں‘ وہاں صرف خوشگوار ہوا‘ بہتے پانی اور رنگین پھولوں کی باتیں دل کو بھاتی ہیں۔ ایک صاحب نے کینیڈا سے لکھا ہے‘ لکھا کیا ہے‘ ڈانٹ پلائی ہے کہ تم کالم نگاروں نے ہماری زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ہر وقت مسائل کا ذکر! کیا تم لوگ اچھی اچھی باتیں نہیں لکھ سکتے؟ عام طور پر اس قسم کی ای میلوں کا جواب نہ دینا ہی دانش مندی ہے لیکن وقت کا ضیاع کر کے انہیں لکھا کہ حضرت! آپ جن وجوہ کی بنا پر اس ملک سے رخصت ہو گئے ہیں‘ وہ وجوہ ہی تو ہم بیان کرتے ہیں۔ آپ واپس تشریف لے آیئے‘ یہاں چھ مہینے ایک سال گزاریے‘ پھر جو آپ حکم دیں گے‘ ہم بسرو چشم لکھیں گے!
تارکینِ وطن سے جو شکوے ہیں‘ ان پر ایک نہیں‘ کئی کالم بنتے ہیں‘ کبھی یہ حساب بھی برابر کرنا ہوگا!
کون ہے یہ شخص؟ جانگیہ پہنے‘ لکڑی کے ٹوٹے ہوئے تختے پر‘ جنگلی درندوں‘ نہنگوں‘ مچھروں اور شارک مچھلیوں کے درمیان؟ کون ہے یہ بدبخت جس کے چاروں طرف موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے اور ناچ رہی ہے؟ یہ عام پاکستانی ہے اور خدا اور اس کے رسولؐ کی قسم لے لیجیے‘ اس عام پاکستانی کو بچانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے!
مئی کے اس فلک بوس ٹمپریچر میں سی این جی کے لیے یہ ایک طویل قطار میں کھڑا ہے۔ اس کی ٹیکسی‘ ویگن اور سوزوکی کار ایک ایک انچ آگے بڑھتی ہے۔ ایک‘ دو‘ تین نہیں چار یا پانچ گھنٹے اسی حالت میں کٹتے ہیں‘ بلا کی پیاس‘ بھوک‘ گھر کا کام ہو سکتا ہے نہ روزگار کا بندوبست… کہاں ہیں آئے دن لندن اور بیجنگ میں پاکستان کی ترقی پر تقریریں کرنے والے حکمران؟ قسم ہے خدا اور رسولؐ کی‘ اُن کے جوتے کی نوک کو بھی اس عام پاکستانی کی پروا نہیں۔ ایک صاحب پانچ سال کالے بکروں کو ذبح کراتے رہے اور لٹیروں کو وزارتیں دیتے رہے۔ اب ایک اور گروہ پانچ سال ترکی‘ چین اور برطانیہ کے سینکڑوں دورے کرے گا‘ ہر دورے میں ان کے
حسنِ انتظام کی تعریفیں ہوں گی‘ ہر تقریر میں ’’ہم اندھیرے ختم کریں گے اور ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوگا‘‘ کی گیدڑ بھبکیاں دی جائیں گی! یہ سلسلہ پانچ سال چلے گا۔ پھر ایک اور مافیا آ جائے گا۔
یہ عام پاکستانی صرف بھتہ خوروں اور اغواکاروں کے مہیب جبڑوں میں نہیں جکڑا ہوا‘ یہ ان بھتہ خوروں کو بھی بھگت رہا ہے جنہوں نے کوٹ پتلونیں پہنی ہوئی ہیں اور نکٹائیاں لگائی ہوئی ہیں۔قسم قسم کی کمپنیاں اس عام پاکستانی کو دونوں ہاتھوں سے نوچ رہی ہیں اور ان دانتوں سے‘ جو بھیڑیے کے دانتوں جیسے ہیں‘ بھنبھوڑ رہی ہیں۔ دبئی‘ سعودی عرب کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔وہاں جو کچھ کہا جاتا ہے وہی فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں نجی کمپنیوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں‘ اس لیے یہ پاکستانیوں کے کپڑے اتارنے کے بعد اب ان کے جسموں سے گوشت کے ٹکڑے بھی کاٹنے لگی ہیں۔ ان کمپنیوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے اور افسر بھی نا اہل ہیں۔ سالہا سال تک تو اہم سرکاری اداروں میں سربراہ اور ممبروں کی اسامیاں ہی خالی رہتی ہیں‘ یوں بھی ایسی کمپنیوں کو کنٹرول کرنے والے سرکاری ادارے پاکستانیوں کے نہیں‘ کمپنیوں کے خیرخواہ ہوتے ہیں یا پھر اپنی ذاتی فلاح و بہبود ان کی ترجیح نمبر ایک ہوتی ہے۔ یہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ عوام خالص چیز کے پیسے دے رہے ہیں لیکن پیکنگ پر شے کے بارے میں جو کچھ درج ہوتا ہے‘ اس کا عشر عشیر بھی اس شے میں موجود نہیں ہوتا۔یہ کسی ایک کمپنی کی بات نہیں۔ سینکڑوں ایسی کمپنیاں اربوں کھربوں روپے اس بدقسمت ملک کے بھوکے ننگے عوام کی جیبوں سے نکالتی ہیں اور اپنے اپنے ملکوں کو بھیج دیتی ہیں۔ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں اور کسی کو دلچسپی نہیں کہ لکڑی کے تختے پر بیٹھے ہوئے خوف زدہ پاکستانی کی جان بچ جائے!
اس ملک میں غریب عوام کی جیبوں پر کس کس طرح ڈاکے مارے جا رہے ہیں اور کیا کیا نئے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں‘ سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس طرح تو مانے ہوئے نوسر باز بھی نہیں کرتے! خبر پڑھیے اور ہو سکے تو سر پر دو تھپڑ ماریے۔ بال کھول لیجیے اور ماتم کیجیے۔
’’محکمۂ تعلیم ضلع راولپنڈی نے ضلع کے تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ……نامی چار کتابیں خریدیں۔ یہ چار کتابیں ایک ہی مصنف کی ہیں۔ ان کی قیمت بائیس سو روپے ہے جو ’’فروغِ تعلیم فنڈ‘‘ سے ادا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سکولوں کی لائبریریوں میں پہلے ہی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم نے ان چاروں کتابوں کو بچوں کے معیار سے بہت بلند قرار دیا‘‘۔
یہ ’’فروغِ تعلیم فنڈ‘‘ کیا ہے؟ یہ فنڈ بھی والدین کی جیبوں سے نکالا جا رہا ہے۔ ہر طالب علم سے بیس روپے ماہانہ زبردستی وصول کیے جاتے ہیں۔ اس فنڈ کو ان کتابوں کی خرید کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کے مصنف سفارش یا روابط سے محکمۂ تعلیم کے بزرجمہروں تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی کتابیں زبردستی چھوٹے چھوٹے بچوں پر ٹھونستے ہیں۔
بڑے پیمانے پر یہ کام جنرل ضیاء الحق نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے بادشاہی حکم جاری کیا کہ سرکاری ملازم کون کون سی کتابیں پڑھیں گے؟ اس کا فیصلہ وہ کریں گے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک کلب نما ادارہ قائم کیا اور یہ کام حساس اداروں پر مسلط کردیا جن کا اصل فرض ملک کا عسکری دفاع تھا۔ ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے زبردستی سالانہ کٹوتی کی جاتی تھی اور اسے سال میں تین چار کتابیں دی جاتی تھیں۔ ترسیل کا سلسلہ یوں تھا کہ کسی کو ملتی تھیں کسی کو نہیں‘ بڑے بڑے پڑھے لکھے پی ایچ ڈی حضرات کو بتایا جاتا تھا کہ میاں! تم نے یہ کتابیں پڑھنی ہیں۔ محمود احمد لودھی اس وقت دفاعی وزارت خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھے وہ واحد بیوروکریٹ تھے جنہوں نے اس پر برملا اعتراض کیا۔ لیکن یہ آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی!
آیئے! دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں‘ یہ بدبخت شخص جس کے جسم پر صرف جانگیہ رہ گیا ہے‘ کسی طرح بچ جائے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“