جب ماہ و سال کے انتھک کام اس کی روح میں کبھی نہ ختم ہونے والی تھکن اتار چکے ۔۔۔
کام۔۔۔۔ مسلسل کام ۔۔۔۔ زوجیت کے فرائض انجام دیے، بچے جنے، انھیں پالا، گھر داری کی، چولہا چوکا، صفائی ستھرائی، دھلائی، خدمت گزاری ۔۔۔۔ کاموں کے مطالبے اس کا ہر گھڑی پیچھا کرتے رہتے تھے۔ وہ چوبیس گھنٹے حاضر سروس ملازمہ تھی۔ اس ملازمت میں روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ چند خوش فہم القابات بھی عطا کیے گئے تھے۔ جیسے سہاگن، یا جیسے وہ ماں جس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے۔
کبھی کبھی اپنے بچوں کو دیکھ کر مامتا کا جذبہ اس کی تھکی ہوئی روح کو سہلا دیا کرتا تھا لیکن روح کو زخمی کرنے والے بہت زیادہ تھے۔ بلکہ سارا سماج ہی یہ تکلیف دہ کام کرتا تھا۔ وہ اور اس جیسی عورتوں کا شمار بیکار عورتوں میں ہوتا تھا۔ اکثر اس کا مرد جب بیوی کی خدمت گزاری میں ایک آنچ کی کمی دیکھتا تو طعنہ دیتا:
"سارا دن پلنگ توڑتی ہو پھر بھی ڈھنگ سے کوئی کام تم سے نہیں ہوتا۔"
یہ سن کر اس کے جسم و جاں میں غم و غصہ کی لہر سی دوڑ جاتی۔ لیکن وہ خاموش رہتی کیونکہ ایک بار جب وہ بولی تھی تو اسے زناٹے دار تھپڑ کی اذیت اور توہین سہنا پڑی تھی۔ اب وہ خاموشی سے غم و غصے کی آگ اپنے اندر اتار لیتی تھی۔ یوں زمین کی تہ میں لاوا پکنے لگا۔
بالآخر ایک دن ۔۔۔
وہ تمام دن گھر سے باہر رہی۔ اس کی تنخواہ دار ملازمت کا وہ پہلا دن تھا۔
شام کو گھر والوں نے دیکھا کہ وہ پلنگ ٹوٹا ہوا تھا جسے توڑنے کا طعنہ وہ جانے کب سے سنتی آئی تھی اور جس پر طعنہ دینے والا رات بھر خراٹے لیتا اور کبھی کبھی اسے بھنبھوڑا کرتا تھا۔