ٹام الٹر کی زندگی پر ایک نظر
ٹام الٹر، نیلی انکھون والا ہندوستانی گورا جو ایک غضب کا اداکار تھا، اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔
ٹام الٹر کا جنم 22 جون 1950 میں میسوری اتر کنڈ انڈیا میں ایک پادری کے گھر ہوا۔ انکے دادا، دادی عیسائیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں وہ امریکی ریاست اوہائیو سے نومبر 1916 کو بحری جہاز میں چنائی اگئے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین لاہور چلے گئے۔ اس دوران انکے دادا دادی راولپنڈی پشاور اور سیالکوٹ میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ تقسیم ہند کے وقت ٹام الٹر کے دادا دادی نے پاکستان میں ہی رہنا پسند کیا جبکہ انکے بیٹے یعنی ٹام الٹر کے والد انڈیا اگئے جہاں وہ آلہ اباد کے ایک کریسچن کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں فلسفہ تاریخ اور مزہب سے سے بڑا لگاؤ تھا۔ جبکہ ٹام الٹر کے والد کا جنم سیالکوٹ میں ہوا تھا،
ٹام الٹر کی پدری زبان انگریزی تھی لیکن مادری زبان اردو ہی رہی ان کے والد انجیل مقدس کی تعلیم اردو میں دیا کرتے تھے اور انجیل کی قرات بھی انکے گھر اردو میں ہی ہوتی تھی۔ ٹام الٹر کا بچپن میسوری الہ آباد سہارن پور اور راج پور میں گزرا۔ ٹام الٹر نے ابتدائی تعلیم ووڈ سٹاک سکول میسوری سے حاصل کی، میٹرک کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں والد نے انہیں کالج پڑھنے کیلئے امریکا بھیجا لیکن وہاں مشکل پڑھائی کیوجہ سے انکا دل پڑھنے میں نہیں لگا وہ زیادہ دیر تک اوارہ گردی کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد واپس انڈیا اگئے۔ انکے پادری والد نے انہیں فارغ رہنے نہیں دیا اور انہیں جگادری ہریانہ کے سینٹ ٹھامس سکول میں بھرتی کروایا جہاں انہوں نے چھ مہینے ٹیچینگ اور کرکٹ کوچنگ کی، ٹام الٹر کو پہلا عشق بھی جگادری میں ہی ہوا۔ بہرحال انکی زندگی میں اصل ٹرنینگ پوائنٹ ہریانہ جگادری میں ہی آیا، شروع میں ٹام الٹر کا رجحان کھیلوں کی طر ف تھا، لیکن جگادری ہریانہ میں انہوں نے ایک دن راجیش کھنہ کی فلم ارادھنا دیکھی اور وہ اس فلم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے من بنا لیا کہ اب وہ فلموں میں کام کرینگے۔ لیکن اسوقت سیدھا منہ اٹھا کر فلموں میں جو جلا جاتا تھا اسے منہ کی کھانی پڑتی تھی اس لئے ٹام الٹر نے اداکاری سیکھنے کیلئے پونا کا رخ کیا۔ انہوں نے پونا فلم انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا جہاں پر اوم پوری شبانہ اعظمی نصیرالدین شاہ اور بنجمن گیلانی بھی ایکٹینگ سیکھ رہے تھے۔ پونا میں ٹام الٹر کی نصیر الدین شاہ سے بہت گہری دوستی بنی وہ اپنے کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی بنے اور نصیر الدین شاہ انکے ساتھ ٹیم میں شامل تھے۔ پونا میں ٹام الٹر نے 1972 سے لیکر 1974 تک دو سالوں میں اپنے گرو روشن تنیجا سے اداکاری سیکھی۔ اسکے بعد وہ ممبئی اگئے۔
یوں تو ٹام الٹر کا خاندان بہت مزہبی تھا لیکن البتہ انکا خاندان تنگ نظر نہیں تھا ان کے دادا، والد، نانا، چاچا، سب پادری تھے اور اب تو انکے بھائی بھی پادری بن گئے ہیں اور انکے سسر بھی پادری ہیں۔ مگر چونکہ ٹام الٹر نے فلموں کی طرف ہی جانا تھا تو سب نے اسے بہت سپورٹ کیا۔
ممبئی میں انہیں پہلا چانس رمانند ساگر کی فلم چرس میں ملا جس میں اسوقت کی مشہور جوڑی دھرمیندر اور ہیما مالینی نے کام کیا تھا یہ فلم 1976 میں ریلیز ہوئی۔ شروعات میں انہیں گورے رنگ کی وجہ سے انگریز افسر کا کردار ملا کرتا تھا جس میں عموماً وہ غنڈہ گردی کرتے نظر آیا کرتے تھے۔ بعد میں انہیں ہندی اردو کردار بھی ملنے لگے۔ ٹام الٹر نے مشہور زمانہ بنگالی فلمساز ستیہ جیت رے کی ہندی فلم "شطرنج کے کھلاڑی" میں کام کیا اس فلم میں انکا کردار انگریز افسر کا تھا لیکن ایسا انگریز افسر جو شاعری کیا کرتا تھا، جو واجد علی شاہ کا مرید تھا اور انگریز کے سامنے واجد علی شاہ کی طرفداری کیا کرتا تھا اس فلم میں انکے کردار کو بہت سراہا گیا۔
بعد میں انہوں نے رچرڈ اینٹنبرو کی فلم گاندھی اور راج کپور کی فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی کامیاب فلموں میں غضب اداکاری کی۔ منوج کمار محب وطنی پر بنی فلموں کیوجہ سے مشہور مانے جاتے ہیں اس لئے جب منوج کمار نے فلم ’کرانتی‘ بنانا شروع کی تو انہوں نے انگریز افسر کے کردار کیلئے ٹام الٹر کو چنا اور اس کردار میں ٹام الٹر نے شاندار اداکاری کی، اس فلم کے انکی منوج کمار سے بڑی اچھی دوستی بنی۔
ٹام الٹر نے جب ارادھنا فلم دیکھی تھی تب انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے محبوب اداکار روجیش کھنہ کے ساتھ ایک دن کام کرینگے لیکن سچی لگن سے انہوں نے یہ خواب سچ کرکے دکھایا انہوں راجیش کھنہ کے ساتھ دو فلموں میں کام کیا۔ ہری کیش مکھرجی کی فلم نوکری اور 1993 میں بنی فلم سردار میں انہوں نے راجیش کھنہ کے ساتھ کام کیا فلم سرادر مشہور نیتا سردار پٹیل کی زندگی پر بنی تھی۔
ٹام الٹر نے نئی نسل کے ساتھ بھی کام کیا خاص کر 2007 میں آئی فلم بیجا فرائی میں انہیں ڈاکٹر کے کردار میں پسند کیا گیا اور 2011 کی شارٹ فلم یورز ماریہ میں انہیں لیڈ رول میں رکھا گیا اس فلم میں انہوں نے میتھیو چاچا کا کردار ادا کیا تھا۔
ہندی کے علاوہ انہوں نے انگریزی فلم وِتھ لَو دلّی، سن آف فلاور، سائیکل کِک، اَوتار، اوسیان آف اَن اولڈ مین، وَن نائٹ وتھ دی کنگ، سائلنس پلیز، جیسی فلموں میں اہم کردار ادا کیے۔
ٹام نے تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔
فلموں کے علاوہ انھوں نے اپنے کیریر کا ایک بڑا وقت تھیٹر کو دیا۔ ٹام الٹر نے 1977 میں اپنے دوست نصیر الدین شاہ اور بنجمن گیلانی کے ساتھ موٹلی کے نام سے ایک تھیٹر گروپ بنایا۔ ٹام الٹر مولانا عبدالکلام آزاد سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے 2014 میں راجیہ سبھا ٹی وی کے پروگرام ’سنویدھان‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کردار نبھایا جس میں ان کے کردار کی بہت تعریف ہوئی۔ اور تھیٹر میں بھی انہوں نے کئی سالوں تک مولانا عبدالکلام آزاد پلے کیا۔ ٹام الٹر نے ٹیلی وژن پر بھی کام کیا اور لوگوں کی دل میں ایک خاص مقام بنایا۔ اسی سال ان کی فلم ’سرگوشیاں‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں انھوں نے مرزا غالب کا کردار نبھایا۔ اسکے علاوہ انہوں نے بہادر شاہ ظفر، گاندھی، ساحر لدھیانوی، غالب اور ٹیگور کا کردار بھی ادا کیا۔ ٹام الٹر کو اردو زبان سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ صاف اردو کیوجہ سے ٹام الٹر سٹیج پر اتنی جاندار اداکاری کرتے تھے کہ کسی کا دھیان ان کے گورے چہرے پر جاتا ہی نہیں تھا،
ٹام الٹر کو 2008 میں آرٹس اور سنیما کے میدان میں حکومت نے پدم ایوارڈ کے اعزاز سے نوازا تھا
ٹام الٹر کو فلموں کے علاوہ کھیل میں بھی کافی دلچسپی تھی۔ وہ کرکٹ کے بڑے شوقین تھے وہ ٹوینٹی اور ون ڈے کے بجائے ٹیسٹ کرکٹ دیکھنا زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔
ٹام الٹر سچن تندولکر کا انٹرویو لینے والے پہلے شخص تھے، انہوں نے 1988 میں سچن ٹنڈولکر کا انٹریو کیا تھا اسوقت سچن کی عمر 15 سال تھی۔ ٹام الٹر کا بیٹا جمی بھی سپورٹس جرنلسٹ ہے۔ ٹام الٹر کو جلد کا کینسر ہوا تھا۔ ان کا ممبئی کے سیف اسپتال میں علاج چل رہا تھا جہاں اکثر وہ تنہا ہی ہوتے تھے۔ اپنی اسی روداد کو ٹام نے ریختہ کو دیے انٹرویو میں غالب کے شعر کے بہانے شاید یوں بیان کیا تھا۔
پڑیے اگر بیمار، تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور مر جائیے اگر، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ٹام الٹر خود مصنف بھی تھے انہوں نے تین کتابیں لکھی ہیں ٹام الٹر کے خاندان میں لوگ یا تو شاعر ہیں یا پھر پادری اور ٹیچر۔ انکے بڑے بھائی انگریزی میں شاعری کرتے ہیں۔ سب سے بڑے چچا زاد بھائی بھی شاعر اور ناول نگار ہیں انکی چچازاد بہن سو ملر معروف ناول نگار ہیں جبکہ بہن اور ماں کو بھی لکھنے کا شوق رہا ہے۔
ٹام آلٹر کو اردو ادب اور شعرو شاعری سے بڑی گہری دلچسپی تھی لیکن یہ دلچسپی جنون کی حد تک تب بڑھی جب انکی ملاقات دلیپ کمار سے ہوئی انہوں نے دلیپ کمار سے پہلی ملاقات میں پوچھا کہ اچھی ایکٹننگ کا کیا راز ہے؟ دلیپ کمار نے جواب دیا شعر و شاعری۔
یہ جواب سن کر انکی شعر و شاعری میں دلچسپی کو مزید چار چاند لگ گئے۔
ٹام الٹر خود بھی شعر وشاعری کیا کرتے تھے جب وہ فلموں میں نئے نئے آئے تھے تو بہت سارے لوگوں نے انہیں قبول کیا لیکن ان پر کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ یہ تو انگریز ہے تب انہوں نے یہ شعر کہا تھا۔
شک لوگوں نے مجھ پر کیا
اس شک کو دور میں نے کیا
شک کرنا انکا قصور نہیں
شک دور کرنا میرا کام ہے
ٹام الٹر کے کافی رشتہ دار پاکستان میں رہتے ہیں اور ان سے ملنے کیلئے وہ دو بار پاکستان بھی اچکے تھے۔ ٹام الٹر ہندوستانیوں سے بڑھ کر ہندوستانی تھے اور اردو بولنے والوں سے بڑھ کر اردو لور تھے۔
ہم انہیں کبھی بھول نہیں پائینگے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔