"تولے گئے اور ڈھائی من نکلے"
26 نومبر 2008 کو بھارت کے شہر ممبئی میں دس دہشتگردوں نے مختلف مقامات پر حملہ کیا۔ اس کاروائی میں 164 بیگناہ سویلین ہلاک جبکہ 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی کاروائی میں نو دہشتگرد مارے گئے جبکہ ایک زندہ گرفتار ہوا۔ مرنے والوں میں ملتان کے حافظ ارشد اور بابر رحمان، ڈیرہ اسماعیل خان کے ابو اسماعیل، اوکاڑہ کا جاوید، سیالکوٹ کا شعیب، فیصل آباد کے نذیر احمد اور ناصر، عارف والہ کا عبد الرحمان اور دیپالپور کا فہداللہ شامل تھے، جبکہ فریدکوٹ کا اجمل میر زندہ گرفتار ہوا۔ یہ سب کے سب پاکستانی شہری تھے، جن کے ڈی این اے، ان سے ملنے والے اسلحے، موبائل اور دستاویزات تک بھارتی سرکار پاکستانی حکام کو رسائی دے چکی ہے۔
اس سانحے کے ابتدائی چند روز حسب روایت اسے بھارت کی سازش قرار دینے کے بعد بالآخر پاکستان نے اجمل قصاب کو پاکستانی شہری تسلیم کر لیا۔ اور اس سانحے کی تحقیقات میں بھارت سے تعاون کا اعلان کیا گیا۔ دسمبر 2008 میں آزاد کشمیر سے لشکر طیبہ کے ذکی الرحمان لکھوی کو پاکستانی حکام نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا۔ 12 فروری 2009 کو اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اعلان کیا کہ دہشتگردوں کیلئے سپین سے voip موبائل فون حاصل کرنے کے الزام میں ایک پاکستانی جاوید اقبال، جبکہ ان کی فنڈنگ کیلئے بنک اکاونٹس کھولنے اور منصوبہ بندی میں معاونت کے الزام میں ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر حماد امین صادق کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اسی سال اٹلی میں دو پاکستانیوں کو ایک جعلی اکاؤنٹ سے دہشتگردوں کے voip انٹرنیٹ اکاؤنٹس میں دو سو ڈالرز منتقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
اسی برس اکتوبر 2009 میں امریکا میں دو پاکستانیوں تہور حسین رانا اور داؤد سید گیلانی المعروف ڈیوڈ ہیڈلی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ یہ دونوں بچپن کے دوست تھے جو ملٹری کالج حسن ابدال میں اکٹھا پڑھتے رہے تھے۔ تہور نے پاکستان آرمی میں بطور کیپٹن ڈاکٹر خدمات انجام دے رکھی تھیں، بعد ازاں کینیڈا کی شہریت اختیار کر کے اپنا ذاتی امیگریشن بزنس شروع کیا۔ گیلانی امریکی والدہ اور پاکستانی باپ کی اولاد تھا، اس کے ایک بھائی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ذاتی ترجمان بھی رہے ہیں اور آج کل چین میں پاکستان کے پریس اتاشی ہیں۔ گرفتاری کے بعد گیلانی یا ڈیوڈ ہیڈلی نے حکام کے سامنے ممبئی دھماکوں کی پلاننگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا، پاکستانی آئی ایس آئی کے ایک میجر اقبال کو اپنا ہینڈلر قرار دیا۔ تہور اور ڈیوڈ ہیڈلی دونوں ممبئی دھماکوں سے قبل ممبئی کا دورہ کر کے آئے تھے۔ تہور پہ ممبئی دھماکوں میں معاونت کا الزام ثابت نہ ہو سکا تاہم دو اور الزامات کے تحت اسے پندرہ برس اور ڈیوڈ کو پینتیس برس کی سزا سنائی گئی۔ ہیڈلی کی نشاندہی پر بعد ازاں امریکا ہی سے پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر عبد الرحمٰن ہاشم سید کو بھی گرفتار کیا گیا۔
پاکستان میں ذکی الرحمان لکھوی، جاوید اقبال اور حماد امین صادق سمیت سات افراد پر ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی، دہشتگردوں کی معاونت اور تربیت کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے- دو مرتبہ پاکستان سے تحقیقاتی ٹیم بھارت جا چکی۔ اس ٹیم کی پہلی رپورٹ کو پاکستانی عدالت نے کیس میں شہادت تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، دوسری رپورٹ کا انجام میرے علم میں نہیں۔ یہی وہ ٹرائل ہے جس کی جانب میرے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چند دن قبل اشارہ کیا تھا۔
ممبئی حملہ محض دہشتگردی کی واردات نہ تھی، یہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے دو نیوکلیئر پاورز کو آپس میں لڑوانے کی خوفناک سازش تھی۔ اس سازش کے تمام کردار پاکستانی شہری تھے، بھارت نے متعدد بار پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کے حاضر سروس جبکہ امریکا نے ریٹائرڈ ایجنٹس کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ سابقہ آرمی چیف پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ لشکر طیبہ کو کسی دور میں سرکاری سرپرستی اور عوامی حمایت حاصل رہی تھی۔ رحمان ملک نے متعدد مرتبہ بطور وزیر داخلہ اس کیس پر اظہارخیال فرمایا جو آپ سب کے علم میں ہے۔ 2011 میں ڈیوڈ ہیڈلی کے بیانات کے بعد اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عباس اطہر نےسی این بی سی نیوز اور بھارتی صحافیوں سے ملاقات میں بعض ریٹائرڈ آئی ایس آئی اہلکاروں کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ جنرل درانی کے اعتراف سےبھی آپ سب واقف ہیں۔ جناب عمران خان نےبھارت جا کر 2012 میں وعدہ کیا کہ برسر اقتدار آنے پر وہ بمبئی حملوں کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ یعنی ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ان حملوں میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کو تسلیم کر چکی ہیں۔ پاکستان آرمی کے آفیشل ترجمان، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ، پاکستانی فوج کے سابق چیف آف آرمی سٹاف اور سابق صدر لشکر طیبہ کی انوالومنٹ، اسے کبھی ریاستی سرپرستی حاصل رہنے، ریٹائرڈ ایجنٹوں کی مدد حاصل ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں۔
اب ذرا سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے متنازعہ بیان کا لفظ بلفظ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
"انتہا پسند تنظیمیں ابھی بھی متحرک ہیں۔ کیا ہمیں انہیں بارڈر کراس کرنے اور ڈیڑھ سو بندہ مارنے کی اجازت دینی چاہئے؟ ہم ان کا ٹرائل کیوں نہیں مکمل کر پا رہے؟ یہ بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ ہم اسی کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن نے بھی یہی بات کی، صدر شی نے بھی یہی کہا۔ ہم سات فیصد گروتھ حاصل کر سکتے تھے، مگر نہ کر سکے"
اگر یہ کہنا غداری ہے، جرم ہے اور ملک بیچنے کےمترادف ہے تو نواز شریف کے ساتھ میں اور میرے جیسے لاکھوں کروڑوں پاکستانی بھی غدار ہیں، مجرم ہیں اور وطن فروش ہیں۔ ہم نواز شریف کی آواز سے آواز اور قدم سے قدم ملاتے رہیں گے۔ ہم نے ووٹ کی طاقت سے انگریز فوج یہاں سے نکالی تھی، ہم ووٹ کی طاقت ہی سے اس انگریزفوج کی باقیات کو آئین، قانون، پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم کے سامنےجھکا کے رہیں گے۔
نواز شریف کی ملک سے وفاداری اور ہماری نواز شریف سے وفاداری کو اخباری کالموں اور ٹی وی ٹاک شوز میں نہیں تولا جا سکتا۔ تولنا ہے تو میدان میں آئیں، آج الیکشن کروا لیں فوجی بینڈ پہ ناچنے والوں کی حب الوطنی پھاڑ کر ان کے ہاتھ میں نہ تھما دی تو کہئے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔