امریکی سفیر کے دائیں رخسار پر ساڑھے چار انچ لمبا گہرا زخم تھا۔
SLASH
کا لفظ جب انسانی جسم کے حوالے سے استعمال ہو تو اس کا مفہوم سوچتے ہی بدن میں جھرجھری اٹھتی ہے۔ وسطی زمانوں میں آنکھیں نکالنے کی سزا عام تھی۔ خاص کر ان افراد کے لیے جو تخت و تاج کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔ ہندوستانی مورخ آنکھیں نکالنے کے عمل کو تربوز کی پھانک کاٹنے سے تشبیہہ دیتے ہیں‘ جیسے آج کل تربوز کو خریدنے سے پہلے ٹک لگواتے ہیں! جنوبی کوریا میں متعین امریکی سفیر کو پچپن سالہ کِم نے‘ جو جنوبی کوریا ہی کا باشندہ ہے، چاقو سے
SLASH
کیا۔ بازو بھی زخمی ہوا۔ سفیر کو کئی دن ہسپتال رہنا پڑا جہاں مجموعی طور پر اسے اسّی ٹانکے لگے۔ یہ گزشتہ ہفتے کا واقعہ ہے۔
حملہ آور کا طویل سیاسی بیک گرائونڈ ہے۔1985ء میں اس نے امریکی جھنڈا جلایا۔ پھرجاپان کے خلاف احتجاج کرتا رہا۔2010ء میں اس نے جاپانی سفیر پر سیمنٹ کا بنا ہوا بڑا سا پتھریلا ٹکڑا پھینکا۔ اس پر موصوف کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اب کے امریکی سفیر کو زخمی کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ دس دن سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ مقصد امریکی اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کو روکنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس قبیل کی سرگرمیوں سے جنوبی اور شمالی کوریاکے متحد ہونے کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں۔
کِم نے اس سے پہلے جاپانی سفیر پر کیوں حملہ کیا تھا؟ امریکہ کی طرح جاپان کے خلاف بھی ایک عام کوریائی باشندے کے دل میں نفرت ہے۔ اس کا طویل پس منظر ہے۔ سولہویں صدی کے اواخر میں جاپان نے کوریا پر حملہ کیا تو سفاکی کی ایک نئی مثال قائم کی۔ یوں تو وسطی زمانوں میںمجرموں کو، بالخصوص جنگ ہارنے والوں کو رونگٹے کھڑے کردینے والی سزائیں دینا ایک معمول تھا مگر جاپانیوں نے ریکارڈ توڑ ڈالا۔ انہوں نے بیس ہزار کوریائی باشندوں کے ناک اور کان کاٹ کر اکٹھے کیے۔ انہیں جاپان لے گئے اور ان سے مقبرہ نما مینار بنائے۔ پھر 1910ء سے 1945ء تک کوریا پر جاپان کا قبضہ رہا۔ اس عرصہ میں کوریا کی ثقافت‘ خاص طور پر زبان اور ادب کو پوری طرح دبانے کی پالیسی اپنائی گئی، تاہم اصل سبب جاپان کے خلاف نفرت کا یہ ہے کہ ہزاروں عورتیں جاپانی سپاہیوں کی عیاشی کیلئے زبردستی پکڑ کر لے جائی گئیں۔ جاپانیوں نے ان کا نام آرام پہنچانے والی (کمفرٹ) خواتین رکھا۔
رہا کوریا میں امریکہ کے خلاف نفرت کا سبب تو بڑا سبب‘ تو وہی شکوہ ہے جو اسامہ بن لادن کو اپنے ملک کی حکومت سے تھا یعنی امریکی افواج کی موجودگی! امریکہ کے سیاست دان، میڈیا کے افراد اور دانشور… سب اکثر وبیشتر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا ان کے خلاف کیوں ہے؟ مگر وہ اسباب پر غور ہی نہیں کرنا چاہتے۔ دنیا امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے تنگ آ چکی ہے۔ کوریا کی گردن پر امریکہ پیر تسمہ پاکی طرح سوار ہے۔ جب تک امریکی فوجیں جنوبی کوریا میں موجود ہیں، کوریا کے دونوں حصوں کا دوبارہ متحد ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے!
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی پالیسیاں ہمیشہ دو رخی ہوتی ہیں۔ اس کے دانت دکھانے کے اور، اور کھانے کے اور ہیں۔ اس نے دوسرے ملکوں کو ہمیشہ فریب دیا۔ پھر اس کی خفیہ حرکتیں جب سامنے آتی ہیں تو امریکی ایسی ایسی تشریحات اور توجیہات کرتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کوریا کو بھی امریکہ نے ایسا ہی دھوکا دیا۔1905ء میں امریکی وزیرجنگ ایک صاحب تھے‘ جن کا نام ٹافٹ تھا۔ اس وقت جاپانی وزیراعظم کا نام کت سُورۃتھا۔ ان دونوں نے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کا نام ’’ٹافٹ اور کت سُورہ معاہدہ‘‘ ہے۔ اس کی روسے امریکہ نے کوریا پر جاپان کا قبضہ تسلیم کرلیا۔ اس کے بدلے میں جاپان نے فلپائن پر امریکی قبضہ تسلیم کیا۔ گویا بقول اقبال ؎
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزداں چند
بہرِتقسیمِ قبور انجمنی ساختہ اند
یعنی کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹ لیا۔ انیس سال تک اس معاہدے کی کسی کو ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ مگر تاریخ سب کچھ اسی طرح اگل دیتی ہے جس طرح قیامت آئے گی تو زمین سب کچھ باہر نکال دے گی۔ انیس سال بعد 1924ء میں اس معاہدے کے کاغذات کسی نہ کسی طرح منظر عام پر آ گئے۔ نفرت کی ایک لہر کوریا پر چادر کی طرح تن گئی‘ مگر امریکیوں نے یہ کہا کہ یہ تو محض بات چیت تھی۔ ٹافٹ نے جو دلیل دی وہ انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ اس نے کہا کہ میں وزیرخارجہ تو نہیں تھا۔ یہ تو میرا ذاتی نقطہ نظر تھا۔ حالانکہ وہ اس وقت وزیرجنگ تھا یعنی امریکی حکومت کا ایک معتبر نمائندہ!
دوسری عالمگیر جنگ میں جاپان کو شکست ہوئی۔ سوویت یونین اور امریکہ دونوں فاتح ٹھہرے۔ کوریا کے شمالی حصے پر سوویت یونین بیٹھ گئی اور جنوب میں امریکہ۔ امریکہ نے اپنی مرضی کے الیکشن کرائے، جاگیرداروں اور ٹوڈیوں کی سرپرستی کی اور یوں نفرت کی بنیادیں زیادہ گہری ہوتی گئیں۔1950 ء میںدونوں کوریائوں میں جنگ چھڑ گئی۔ اقوامِ متحدہ، خاص طور پر ، امریکہ نے جنوبی کوریا کی مدد کی۔ جنگ ختم ہوئی تو شمال اور جنوب کے درمیان حائل دشمنی کی خلیج وسیع تر ہوچکی تھی۔ تب سے امریکی افواج جنوبی کوریا میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ جنوبی کوریا کے عوام امریکی فوجیوں کے قیام کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔ 1992ء میں ایک شراب خانے کی ملازمہ ، جو کوریائی تھی‘ مردہ حالت میں ملی۔اس کی لاش کی ناقابل بیان حد تک بے حرمتی کی گئی تھی۔ ایک امریکی فوجی نے شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل سے اس کے چہرے کو مسخ کر دیا تھا۔ 2002 ء میں دو چودہ سالہ لڑکیوں کو امریکی فوجی گاڑی نے کچل دیا۔ جب ملزم امریکی کو امریکہ واپس بھیجا گیا تو لاکھوں کوریائی سڑکوں پر نکل آئے اور امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف احتجاج کیا۔
پاکستان کے برعکس جنوبی کوریا اقتصادی حوالے سے اس پوزیشن میں ہے کہ امریکہ کی دوستی کو لات مار سکے۔ اقتصادی ترقی کے لحاظ سے دنیا میں اس کا چودھواں نمبر ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور اور تائیوان کے ساتھ جنوبی کوریا بھی ایشیا کا ٹائیگر کہلاتا ہے۔ 2013ء میں جنوبی کوریا دنیا کا آٹھواں بڑا برآمد کنندہ ملک تھا!90 کے عشرے میں جب ایشیائی ملکوں کی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا تو جنوبی کوریا جلد روبصحت ہونے والوں میں سرفہرست تھا۔ اس نے بہت جلد اپنی مجموعی قومی آمدنی کو تین گنا بڑھا لیا۔ کوریا کی بڑی بڑی صنعتی کمپنیاں اس کی طاقت عالمی شہرت اور عزت کا راز ہیں۔ سیم سنگ
(Samsung)
کے نام سے کون ناواقف ہے۔ 2013ء میں اس نے 27245 ملین ڈالر منافع کمایا۔ ایل جی، ہونڈائی، کیا
(KIA)
اور دیگر اداروں کی کارکردگی بھی طلسمی ہے۔ ڈائیوو ایک پوری سلطنت ہے ‘جو الیکٹرانک پیداوار سے لے کر تعمیر، جہاز رانی اور ٹیکنالوجی کی کئی اقسام تک پھیلی ہوئی ہے۔ کوریا نے ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جو ہاتھ کی پانچ انگلیوں کے اشاروں سے بات کو سمجھا سکتا ہے۔ اور کنڈرگارٹن کے بچوںکو پڑھاتا بھی ہے۔
اس مستحکم اور آزاد معیشت کے ساتھ کل اگر جنوبی کوریا کی کوئی حکومت امریکی ’’دوستی‘‘ کو خداحافظ کہتے ہوئے اپنا راستہ جدا کر بھی لے تو امریکہ یا امریکہ کے گماشتے، مثلاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنوبی کوریا کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ایسا کرپائیں گے؟ قرضوں کا بوجھ ہر نئے سال کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ کشکول توڑنے کا دعویٰ کرتے کرتے، ہم نے کشکول کا سائز بڑا کرلیا ہے۔ اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیںدبئی میں طلب کرتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں آئے دن اضافہ انہی کے ایما پر ہوتا ہے۔ ٹیکس آبادی کا صرف آٹھ فیصد حصہ ادا کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں روز افزوں ہیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی کابینہ، صوبائی گورنر اور وزرائے اعلیٰ ‘صوبائی وزراء کی لمبی چوڑی افواج قاہرہ، وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے معززین ان سب حضرات پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات کا بوجھ پر اس قدر زیادہ ہے کہ سانس رک رک جاتی ہے۔ کرپشن سے ہر ادارہ ادھ موا ہو چکا ہے۔ جنوبی کوریا نے اقتصادی پگڈنڈی پر سفر ہمارے بعد شروع کیا تھا۔ پاکستان ہی کے پنج سالہ اقتصادی منصوبے سے انہوں نے یہ سفر آغاز کیا تھا۔ آج جنوبی کوریا دنیا کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔ ہم تہمت بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں!
اگر امریکہ اور امریکی گماشتوں کے چنگل سے نکلنا ہے تو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“