توہین سے توہین تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں صاف پانی، تازہ ہوا ۔ صحت ، تعلیم ، طبقاتی تقسیم ۔ صوبائی حقوق،، اے سے لے کر زیڈ تک تمام مسائل حل ہو چکے ہیں اب صرف ایک ہی مسئلہ رہ گیا وہ ہے توہین ۔۔ لہذا تمام مقدس ادارے ،، توہین ، کے مسئلے کو حل کرنے میں جتے ہوئے ہیں ۔۔
پہلے سڑکوں پہ چلتے کسی نیم پاگل کسی غیر مسلم کو پکڑ کر بغیر مقدمہ چلائے لوگ خود ہی اس پر توہین کا الزام لگاتے ، خود ہی اس الزام کا فیصلہ کر کے اسے مجرم قرار دیتے اور خود ہی سڑک پر ہی اسے پتھر مار مار کر یا زندہ جلا کر سزا پہ عمل درامد کر دیتے ۔۔ اگر ملزم کی خوش قسمتی سے اس پہ مقدمہ چل جاتا تو لوگوں کا سیلاب بلا اسے تھانے سے باہر نکال کر اسے پتھروں سے مار دیتا۔۔ ملزم کے وکیل کو اس کے دفتر میں جا کر قتل کر دیا جاتا ۔۔
پھر ایک اور توہین کا مسئلہ شروع ہوا جو پاکستان بننے کے تھوڑی دیر بعد، ہی شروع ہو گیا تھا ، اس کے ملزموں کو شاہی قلعے اور پولیس تھانوں کے ٹارچر سیلوں میں تشدد کر کے ختم کر دیا جاتا ۔۔ مگر آج کل ان کو اغوا کر کے ان کی لاشوں کو مسخ کر کے کسی ٹوٹی سڑک کے کنارے یا کسی گندے نالے میں پھینک دیا جاتا ہے ۔۔ ہر توہین برداشت کی جا سکتی ہے مگر اس توہین کے ان ملزموں کو برداشت نہیں کیا جاتا کیونکہ ان ملزموں نے نہ صرف مقدس ادارے کی توہیں کی ہے بلکہ ان ملزموں میں ملک دشمنی کے جراثئیم بھی پائے گئے تھے
اج کل ایک اور توہیین کا میلہ لگا ہوا ہے ۔۔ آپ جلسہ عام میں یا پریس کانفرنس میں اپنی سیاسی مخالف کو ماں بہن کی گالی دے سکتے ہیں ، حکومت اور اس میں شامل سیاسی لوگوں کی ماں بہن ایک کر سکتے ہیں ۔۔ مذہب کے نام پہ ہونے والے اجتماع میں جسم کے اعضا کے نام لے لے کے گندی گالیاں دے سکتے ہیں ہاتھ اور بازو سے بہیودہ اشارے کر سکتے ہیں مگر آنکھوں پہ بندھی پٹی ہاتھوں میں پکڑے ترازو والے ادارے کے بارے میں ایک لفظ نہیں بول سکتے ۔۔ اس ادارے کا چیف وکلا کے اجتماع میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اس خطے میں دو قومیں آباد تھیں ایک مسلم اور دوسری کا میں نام بھی لینا نہیں چاہتا ،، اپ اس ملک میں بسنے والے ہندوں کی سر عام تذلیل کر سکتے ہیں مگر اپ کے لکھے فیصلوں پہ یا فیسلہ لکھنے والے افراد پہ کوئی ایک لفظ ادا نہیں کر سکتا ۔۔۔ ایک آدمی ایک دھرنے میں سر عام اس عدالت کے ججوں کا نام لے لے کے گندی سے گندی گالی دیتا ہے ،، ایک دن نہیں بائیس دن دیتا رہا مگر آپ کی توہین نہیں ہوئی ۔۔ نہ ریاست کی ہوئی بلکہ اسلام اباد اور پھر لاہور میں ریاست اور حکومتی نمائندے اس کے پاوں پہ جا کر ہاتھ لگاتے ہیں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں ۔۔ وہ کسی شخص کسی ادارے کی توہییں نہیں کرتا ،،، مگر اگر کوئی یہ پوچھ لے کے عدالت کے نمائندے نے دفتر کے فون کی بجائے واٹس اپ پہ کال کر کے کیوں کہا تحقیقاتی ٹیم میں فلاں فلاں ادمی کو رکھنا تو وہ مقدس عدلیہ کی توہیں ہو جاتی ہے
ایک دور تھا جب حکومت کی طرف سے کوئی اخبار بند ہو تا خبروں پہ سنسر لگتی یا کسی ادراے کی طرف صحافیوں کو بر طرف کیا جاتا تو صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے اپنی فریاد لے کر عدالتوں میں جاتی سڑکوں پر احتجاج کرتی بھوک ہڑتال کرتی جس کےعوض ان کو جیلوں میں جانا پڑتا سڑکوں پہ پولیس کی لاٹھیاں کھانی پڑتی کوڑے کھانے پڑے اور بلا آخر اپنے مطالبات منوا لیتے
مگر
مگر آج کسے مدعی کریں کس سے منصفی چاہیں
پاکستان کی عدالت شاید دنیا کی پہلی عدالت ہوگی جو ادارے کو حکم دے رہی ہے کہ فلاں فلاں کی تقریر سنسر کی جائے
مگر اج جو کچھ ہوا ہے وہ ایک دم نہیں ہوا
جب حکومتی نمائندے اور ریاست ایسے لوگوں کے آگے جھک جائے اس آدمی اور اس کی تنظیم سے ہاتھ جوڑ کر سمجھوتہ کرے جو اس ملک میں مذہبی نفرت پھیلاتے ہیں ، جو مذہبی اجتماع میں گندی سے گندی زبان استعمال کرتے ہوں
جب صحافیوں نے اپنے اندر سے ، نثار عثمانی ، منہاج برنا عبدلحمید چھابڑہ ، جوہر میر ، حفیظ راقب ۔ مار دئیے ہوں جب صحافی اداکار بن گئے ہوں ، تو پھر حکومتی ادارے اور عدالتیں سنسر شپ کے ہی
احکامات دیں گی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“