توہین مذہب پاکستانی ریاست کے ہاتھ ایک ہتھیار:
پاکستان ابھی بنا نہیں تھا، اس پرسوچ بچارہورہی تھی، خاص طورپرپنجاب میں پاکستان کے لئے پبلک سپورٹ نہ تھی، مسلمانوں کے مذہبی جذبات ا بھارنے اورہندووں سے نفرت کوتیز ترکرنے کے لئے اسی توہین کے واقعے کو استعمال کیا گیا، برطانوی ہند میں 1927 کی بات ہے۔ رنگیلا رسول (نعوز باللہ) کے نام سے کسی نے کتاب لکھ دی۔ کسی کواس کتاب کا پتا نہ تھا۔ اتنے بڑے ہندوستان میں ہوسکتا ہے کوئی سو کاپی بھی نہ چھپی ہو، (آج 500، 1000 سے زیادہ کتاب نہیں چھپتی)۔ اس کتاب کی اشاعت کو 2 سال گزرچکے تھے۔ اس زمانے میں زرائع ابلاغ نہائت پس ماندہ تھے۔ کسی کوکیا پتا، کوئی ایسی کتاب کسی نے چھاپی ہے۔ لیکن اچانک سے 'مسلمان لیڈروں اورمولویوں' کی غیرت جاگی، انگریزی حکومت نے کتاب کے پبلشرراج پال کوگرفتارکرکے مقدمہ درج کرلیا۔ لیکن وہ رہا ہوگیا۔ توہین مذہب کی شق ابھی ایکٹ آف انڈیا کا حصہ نہ بنی تھی۔ لاہورمیں مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگے۔ مولویوں کی اشتعال انگیز تقریریں ہونگی۔ مسلمان سیاست دانوں کے ان کے حق میں بیانات ہونگے۔ کسی خادم حسین ٹائپ مولوی کی اشتعال انگیز تقریر سے ایک ترکھان ان پڑھ علم دین نامی نوجوان نے مشتعل ہوکرراج پال کا قتل کردیا۔ اسلامسٹ سیاسی گروپوں نے علم دین کو 'غازی' کا خطاب دے دیا۔ یعنی جو 'اسلامی جنگ سے لوٹ کرآئے'۔ دیگرسیاسی گروپوں کے ساتھ مسٹر جناح نے 'غازی' صاحب کوٹیکنیکل گراونڈ پربچانے کی کوشش کی۔ لیکن کامیاب نہ ہوئے، 'غازی' صاحب کوشہید ہونا پڑگیا۔ لیکن اس کے بعد انگریزی حکومت نے پینل کوڈ میں توہین مذہب یا مذہبی جذبات کوبھڑکانے کی کوشش کوقابل دست درازی پولیس بنا دیا۔ اس سارے واقعے کا نتیجہ کیا نکلا۔۔ ہندو مسلم کے درمیان نفرت کے جذبات کو ابھار دیا گیا۔ اور وہ بھی پنجاب میں (مستقبل کا منصوبہ تھا۔۔۔اسلامی پاکستان اورپھراس کے بعد۔۔۔اسلام کا قلعہ) اب اس سارے مسئلے کویوں ابھارا گیا، 'اسلام خطرے میں ہے'۔ ناموس رسالت مسلمانوں کے لئے اہم ترین کاز ہے۔ جس کے لئے جان بھی نثاراوردوسروں کا سرتن سے جدا بھی جائز۔ لیکن کسی نے ہوش کی بات نہ کی۔ کہ دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں۔ کسی جگہ وہ بھی گمنام چند کاپیاں کہیں ایسی چھپ جاتی ہیں۔ کوئی شیطانی حرکت کردیتا ہے۔ اس سے خدا نخواستہ اسلام کے وجود کو کوئی خطرہ کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن جو یہ بات کرنے کی جرات کرے گا، اسے بھی توہین کے اسی دائرے میں کھینج لیا جائے گا۔
یہ 1971 کی بات ہے، مشرقی پاکستان میں جنگ جاری تھی۔ کہ جماعت اسلامی نے اچانک ایک ترکی میں چھپی کتاب کے خلاف مظاہرے شروع کردئے، کتاب کا نام تھا، ٹرکش آرٹ آف لو۔ دعوی کیا گیا اس میں نبی کی توہین کی گئی ہے۔ یہ کتاب کہیں 1933 میں چھپی تھی۔۔!! اس کا پاکستان کے ساتھ کیا تعلق تھا۔۔ لیکن جماعت اسلامی نے شوشا چھوڑدیا، جسے ابھی تازہ 70 کے الیکشن میں بدترین شکست ہوئی تھی۔ جناب پاکستان میں مسیحی عبادت گاہوں اورشراب کے اڈوں پرحملے شروع ہوگے۔ ابھی تک پاکستان میں شراب کی دکانیں جائز تھی۔ لاہور میں برٹیش کونسل کی عمارت پرحملہ کیا گیا (برٹش کونسل میں شاندارماحول کی حامل لائبریری ہوتی تھی)۔ اس کی وجہ سے برطانیہ کوبنگلادیش کے ساتھ اورابھی زیادہ ہمدردی ہوئی۔۔کہ مغربی پاکستان توانتہا پسند اسلامسٹوں کا دیس ہے۔
21 نومبر 1979 میں جماعت اسلامی کے طلبا نے اسلام آباد میں امریکی یونیورسٹی کو آگ لگا کرجلا دیا۔۔ صرف ایک افواہ پرکہ خانہ کعبہ میں جن شرپسندوں نے حملہ کیا ہے امریکہ ان کے پیچھے ہے۔۔ امریکی عملہ سفارت خانے میں پھنس کررہ گیا۔ پاک آرمی کووہاں پہنچنے میں 4 گھنٹے لگے۔۔حالانہ پنڈی سے اسلام آباد امریکی ایمبیس آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پرتھی۔ (لیکن واقعہ کوزرا اٹھانا بھی تھا نہ) اس واقعے میں دو امریکی اوردو پاکستانی جان سے گے۔
اس کے کوئی 10 سال بعد 1989 میں پھراچانک سے توہین مذہب کے نام پرفسادات شروع ہوگے، اب کہا گیا، کہ کوئی برطانوی مسلمان سلمان رشدی ادیب ہے، اس کا کوئی انگریزی میں ناول چھپا ہے۔ سیٹانک ورسس۔(میرا دعوی ہے کہ 99٪ مسلمان نہ اسے پڑھ سکتے تھے نہ سمجھ سکتے تھے، نہ وہ کتاب کسی کی رسائی میں تھی۔ بے نظیربھٹؤ کی ابھی تازی تازی حکومت بنی تھی۔ کتاب کوانگلینڈ میں چھپے ایک سال گزرچکا تھا۔ بے نظیرحکومت کو بڑی پریشانی کا سامنا ہوگیا۔ اچانک سے حالات بگاڑدیئے گے۔ اوران فسادات کوشروع کرنے والا کون تھا۔۔ بھٹو کا پالا ہوا سیاسی مولوی کوثرنیازی۔۔ جس کے لمبرون ایجنسی سے قریبی تعلقات تھے۔ بھٹو کا بیڑا غرق بھی اسی نے کروایا تھا۔ کوثرنیازی نے اردو پریس میں اس کتاب کے خلاف مہم شروع کردی۔ اورلوگوں کو رشدی کے خلاف مشتعل کرنے کی ترغیب دینی شروع کردی۔ ادھر مولوی ستار نیازی بھی ساتھ مل گیا۔جو 1953 سے ختم نبوت کے نام پرہرفسادات کا حصہ رہا تھا۔ اب ان ساری اسلامی تنظیبوں نے پرپیگنڈا پھیلا دیا۔ یہ کتاب امریکہ، یہودو نصارا کی سازش ہے۔ 'امریکہ اسرائیل مردہ باد، اسلام کے دشمن۔۔' مظاہرین نے
امریکی کلچرل سنٹرپرحملہ کردیا۔۔یہاں بھی ایک شاندارورلڈ کلاس لائبریری ہوتی تھی۔
پولیس نے امریکیوں اوردیگرلوگوں کو بچانے کے لئے گولی چلانی پڑی، اس واقعے مٰیں 5 مظاہرین ہلاک ہوئے۔
یہ 2012 کا واقعہ ہے۔ کہ سیل فونز پرایک ٹیکسٹ میسیج آیا کہ واشنگٹن کے کسی سینما ہاوس میں ایک متنازعہ فلم Innocence of Muslims لگ گئی ہےَ چنانچہ بہت سارے مسلمان ملکوں میں مغرب دشمن مظاہرے شروع ہوگے۔ پاکستانی اہل ایمان اپنے غصہ کے اظہارکے لئے کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ اسلام کی توہین ہوچکی تھی۔ حقیقت یہ تھی، کہ وہ 'فلم' کبھی بھی کسی سنیما ہاوس میں نہ لگی تھی، صرف چند منٹ کا ایک ٹوٹا یوٹیوب پراپ لوڈ ہوا تھا۔ یہ زرداری پپل پارٹی حکومت کا زمانہ تھا۔ اسلام کی توہین ہوئی تھی۔۔ پپل پارٹی اورزرداری صاحب پیچھے کیسے رہتے۔۔ انہوں نے ناموس اورحب رسالت کا ایک یوم منانے کا اعلان کردیا۔۔۔ پورے ملک میں 'سرتن سے جدا' کے لاکھوں بینراوردیوانے اسلام سڑکوں پرنکل آئے۔۔ پھر وہ سرکاری اورپرائیویٹ پراپرٹی کی خوب لوٹ مار مچی۔۔۔ ملک بھرکے اس دن کے ہنگاموں میں 17 لوگ مرے، اوربے شمارلوگ زخمی ہوئے۔۔۔
سلمان رشدی نے اس جیسے مظاہروں کو عالم اسلام کی The Outrage Industry کہا تھا۔۔۔ اس اسلامی غیض و غصب صنعت کاری کا شاخسانہ کچھ عرصہ قبل ہم نے فیض آباد دھرنے کی شکل میں دیکھا ہے۔۔ جس کے کامیاب شو پرآخر میں ایک سرونگ میجر جنرل نے ایک ایک ہزارروپے بانٹے تھے، اور سینے پرہاتھ رکھ کرکہا تھا۔۔۔ "ہم بھی تو آپ میں سے ہیں"۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“