توہین کا کلچر
جیسے عموما" خیال کیا جاتا ہے کہ تبدیلی کی بات کرنا اور کرپشن کے خاتمے کو اپنا نعرہ بنا لینا پاکستان تحریک انصاف کی پہل ہے حالانکہ اس سے پہلے حالیہ تاریخ میں باراک اوبامہ نے اپنے پہلے انتخاب سے تبدیلی کی بات شروع کی تھی جبکہ ماضی میں کئی ملکوں میں کئی رہنما اس لفظ یا اس سے ملتے جلتے لفظ کو اپنی مہم کا حصہ بناتے رہے تھے۔ کرپشن کو نعرہ بنا کر ایشیا اور افریقہ کے درجن بھر ملکوں میں وہاں کے رہنماؤں نے اقتدار حاصل کیا مگر کرپشن تمام نہ ہو پائی، ایسے ہی بہت زیادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دشنام طرازی، الزام تراشی، گھٹیا فقرہ بازی یعنی مجموعی طور پر مخالفوں کی توہین کرنے کی ابتدا بھی پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا گروپ نے شروع کی تھی جس کے بعد اسے عام سیاسی سرگرمی میں ان کے رہنماؤں بلکہ ان کے مخالف رہنماؤں نے بھی اپنا لیا۔
یہ بات بھی تبدیل اور کرپشن کے خاتمے کی بات بارے پہلکاری کرنے کی طرح ہی درست نہیں ہے۔ توہین سے پہلے تنقیص یعنی نقص نکالنے کی ابتدا ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے اپنے کنزیومر پراڈکٹس ( عام استعمال کی اشیاء و آلات بیچنے کے ضمن میں کی تھی ) ایسا کیا جانا 1980 کے عشرے میں شروع ہوا تھا۔
مثال کے طور پر اس عشرے سے پہلے اول تو ملٹی نیشنل کارپوریشنیں کم تھیں۔ ان کے کونگلو میریٹ بنانے یعنی دو سے زیادہ ملٹی نیشنلز کو ضم یا مشترک کیے جانے کی ابتدا نہیں ہوئی تھی چنانچہ وہ اپنے پراڈکٹس کی فروخت کی اشتہاری مہم میں اپنے پراڈکٹس کے نقائص بتایا کرتے تھے۔ 1980 کے عشرے میں اس طرح کی مہموں میں ایک تبدیلی آئی۔ جسے جاننے کے لیے مثال ہم فارماسیوٹیکلز کی لیتے ہیں کیونکہ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کارپوریشنز اور کمپنیوں کے سیلز ریپریزینٹیووز زیادہ ہوتے ہیں جو سیلز میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہلے وہ آ کر ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹورز والوں کو اپنی ادویہ کی خوبیاں بتا کر لٹریچر اور سیمپلز دیتے تھے مگر اس کے بعد انہوں نے اپنی ادویہ کا مسابقت کار کی ادویہ سے تقابل کرتے ہوئے ان کے نقائص بیان کرنا شروع کیے تھے جو میرے جیسے معیشت کے طالبعلم ڈاکٹروں کے لیے موجب تعجب تھا۔
انہیں دنوں میں مختلف ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے غیر اخلاقی حتٰی کہ غیر انسانی اعمال بھی افشاء ہونے لگے تھے، مثال کے طور پر ان ہی دنوں معروف ملٹی کارپوریشن سیبا گائیگی نے فصلوں میں حشرات تلف کرنے والی دوائیوں کے انسانوں پر اثرات کا جازئزہ لینے کی خاطر ایسی ادویہ کو مصر میں کرائے پر لیے گئے بچوں پر چھڑک کر کے آزمایا تھا کیونکہ سوئیٹزر لینڈ میں ایسا کیا جانا ممکن نہیں تھا۔ وجہ یہ کہ وہاں غربت نہیں تھی اور قانون کا اطلاق بلاتفریق اور سختی سے کیا جاتا تھا۔
پیسہ کمانے کی بلکہ یوں کہیے کہ بے تحاشا پیسہ کمانے کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوا کرتی۔ روسی زبان کا ایک معروف و مقبول محاورہ ہے کہ " دینگی نی پاخنت " یعنی پیسے کی کوئی بو نہیں ہوتی جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ جائز ذرائع سے کمایا گیا ہے یا ناجائز طریقوں سے حاصل کیا گیا ہے۔ پیسے کی دوڑ کا تعلق اقتدار کے حصول کی دوڑ کے ساتھ بھی ہے، چنانچہ اقتدار حاصل کرنے کے ضمن میں بھی وہی طریقے اختیار کیے جانے لگے تھے جو بے تحاشا پیسہ کمائے جانے میں۔ کیونکہ پیسہ آ جائے تو اقتدار چاہے نہ ہو اختیار ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ملکوں میں میڈیا بالخصوص نئے ٹی وی چینل اور اخبارات کے مالکان کے پیشوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان میں کپڑا ساز کارخوانوں والے، بناسپتی گھی بنانے والے، جعلی سندیں فروخت کرنے والے اور تو اور مٹھائیاں اور بسکٹ بنانے والے بھی ہیں کہ جہاں ایک طرف اشتہارات سے مزید دولت کمائیں گے وہاں میڈیا کے ذریعے اپنا موقف لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلنے کا اختیار مل جائے گا یوں وہ اپنے ناجائز ذرائع پر پردہ ڈال یا ڈلوا سکیں گے۔
جس طرح جرمنی اور چین کی بنی اشیاء کے معیار اور دیرپا ہونے میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ملٹی نیشنل اور ایک ترقی پذیر ملک کی نوآموز سیاسی پارٹی یا ٹی ویچینل کی پروپیگنڈہ مہم میں بھی معیار کا فرق ہوگا کیونکہ وہ مقدار کی جانب زیادہ توجہ دیں گے۔ حیران مت ہوں آپ بات ابھی سمجھ جائیں گے کہ معاملہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے فروغ کے ساتھ ہی ملٹی نیشنل نے اپنے پراڈکٹس کی خوبیاں لکھنا پھر سے شعاربنا لیا اور مختلف طرح کے مال بنانے والے سب کارخانوں کو ایک بین الاقوامی اصول اختیار کرنے پر مائل کیا کہ اپنے پراڈکٹ کی خوبیاں عام کریں۔ جیسے دو مختلف کمپنیوں کے موبائل فون یا سیٹس ہیں یا کمپیوٹر ہیں۔ اب ان کو دیکھ کر خریدنے والا خود ہی اندازہ لگا لیتا ہے یا لگانے کی کوشش ضرور کرتا ہے کہ کونسا موبائل فو سیٹ بہتر ہے اور کونسا کم بہتر یا ناقص۔ مگر ترقی پذیر ملکوں میں اپنے گھٹیا پراڈکٹس سے پیسہ کمانے یا گھٹیا سیاست سے اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں فی الحال اپنے پراڈکٹ یا اپنی پارٹی کی خصوصیات کم اور دوسروں کے پراڈکٹ یا پارٹی کے نقائص زیادہ اور بھدے انداز میں بتا رہے ہیں۔
ہر شے اور ہر عمل ارتقائی مراحل سے گذرتا ہے۔ کہیں سرعت سے اور کہیں سست رفتاری کے ساتھ۔ پاکستان میں جمہوری عمل اپنی ایک اور کڑی مکمل کرنے کو ہے۔ اختلافات، اعتراضات اور تحفظات کے باوجود ملک میں اقتدار سیاسی انداز میں منتقل ہوا ہے۔ بس محض تین چار اور حکومتیں جمہوری انداز میں برسراقتدار آئیں گی تو اقتدار کے حصول کی خاطر اشتہاری مہم کا معیار بہتر ہو جائے گا، انشاءاللہ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“