خلق خدا زہر پی رہی ہے اور یہ سب کچھ سرکار کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر….جی ہاں! وہی ترقیاتی ادارہ جس نے ”ماحولیات“ کے نام پر سفید ہاتھی پال رکھے ہیں۔ ایک دو ہاتھی نہیں، ہاتھیوں کا پورا غول!
ان ہاتھیوں کا خرچ خلق خدا اٹھا رہی ہے….جی ہاں! وہی خلق خدا جو زہر پی رہی ہے ۔
تین ہفتے پہلے 5جون کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مرکزی حکومت کے نمائندوں سے استفسار کیا…. ”کیا لوگوں کو زہر پلا پانی پلانا ضروری ہے؟“ ساتھ ہی عدالت عظمی نے اس حقیقت کی بھرپور مذمت کی کہ راولپنڈی کے لوگوں کو جس راول جھیل سے پانی مہیا کیا جا رہا ہے، اس جھیل کو اور اسکے پانی کو محفوظ رکھنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ جب عدالت عظمیٰ نے کابینہ ڈویژن کے ایڈیشنل سیکرٹری کو کہا کہ وہ تحریری بیان دے کہ جھیل کا پانی پینے کیلئے مناسب ہے تو اس افسر نے اعتراف کیا کہ غلاظت اور بول و براز جھیل میں باقاعدہ گر رہا ہے! اس نے کہا کہ غلاظت تین اطراف سے راول جھیل میں آ رہی ہے۔ ڈپلومیٹک اینکلیو، بری امام اور نور پور شاہاں!
یہی تو غلط بیانی ہے جس کا حکومت کے عہدیدار نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ارتکاب کیا۔ افسوس! حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو خلق خدا کی اتنی بھی پروا نہیں جتنی کسان کو بن بلائے جانوروں کی ہوتی ہے۔
کوئی عدالت عظمیٰ کو بتائے کہ راول جھیل میں جو غلاظت، جو زہر اور جانوروں کا جو بول و براز مسلسل گر رہا ہے وہ سملی ڈیم روڈ سے گزرنے والے کو رنگ نالے کے ذریعے گر رہا ہے۔ اور کوئی عدالت عظمیٰ کو بتائے کہ سملی ڈیم روڈ پر واقع بستی شاہ پور اس غلاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں راجہ اختر روڈ ہے۔ اس روڈ کے ذریعے ہر روز ستر سے ایک سو تک ٹریکٹر، ٹرالیاں اور گدھا گاڑیاں کو رنگ نالے میںاترتی ہیں۔ غلاظت سے آلودہ یہ ٹریکٹر اور ٹرالیاں نالے کے اندر لے جائے جاتے ہیں۔ یہاں انہیں دھویا جاتا ہے، ان کا زنگ اتارا جاتا ہے۔ انکے پہیوں سے لگی غلاظت منوں ٹنوں کے حساب سے کورنگ نالے میں مکس ہوتی ہے اور راول جھیل میں جا گرتی ہے۔ کتے اور گدھے یہاں نہاتے ہیں اور نالے کو اپنی آلودگی سے نوازتے ہیں اور یہی وہ پانی ہے جو راولپنڈی کے لاکھوں مکین ”نوش جاں“ کر رہے ہیں ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ کیا کر رہا ہے؟ یہ علاقہ اسلام آباد کیپیٹل
(I.C.T)
کا حصہ ہے۔ یہ ذمہ داری ترقیاتی ادارے کی ہے کہ اس نالے کی حفاظت کرے۔
ترقیاتی ادارے میں ”ماحولیات“ کا ایک طویل و عریض شعبہ ہے۔ فل ٹائم ممبر اس شعبے کی سربراہی کر رہا ہے۔ اسکے نیچے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر درجنوں کے حساب سے براجمان ہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ راجہ اختر روڈ سے اسی یا سو ٹرالیاں ہر روز کورنگ نالے میں جا کر دونوں کناروں سے مٹی کھود رہی ہیں اور ٹنوں کے حساب سے یہ مٹی نکالی جا رہی ہے۔ دریا کا پاٹ اس قدر چوڑا ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے کہ آئندہ برسات میں سیلاب ان کناروں سے چھلکتا اچھلتا کوسوں دور تک جائےگا اور ہزاروں مکان اور مکین سب ڈوب جائینگے۔
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے ممبر ماحولیات کےلئے نوائے وقت نے متعدد پیغامات چھوڑے تاکہ انکی رائے اس معاملے میں لی جائے لیکن یہ کوشش دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف تھی۔ پریس اور عوام یہی وہ دو خطرے ہیں جن سے ترقیاتی ادارے کے ارکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں! کیا ترقیاتی ادارے کو معلوم ہے کہ مائی لارڈ چیف جسٹس نے راول جھیل کے پانی کو بے ضرر اور پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ترقیاتی ادارے کو معلوم ہے کہ ادارے کی ناک کے عین نیچے اس عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے؟ کیا ترقیاتی ادارے کو احساس ہے کہ اسکی یہ لاپروائی، یہ حکم عدولی توہین عدالت کے زمرے میں آ رہی ہے؟؟
اور یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ راولپنڈی جو مسلح افواج کا شہر ہے، اس ظلم پر خاموش ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بچے، طالب علم، بوڑھے، مریض اور پاک فوج کے جوان، سب اس راول جھیل کا پانی پی رہے ہیں اور پیئے جا رہے ہیں اور کسی کو پروا نہیں کہ گلوں سے اتر کر یہ زہر پھیپھڑوں، معدوں، انتڑیوں اور خون کی نالیوں میں سرایت کر رہا ہے! اگر کوئی مہذب ملک ہوتا تو ذمہ دار اداروں کے عہدیداروں پر ارادہ قتل کے مقدمے بنتے اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے!
اور اے اہل وطن! اے مظلوم اہل وطن! تم نا خالص دودھ کو رو رہے ہو جو معصوم بچوں کو پلایا جا رہا ہے۔ تم جعلی ادویات کو رو رہے ہو جو مریضوں کو موت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ تم اس آٹے کا ماتم کر رہے ہو جس میں پرانی روٹیوں کے تعفن زدہ ٹکڑے ملائے جا رہے ہیں۔ تم ان لال مرچوں کی دھونی لے رہے ہو جن میں سرخ اینٹوں کا برادہ شامل ہے اور تم چائے کی اس پتی پر سینہ کوبی کر رہے ہو جس میں لکڑی کا برادہ اور چنے کا چھلکا ملایا جا رہا ہے لیکن یہ سب تو بعد کے مسائل ہیں۔ پہلے یہ بتاﺅ کہ تم پینے کے اس پانی کا کیا کرو گے جس میں رات دن زہر، غلاظت اور بول و براز حل ہو رہا ہے؟
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے