ایک شخص جس کا نام ٹیک سنگھ تھا وہ کہاں کا رہنے والا تھا کب پیدا ہوا کسی کو کچھ معلوم نہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ پاکپتن اور جھنگ کے درمیان واقعہ گزرگاہ پر ایک تالاب کے کنارے رہتا تھا. وہاں اس نے چند جھونپڑے بنا رکھے تھے کچھ کھانے پینے کا سامان جمع کر رکھا تھا جو بھی مسافر اس وقت کے پرانے شہروں پاکپتن یا جھنگ کی طرف تشریف لے جاتے ان کی خدمت کرتا تھا.
یاد رہے کہ ان دونوں شہروں میں دو عظیم بزرگ آرام فرما ہیں بابافرید اور سلطان باھو. لوگ ان کے مزارات پر جانے کے لیے یہ راستہ اختیار کرتے تھے.
اس گزرگاہ کے اوپر مسافروں کے لئے ایک سرائے کا انتظام کرنے والے شخص ٹیک سنگھ کو اس کے تلاب کی وجہ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہا جانے لگا ٹوبہ کا مطلب ایک چھوٹا تالاب ہوتا ہے.
شروع میں نام اس طرح لیا جاتا تھا ٹیک سنگھ کا ٹوبہ بعد میں اس کا نام ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑ گیا.
یہ کب کا واقعہ ہے تاریخ اس بارے میں مکمل خاموش ہے.
انیسویں صدی کے آخر میں جب انگریزوں نے اس علاقہ کو آباد کرنے کی کوشش شروع کی تو وزیرآباد سے شورکوٹ تک ایک ریلوے لائن بچھائی گئی اور اس پر ریلوے لائن کو ٹیک سنگھ کے ٹوبہ کے بالکل پاس سے گزارا گیا یہ شاید انگریزوں کی طرف سے ٹیک سنگھ کی خدمات کا اعتراف تھا.
ایک اور واقعہ بھی آپ کو یاد ہو گا کہ دور حاضر کے ایک مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ایک افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ انیس سو پچپن میں لکھا اور پھر یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی پہچان بن گیا. بعد میں پی ٹی وی نے بوٹا فروم ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی بنایا.
ایک اور انتہائی دلچسپ بات جنوری 1965 میں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان میں الیکشن ہے. اس الیکشن میں دو بڑے شہروں ڈھاکہ اور کراچی نے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں فیصلہ دیا اور آپ کو سن کر خوشی ہوگی کہ تیسرا چھوٹا سا شہر جس کی آبادی پچاس ہزار سے بھی زائد نہ تھی اس شہر یعنی ٹوبہ ٹیک سنگھ نے بھی محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کے تھی. ٹوبہ ٹیک سنگھ سے محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے ووٹ برابر تھے.
آپ اس سے اس شہر کی سیاسی بالیدگی کا اندازہ کرسکتے ہیں.
یہی نہیں بلکہ انیس سو ستر میں جب ملک کے اندر سوشلزم اور اسلام کے متعلق بڑی بحث چل رہی تھی اس وقت سوشلزم کا نمائندہ عبدالحمید بھاشانی تھا اور بھاشانی نے کسان کانفرنس کی اور اس کے لیے اس کے لیے انیس سو ستر میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کو چنا گیا. میری عمر اسوقت بارہ سال تھی اور میں نے یہ کانفرنس ناصرف دیکھیں بلکہ اس میں شرکت بھی کی اس کی دلچسپ بات یہ تھی کہ مولانا بھاشانی کو ریلوے اسٹیشن سے ایک بیل گاڑی پر لایا گیا تھا پورے شہر میں صرف پرچموں کی بہار تھی اندازہ ہے کہ دو لاکھ سے زائد کسانوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی اس کانفرنس کے بعد اسی جگہ پر اسی شہر میں سنی کانفرنس منعقد کی گئی جو کہ اپنی نوعیت کی پاکستان میں پہلی کانفرس تھی مجھے اس میں بھی شرکت کرنے کا موقع ملا درحقیقت سوشلزم کے جواب میں اسلام کے پرچار کے لیے کانفرنس منعقد کی گئی تھی
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سیاسی لحاظ سے کس قدر اہمیت حاصل اور پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ ان چند شہروں میں شامل ہے جہاں پر 1970 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے جلسے کیے تھے. میں نے اس جلسہ میں بھی شرکت کی تھی یہ تینوں چیزیں یعنی سنی کانفرنس کسان کانفرنس اور بھٹو کا جلسہ میرے پرائمری سکول نمبر1کے گراونڈ میں ہوا تھا بہت رش تھا بے شمار لوگ اس جلسے میں شریک ہوئے تھے
ٹوبہ کی اہمیت ایک اور لحاظ سے بھی بہت اہم ہےوہ اس کا نقشہ. یہ علاقہ جب1900 میں انگریزوں نے آباد کیا تو موجودہ مشرقی پنجاب سے اور مغربی پنجاب کے شمالی اضلاع سے لوگوں کو لایا گیا اور ایک ترتیب کے ساتھ بسایا گیا جس کی ایک جھلک میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں.
اگر آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نقشے کو دیکھیں تو آپ کو ریلوے لائن کے مشرق کی طرف پرانے وقتوں میں ایک کھلی جگہ تھی اور مسافروں کے اترنے کی جگہ بھی مشرق کی طرف تھی. اب اس طرف بھی آ بادی ہو گئی ہے.
مغرب کی طرف ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ایک سڑک چلتی تھی. اور ریلوے اسٹیشن سے چار بڑے گیٹ سڑک پر کھلتے تھے. ایک گیٹ جننگ ملز کے سامنے تھا دوسرا گیٹ لکڑمنڈی کے سامنے تھا تیسرا گیٹ غلہ منڈی کے سامنے تھا اور چوتھا گیٹ اس وقت کی سبزی منڈی کے سامنے تھا.
یہ انتظام تھا.
شہر کے درمیان میں باقاعدہ چوکور انداز میں غلہ منڈی بنائی گئی. ہر دکان کے سامنے غلہ رکھنے کی جگہ اور دکان کی اوپر کسانوں کے رہنے کی جگہ بنائی گئی تھی.
ایک تصویر اس گھر کی ہے جہاں میری پیدائش ہوئی اور دوسری تصویر میونسپل کمیٹی کی عمارت کی ہے. ٹوبہ فیصل آباد ڈویژن کا ایک ضلع ہے
غلہ منڈی کے بالکل درمیان میں کسانوں کے جانوروں کے لیے شیڈ بنائے گئے. پانی کا کنواں لگایا گیا اور مارکیٹ کمیٹی کا دفتر بنایا گیا. بینک کے لئے جگہ چھوڑی گئی مارکیٹ بنائی گئی.
ٹوبہ ٹیک شہر کا سب سے بڑا بازار جس کی چوڑائی میرے اندازے کے مطابق ایک سو سے فٹ زائد ہے اتنابڑا بازار شاید ہی کہیں موجود ہو.
زمینی پانی پینے کے قابل نہیں تھا اس لیے اس علاقے کو نہری نظام کے ذریعے سراب کیا گیا اور ایک نالہ سے کی مدد سے شہر کے لیے پانی لایا گیا. صفائی کے لئے بنائے گئے جو شہر کے شمال میں تھے اور یہاں سے پانی کو تالاب کی مدد سے صاف کرکے پورے شہر کو سپلائی کیا جاتا تھا.
اور شہر کے مغرب میں پورے شہر کا سیوریج اکٹھا کیا جاتا تھا اور اس کے لئے وہاں پر کئ مربع زمین تھی جس زمین کو یہ پانی سیراب کرتا تھا اور اس سے شہر کے لئے سبزیاں وغیرہ پیدا کی جاتی تھی.
اور اسی طرف قبرستان بھی بنایا گیا تھا اس شہر میں 1947 سے پہلے جننگ فیکٹریز موجود تھی جواب بند ہوگئی ہیں کیونکہ اس علاقے میں کپاس کی پیداوار ختم ہوگی ہے.
شہر کتنا ایڈوانس تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس وقت یعنی انیس سو سینتالیس سے پہلے شہر کے اندر ایک جن جنج گھر بنایا گیا جس کو آج کا میرج حال کہہ سکتے ہیں. اس کے تین حصے تھے اور درمیان والا حصہ سب سے بڑا تھا اور اس میں چبوترا تھااور ایک بڑی کرسی تھی جس میں دولہا کو بٹھایا جاتا تھا اور اوپر کی منزل کو رہائش کے لئے استعمال کیا جاتا تھا.
یہ بلڈنگ بعد میں سکول میں تبدیل ہو گیا اور میں نے اپنی زندگی کی پہلی 3 کلاسز پہلی دوسری اور تیسری اسی سکول سے کی.
اس کے علاوہ موجودہ سیکنڈری سکول کی بلڈنگ ہوسٹل کے لیے استعمال ہوتی تھی یہ ان بچوں کے لئے تھی جو شہر سے دیہات سے آتے تھے اور ان کو یہاں پر رہنے کے لیے جگہ چاہیےتھی.
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے اس وقت یعنی انیس سو سینتالیس سے پہلے مسلمانوں کے اندر مسلمان بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کرنے کا انتظام شروع ہوچکا تھا جس کی ایک مثال ایم اے کالج لاہور بھی ہے. اسی طرز کا ایک سکول جس کا نام لطیف ہائی سکول ہے اس کو اس وقت کے کسی صاحب خیر کی دی ہوئی جگہ پر مسلمان بچوں کے لیے سکول بنایا گیا.
انگریزوں نے جیسے ہی شہر بسایا تو اس میں سکول بھی بنائے میں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب ایک گاؤں 296 میں انیس سو دس کا سکول بھی دیکھا ہے.
میں شہر کی آپکو ایک اور دلچسپ بات بتانا چاہتا ہوں یہاں پر سب سے بڑا سکول گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر1 جو انگریزوں نے بنایا تھا اور بعد میں اس کو ایک اچھی بلڈنگ میں بنایا گیا.
اب بھی اس کی بلڈنگ بہت خوبصورت بہت وسیع ہے اس کا افتتاح ایوب دور کے وزیر جن کا نام مجھے یاد نہیں کیا تھا
جب ہم پڑھتے تھے یعنی 1956 سے لے کر 1969 تک اس وقت اسکول کے ہیڈ ماسٹر محترم عطا محمد صاحب تھے جو انتہائی قابل آدمی تھے
سر پر جناح کیپ رکھتے تھے اس دور میں اس دور دراز علاقہ کے اسکول کو حکومت پاکستان کی طرف سے بہترین اسکول کا خطاب دیا گیا تھا اور ہیڈ ماسٹر صاحب کو بھی اعزازات سے نوازا گیا تھا
میں نے جس اسکول سے میٹرک کیا اس کا پہلے نام اسلامیہ سیکنڈری سکول تھا بعد میں اس کا نام گورنمنٹ اسلامیہ سیکنڈری ہوگیا اس کے ہیڈ ماسٹر علی گڑھ کے فارغ التحصیل جناب احمد سرو خلیق صاحب تھے جو انتہائی قابل بہترین منتظم شخص تھے
یہ سکول شہر کی ایک انجمن نے بنایا تھا جس میں سب سے زیادہ حصہ جننگ فیکٹری کے مالکان شیخ صاحبان کی طرف سے تھا. ان دونوں حضرات کی باتیں میرے دل اور دماغ پر ابتک نقش ہے اور میری زندگی پر ان کی باتوں کا بے حد اثر ہے
اللہ رب العزت ان تمام لوگوں کی جو ہمارے اساتذہ کرام تھے کی مغفرت فرمائے اور اگر وہ حیات ہیں تو ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے امین
پچھلے ہفتہ مجھے اپنے آبائی شہر میں جانے کا اتفاق ہوا اپنے گھر میں جانے کا اتفاق ہوا ابھی تک ہمارا بہت بڑا خاندان وہاں پر رہا ہے.
تو میں نے یہ چاہا جس شہر کی چند باتیں آپ کے ساتھ شئیر کی جائیں
“