ٹوبہ ٹیک سنگھ کتھے اے۔۔۔؟
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ ’’کسان کانفرنس ‘‘کس کو یاد ہوگی؟
جس میں پنجاب کے ماؤسٹ مارکسسٹوں نے
پہلی اور آخری بار بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا تھا
جس میں پاکستان کے سارے ترقی پسند دانشور
کھدر کے کپڑے پہن کر اسٹیج پر بیٹھے تھے
اور دو لاکھ کسانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے
فیض احمد فیض نے پڑھی تھی اپنی شہرہ آفاق نظم
’’پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا‘‘
اور جب اس نے نظم کا یہ مصرح گنگنایا:
’’ہمیں تمہیں بندگان بے بس
علیم بھی ہیں ؛ خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بیکس
بشیر بھی ہیں؛ نذیر بھی ہیں‘‘
تب پنجاب کے کسان ہنسنے لگے
اور ایک دوسرے سے کہنے لگے تھے
’’سن او نذیرے ۔۔۔۔او بشیرے
فیض صاحب تیرا نام لے رہا ہے‘‘
کہتے ہیں اس دن فیض کو اپنی مشکل زباں پر بہت افسوس ہوا تھا
اور اس نے بھیگی آنکھوں اور لڑکھڑاتی زباں سے کہا تھا:
’’میرے کسان ساتھیو!
تم عظیم ہو
میری شاعری عظیم نہیں ہے!!‘‘
آج ٹوبا ٹیک سنگھ نہ معرکہ حق و باطل ہے
اور نہ میدان انقلاب ہے
آج ٹوبا ٹیک سنگھ جنرل ضیاء کے بیٹے کا حلقہ انتخاب ہے
افسوس کہ آج ٹوبا ٹیک سنگھ پنجاب کا رستا ہوا زخم نہیں ہے
اور پنجاب کے ترقی پسند دانشور
پرکشش پیکیج والے ٹی وی اینکرز ہیں
آج منٹو کا مشہور کردار تاریخ کی زخمی زبان بن کر
پاناما لیکس کی گلیوں میں پھرتے ہوئے
ہر دانشور سے پوچھتا ہے:
’’ٹوبا ٹیک سنگھ کتھے اے؟
ٹوبا ٹیک سنگھ کتھے اے؟
ٹوبا ٹیک سنگھ کتھے اے؟‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔