ست پڑا کی وادی میں آباد بستیوں میں خوف و دہشت کا ماحول تھا ۔ڈاکو امیر خان نے تباہی مچا رکھی تھی ۔سرشام ہی آبادیاں ویران ہو جاتیں ،لوگ اندھیرا پھیلتے ہی گھروں کے دروازے بند کر دیتے ۔کسی کو ضروری کام ہوتا تبھی وہ گھر سے نکلتا ۔شادی بیاہ کی تقریبات خیریت سے گزر جاتی تو تو لوگ صاحب خانہ کو مبارکباد دیتے ۔پولیس کی انتھک کوششوں کے باوجود امیر خان آزاد تھا ۔کسی کو اس کے ٹھکانے کا علم نہیں تھا ۔وہ پلک جھپکتے نازل ہوتا اور چشم زدن میں غائب ہوجاتا ۔
آج چودھری امان اللہ کے گھر میں تقریب تھی ۔ان کی اکلوتی بیٹی صبا کی پندرہویں سالگرہ تھی ۔چوہدری امان اللہ کی حویلی کا وسیع صحن مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا تھا ۔سرشام سے ہی مہمان آنے شروع ہو گئے تھے ۔اب صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔صبا سجی سنوری مہمانوں سے تحفے وصول کرکے ایک میز پر ڈھیر کرتی جارہی تھی ۔چوہدری صاحب اپنے دوستوں کے درمیان کھڑے کسی بات پر قہقہے لگا رہے تھے ۔ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ۔۔۔اچانک کچھ شور سنائی دیا ۔گھوڑوں کی ٹاپوں سے پورا قصبہ گونج اٹھا ۔،،ڈاکو امیر خان ،،ایک آواز ابھری اور پھر مہمانوں میں بھگدڑ مچ گئی ،کسی کو سرپیر کا ہوش نہیں تھا ۔جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگ کھڑا ہوا ۔ڈاکو امیر خان اپنے کالے گھوڑے پر سوار پھاٹک میں داخل ہوا ۔وہ کالا کرتا اور کالی شلوار زیب تن کیے ہوئے تھا ۔سر پر کالی پگڑی تھی جس کا شملہ پشت پر جھول رہا تھا ۔وہ ایک لمحے کے لیے پھاٹک پر رکا ،ایک طائرانہ نظر حواس باختہ مجمع پر ڈالی ،پھر اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگا کر صبا کے قریب پہنچا ۔اس کی بغل میں ہاتھ ڈال کر کسی ننھی سی گڑیا کی طرح اسے اٹھا کر اپنے سامنے گھوڑے پر بٹھا لیا ۔۔۔صبا نے دہشت سے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوکر امیر خان کے شانے پر جھول گئی ۔امیر خان نے ایک ہاتھ سے اسے سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے لگام پکڑ کر گھوڑے کو ایڑھ لگائی ۔۔۔جاندار گھوڑا چشم زدن میں پھاٹک کے پار تھا ۔اس کے ساتھی بھی اس کے پیچھے فرار ہوئے ۔۔۔کچھ ہی لمحوں میں وہ رات کے غبار میں غائب ہوگئے ۔صبح جب صبا کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو آرام دہ بستر پر پایا ۔اس نے اطراف کا جائزہ لیا ،وہ ایک کشادہ غار تھا ۔غار میں ابھی خاصی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔وہ اٹھ کر غار کے دہانے کی طرف بڑھی۔۔۔غار سے نکل کر وہ کھلے میں آگئی ۔یہ ایک بڑا سا مسطح میدان تھا ،چاروں طرف چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے ان میں پانچ قدرتی غار تھے ۔دو ٹیلوں کے درمیان پتلی سی دراڑ تھی ۔یہ شاید نکاسی کا راستہ تھا ۔اس پر ایک ڈاکو بندوق لٹکائے پہرہ دے رہا تھا ۔کھلے میدان کے بیچوں بیچ ایک تن آور پیپل کا درخت تھا اس کی داہنی طرف ایک کنواں تھا ۔پیپل کے درخت کے نیچے ایک ڈاکو کھانا تیار کررہا تھا ۔۔صبا اس کی طرف بڑھی۔
،اٹھ گئی بٹیا !۔۔منہ ہاتھ دھو لو۔۔میں تمہیں چائے بنا کر دیتا ہوں ۔۔۔سردار کہہ گئے ہیں بٹیا کا خیال رکھنا ،،
صبا نے کچھ جواب نہ دیا ۔۔ڈول سے پانی نکال منہ ہاتھ دھو کر اپنی اوڑھنی سے پونچھا۔۔ایک پاٹ بچھا کر ڈاکو کے قریب بیٹھ گئی ۔وہ فطرتاً ایک نڈر لڑکی تھی ۔کڑے حالات سے مقابلہ کرنے کی اس میں تاب تھی ۔کل پتا نہیں کیسے وہ بے ہوش ہوگئی تھی ۔اس وقت اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائی تک نہیں تھی ۔ڈاکو موٹی موٹی جوار کی روٹیاں بنا رہا تھا ۔صبا تھوڑی دیر خاموش رہی پھر اس نے سکوت توڑا ۔
،،لاؤ کا کا ۔۔میں روٹی بنادیتی ہوں ،،
نہیں بٹیا !، ڈاکو نے انکار کیا مگر صبا نے آگے بڑھ کر چولھے پر قبضہ جما لیا ۔
ہانڈی چولہا صرف عورتوں کو زیب دیتا ہے ،،
،کیا کریں بٹیا ۔۔۔یہ تو ہمارا بھاگ ہے ،،ڈاکو ایک طرف بیٹھتے ہوئے بولا ۔
،تمہارے بال بچے ؟؟،
اللہ کو پیارے ہوگئے ،، ڈاکو کی آواز دور سے آتی محسوس ہوئی ۔صبا نے اس کے کرب کو محسوس کیا ۔اس کے زخموں کو کریدنا اس نے مناسب نہیں سمجھا ۔موضوع بدل کر بولی ۔
تمہارے سردار کہاں گئے ؟،،
،پاس کے گاؤں سونا پور۔۔سیٹھ ہردیال کو سبق سکھانے ،،
،سبق سکھانے ۔۔یا ڈاکہ ڈالنے ؟؟
،ہم سبق سکھانا ہی بولتے ہیں ،، ڈاکو اور زیادہ وضاحت نہیں کر سکا۔
اتنے میں گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی ۔صبا نے پلٹ کر ادھر دیکھا ۔پہرے دار ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔دراڑ میں سب سے پہلے امیر خان نمودار ہوا ۔اس کے شانے پر ایک بڑا سا چرمی تھیلا جھول رہا تھا ۔باقی ساتھی پیچھے پیچھے آرہے تھے ۔امیر خان نے ایک اچٹتی نگاہ صبا پر ڈالی اور آگے بڑھ گیا ۔ایک طرف گھوڑا کھڑا کر اس سے کود گیا ۔۔کنویں کے قریب پہنچ ڈول سے پانی نکالا اور ایک ہی سانس میں آدھا پانی پی گیا ۔۔بقیہ سر پر انڈل دائیں بائیں جھٹکا دیا ۔۔پھر بڑی رعونت سے چل کر پیڑ کے قریب بیٹھ گیا ۔صبا غور سے اس کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہی تھی ۔
،جنگلی کہیں کا ، وہ دل ہی دل میں بولی ۔
،کیوں ہے دلاور ،۔۔یہ لڑکی کھانا کیوں بنا رہی ہے ؟وہ ترش لہجے میں بولا ۔
سردار ۔۔میں نے بہت منا کیا ۔۔وہ نہ مانی،، دلاور نے اپنی صفائی پیش کی ۔
،بہت چتر معلوم پڑتی ہے ،،
،چترائی کی کیا بات ہے !۔۔ایک عورت کے ہوتے ہوئے مرد کیسے کھانا بنا سکتا ہے ؟،، صبا تڑ سے بولی ۔
امیر خان ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا ۔۔اس کا خیال تھا وہ روئے گی ۔۔گڑگڑائے گی ۔۔اس سے رہائی کے لیے دیا کی بھیک مانگے گی ۔پر یہاں تو منظر ہی دوسرا تھا ۔۔وہ تو اس کی چھاتی پر مونگ دل رہی تھی ۔
باقی آئندہ ۔۔
احباب اگر پسند آئے تو بقیہ دو حصے ارسال کروں ۔۔آپ کی آراء کا منتظر ۔2
،کیا تمہیں ڈر نہیں لگ رہا ،،
ڈرنے کی کیا بات ہے ،،۔۔صبا نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا ۔
،تیرے باپ کی حالت کا تجھے پتا نہیں ،۔۔میرے خبری نے بتایا کہ اس کا روتے روتے برا حال ہوگیا ہے ،،
،میرے والد نے ایسا کیا قصور کیا تھا ،جو اسے ایسی سزا دے رہے ہو ؟،
،قصور !۔۔تیرے باپ ہی نے مجھے ڈاکو بنایا ہے ۔۔میں تو ایک امن پسند شہری تھا ،،
کیا کیا میرے باپ نے ،،
مجھ پر وہ الزام لگایا جو میں تمہیں بتا نہیں سکتا ۔۔جھوٹے گواہ تیار کرکے دس سال کے لیے جیل بھیج دیا ،،۔۔اس صدمے سے میری بیوی پاگل ہوگئی ۔اسی پاگل پن میں میری ننھی بچی کے ساتھ کنویں میں کود گئی ،،۔۔اس کی آواز میں بلا کا درد تھا ۔
،تم مرد ہوکر اتنا صدمہ برداشت نہ کر سکے ؟؟
نا۔نا ۔۔نا ۔۔میں برداشت نہ کر سکا۔۔مجھ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔جیل سے رہا ہوکر سب سے پہلے میں نے جھوٹے گواہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔۔تمہیں اغوا کرنے کا مقصد یہی کہ تمہارے باپ کو پتا چلے کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے ،،
،قصور میرے باپ نے کیا ،اس کی سزا مجھے کیوں دے رہے ہو ۔؟
گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے ،، وہ گرج کر بولا ۔۔ہاں !۔۔۔یاد رکھنا یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ موت کے گھاٹ اتار دی جاؤ گی ،،۔
صبا دھیرے سے مسکرادی۔۔،ڈیئر انکل ۔۔میں فرار ہونے کی کوشش نہیں کروں گی ۔۔بلکہ ایک دن تم خود مجھے میرے گھر چھوڑ نے آؤگے۔،،
آخ تھو!!۔۔اس نے غصّے سے تھوک دیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
صبا کو امیر خان کی قید میں آج پندرہواں دن تھا ۔۔وہ دونوں وقت کا کھانا بناتی ۔۔جب بھی موقع ملتا اسے سمجھاتی ۔۔انسانی جان و مال کی قدرومنزلت بتاتی ۔اسے اخلاقیات کا درس دیتی مگر ۔۔امیر خان چکنا گھڑا تھا ۔۔ٹس سے مس نہ ہوتا ۔۔آج بھی رات کے کھانے کے بعد وہ اس سے الجھ پڑی۔
،ڈیئر انکل۔۔اتنا دھن لوٹ کر کیا کرتے ہو ؟
امیدواروں سے چھین کر غریبوں میں بانٹتا ہوں ،،
،اس کے عوض تمہیں کیا ملتا ہے ؟
غریبوں کی دعائیں ،،
یہی غریب قیامت میں کہیں گے ہم نے اسے لوٹنے کے لیے نہیں کہا تھا ۔۔اس کے کیے کی سزا یہی بھگتے،،
،آخرت کی فکر کسے ہے ۔۔جس کی دنیا ہی لٹ چکی ہو ،،
کیسے مسلمان ہو ۔۔عاقبت خراب کر رہے ہو !!
اے لڑکی !۔۔امیر خان ہتھے سے اکھڑ گیا ۔۔مجھے اخلاقیات کا درس نہ دو ،
صبا اس کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی ،
تم نے کبھی اقبال کو پڑھا ہے ؟
میر،غالب ،اقبال سبھی کو پڑھ چکا ہوں ۔۔۔خیر سے گریجویٹ ہوں ، وہ سینہ پھلاتے ہوئے بولا ۔
اقبال نے تم سے لوگوں کے لیے کہا ہے ،
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک ہے اثر
اقبال کو کبھی غموں سے واسطہ نہ پڑا ہوگا ،،
،لیکن میروغالب کی زندگی تو غموں سے چور تھی !!۔۔انہوں نے تو کبھی ڈاکہ نہیں ڈالا !!!
،وہ بزدل تھے ،،
وااہ میرے شیر !۔۔بندوق کی نال پر لوٹنا کون سی بہادری ہے ؟؟؟
،مجھ سے بحث نہ کرو۔۔جاؤ سوجاؤ،،
اس نے پیال کے بستر پر لیٹ آنکھیں بند کر لیں لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔صبا کی باتیں رہ رہ کر یاد آرہی تھیں ۔۔آخرت کی پکڑ نے اسے لرزہ دیا ۔۔۔آخر وہ بھی انسان تھا ۔۔سارے گناہ اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتے نظر آرہے تھے ۔۔وہ اپنے آپ کو بہت بہادر سمجھتا تھا ۔۔صبا نے اس کی قلعی اتار دی تھی ۔۔بندوق کی نال پر لوگوں کو لوٹنا کون سی بہادری ہے ؟؟؟اسی خیالات کی رو میں اسے نیند آگئی ۔
دوسری صبح وہ دیر سے جاگا۔۔حالانکہ وہ طلوعِ آفتاب سے پہلے اٹھتا ۔۔کھلے میدان کے سو چکر لگانے کے بعد بڑا پیالہ دودھ پیتا ۔۔۔پاس کے گاؤں رام نوالہ جاکر اپنے خبری سے علاقے کے حالات دریافت کرتا اور پھر ڈاکے کا پروگرام مرتب کرتا ۔۔گزشتہ کئی سال معمولات میں آج فرق آگیا ۔۔رات کی باتیں اسے کچوکے لگا رہی تھیں ۔۔وہ اٹھ بیٹھا ۔۔صبا اس کے قریب پانی کا لوٹا لیے کھڑی تھی ۔
،ڈیئر انکل !۔۔میں کب سے آپ کے اٹھنے کا انتظار کر رہی ہوں ،،
کیوں ؟،، اس نے حیرت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے پوچھا ۔
،یہ بتانے کے لیے کہ سرہانے بھری بندوق رکھ کر بے خبر نہیں سوتے ۔۔میں چاہتی تو اسی بندوق سے تمہیں ڈھیر کردیتی ،،
،تم کیا ڈھیر کرتی !۔۔بزدل باپ کی کمزور بیٹی ،،
تم اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھتے ہو ؟۔۔وہ تیز لہجے میں بولی ۔
ہاں !۔۔میں سرکش گھوڑے کو قابو میں کرلیتا ہوں ،،
،ابھی پتا چل جائے گا ۔۔۔ذرا سامنے سے پیپل کے دو پتے تو توڑ لاؤ؟،،
،،یہ بہادری کا کام ہے ؟،، ۔۔وہ استہزا سے بولا ۔۔ابھی گیا ۔۔اور ابھی لایا !!،،۔۔تیزی سے اٹھا اور اچھل کر پتے توڑ لایا ۔
،،لے لو،،
،اب ایک کام اور کرو۔۔جہاں سے پتے توڑے ہیں وہیں جوڑ آؤ،،
،تم پاگل تو نہیں ہو ؟۔۔امیر خان حیرت سے بولا ۔۔ٹوٹے پتے بھی کہیں جڑتے ہیں !!!،
،جب تم جوڑ نہیں سکتے تو توڑتے کیوں ہو ۔۔۔امیر خاں!!۔۔صبا ہذیانی آواز میں بولی ۔۔تم کتنوں کا سہاگ چھین چکے ہو ۔۔۔کتنوں کو یتیم کرچکے ہو ۔۔کتنوں کو خون میں نہلا چکے ہو !!،،۔۔بولو۔۔امیر خان ۔۔بولو!!،،
امیر خان کیا بولتا ۔۔اس پر سکتہ طاری ہو گیا تھا ۔۔۔ٹپ ٹپ آنسوؤں کی دھار پھوٹ پڑی۔۔۔بس وہ اتنا ہی کہہ سکا۔۔،
مجھے روشنی مل گئی ۔۔آؤ۔۔میں تمہیں گھر چھوڑ آؤں ،،
صبا کچھ نہ بولی ۔۔اس کی آنکھوں میں فتح مندی کی چمک تھی ۔