ذوالفقار چیمہ سے میری پہلی ملاقات علائوالدین خلجی کے دربار سے باہر ڈیوڑھی میں ہوئی۔
علائوالدین خلجی نے گرانی اور ذخیرہ اندوزنی کے خلاف ایک نظام وضع کیا، غلے کی رسد کو یقینی بنایا اور ٹوپی سے لے کر جوتے تک ،کنگھی سے لے کر سوئی تک اور خادمہ سے لے کر گھریلو ملازم تک۔ ہر شے کے نرخ مقرر کردئیے۔ اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے اسے ایک ایسے پولیس افسر کی ضرورت تھی جو نڈر ہو اور لالچی نہ ہو۔سلطان کے جاسوسی کے نیٹ ورک نے جو اپنے زمانے کا عجوبہ تھا ذوالفقار چیمہ کا نام تجویز کیا۔ چیمہ جب دربار میں حاضر ہونے کے لئے ڈیوڑھی میں اترا ہے تو میں اس وقت محترم شاہ صاحب سے بات کررہا تھا۔ شاہ صاحب دربار سے واپس آکر ڈیوڑھی میں کھڑے تھے اور پریشان تھے۔ میری صحافتی حس بتاتی تھی کہ بادشاہ ان کے ساتھ سرد مہری سے پیش آیا ہے۔ ان کی ذرہ نوازی کہ مجھے اعتماد میں لیا ،وہ سلطان کو معاملے کی اونچ نیچ سمجھانے آئےتھے۔ کراچی کے تجارتی حلقوں میں اضطراب پھیلا ہوا تھا، لیاری اور سہراب گوٹھ کے کچھ گروہ ذوالفقار چیمہ کی تعیناتی سے ناراض ہوسکتے تھے اور یہ ناراضگی شاہ صاحب کے لئے خطرناک تھی، تاہم دربار میں پہنچ کر شاہ صاحب نے جو منظر دیکھا اس کے بعد انہیں جہاں پناہ کے سامنے عرض مدعا کا حوصلہ ہی نہ ہوا۔ شاہ صاحب کی موجودگی میں کچھ تاجروں کو بادشاہ کے حضور لایا گیا، انہوں نے سودا کم تولا تھا، جتنا کم تولا گیا تھا، اتنے ہی وزن کے برابر ان کی پنڈلیوں سے گوشت کاٹ لیا گیا۔
سلطان علائوالدین خلجی نے ذوالفقار چیمہ کو کنٹرولر آف مارکیٹس مقرر کیا۔ دربار پر اس وقت سناٹا چھاگیا جب چیمہ عرض گزار ہوا کہ جہاں پناہ! غلام کی شرط یہ ہے کہ سلطان یا کوئی وزیر میرے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، پھر دنیا نے دیکھا کہ خلجی کا بیس سالہ عہد ازرانی کا دور تھا اور استحکام کا۔ خوشحالی کے سارے رنگ نمایاں تھے۔
ذوالفقار چیمہ سے میری دوسری ملاقات شیر شاہ سوری کے دارالحکومت میں ہوئی۔ شیر شاہ سوری نے دو فیصلے کئے تھے۔ قاتل کوئی نہیں بچ پائے گا اور کسی شہری پر ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان فیصلوں کے نفاذ کے لئے اسے ایک ایماندار اور بے خوف پولیس افسر کی ضرورت تھی۔ اس نے چیمہ کو اختیارات دئیے کہ ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے۔ چھوٹے میاں صاحب نے بہت کوشش کی کہ یہ تعیناتی کسی طرح ٹل جائے۔ چیمہ میں دو نقص تھے، ایک تو اس کا تعلق ایک خاص برادری سے نہیں تھا۔ دوسرے وہ ایک مشہور بڑے شہر سے نہیں تھا، مگر شیر شاہ سوری نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس کے بعد شیر شاہ کے عہد میں جو امن و انصاف قائم ہوا اس کی مثال پورے مغل عہد میں نہیں ملتی۔ذوالفقار چیمہ سے میری تیسری ملاقات 1830ء میں کلکتہ میں ہوئی۔ اسے گورنر جنرل سرولیم بنٹنگ نے طلب کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وسطی ہندوستان ٹھگوں کے رحم و کرم پر تھا۔ گروہوں کی شکل میں ٹھگ قافلوں میں شامل ہو کر مسافروں کو قتل کرتے اور سامان لوٹ لیتے۔چیمہ نے گورنر جنرل کوایک ہی شرط پیش کی کہ کسی مقامی راجے یا نواب کی سفارش نہیںمانی جائے گی، اگلے پانچ سال میں ٹھگی کا انسداد ہوگیا۔
خواتین و حضرات !اب تک جو کچھ میں نے عرض کیاہے اس سے آپ یہ مطلب ہرگز نہ نکالئے گا کہ ذوالفقار چیمہ کوئی مافوق الفطرت مخلوق ہے جو ہر زمان ہر مکان حاضر ناظر ہے۔ عرض گزاری صرف اتنی ہے کہ ذوالفقار چیمہ ایک سمبل ہے ایک علامت ہے، اس حقیقت کی کہ پولیس افسر صرف اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب داخل میں وہ ایماندار اور بے خوف ہو اور خارج میں وہ کسی قسم کی سیاسی اور انتظامی مداخلت کا شکار نہ ہو۔ تاریخ میں کچھ حکمرانوں نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں، جرائم کی بیخ کنی کی، خلق خدا کو امن و آسودگی فراہم کی ،یہ اصل میں اس بیوروکریسی کا کارنامہ تھا جسے انہوں نے فری ہینڈ دیا۔ ہاں! یہ ضرور کیا کہ معاملات صرف ان بیوروکریٹس کو سونپے جن کی دیانت مسلمہ تھی۔دوسرے لفظوں میں ذوالفقار چیمہ ایکPhenomenonہے جو ہمارے آج کے پیش منظر پر نمایاں ہے، آج ہم جس پاتال میں گر چکے ہیں اس کی بہت سی وجوہ ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ذوالفقار چیمہ جیسے افسروں کو برداشت نہیں کیا جاتا اور وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے بغیر پیش منظر سے پس منظر میں چلے جاتے ہیں گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں
زمین ہم شہسواروں کے لئے ہے تنگ اظہارؔ
جبینوں پر ستارے رائیگاں روشن ہوئے
آپ اس ملک کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے جب پاسپورٹ جاری کرنے والا محکمہ کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی سے اٹ گیا اور شاید ان افراد کو بھی پاسپورٹ جاری کردئیے گئے جنہوں نے ابھی پیدا ہونا تھا تو ذوالفقار چیمہ کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ اس نے رات دن محنت کی، بھیس بدل بدل کر صوبائی اور ضلعی شاخوں میں گیا، عام شہریوں کی طرح قطاروں میں کھڑا ہو کر صورتحال کو جانچا اور پھر چند ماہ میں ناقابل یقین حد تک صورتحال کو تبدیل کردکھایا لیکن پھر اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ کیوں؟ یہ کوئی برمودا ٹرائینگل جیسی مسٹری نہیں ہے۔ وجہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی معلوم ہے اور ا س کا نتیجہ وہ گہری خندق ہے جس میں آج ہم بے یارومددگار پڑے ہیں۔
پولیس سروس کی معراج آئی جی کا منصب ہوتا ہے۔ چیمہ کو آئی جی لگایا گیا مگر موٹر وے کا! اس لئے کہ اس سے زیادہ’’بے ضرر‘‘ منصب خردبین سے ڈھونڈنے کے باوجود نہ ملا اور اس لئے کہ یہاں سیاستدانوں کو’’کام‘‘ نہیں پڑے! مگر چیمہ نے یہاں بھی پیتل کو سونا کر دکھایا اور شعبے کو زمین سے آسمان تک لے گیا۔ اسے سندھ کا آئی جی نہ لگایا گیا اس لئے کہ لگایا جاتا تو سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم نہ بھی ہوتے تو غیر فعال ضرور ہوجاتے۔ لیاری سے سہراب گوٹھ تک صورتحال تبدیل ہوجاتی اور بھتہ لینے والے معززین کے اسماء گرامی اور فوٹو میڈیا میں سب کے سامنے آجاتے۔ اسے پنجاب کا آئی جی نہیں لگایا گیا ،لگایا جاتا تو وہ غیر ملکی پکڑے جاتے جنہوں نے صوبے کے بڑے شہر کو عملی طور پر محصور کر رکھا ہے، اغواء برائے تاوان کا عظیم الجثہ طاقتور نیٹ ورک ٹوٹ جاتا ۔بھتہ خوروں پر قیامت گزر جاتی، اس غیر دانش مند شخص نے کسی برادری کو رعایت نہیں دینا تھی نہ سفارش ماننا تھی اور ایلیٹ فورس کے ہزاروں اہلکار اعلیٰ شخصیات اور ان کے اقرباء کے محلات سے واپس بلالینے تھے اور یہ سب ناقابل برداشت تھا۔
ذوالفقار چیمہ کو وفاقی دارالحکومت کا آئی جی نہیں لگایا گیا، لگادیا جاتا تو تین بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑتے، پہلا نقصان یہ ہوتا کہ ڈاکے ختم ہوجاتے، وہ ڈاکے جو اسلام آباد کے سیکٹروں میں روزانہ کی بنیاد پر ڈالے جارہے ہیں۔ میڈیا نے یہاں تک رپورٹ کیا ہے کہ ہر سیکٹر کے الگ الگ یعنیSpecialisedڈاکو ہیں، میں ایک سابق سفیر کو جانتا ہوں جس کے گھر میں ڈاکوئوں نے دن دیہاڑے گھس کر اسے اور اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیگم کو رسیوں سے باندھ دیا ،کئی معروف اینکر پرستوں اور صحافیوں کے گھروں سے گاڑیاں چوری ہوئیں۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا کہ وفاقی دارالحکومت کے وسط میں سیکٹر جی، بارہ کے نام سے جو ناسور قائم ہے اور جرائم اور مافیا کا جو ناقابل عبور جنگل ہے وہ صاف ہوجاتا۔ تیسرا نقصان یہ ہوتا کہ دارالحکومت کی ایک بغل میں ترنول کی، جسے منی وزیرستان کہا جانے لگا ہے اور دوسری بغل میں بارہ کہو کی جو تیزی سے سہراب گوٹھ بن رہا ہے، تطہیر ہوجاتی ، اس کے علاوہ بھی بہت سے نقصانات ہوتے کیونکہ ذوالفقار چیمہ مفادات کے دھندے کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا۔رہی اس کی کتاب’’دو ٹوک باتیں‘‘ جس کی رونمائی کی یہ تقریب ہے تو میرے ساڑھے تین سالہ نواسے ہاشم نے اپنے ماموں سے کہا کہ کہانی سنائیں، ماموں کو نیند آئی ہوئی تھی۔ اس نے ٹال دیا، ساتھ ہی قالین پر ماموں کا لیپ ٹاپ پڑا تھا۔ ہاشم ا ٹھا ایک وزنی شے مشکل سے اٹھا کر لیپ ٹاپ کے اوپر رکھی اور ماموں سے کہا…’’تو پھر یہ لیں‘‘ ذوالفقار چیمہ نے یہ کتاب لکھ کر ایک بہت ہی وزنی شے ارباب اختیار کے ضمیروں پر رکھ دی ہے اور ساتھ ہی کہا ہے ’’تو پھر یہ لیں‘‘!
بیوروکریسی کو سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے والی طاقت ور شخصیات تاریخ کے غبار میں روپوش ہوجائیں گی مگر ذوالفقار چیمہ کا لکھا ہوا حرف باقی رہے گا۔
(’’دوٹوک باتیں‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا‘‘)
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“