تتلیاں ، کونجیں اور مچھلیاں یوں تو قبیل کے اعتبار سے الگ الگ ھیں لیکن ان میں ایک قدر مشترک ھے کہ تینوں نادان ھوتی ہیں اور شکار ھو جاتی ھیں ۔
تتلیاں اور کونجیں اپنی معصومیت اور بھولے پن کی وجہ سے ماری جاتی ھیں جبکہ مچھلی اپنے اس زعم کے باوجود کہ وہ پھرتیلی اور چالاک ھے ، شکاری کے جال سے بچ نہیں پاتی ، چاہے وہ ' جیلی فش ' جیسی مہا زہریلی اور خاموش قاتل ھی کیوں نہ ھو یا پھر خونخوار اور حملہ آور' شیر شارک ' ۔
*********
تتلی سے مجھے جان فاولئز ( John Fowles) کا ناول " The Collector " اوراس پر ولیم وائیلر کی بنائی فلم یاد آئی ، 'مرنڈا گرے' ( Miranda Grey ) بھی اور اس کو قید کر کے رکھنے والا ' فریڈرک کلیگ ' ( Frederick Clegg ) بھی جو تتلیوں کو پکڑنے اور حنوط کرکے شو کیسوں میں سجانے کا رسیا ھے ۔
' مرنڈا گرے ' جیسی ا یک تتلی میری بھی ھے جو ' فریڈرک کلیگ ' جیسے ایک شخص کے قبضے میں ھے اور پھر سے آزاد ھونے اور مزید جینے کی آس میں دن بدن موت کے قریب ھوتی جا رھی ھے ۔
*********
کونج سے مجھے مشہور سندھی شاعر شیخ ایاز کی نظم " ھائے ھائے کونج نہ مار ، شکاری ! " یاد آئی جسے ھمارے ایک دوست احمد سلیم نے پنجابی میں ایسے ڈھالا ہے۔
ھائے ھائے کونج نہ مار ،
شکاری !
ھائے ھائے کونج نہ مار ،
توں وی کسے دا سجن ھو سی
اپنی سجن سار
شکاری !
ھائے ھائے کونج نہ مار ،
دھون ملوک تے ٹور سجیلی
لبھ کائی ھور شکار
شکاری !
ھائے ھائے کونج نہ مار ،
جے ایہہ تیں تے بھار بنے
تُون تاڑی مار اُڈار
شکاری !
ھائے ھائے کونج نہ مار ،
جے توں سَر پَر ظلم کماونا ،
جوڑا کر کے مار ۔
شکاری !
کجھ تے ترس گذار
شکاری !
ھائے ھائے کونج نہ مار ، شکاری !
ھائے ھائے کونج نہ مار
ایسی ھی ایک کونج میری بھی ھے ، جس کا ' سجن ' شکاری نے مار ڈالا ھے اور وہ نہر کے ساتھ ساتھ بہتی سٹرک پر اس نکڑ پہ ، جہاں سے شوکت خانم میموریل ہسپتال کو سائیڈ روڈ نکلتی ھے ، بیٹھی اپنے شکار ھوئے ' سجن ' کے بے جان جسم کو خالی خالی نگاھوں سے دیکھ رھی ھے ۔
*********
اسی طرح مچھلی سے مجھے پیٹر بینچلے ( Peter Benchley ) کا ناول ' جاز' (Jaws) اور اس پر سٹیون سپیلزبرگ کی بنائی فلم یاد آئی ۔ " جاز " کی مرکزی کردار ' شیرشارک ' مچھلی کئی انسانوں کا شکار تو کر لیتی ھے ، ایک جال سے نکلتی ھے دوسرے میں پھنستی ھے لیکن آخر ایک بڑا جال اور اس سے بھی زیادہ ھٹیلے انسانی درندے اسے زیر کر ھی لیتے ھیں ۔
ایسی ھی ایک ' شیرشارک' مچھلی میری بھی ھے جو ایک جال سے تو بچ نکلی ھے لیکن ایک دوسرے بڑے اور ایسے جال میں جا پھنسی ھے جو اُس کے اپنے ' پانیوں ' سے دور ایسے پانیوں میں شکاریوں نے لگا رکھا ھے جہاں میری رسائی تو کیا اس کی اپنی ساتھی مچھلیاں بھی اُس کی مدد کو نہیں پہنچ سکتیں ۔
*********
ابھی یہاں تک ھی لکھا تھا کہ قبلہ اسد اللہ غالبؔ کی آواز آئی : ارے میاں تم تتلیوں ، کونجوں اور مچھلیوں کی بات کرتے ھو ، یہ بتاوٗ کہ
" ہم کہاں کے دانا تھے ، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا "
اب ایسے میں ، کوئی بتلائے کہ ھم بتلائیں کیا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ جان فاولئز ( John Fowles ) کا ناول " دی کولیکڑ " ( The Collector ) 1963ء میں شائع ھوا اور اس پر 1965 ء میں فلم بنی تھی ۔
۲۔ شیخ ایاز کے کلام کا انتخاب جسے احمد سلیم نے پنجابی روپ میں " جو بیجل نے آکھیا " کے نام سے پیش کیا تھا ۔ یہ انتخاب انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی ، سندھ یونیورسٹی نے چھاپا تھا ، کتاب پر سن ِاشاعت درج نہیں لیکن فیض احمد فیضؔ کے تعارفی نوٹ " پہلی گل " پر ' اگست 1976 ء ' درج ھے ۔
۳۔ پیٹر بینچلے ( Peter Benchley ) کا ناول 'جاز' ( Jaws ) ' 1974 میں شائع ھوا اور اس پر 1975 ء میں فلم بنی تھی ۔