آج حامد میر صاحب نے اپنے کالم میں یہ لکھا کہ ٹیپو سلطان کشمیری النسل تھے۔شاید چند کتب اس بات کو ثابت کرتی ہوں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اس سلسلے میں راہنمائی لینے کیلئے ٹیپو سلطان کے خاندان سے استفادہ کرنا ہوگا۔ٹیپو خاندان کے آخری چراغ شہزادہ غلام محمد نے 1855 میں کتاب لکھی۔
شہزادہ غلام محمد کے مطابق حیدر علی کا یہ دعوی تھا کہ ان کا تعلق مکہ سے اور نسبت قریشی قبیلے سے تھی۔جس سے نبی رحمت کا تعلق تھا۔یہی لوگ بعد میں ہجرت کر کے کوھیر اور حیدر آباد کے اطراف میں آباد ہوئے۔ٹیپو خاندان کو سمجھنے کیلئے یہ کتاب مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔۔
اس سلسلے مں دوسری اہم ترین تصنیف ڈینز فرسٹ کی ہے۔۔شیر میسور۔۔جو پہلی بار 1970 میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں ٹیپو سلطان اور ان سے جڑی کئ غلط روایات کی اصل حقیقت بیان کی ہے۔کتاب کو پاک برٹش پبلیکیشنز نے شائع کیا۔اس کو پڑھے بغیر بھی حقیقت واضح نہیں ہوتی۔
ڈنیز کےمطابق فاتح مسلمان کاشجرہ مکہ اور نبی رحمت سے ملانےکا شوق تاریخ نگاروں کا مشغلہ ہے۔ٹیپو کےبارے میں بھی یہی لکھا گیا۔مگر وہ پنجابی درویش شیخ ولی محمد سےتاریخ کرتے ہیں۔جو 1625 کےآس پاس دلی کے جنوب سےگلبرگہ آئے۔بیجاپور کےقریب واقع ہے۔یعنی ٹیپو کاخاندان عرب تھااور درویش بھی۔
ٹیپو عربی النسل پنجابی صوفی گھرانے کا فرزند تھا۔اس بات کو علامہ یوسف جبرائل کی کتاب۔۔علوی اعوان قبائل۔۔ثابت کرتی ہے۔علامہ صاحب کا این میری شمل سے مشہور مکالمہ اخبارات میں شائع ہوچکا ہے۔علامہ صاحب کےمطابق ٹیپو سلطان اعوان قبیلے کےصوفی خاندان کا فرزند تھا۔جن کامزار چنیوٹ میں ہے۔