لارڈ ٹموتھی ڈیکسٹر ایک معروف امریکی فلسفی ، بزنس مین اور ایک شہرہِ آفاق کتاب A Pickle for the Knowing Ones کے مصنف تھے ۔۔۔ تاہم ان کی زندگی کا سب سے دلچسپ پہلو کاروبار ان کی بہترین قسمت کے کچھ واقعات ہیں جو بھلے ہی افسانوی لگتے ہیں مگر حقیقت پر مبنی ہیں۔
تو آئیے جانتے ہیں لارڈ ٹموتھی عُرف ٹِم ڈیکسٹر کی زندگی کے بارے میں۔۔۔۔۔
۔
تعارف :
ٹم 22 جنوری 1747 کو امریکی ریاست میسا چوسٹس میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب کسان خاندان سے تھا ۔
وہ پہلے چند جماعتوں سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے اور 8 سال کی عمر سے ہی ان کے والدین نے انہیں اپنے ساتھ کام پر لگا دیا۔
تاہم ٹم اس کام سے خوش نہ تھے۔۔۔۔زندگی میں ان کی 3 بڑی خواہشات تھیں :
دولت۔
مرتبہ۔
شہرت۔
چنانچہ جب ان کی عمر 15 ہوئی تو انہوں نے اپنا گاؤں چھوڑ دیا اور نئے افق سَر کرنے نکل پڑے ۔ جس کے بعد انہوں نے کئی چھوٹے موٹے کام دھندے اور نوکریاں کیں۔
20 سال کی عمر میں ان کی شادی ایک 32 سالہ امیر بیوہ الزبتھ سے ہوگئی۔۔۔۔گویا ان کی پہلی خواہش یعنی دولت کا حصول بغیر کسی لمبی چوڑی جدوجہد ان کی جھولی میں آ گری۔
اب وہ شہر کے ایک امیر شخص تھے۔۔۔۔۔
تو اب انہوں نے اپنی توجہ “مرتبہ ” حاصل کرنے پر مرکوز کردی۔۔۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر مقامی سرکاری ارادوں اور سٹیٹ گورنمنٹ کی کئی طرح سے مالی اور عملی مدد کرنے کا آغاز کردیا ساتھ ہی وہ شہر کے تمام چھوٹے بڑے فنکشنز میں شامل ہونے لگے۔
انہوں نے حکومت سے کئی مرتبہ اپیل کی کہ ان کی خدمات کے عوض انہیں کوئی سرکاری عہدہ دیا جائے۔
چنانچہ حکومت نے ‘تنگ آ کر’ ٹموتھی کو مالڈن میں “ہرنوں کا نگران” مقرر کردیا۔ یعنی اس ٹاؤن اور اس کے مضافات میں ہرن کی آبادی کی نگرانی اب ٹم کی ذمہ داری تھی۔
لیکن اس میں ایک چھوٹی سی دِقت یہ تھی کہ میساچوسٹس میں ہرن سرے سے پائے ہی نہیں جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
کاروباری زندگی :
ٹموتھی بھلے ہی اب ایک دولت مند اور صاحبِ مرتبہ شخص تھے مگر وہ کوئی عیاش نکھٹو نہ تھے کہ پوری زندگی اپنی بیوی کی دولت سے روٹیاں توڑتے چنانچہ امریکی جنگِ انقلاب کے خاتمے کے فوراً بعد انہوں نے کاروبار کی دنیا میں قدم رکھا ۔
اور چند بدخواہ دوستوں کہ جو ان کی دولت ڈبو کر انہیں قلاش کرنا چاہتے تھے کے مشورے پر اپنا پہلا بزنس ٹرپ ویسٹ انڈیز کا رکھا اور 40 ہزار Warming Pans سے لدا بحری جہاز ، فروخت کی خاطر ویسٹ انڈیز روانہ کردیا۔
۔۔۔۔ وارمنگ پین دراصل لمبے ہنڈل والا ایک آہنی برتن ہے کہ جسے 1850 کی دہائی تک امریکہ کے لوگ کڑکڑاتے جاڑے اور برفانی سرد راتوں میں بستر کو گرم کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے ۔۔۔ اس میں تازہ بجھے کوئلے رکھ کر اسے بستر میں رکھا جاتا تھا۔
اور ٹموتھی انہیں بیچنے جارہے تھے ویسٹ انڈیز میں جو کہ ایک شدید گرم ملک ہے جہاں سرما میں بھی اوسط درجہ حرارت 30 رہتا ہے۔۔۔۔ جینیئس!!!
تو جی۔۔۔۔ جب جہاز ویسٹ انڈیز پہنچا اور وہاں کے شہریوں نے سامان دیکھا تو پہلے تو وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ یہ کیا ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔
اتفاق سے ان دنوں ویسٹ انڈیز میں گنے کی راب کی پروڈکشن کا کام بہت عروج پر تھا ۔ اور راب پکاتے وقت کَھولتی ہوئی گرم لئی کا ایک قطرہ بھی ہاتھ پے پڑ جاتا تو جلد جھلس جاتی تھی ۔
چنانچہ جب انہوں نے لمبے سارے ہینڈل والا پین دیکھا تو بڑے خوش ہوئے کہ راب پکانے کے کام آئے گا وہ بھی بغیر خطرے کے۔
اسطرح ٹموتھی کے سارے پین بھاری منافع پر بک گئے۔
۔۔۔۔۔۔
جب ٹموتھی تک یہ سارا منافع پہنچا تو وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ ویسٹ انڈیز میں موسم سرما یقیناً بہت سرد ہوتا ہوگا جبھی تو سب پین فوراً بک گئے ۔
تو اب کی بار اس مردِ خدا نے گرم کپڑوں، جیکٹوں ، گرم موزوں اور دستانوں اور کنٹوپوں کا جہاز بھر کر ویسٹ انڈیز روانہ کردیا۔
اب اصولاً تو اس کاروباری ٹرپ میں ٹموتھی کو بھاری خسارہ ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ ایک مرتبہ پھر ان کی قسمت نے یاوری کی۔
اتفاق سے ان دنوں کچھ ایشیائی تاجر ویسٹ انڈیز میں لنگر انداز تھے جو اپنا سامان روس اور چین میں بھی فروخت کیا کرتے تھے ۔
جب ان تک ٹموتھی کے جہاز کی آمد کی خبر پہنچی اور وہ ان کا مال دیکھنے گئے تو یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ وہ سارا مال امریکی کارخانوں میں تیار کردہ انتہائی عمدہ ، نفیس اور مضبوط تھا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے سارا سامان اچھے دام دے کر خرید لیا تھا کہ چین و روس جاکر فروخت کریں۔
ایک مرتبہ پھر ڈیکسٹر منافع میں نہا گیا۔۔
۔۔۔
اس کے بعد ایک آستین کے سانپ، نما دوست نے ٹموتھی کو مشورہ دیا کہ وہ کوئلہ خرید کر “نیو کیسل” بھجوا کر فروخت کرے۔
اب۔ نیوکیسل ان دنوں برطانیہ میں کوئلے کی کان کنی کا سب سے بڑا مرکز تھا ۔
گویا نیوکیسل میں کوئلہ بھجوانے اور بیچنے کا مطلب تھا کھیوڑہ میں نمک یا سکردو میں برف بھجوا کر بیچنا۔
تو جی۔۔۔ ڈیکسٹر نے بھاری مقدار میں کوئلہ خرید کر نیو کیسل بھجوادیا ۔
جب کوئلہ نیو کیسل پہنچا تو پتا چلا کہ یہاں ایک مہینے سے کان کن اور مزدور ہڑتال پر ہیں اور ایک ماہ سے کوئلے کا ایک دانہ بھی نہیں کھودا گیا اور ملک بھر سے کوئلے کے جو خریدار یہاں سے کوئلہ خریدتے ہیں وہ مہینے بھر سے یہاں کھجل ہوئے بیٹھے ہیں۔
ادھر ٹموتھی کا کوئلہ پہنچا ادھر ان خریداروں نے سکھ کا سانس لیا۔
چند گھنٹوں میں سارا کوئلہ انتہائی بھاری منافع پر فروخت ہوگیا۔
۔۔۔
کچھ عرصے بعد ٹموتھی نے اپنے سماجی کاموں کے سلسلے میں ۔ شہر میں لوگوں کو تنگ کرنے کا باعث بن رہیں ہزاروں آوارہ بلیوں کو پکڑوادیا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ان بلیوں کا کیا کیا جائے۔
کسی نے مشورہ دیا کہ انہیں جہاز پر لاد کر کیریبین جزائر میں چھوڑ آیا جائے ۔
چنانچہ ٹموتھی نے بلیوں کے پنجروں سے جہاز بھر کے کیربین روانہ کردیا۔
کیربین پہنچ کر جہاز کے عملے کو معلوم ہوا کہ یہاں گزشتہ چند سالوں سے چوہوں نے تباہی پھیر رکھی ہے۔ وہ اناج کھانے ، کپڑے کترنے کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی بیماریاں پھیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔ چنانچہ جب بلیوں کا جہاز ادھر پہنچا تو وہاں کے تاجروں اور امراء اور دیگر اشخاص نے اپنے گھروں ، گوداموں کو چوہوں کی یلغار سے بچانے کے لیے بہت اچھے داموں وہ بلیاں ان سے خرید لیں۔
اسی طرح ایک مرتبہ ٹموتھی نے ایسٹ انڈیز میں پرانے ، سیکنڈ ہینڈ بائبل کے نسخوں سے لدا جہاز بھجوایا جنہیں اس نے کوڑیوں کے مول خریدا تھا۔۔۔۔ جبکہ وہاں جا کر بہترین منافع پر سبھی نسخے بک گئے کیونکہ انہی دنوں میں مقامی گرجا گھروں کے پادریوں نے شہریوں کو گھر میں بائبل ضرور رکھنے کی ہدایات دی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصنیف :
ٹموتھی جو کہ اب بےپناہ دولت کا مالک ہونے کے بعد “لارڈ ٹموتھی ڈیکسٹر” کہلاتا تھا نے اپنی موت سے چند سال قبل ادب کی دنیا میں آنے کا فیصلہ کیا اور 44 صفحات پر مشتمل اپنی پہلی کتاب چھپوائی اور اس کی ہزاروں کا پیاں مفت تقسیم کیں۔
A Pickle for the Knowing Ones
نامی یہ کتاب آج تک کی چند “غیر معمولی” تصانیف میں سے ایک ہے۔
۔
اول تو اس کتاب میں سپیلنگ کی اتنی غلطیاں تھیں کہ شمار سے باہر۔
ہر سطر میں کیپیٹل لیٹرز کا استعمال انتہائی کھلے دل سے ہر ہر لفظ میں کیا گیا تھا۔
اور کوئی پنکچوئشن نہیں شامل کی گئی تھی کوئی کومہ، سوالیہ نشان .?!!.? کچھ بھی نہ تھا۔
اس کتاب سے ایک نمونہ ملاحظہ ہوں :
Ime the first Lord in the “younited States” of A mercary Now of Newburyport it is the voise of the peopel and I cant Help it and so Let it goue.
جب اس کتاب پر یہ تنقید کی گئی کہ اس میں کہیں پر بھی کوئی پنکچویشن نہیں ہے ۔
تو لارڈ ٹموتھی ڈیکسٹر نے اس کا اگلا ایڈیشن شائع کروایا۔
اس نئی اشاعت میں آخر صفحہ پر صرف پنکچویشن مارکس تھے اسطرح
…………;;;;;;;;:::::::””'”””””‘!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
اور لکھا تھا کہ “جسے ان کی کمی محسوس ہورہی ہے وہ حسب ضرورت انہیں استعمال کرلے”.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت :
لارڈ ٹموتھی ڈیکسٹر 1806 میں 59 سال کی عمر میں طبعی موت مرے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...