بلیک ہول ہے کیا؟ سچ پوچھیے تو اس سوال کا شافی جواب ابھی تک ممکن نہیں ہے۔ سائنس کی دنیا میں حتمیت نہیں ہے اور یہی سائنس کی خوبصورتی ہے۔ سائنس ایک نظریہ پیش کرتی ہے جس کے پیچھے برسوں کی تحقیق ہوتی ہے۔ ہر ممکن احتیاط برتی جاتی ہے۔ ریاضی اور طبعیات یا دوسری سائنسی شاخوں کی پیچیدہ مساوات اور تجربے نظریے کو سہارا دیتے ہیں مگر جیسے ہی تحقیق کا کوئی نیا در وا ہوتا ہے جس سے یہ امکان جنم لے سکے کہ نظریے میں ترمیم یا نظریے کی تنسیخ ہو سکتی ہے تو سائنس کی دنیا اس اعتراف میں ایک لحظہ نہیں لگاتی کہ وہ اپنا راستہ بدلنے کو تیار ہے۔
جو قومیں اور معاشرے سائنسی بنیادوں پر سوچنے کو تیار نہیں وہ قطعیت کے اسیر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس گویا ہر شے کا ایک غیر متبدل جواب موجود ہے جس کے لیے ان کے پاس کوئی مشاہداتی یا تجرباتی دلیل نہیں ہوتی پر وہ پھر بھی اس سے جڑے رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ذہنی ارتقاء کا عمل انتہائی سست ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ ارتقاء منفی سمت میں بھی چل پڑتا ہے۔ ایمان اور ایقان سے عبارت یہ معاشرے نہ صرف یہ کہ انسانی ترقی میں ممدومعاون نہیں ہوتے بلکہ زیادہ تر وقت وہ اس ترقی سے خائف دکھتے ہیں۔ خیر یہ ایک اور وقت کی بحث ہے جسے کرنے میں بال و پر سب جھلس جانے کا قوی امکان ہے اس لیے اسے کسی اور وقت پر ہی اٹھا رکھتے ہیں۔
بلیک ہولز کا براہ راست مشاہدہ ممکن نہیں ہے اس لیے ہم بلیک ہولز کے گرد پائے جانے والے اجسام کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس بنا پر بلیک ہولز کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ سائنس کی وہ دنیا جو آئن سٹائن کے سحر کی اسیر تھی اس کے نزدیک بلیک ہولز کائنات کے اختتام کا استعارہ تھے۔ بلیک ہولز کی خوفناک کشش ثقل صرف فنا کا راستہ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ کوانٹم فزکس نے اس نظریے کو کسی حد تک بدل ڈالا ہے اور آج اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ بلیک ہولز کے اندر کی دنیا ایک نئی زندگی کی مظہر ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کے لیے ہمیں کشش ثقل، خلائی وقت یا زمان مکانی، زمانی سفر اور ورم ہول جیسی تراکیب سے آشنائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی بھی ایسی مثال جو ہمارے روزمرہ کے مشاہدے کی ہو اسے بلیک ہولز پر مکمل طور پر منطبق کرنا ممکن نہیں کیونکہ بلیک ہولز کی دنیا ہماری اس دنیا سے بہت مختلف ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس دنیا پر ہمارے عام طبعیاتی اصول بھی لاگو نہیں ہوتے۔ بہرحال کچھ ٹوٹی پھوٹی مثالوں سے اس سارے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے ذہن میں ایک سمندر کی مثال لائیے جس پر ان گنت کشتیاں اور جہاز موجود ہیں۔ یہ جہاز اور کشتیاں لکڑی یا لکڑی نما مادے سے بنے ہیں جو سمندر کی سطح پر قائم رہ سکتا ہے یا تیر سکتا ہے۔ سمندر کا پانی غیر شفاف ہے اس لیے تہہ میں کیا ہے یا تہہ کتنی گہری ہے، یہ جاننا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پانی میں ایک اچھال کی قوت موجود ہے اور اسی وجہ سے لکڑی سے بنے یہ جہاز اور کشتیاں اس کی سطح پر قائم رہ پاتے ہیں۔ اب جو جہاز بڑے ہیں ان کا پیندہ سمندر کی سطح میں گہرا اترا ہوا ہے اور جو چھوٹی کشتیاں ہیں ان کا پیندہ شاید چند انچ سے زیادہ سمندر کے اندر نہیں ہے۔ آپ سمندر کی سطح کو اپنی کائنات کے زمان مکانی کی سطح یا سپیس ٹائم فیبرک سمجھ لیجیے۔ عام حالات میں یہ سطح ہموار ہے مگر جہاں جہاں اس میں کثافت یا density کے لحاظ سے ہلکے اور بھاری جسم موجود ہیں وہاں اسی حساب سے اس کی سطح دب گئی ہے۔ اسے آپ سطح کی خمیدگی یا اسپیس ٹائم کرویچر کہہ لیجیے۔ بھاری جسم اس سطح کو زیادہ خمیدہ کریں گے۔ خلا میں موجود اجسام بھی اپنے گرد نہ نظر آنے والی سطح میں اس طرح دباؤ پیدا کرتے ہیں۔ جتنا زیادہ کوئی جسم زمان مکانی کی چادر یا سپیس ٹائم فیبرک کو دبائے گا اس کی کشش ثقل اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ یہ بات یاد رکھیے کہ وقت سیدھی لکیر کی صورت سفر نہیں کرتا۔ جہاں خلا میں خم آئے گا وہاں وقت میں بھی خم آ جائے گا لیکن اس بات کو تھوڑی دیر بعد سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ چاہیں تو اس مثال کو ایک تنی ہوئی ربڑ شیٹ سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ آپ لوگوں نے ٹریمپولین دیکھی ہوں گی جس پر بچے چھلانگیں لگاتے ہیں اور پھر ربڑ کی شیٹ ان کو واپس اچھالتی ہے۔ فرض کر لیجیے اس ربڑ کی شیٹ پر آپ بالنگ کے کھیل میں استعمال ہونے والی مختلف اوزان کی گیندیں کچھ کچھ فاصلے سے رکھ دیتے ہیں۔ اب جہاں جہاں وزنی گیند رکھی ہوگی وہاں سے ربڑ کی شیٹ زیادہ دب جائے گی اور اسی وجہ سے اردگرد پڑی کم وزن کی گیندیں اس کی طرف آئیں گی۔ جتنی وزنی گیند ہو گی اتنا ہی اس کا اثر اپنے اردگرد کے اجسام پر ہو گا۔ یہ اس کی کمیت اور کشش ثقل کی مناسبت ہے۔ وزنی اجسام یا بڑے ستارے سپیس ٹائم فیبرکس میں زیادہ خم ڈالتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی کشش چھوٹے اجسام کی نسبت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
اب واپس سمندر والی مثال کی جانب چلتے ہیں۔ فرض کر لیجیے کہ ایک بہت بڑا جہاز اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ اس کے پیندے گل گئے ہیں اور اس میں پانی بھر رہا ہے۔ اب اس کا وزن مساوی الحجم پانی سے زیادہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے وہ سطح پر نہیں رہ پائے گا۔ جیسے ہی شکست و ریخت کی وجہ سے اس کا وزن ایک خاص حد سے زیادہ ہو گا وہ ڈوبنا شروع کر دے گا۔ بڑا جہاز جب ڈوبتا ہے تو اس کے گرداگرد ایک شدید بھنور پیدا ہوتا ہے۔ اس بھنور میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اریب قریب کے سارے سطح پر موجود جسم اس کی طرف کھنچتے ہیں اور پھر بھنور کے ساتھ تہہ میں اتر جاتے ہیں۔ اس ڈوبتے جہاز اور اس بھنور کو ایک مرتا ہوا ستارہ یا بلیک ہول سمجھ لیجیے۔ فرق یہ ہے کہ سمندر کے بھنور کے مقابلے میں اس کی عمر کروڑوں سال پر محیط ہو سکتی ہے۔
چلیے ایک بات تو طے ہے کہ بھنور کا شکار ہونے والی ہر شے ڈوب جائے گی لیکن یہاں سے ایک نیا امکان جنم لیتا ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے سطح سمندر سے نیچے جانے کا کسی تیرتے جسم کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ جس مادے سے بنے ہیں وہ سطح میں خم تو ڈال سکتا ہے لیکن اس میں نفوذ نہیں کر سکتا اور دوسرا یہ کہ سطح کے نیچے کیا ہے اس کو جاننے کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کیوں سطح تاریک اور غیر شفاف ہے۔ ایسے فرضی سمندر میں کیا ڈوبنا واقعی صرف ڈوبنا ہی ہے یا یہ ایک اور جہت میں سفر کا امکان ہے۔ سطح کے نیچے کیا ہے۔ تہہ کتنی گہری ہے۔ کیا اس سطح کے نیچے ایک مختلف دنیا موجود ہے۔ سطح سے نیچے اترے بغیر ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے اور سطح سے نیچے جانے کا واحد راستہ بھنور سے ہو کر جاتا ہے۔ بھنور کے پار موت ہے یا نئی زندگی کا امکان، اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے۔ ہماری کائنات کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ہم سپیس ٹائم فیبرک کی سطح پر تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اس کے پار دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کائناتی وسعت اس قدر ہے کہ جو کچھ ہمارے مشاہدے میں ہے وہاں تک سفر ممکن نہیں اور تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت وہ نہیں ہے جو ہمارے مشاہدے میں ہے۔
مثال کے طور پر نظام شمسی کا نزدیک ترین ہمسایہ الفا سنٹوری نامی تین ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ ان میں سے سب سے قریبی ستارہ ساڑھے چار نوری سال کے فاصلے پر ہے یعنی جو مشاہدہ ہم آج کرتے ہیں وہ اصل میں ساڑھے چار سال پرانی بات ہے۔ اگر الفا سنٹوری آج تباہ ہو جائے تو ہمیں اس بات کا پتہ چار سے پانچ سال میں جا کر لگے گا۔ اور کائنات اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ مثال کے طور پر جو سب سے دور کہکشاں اب تک ہم دیکھ سکے ہیں اس کا نام MACS0647 ہے اور جگر تھام کے بیٹھیے اس کا فاصلہ 13.3 ارب نوری سال ہے یعنی ہماری زمین کی تشکیل سے بھی نو ارب سال پرانا قصہ ہے۔ یہ کہکشاں عین ممکن ہے ہمارے نظام شمسی کی تشکیل سے بھی پہلے ختم ہو چکی ہو پر ہمیں اس نظام شمسی کی طبعی عمر ختم ہونے کے بعد تک بھی اس بات کا پتہ نہیں چلنا۔ اور یہ تو صرف مشاہدے کی بات ہے۔ سفر کا تو سوچیے بھی مت۔ الفا سنٹوری جیسے قریبی ستارے تک پہنچنے میں ہمارے موجودہ تیز ترین سپیس شپ کو ایک لاکھ سال لگیں گے۔ ایک لاکھ سال کا موازنہ اس بات سے کر لیجیے کہ معلوم انسانی تاریخ بمشکل دس ہزار سال ہے۔ یہ اعداد سن کر تو لگتا ہے کہ ہمارے پاس کائنات کی وسعتوں کو تسخیر کرنے کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن رکیے یہاں کہانی ایک دلچسپ موڑ لیتی ہے۔ آئیے آپ کو ورم ہول سے متعارف کرواتے ہیں۔
زمان مکانی کی سطح کی مثال کو تھوڑا بدلتے ہیں۔ ایک کاغذ لیجیے اور اسے اپنی کائنات کا ایک حصہ سمجھ لیجیے۔ اب اس پر بہت سارے گول دائرے بنا لیں۔ ہر گول دائرہ گویا ایک ستارہ یا سیارہ ہے۔ سمجھیے کہ کاغذ کے دائیں کنارے پر موجود دائرہ آپ کی زمین ہے اور بائیں کنارے پر موجود دائرہ الفا سنٹوری نامی ستارہ ہے۔ اب کاغذ کی سطح پر سفر سیدھی لکیر میں ہو گا اور اس میں لگ جائیں گے ایک لاکھ سال کیونکہ ہماری رفتار کائناتی تقابل میں ایک جرثومے کی رفتار سے بھی سست ہے۔ اب ایک کام کیجیے۔ کاغذ اٹھائیے اور اسے بیچ میں سے تہہ کر دیجیے۔ اسے ہم کہیں گے اسپیس ٹائم فیبرکس کا فولڈ ہونا یا زمان مکانی کا تہہ ہونا۔ کاغذ کے تہہ ہونے کے بعد آپ کی زمین اور الفا سنٹوری اب بھی کاغذ کے مخالف سمت میں ہیں لیکن ساتھ جڑ گئے ہیں اور ان کا فاصلہ صرف اتنا رہ گیا ہے جتنا کہ کاغذ کی موٹائی کا دگنا اور یہ فاصلہ سابقہ فاصلے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ ایک پنسل لیجیے اور اس کی نوک سے زمین کے دائرے پر سوراخ کیجیے۔ دوسری سمت پنسل کی نوک الفا سنٹوری پر جا نکلے گی۔ یہ سوراخ ورم ہول کہلاتا ہے۔ ورم ہول کے پار کی دنیا عین ممکن ہے کہ چار نوری سال قبل کی دنیا ہو۔
اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ مستقبل کا سفر ممکن ہے لیکن ماضی کی طرف پلٹنا مشکل ہے۔ سائنسدان ورم ہول کے پار موجود مقام کے بارے میں یہ شک رکھتے ہیں کہ وہ ماضی سے تعلق رکھ سکتا ہے۔ لیکن کہانی یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ آپ ایک کاغذ کے اوپر دوسرا کاغذ رکھ کر تہہ کریں۔ اب جو سوراخ ہو گا وہ عین ممکن ہے کہ آپ کو کسی اور کائنات میں سفر کا راستہ مہیا کر دے۔ ورم ہول اگر بن سکے تو کائنات کی تسخیر ممکن ہے۔ دوردراز کہکشاوں تک جانا ممکن ہے۔ سفرالوقت یا ٹائم ٹریول ممکن ہے۔ ماضی اور مستقبل میں جھانکنا ممکن ہے اور اس سب سے آگے اس کائنات کے پرے اور کائناتوں کا سفر بھی ممکن ہے۔ ہمارا ازل اور ابد کا تصور ہماری کائنات کی تشکیل اور فنا سے جڑا ہے۔ کیا ہو اگر کائناتوں کا ایک تار بندھا ہو۔ ایسا ہے تو ازل اور ابد کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔
سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ زمان مکانی کی چادر کو ہم تہہ کیسے کریں تو جواب یہ ہے کہ یہ کام پہلے ہی ہو چکا ہے۔ ہر بلیک ہول میں اسپیس ٹائم فیبرک فولڈ موجود ہے یعنی ایک ورم ہول عین ممکن ہے۔ تو آئیے پھر بلیک ہول کی جانب چلتے ہیں۔ جہان حیرت کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ آئیں کائنات کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...