رہا مقابلے کے امتحان میں اردو کا عمل دخل تو فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے یہ معاملہ طے کرنا اور کرانا اُن شاعروں‘ ادیبوں اور اردو کے اساتذہ کے بس کا کام تھا‘ نہ ہے جو مقتدرہ قومی زبان میں تعینات ہوتے رہے۔ اور کیا عجب! نفاذِ اردو کو بہانہ بنا کر کچھ اصحابِ ضرورت کو نوازنے کا سلسلہ پھر شروع ہو جائے!
پروفیسر فتح محمد ملک مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین تھے۔ یہ کالم نگار بیوروکریسی کی ایک ٹاپ پوسٹ سے ریٹائر ہو کر گھر بیٹھا تھا۔ والد مرحوم صاحبِ فراش تھے‘ اُن کے کمرے ہی میں میز کرسی لگا لی۔ ان دنوں ڈھاکہ کے انگریزی روزنامے ’’دی بنگلہ دیش ٹوڈے‘‘ کے لیے کالم لکھ رہا تھا جو زیادہ تر ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے حوالے سے تھے۔ ایک دن پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کے سٹاف نے اطلاع دی کہ پروفیسر صاحب غریب خانے تشریف لا رہے ہیں۔ وہ تشریف لائے اور بتایا کہ وہ مقتدرہ قومی زبان چھوڑ کر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بطور ریکٹر جا رہے ہیں۔ وہ مقتدرہ کی صدر نشین کے لیے تین ناموں کا پینل وزیراعظم کو بھجوا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو کے نفاذ کا بنیادی کام ہو چکا ہے۔ ڈھانچہ تیار کر دیا گیا ہے۔ اب عملی نفاذ کا مرحلہ ہے اور یہ کام بقول پروفیسر صاحب کسی ایسے شخص کے بس کا نہیں جو صرف شاعر اور ادیب ہو۔ ان کے خیال میں اس کام کے لیے میں یوں موزوں تھا کہ اردو زبان و ادب سے گہرا تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ پروفیشنل سول سرونٹ بھی تھا اور بیوروکریسی کے اسرارو رموز‘ نشیب و فراز‘ ضُعف اور قوت سے اور فیصلے کرنے اور کرانے کے اسالیب سے اچھی طرح واقف تھا! یہ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کا حسنِ نظر تھا اور دیدہ وری تھی کہ مقتدرہ کی سربراہی کے لیے انہوں نے میرا نام پینل میں بھجوایا۔ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ ایک اور کہانی ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں! مختصر یہ کہ اس کے بعد وہی کچھ ہوا جو سکھ کے بقول لدھیانہ میں ہوتا آیا ہے!
اردو کے نفاذ کے لیے میں نے اپنے ذہن میں جو منصوبہ بندی کی تھی‘ وہ یہ تھی کہ صرف تین اہداف پر کام کروں گا اور وہ بھی غیر معینہ مدت کے لیے نہیں‘ تین یا زیادہ سے زیادہ چار سال کے عرصہ میں یہ اہداف پورے کرنے ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے یہ منوانا ہوگا کہ مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس) میں اردو زبان کا مضمون لازمی ہوگا (اس وقت سی ایس ایس کے امتحان میں انگریزی زبان‘ جنرل نالج‘ سائنس‘ اسلامیات‘ پاکستانی امور اور انشائیہ کے پرچے لازمی ہیں۔) دوسرے مرحلے میں سی ایس ایس کا امتحان اردو میں اختیار کرنے کی منظوری حاصل کرنا تھی! یعنی جو امیدوار انگریزی میں دینا چاہے انگریزی میں دے اور جو اردو میں د ینا چاہتا ہے اردو میں دے! آخری اور تیسرے مرحلے میں تمام پرچے صرف اور صرف اردو میں حل کرنے کا ہدف پورا کیا جانا تھا۔ میری اس منصوبہ بندی میں یہ عزم بھی شامل تھا کہ اگر دو سال کے دوران پہلا ہدف بھی حاصل نہ ہوا تو پریس کانفرنس میں اپنی ناکامی کا اور ناکامی کی وجوہ کا اعلان کر کے گھر چلا جائوں گا۔ خیر! اس منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی نوبت ہی نہ آئی!
یہ ایک عجیب اتفاق ہے‘ اور یہ حسنِ اتفاق ہرگز نہیں کہ مقتدرہ قومی زبان میں جس کا اصل کام اردو کا نفاذ تھا نہ کہ بہت سے دوسرے وہ دھندے جن میں یہ ادارہ پڑا رہا‘ آج تک کسی بیوروکریٹ کو نہیں لگایا گیا؛ حالانکہ نفاذ کے راستے میں مشکلات کا اندازہ صرف بیوروکریسی کر سکتی ہے‘ باہر بیٹھے ہوئے لوگ نہیں! فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیوروکریٹ ہی بات کر سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر ایسا بیوروکریٹ اُس خاص لہجے میں بھی بات کر سکتا ہے جس لہجے کو سرکاری ادارے سمجھتے ہیں اور بخوبی سمجھتے ہیں! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سول سروس سے بات منوانے کے لیے سول سروس ہی موزوں ترین ذریعہ ہے۔ اگر اُس وقت موقع مل جاتا اور ڈاکٹر وحید احمد‘ یاسر پیرزادہ اور شکیل جاذب جیسے نوجوان بیوروکریٹ‘ اردو جن کا اوڑھنا بچھونا ہے اور کارکردگی جن کی قابلِ رشک ہے‘ ٹیم میں شامل ہو جاتے تو دو یا تین سال کے عرصہ میں سی ایس ایس کا رُخ اردو کی طرف موڑ دیا جاتا! اسی طرح بینکاری اور مالیات کے شعبے کو اردو میں ڈھالنے کے لیے ملک فرخ یار سے زیادہ موزوں شخص شاید ہی کوئی اور ہو۔ فرخ یار ایک کامیاب بینکار ہونے کے ساتھ اردو زبان و ادب پر حیرت انگیز گرفت رکھتے ہیں!
پروفیسر فتح محمد ملک نے جب یہ کہا تھا کہ بنیادی کام سارا ہو چکا ہے تو اس میں مبالغہ ہرگز نہ تھا۔ ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم نے اپنی صدر نشینی کے دوران ’’دفتری اردو‘‘ کی تدوین کا کام بڑے پیمانے پر کرایا۔ یہ آٹھ کتابوں کا منصوبہ تھا جس میں دفتری اردو کی تمام اصناف (جیسے نیم سرکاری مراسلت‘ گشتی مراسلات‘ غیر رسمی نوٹ وغیرہ وغیرہ) کو اردو میں ڈھالنا تھا۔ چار کتابوں کی تدوین کا حکم ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مجھے دیا جس کی تعمیل ہوئی۔ انہی دنوں مقتدرہ نے قومی اردو لغت کی تالیف کے لیے پینل ترتیب دیا جس میں شامل اہل قلم نے حروف تہجی کے اعتبار سے اپنا اپنا کام کیا۔ ایچ (H) کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ ’’قومی اردو لغت‘‘ آج انگریزی سے اردو کی معتبر ترین لغت ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد جس قدر آسان ہے اتنا ہی مشکل… اور جس قدر مشکل لگ رہا ہے اتنا ہی آسان ہے! ارادہ نہ ہو تو آٹھ فٹ چوڑی سڑک عبور نہیں کی جا سکتی۔ عزم راسخ ہو تو راکاپوشی اور کے ٹو کی چوٹیاں سر ہو جاتی ہیں۔ سنجیدہ اور بے لوث سیاسی قیادت میسر آ جائے جو بیوروکریسی کو اپنا نہیں ریاست کا ملازم سمجھے اور وہی کام کرائے جو ملک کے فائدے میں ہو تو اردو کا نفاذ چنداں مشکل نہیں! مگر قیادت غیر سنجیدہ ہو اور اپنے خاندانی اور کاروباری معاملات کو قومی امور پر فوقیت دے تو اردو کے نفاذ کا پھول اونچی شاخ پر لگا‘ دکھائی تو دے سکتا ہے ہم اسے چھُو نہیں سکتے!
پس نوشت: یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ ایک دوست نے فون پر ایک نیوز آئٹم کی طرف توجہ دلائی۔ وفاقی سیکرٹریٹ میں مسئلہ یہ سلجھایا جا رہا ہے کہ سیکرٹری کو معتمد‘ ایڈیشنل سیکرٹری کو اضافی معتمد اور جوائنٹ سیکرٹری کو فلاں معتمد اور ڈپٹی سیکرٹری کو فلاں معتمد کہا جائے۔ ایسے مواقع ہی پر بہت حسرت کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ کاش عقل بازار سے مل سکتی! اللہ کے بندو! اردو کا حسن ہی یہی ہے کہ یہ دوسری زبانوں کے الفاظ جذب کر لیتی ہے۔ اور اس کا دامن ہمیشہ وسیع رہتا ہے۔ انگریزی کے جو الفاظ اردو کا حصہ بن چکے ہیں اور ان پڑھ بھی انہیں سمجھتے ہیں‘ ان کے لیے اردو کی مشکل اور نامانوس اصطلاحوں کے چکر میں نہ پڑو۔ سیکرٹری‘ ایڈیشنل سیکرٹری‘ ڈپٹی سیکرٹری‘ سیکشن افسر ہر شخص کی زبان پر ہیں اور سب جانتے ہیں۔ اسی طرح ریلوے سٹیشن‘ روڈ‘ ہسپتال‘ پنشن‘ سرجن‘ آپریشن‘ بائی پاس‘ ایجنسی‘ آڈٹ‘ اکائونٹس‘ ڈپٹی کمشنر‘ فائرنگ‘ میونسپل‘ سمری‘ اپیل‘ کریک ڈائون‘ ریکارڈ‘ سمگلنگ‘ پاسپورٹ‘ سرٹی فیکیٹ‘ یونیورسٹی‘ کالج‘ ورکشاپ غرض بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو اب اردو کا حصہ ہیں۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ کپتان‘ کرنل‘ بریگیڈیئر‘ رجمنٹ‘ بٹالین‘ مَیس‘ راکٹ‘ گن کیا ہے۔ سی ڈی اے‘ کے ڈی اے یا ایل ڈی اے‘ بچے بچے کی زبان پر ہے۔ توانائیاں ان سطحی کاموں پر خرچ ہوتی رہیں تو اصل مسئلہ اوجھل ہو جائے گا۔ کامن سینس کا استعمال کبھی کبھی کر لینا چاہیے۔
اگرچہ وفاقی حکومت ہر اُس نصیحت سے گریز کرتی ہے جس کے پیچھے کسی کا ذاتی فائدہ نہ ہو‘ پھر بھی تجویز پیش کرنے میں کیا حرج ہے‘ اتمامِ حجت تو ہو جائے گا! گزارش ہے کہ پہلے مرحلے میں دو یا تین وزارتوں پر توجہ دی جائے اور ماڈل کے طور پر ان کا فائل کا کام (File work) اردو میں ڈھالا جائے۔ اس کے بعد یہ دروازہ تمام اداروں پر کھول دیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت میں کچھ شخصیات ایسی موجود ہیں جن کی رہنمائی حکومت کو اس ضمن میں طلب کرنی چاہیے۔ معروف شاعر‘ ادیب جمیل یوسف‘ جو سابق بیوروکریٹ ہیں‘ بہت مدد دے سکتے ہیں۔ ان کی رہنمائی میں یہ منصوبہ آسان تر ہو جائے گا۔ چودھری محمد الیاس‘ طالب حسین سیال‘ جاوید علی خان‘ اللہ بخش کلیار‘ ان چند ریٹائرڈ افسروں میں سے ہیں جنہیں اردو زبان پر حیرت انگیز گرفت ہے۔ یہ بے لوث افراد ہیں۔ حکومت کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزارت خارجہ کے سابق سفیر توحید احمد‘ فنِ ترجمہ کے ماہر ہیں۔ کمپیوٹر پر اردو میں انہوں نے اس وقت کتاب (اطلاعیات) لکھی تھی جب کمپیوٹر کو خود انگریزی میں سمجھنے والے خال خال تھے۔ ان سے اور جاوید حفیظ سے وزارت خارجہ کو اس منصوبے میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے ؎
سفر ہے شرط‘ مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
(ختم)
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“