عالی مرتبت چیف جسٹس نے اردو کے نفاذ کا فرمان جاری کیا۔ پھر وہ ریٹائر ہو گئے
تاریخ کے ایک تابناک صفحے پر انہوں نے اپنا نام نقش کیا۔ مورخ تحسین کرے گا۔ عوام انہیں عقیدت کے ساتھ یاد کریں گے۔ مگر کیا اردو نافذ ہو جائے گی؟
قائد اعظم نے ‘ جنہوں نے گلتے پھیپھڑوں پر توجہ دینے کے بجائے زندگی کی ایک ایک رمق پاکستان کے لیے وقف کر دی‘ اڑسٹھ سال پہلے فیصلہ سنا دیا تھا کہ قومی زبان اردو ہو گی۔ تو پھر کیا اردو نافذ ہو گئی؟
مقتدرہ قومی زبان قائم ہوئی‘ اگر چہ آمرِ وقت نے یہ ادارہ بھی دوست نوازی کے لیے بنایا! ایک مورخ کو ‘ جس کا اردو زبان و ادب سے تعلق نہ تھا‘ استاد ہونے کی وجہ سے سربراہ بنایا(اس ملک میں ہمیشہ پیڈل پہلے تلاش کیا جاتا ہے اور سائیکل بعد میں فٹ کی جاتی ہے)۔ مقتدرہ کو بنے چھتیس سال گزر چکے ۔ عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے ان کروڑوں روپوں کا تصور کیجیے‘ جو ان چھتیس برسوں میں اس ادارے پر خرچ ہوئے مگر کیا اردو نافذ ہو گئی؟
تو پھر کیا اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے اردو نافذ ہو جائے گی؟
خوابوں میں بسنے والے خوش ہو رہے ہیں! خوشی کا جواز تو بنتا ہے مگر اتنا بھی نہیں! حقیقت کی دنیا خوابوں کے نگر سے مختلف ہے۔ یکسر مختلف!
اردو کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں کہ کسی نے ریٹائرمنٹ کے وقت اردو میں تقریر کر دی ۔ کسی نے اردو میں حلف لے لیا۔ دکانوں کے سائن بورڈ اردو میں لکھ دیے گئے ۔ یہ سب بھی نفاذ کا حصہ ہے۔ مگر اس کے بعد؟
اردو کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا سارا کام‘ جو فائلوں پر اس وقت انگریزی میں ہو رہا ہے‘ اردو میں ہونے لگے۔ مثال کے طور پر وزارت خزانہ لے لیجیے۔ بجٹ کی تمام کتابیں اردو میں ہوں۔ گرانٹس اردو میں جاری کی جائیں۔ وزارت خزانہ کے ذیلی ادارے‘ جیسے قومی بچت کا محکمہ ہے‘ سارا کام اردو میں کریں۔ سٹیٹ بینک کا سارا کام اردو میں منتقل ہو۔ تجارتی بینکوں کے ساتھ سٹیٹ بینک کی خط و کتابت اردو میں کی جائے۔ پلاننگ ڈویژن میں جو کئی قسم کی رپورٹیں بنتی ہیں‘ اردو میں بنائی جائیں۔ پلاننگ کمیشن کے کئی حصے ہیں۔ آپریشن ہے۔ پبلک انویسٹمنٹ پروگرام ہے۔ اکنامک ٹریڈ ہے۔ فارن ایڈ ہے۔ فسکل پالیسی ہے۔ منصوبوں کے جائزے کا کام ہے۔ زراعت ‘سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ جنگلات ‘ ماحولیات‘ ہر ایک کا الگ شعبہ ہے۔ اسی پر ساری حکومت کو قیاس کیجیے۔ اقتصادی امور‘ صحت اور تعلیم کی وزارتیں ہیں۔ وزارت تجارت ہے۔ وزارت دفاع ہے، جس کے ماتحت مسلح افواج ہیں۔ وزارت خارجہ ہے جس میں دوسرے ممالک سے تعلقات کے حوالے سے ہر روز سینکڑوں صفحات لکھے جاتے ہیں۔ پھر نیم سرکاری ادارے ہیں؟ جیسے اسلحہ ساز فیکٹریاں’ واپڈا‘ ریلوے‘ سوئی گیس۔ نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ تمام صوبائی‘ تمام وفاقی اور تمام خود مختار‘ نیم سرکاری اداروں میں ساری فائلیں‘ سارے خطوط‘ سارے احکام‘ سارے تجزیے‘ ساری رپورٹیں‘ سارے سوالنامے‘ ساری سمریاں‘ سب کچھ اردو میں ہو!
حاشا وکلا! عرض گزاری کا یہ مقصد نہیں کہاردو کا نفاذ ناممکن ہے یا اردو میں اہلیت نہیں! ایسا ہرگز نہیں‘ مسئلہ اور ہے۔ تِلوں میں دراصل تیل نہیں! ایک زمانہ تھا کہ علماء کرام‘ فرقہ وارانہ موضوعات پر مناظرے بہت کرتے تھے۔ ان مناظروں میں اکثر و بیشتر یہ شعر للکار کر فریق مخالف پر بھالے کی طرح پھینکا جاتا تھا ؎
نہ خنجر اٹھے گی نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
جو حکومتیں وفاق سے لے کر صوبوں تک چل رہی ہیں اور نوکر شاہی کی جو بیلیں ان حکومتوں سے لپٹی ہوئی ہیں‘ انہیں غور سے دیکھیے! اردو کے نفاذ کا امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔
اس لیے کہ وفاقی‘ صوبائی اور الحاقی اداروں میں اردو کے نفاذ کے لیے جو شے درکار ہے وہ قوت ارادی ہے۔ قوت ارادی دو چیزیں مانگتی ہے۔ اول ‘سنجیدہ سیاسی لیڈر شپ! دوم‘ ایسی بیورو کریسی جو صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر تعینات ہو۔ کیا ہماری سیاسی لیڈر شپ سنجیدہ ہے؟ صرف نفاذ اردو کے سلسلے میں نہیں! مجموعی حیثیت سے دیکھ لیجے‘ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے! سندھ کی سیاسی لیڈر شپ کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ مرے کو مارے شاہ مدار! بلوچستان اور سرحد کو بھی چھوڑ دیجیے‘ ایک کی حکومت سرداروں کے رحم و کرم پر ہے‘ دوسرے کی اس قدر ’’آزاد‘‘ ہے کہ صرف بنی گالہ سے نہیں‘ جنوبی پنجاب سے بھی کنٹرول ہو رہی ہے۔ صرف پنجاب کی بات کر لیجیے جہاں خود اعتمادی بھی ہے‘ اختیار بھی ہے‘ اقتدار بھی ہے اور مکمل آزادی بھی ہے! پھر پنجاب میں بھی بہت سی چیزوں سے صرفِ نظر کر لیجیے۔ ڈینگی سپرے کا ہدف مچھر نہیں طالبات ہیں۔ گوشت افراط میں ہے مگر گدھے کا! صوبہ عملی طور پر ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ سب کچھ بھی ایک طرف رکھ دیجیے۔ صرف ’’سنجیدگی‘‘ کے آئٹم پر غور کیجئے:
انصاف کی راہ میں ڈنڈی مارنے والوں کو الٹا لٹکا دوں گا۔
دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے’ میں انصاف دلا کر رہوں گا۔
میں کسی صورت بھی صوبے کے عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔
اس قبیل کے اعلانات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں‘ مگر ان دو تین بیانات کی بنیاد ہی پر دل پر ہاتھ رکھیے اور اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا ہماری لیڈر شپ سنجیدہ ہے؟ جو کچھ اردو کے نفاذ کے لیے درکار ہے‘ کیا یہ لیڈر شپ مہیا کر سکتی ہے؟ استقلال‘ صبر ‘ ایک ایک فائل کا مطالعہ‘ افرادی قوت تقسیم کرتے وقت چھان بین۔ قوانین ‘ رپورٹوں اور احکام کو اردو میں ڈھالنے کے صبر آزما کام کی ذاتی نگرانی۔ کیا یہ سب کچھ میسر کیا جا سکتا ہے؟
رہی بیورو کریسی‘ تو جس بیورو کریسی کا انتخاب اور تعیناتی ذات‘ برادری‘ زبان‘ علاقے اور شہر کی بنیاد پر ہو‘ وہ نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ پھر معاملہ اردو کے نفاذ جیسا کٹھن ہو تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں! مغلوں نے آغاز میں صرف ان سرداروں پر اعتماد کیا جو ان کے ساتھ ہندوستان میں وارد ہوئے تھے ۔ ان میں تو رانی تھے‘ کچھ بیگ تھے۔ کچھ مرزا اور کچھ میر! نتیجہ اس انحصار کا یہ نکلا کہ ہمایوں کو ایران میں پناہ لینا پڑی۔ ایران ہی میں میزبان بادشاہ نے ہمایوں کو نصیحت کی کہ اگر کبھی دوبارہ حکومت مل جائے تو مقامی افراد پر انحصار کرنا! یہاں حالت یہ ہے کہ صرف اس سرکاری ملازم پر اعتماد کیا جاتا ہے جو فلاں ذات اور فلاں شہر کا ہو۔ جو مدتوں پہلے ‘ گھر جا چکے تھے‘ انہیں پکڑ کر سہارا دیا گیا‘ لاٹھی پکڑائی گئی اور مسند پر بٹھا دیا گیا کہ آپ ہماری ذات برادری سے ہیں‘ سو سمجھتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں!
(جاری )
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔