ایک زمانہ تھا جب لوگ تھڑوں، بیٹھکوں، پارکوں میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کیا کرتے اور ہنسی مزاح کا ماحول بنایا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹی وی، ریڈیو، کمپیوٹر، ڈش، کیبل نے ان محافل کو کم کر کے اپنی طرف متوجہ کر لیا اور رہتی کثر دور حاضر میں سمارٹ موبائل فون نے یہ سب چیزوں کو اپنے اندر ضم کر کے ہر عمر کے انسان کو اپنے جادو میں جکڑ کر رکھ لیا ہے۔ اور اب لوگ موبائل فون پر پیغام رسانی کے ساتھ، معاشی و سماجی اور انٹرٹینمنٹ سے بھی موبائل فون کے ذریعے محظوظ ہوتے ہیں۔ اب اسی لیے دور حاضر کو سوشل میڈیا کا دور کہا جاتا ہے جہاں پر گولی کی رفتار کی طرح خیر و خبر ایک منٹ میں لاکھوں میل پر پہنچ جا تی ہے۔ جہاں اس سوشل میڈیا کے بہت زیادہ فوائد حاصل ہیں وہاں اسکا منفی استعمال بھی کسی فتنے سے کم نہیں اور انسانی زندگی اسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کافی حد تک فطرت اور جسمانی جفا کشی سے بھی دور ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مختلف اقسام کی بیماریوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے، شوشل میڈیا کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک مشہور زمانہ قسم ٹک ٹاک ہے جو کہ انٹرٹینمنٹ کے لیے استمال کی جاتی ہے، ٹک ٹاک ویڈیو کلپس کی صورت میں 5 سیکنڈ سے لیکر کئی منٹوں تک بنائے جاسکتے ہیں جس میں لوگ اپنے اندر کے سوئے ہوئے فنکار کو باہر کلپس کی صورتوں میں اجاگر کرتے ہیں اور اس موبائل ایپلیکیشن پر اپ لوڈ کر کے عوام میں وائرل کر دیتے ہیں اور لائیکس، کمینٹس کی صورت میں عوام سے داد وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک انٹرنیشنل موبائیل انٹرٹینمنٹ ایپلیکیشن ہے جو کہ اپنی طرح کی باقی اپلیکیشنز میں دنیا کی طرح ہمارے ملک میں پچھلے سال لاک ڈاون کے دورانیے میں قدرے زیادہ مشہور ہوئی ہے۔اور ہر عمر کا عام شہری بھی فنکار اور ڈانسر بن گیا ہے اور ٹک ٹاکر کوئی موقع ضائع کئے بغیر مشہور سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ اور اہم مقامات اور شاہراہوں پر اسکو عکس بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور کلپ بنا کر وائرل کر دیتے ہیں۔ یہ جنون کئی نوجوانوں کی جانوں کو بھی کھا گیا ہے۔ ٹک ٹاک کو لے کر دنیا میں کئی ممالک میں اس اپلیکیشن پر وقتاً فوقتاً پابندی کا سامنا رہتا ہے کیونکہ عوام نے اسکو منفی طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے یہ بھی غلط نا ہو گا کہ یہ ایسی انٹرٹینمنٹ ہے جس میں میرے سمیت ہر عمر کے مرد و زن کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے اور بعض مشہور ٹک ٹاکرز نے اسکو اپنی روزی کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر لمحہ فکریہ کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اب اسکو اور اسطرح کی دوسری اپلیکیشنز کو چند روپوں، لائیکس اور سستی شہرت کی خاطر موثر معاشرتی اصلاح کی بجائے اسکو فحاشی اور بے راہ روی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے خاص طور پر نوجوان نسل کو اسکا نشہ بہت چڑھتا جا رہا ہیاور وہ اس نشے میں اپنی دینی اور اخلاقی اقدار کو بھی بھولتے ہوے جسم کی نمائش کے ساتھ بے مقصد اور بد اخلاقی ویڈیوز بنا کر وائرل کر رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں پشاور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ نے اس ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی تھی مگر چند دنوں بعد اس کمپنی کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں غیر اخلاقی مواد کو ہٹانے اور ٹک ٹاکرز کے احتجاج کے بعد اسکو دوبارہ نشر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی اب تو کچھ شر پسند قائد اعظم سے لیکر موجود ہ وزراء اور وزیراعظم کی الٹی سیدھی ویڈیوز ایڈٹ کر کے وائرل کرنے لگ گئے ہیں جو کہ انتہائی لمحہ فکریہ اور افسوس کا مقام ہے۔ اور اس قسم کی حرکات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو کہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ میری تمام ٹک ٹاکرز سے التماس ہے کہ وہ محض سستی شہرت کی خاطر اپنی عزتوں کو سر عام پامال ناں کریں اور
ایک اسلامی ریاست کے تقدس کو بچائیں اور ٹک ٹاک اور اسطرح کی دوسری اپلیکیشنز کی انتظامیہ سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس طرح کے غیر اخلاقی مواد کو پھیلانے میں مدد ناں کریں اور حکومتی سطح پر بھی اسکی سخت نگرانی کی بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس سلو پوائزننگ سے بچانے کی کوشش کریں اور اسکے بارے میں سخت قوانین کا اطلاق کریں تاکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ہو سکے اور ہمارا دین بھی اس چیز کو نا پسند فرماتا ہے۔ بے شک اگر کسی معاشرے کو گمراہی میں ڈالنا ہو تو اس معاشرے میں عام کر دو۔ اللّہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اس دور حاضر کے فتنے سے بچنے کی کوشش عطا فرمائے آمین۔
“