ہر چیز کا ایک وقت ہوتاہے اور مجھے لگ رہا تھا کہ ہماری خواری کا وقت شروع ہواچاہتا ہے۔ہم'پتایہ‘ پہنچ چکے تھے اورمُرشد ٹیکسی والے کو کسی ہوٹل کا ایڈریس سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔تھوڑی ہی دیر میں ہم ہوٹل کے دروازے پر تھے۔اچھا ہوٹل تھا‘ بالکل ساحل کے اوپر تھا۔ لیکن یہاں ہمیں کمرے کیسے ملیںگے؟ یہ سوال میری اور اجمل شاہ دین کی آنکھوں کے بلیک بورڈ پر جلی حروف میں تحریر تھا۔ مرشدنے ٹیکسی ڈرائیور کو سامان اتارنے کے لیے کہا‘ خود بھی اتر گئے اور ہمیں بھی اشارہ کیا۔اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ ہوٹل کی بکنگ تو ہوئی نہیں‘ اب جہازی سائز کے بکسے گھسیٹتے ہوئے 'ہوٹل ٹو ہوٹل‘ جانا پڑے گا…میں سمجھ گیاکہ مرشد ہماری لاشوں پر ٹیبل ٹینس کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔حالات انتہائی خطرناک اشارے دے رہے تھے‘ میں نے آہستہ سے اجمل شاہ دین کے کان میں سرگوشی کی 'ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘۔ جواب اُسی انداز میں آیا'دُعا‘۔
ہوٹل کے ریسیپشن پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ کیا آپ لوگوں کی بکنگ ہے؟ مرشد نے اطمینان سے جواب دیا 'جی ہاں‘۔ یہ جواب سن کر میں چونک اٹھا۔ مرشد تو کہہ رہے تھے کہ انہوں نے کوئی بکنگ نہیں کروائی‘ تو پھر یہ؟ معاملہ کافی پراسرار ہوگیا تھا۔ڈیسک پر لڑکی نے اپنے کمپیوٹر میں بکنگ کی تفصیلات دیکھنا شروع کیں اور کچھ پریشان سی ہوگئی۔ تھوڑی دیر مغز ماری کے بعد اس نے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے کب بکنگ کروائی تھی؟ مرشد نے اپنا موبائل اس کے سامنے کیا…''پانچ منٹ پہلے‘‘۔ یہ سنتے ہی لڑکی پہلے ہنسی‘ پھر سوچ میں پڑ گئی۔ میرا خیال ہے ہنسی اس لیے ہوگی کہ ہوٹل میں داخل ہوکر آن
لائن بکنگ کروانے والے شائد ہم پہلے سیاح تھے اور سوچ میں اس لیے پڑ گئی ہوگی کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔میں نے اس دوران احتیاطاً دو تین جگہیں دیکھ لی تھیں جہاں مشکل کے وقت بھاگ کر پناہ لی جاسکتی تھی۔مرشد اطمینان سے ہوٹل کا وائی فائی کنیکٹ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔دس منٹ بعد لڑکی نے خوشخبری سنائی کہ آپ کے لیے کمرے حاضر ہیں۔اللہ جانتا ہے فوراً ہی دل میں ایک لہرسی اٹھی اور یوں لگا جیسے چاروں جانب خوشیاں رقص کرنے لگی ہوں۔ مرشد نے داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔میں نے پورے خلوص سے ان کی کمر تھپتھپائی‘ ماتھے پر بوسہ دیا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا'شالا تتی ہوا نہ لگے‘…!!!
'پتایہ‘ کا ساحل بڑا پرسکون ہے‘ یہاں لہریں کناروں سے ٹکریں نہیں مارتیں‘ اسے پرسکون رکھنے میںیقینا ان عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو اس کے گردو نواح میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔یہاں غیر ملکی بھرے ہوئے ہیں جن میںگورے نمایاں ہیں۔ یہ 30 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں بھی ساحل کی ریت پر شتر مرغ کی طرح گردن چھپا کر لیٹ جاتے ہیں ۔ دور سے یوں لگتا ہے جیسے ساحل پر قبرستان بنا ہوا ہے۔'پتایہ‘ جانے کا ایک بڑا مقصد 'ٹفنی شو‘ دیکھنا تھا جس کی خواہش گذشتہ پانچ سو سال سے ہمارے اندر پل رہی تھی۔ لندن میں یہ شو غالباً 40 سال سے جاری ہے جبکہ 'پتایہ‘ میں اس کی عمر14 سال ہوچکی ہے۔ یہ شو انتہائی منفرد نوعیت کا ہے‘ اس میں شامل خواتین اصل میں خواجہ سرا ہوتے ہیں لیکن خوبصورتی میں خواتین کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ایک ہی سیٹ پر لمحہ بہ لمحہ بدلتے بیسیوں مختلف مناظر دیکھنے والوں کو کسی اور ہی دنیامیں لے جاتے ہیں۔ یہاں دنیا کی مختلف لوک کہانیوں کو موسیقی کی زبان میں بیان کیا جاتاہے۔ ٹائمنگ اتنی شاندار ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اگلا آئٹم کیا ہوگا۔ یہاں وڈیو وغیرہ بنانے کی شدید ممانعت ہے اور جگہ جگہ انتباہ لکھا نظر آتاہے۔ اس کے باوجود عوام کا مزاج ہمارے والا ہی ہے ۔شو شروع ہوا تو میرے دائیں جانب بیٹھی حسینہ نے چپکے سے اپنا موبائل نکالا اور سٹیج کی وڈیو بنانے لگی لیکن انتظامیہ بھی بڑی ہوشیار تھی‘ چند ہی سیکنڈ کے اندر لیزر کی ایک لائٹ اس کے موبائل پر پڑی اور وہ بوکھلا گئی‘ جھٹ سے مڑ کر دیکھا تو گیلری کے ٹاپ پر ایک صاحب ہاتھ میں لیز ر لائٹ لیے کھڑے دھمکی آمیز انداز میںآنکھیں دکھا رہے تھے۔انہوں نے میری طرف بھی گھور کر دیکھا‘ شائد سمجھ رہے تھے کہ حسینہ میرے ساتھ آئی ہے۔میں نے موقع غنیمت جانا اورفوراً حسینہ کے حصے کی ندامت اپنے چہرے پر طاری کرتے ہوئے حسینہ کو سمجھانا شروع کر دیا کہ 'سویٹ آپی! یہ غلط بات ہے‘۔
ڈیڑھ گھنٹے کا 'ٹفنی شو‘ ختم ہوا توباہر آتے ہی ایک عجیب نظارہ منتظر تھا۔ شو کی تمام کاسٹ ایک چبوترے پر جمع تھی اور لوگ ان کے ساتھ سیلفیاں بنوا رہے تھے۔ دل مچل گیا۔مرشد سے درخواست کی کہ یہ کام ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ انکشاف ہوا کہ یہ سیلفیاں مفت میں نہیں بن رہیں ‘ پہلے اپنے من پسند کردار کو دوسوروپے کی 'ویل‘ کرانا پڑتی ہے۔ یہ مہنگا سودا تھا لہٰذا میں نے پاکستانی طریقہ اختیار کیا‘ مرشد سے درخواست کی کہ میں کرداروں کے قریب جاتا ہوں‘ آپ چالاکی سے میری فوٹو بنا لیں…اور یوں ایک یادگار لمحہ امر ہوگیا۔
'جومیٹن‘ کے ساحل کی راتیں جاگتی ہیں۔ بنکاک والا کام یہاں بھی گلی گلی میںہوتاہے‘ ہر طرف عیاشی کے مواقع ہیں لیکن بیماریاں بھی اسی حساب سے دستیاب ہیں۔ یہ عجیب جگہ تھی جہاں چپے چپے پر مال دستیاب تھا لیکن خریدار کنی کترا کر گذر رہے تھے۔میوزک اور چکاچوند روشنیوں میں جسم تو تھرک رہے تھے لیکن چہروں پر عجیب سی بیزاری تھی۔ڈیوٹی بہرحال ڈیوٹی ہوتی ہے اور بور کردیتی ہے۔
اگلے دن طے پایا کہ ہم ہوا میں تیرنے کا لطف اٹھائیں گے۔ ہوتا یوں ہے کہ ساحل سے کچھ دور ایک چھوٹا سا مصنوعی جزیرہ ہے جہاں لمبی سی رسی سے بندھا ایک پیرا شوٹ سیاحوں کی کمر کے گرد باندھ دیا جاتاہے‘ پھر کشتی کو تیز چلایا جاتاہے اور ہوا کی وجہ سے پیرا شوٹ بھی سیاح کو ساتھ ساتھ لیے اڑتاہے۔ یہ خطرناک چیز تھی لیکن آپ کو تو پتا ہے میں خطروں کا کھلاڑی ہوں‘ ایک دفعہ میرے سامنے شیر آگیا تھا لیکن میں نہیں گھبرایا اور اطمینان سے چپس کھاتے ہوئے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا۔سو مجھے یہ ہوائی سفر ضرور کرنا تھا۔ ہم سب نے ٹکٹ لیے اور جزیرے پر پہنچ گئے۔ پہلی باری میری تھی…میرے جوتے اتروا لیے گئے‘ کمر کے گرد پیراشوٹ والی جیکٹ لپیٹ دی گئی اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے فائنل کاشن دیا گیا کہ جونہی بوٹ سٹارٹ ہو‘ میں دوڑنا شروع کر دوں…ایک نقاب پہنے صاحب نے مجھے سمجھایا کہ ہوا میں بلند ہوکر میں بلاوجہ خرمستیاں نہ کروں۔ میں نے جلدی سے پوچھا'وہ تو ٹھیک ہے لیکن جناب نے ایکسٹو والا نقاب کیوں پہنا ہوا ہے؟‘۔ جواب ملا'شدید تیز دھوپ کی وجہ سے یہاں جلد پگھل جانے کا خطرہ ہوتاہے لہذا نقاب پہننا ضرور ی ہے‘۔ مجھے ایک جھرجھری سی آگئی…اسی لمحے کوئی چیخا'بھاگو…‘‘اور میں نے جزیرے پر دوڑنا شروع کر دیا…ابھی گیارہواں قدم ہی اٹھایا تھا کہ زمین میرے نیچے سے کھسک گئی…میں نے نیچے نگاہ ڈالی اور دم بخود رہ گیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور میں کسی پرندے کی طرح سمندر کے اوپر اڑ رہا تھا…یہ میری زندگی کی پہلی پرواز تھی!!! (ابھی مزید جاری ہے)
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“