جب طلباء میٹرک/انٹرمیڈیٹ/گریجویشن کے بعد فارغ ہوتے ہیں تو انہیں کچھ بھی نہیں آتا ہوتا_ اکثر طلباء کو تو ڈھنگ سے اردو بھی نہیں لکھنی آتی_ اسی وجہ سے زیادہ تر تو بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، کئی طلباء کے پاس آگے پڑھنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، کچھ یوٹیوبر بن کر آن لائن ارننگ ایپس پر اندھا دھند ویڈیوز بنانے لگ جاتے ہیں اور کچھ پیرامڈ سکیموں کے فراڈ میں پھنس جاتے ہیں_ ظاہر سی بات ہے جب طلباء کو 16 سال ضائع کرنے کے بعد بھی کچھ سکھایا نہیں جاتا تو وہ غلط ایکٹیویٹیز میں مبتلا تو ہوں گے ہی_
اس وقت پیرامڈ سکیمیں آن لائن پیسہ بٹورنے کا سب سے زیادہ آسان اور سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہیں_ جہاں آن لائن پیرامڈ سکیموں کے ذریعے بے روزگاروں سے رقم بٹوری جا رہی ہے وہیں آف لائن چلنے والی ٹائنز کمپنی بھی کسی سے کم نہیں ہے_ ٹائنز کا طریقہ واردات تھوڑا الگ ہے_ ٹائنز بڑی تیزی سے لوگوں کو گھڑ، گاڑی اور بنگلے کے خواب دکھا کر اپنے فراڈ میں پھنسا رہی ہے_ ٹائنز کا فراڈ اس وقت لاہور اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں پھیلا ہوا ہے_
*ٹائنز کا طریقہ واردات*
ٹائنز میں جب لوگوں کو پھنسا کر تقریباً 60،000 تک رقم بٹور لی جاتی ہے تو پھر ان کو ایسے ہی مزید بندوں سے انویسٹ کرانے کا کہا جاتا ہے جیسے واٹس ایپ اور فیس بُک گروپوں میں آن لائن ارننگ والے لوگوں کو اپنی جال میں پھنسانے کی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں_ سب سے پہلے یہ اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو کال کر کے سرکاری نوکری کا یا کوئی اور جھانسہ دیتے ہیں اور تقریباً 1 ہفتے کی ٹریننگ کے لیے اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور کچھ پیسے بھی اپنے ساتھ لانے کا پہلے سے ہی کہہ دیتے ہیں_ جب کوئی ان کے جھانسے میں آ کر ان کے پاس چلا جاتا ہے تو وہاں پہلے تو چند ہزار روپے بٹورے جاتے ہیں اس کے بعد تقریباً 1 ہفتے تک لوگوں کو ٹائنز کمپنی میں برین واشنگ کی جاتی ہے_
*برین واشنگ*
برین واشنگ ( ایک ہفتے کی ٹریننگ دینے) کے نام پر کہا جاتا ہے کہ آپ نے کسی سے بات نہیں کرنی_ موبائل فون لے لیا جاتا ہے اور گھر والوں کو یہ بات بتانے سے منع کیا جاتا ہے کہ آپ یہاں پر کوئی سرکاری نوکری کرنے نہیں بلکہ ٹائنز کمپنی میں تشریف لائے ہیں_ برین واشنگ کے دوران ٹائنز کے تمام لوگ ایک ہی جھوٹ بار بار دہرا رہے ہوتے ہیں کہ اگر آپ یہاں پر کام کریں گے تو آپ کو ہماری طرح گاڑیاں، بنگلے ملیں گے اور آپ کی کمائی لاکھوں میں ہو گی اور ٹائنز میں کام کرنے کے لیے کسی سکل اور تعلیم کی ضرورت بھی نہیں_ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جھوٹ کو اتنی بار دھراؤ کہ وہ سچ لگنے لگے_ ایک ہفتے کی ٹریننگ کے دوران بار بار صرف یہی کہا جاتا ہے اگر آپ یہاں کام کریں گے تو آپ کو گاڑیاں، بنگلے ملیں گے مگر یہ بات بالکل نہیں بتائی جاتی کہ آپ نے یہاں پر کام کیا کرنا ہے_
ٹریننگ کے آخری دن کہا جاتا ہے کہ گھر والوں سے 60،000 روپے منگوائیں اور دوائیاں خریدیں_ (ٹائنز کی دوائیاں ایسے ہی پڑی رہ جاتی ہیں انکی 60،000 میں بکنے والی دوائیاں کسی کام کی نہیں ہوتیں) اگر گھر والے نہ دیں تو روئیں، پیٹیں، گڑگڑائیں کچھ بھی کر کے پیسے منگوائیں_ ٹائنز زیادہ تر سکولوں اور کالجوں کے طلبہ کو ٹارگٹ کرتی ہے کیونکہ سکولوں/ کالجوں میں ہی بـے روزگار اور مہنگائی سے تنگ طلباء روزگار کمانے کی تلاش میں ہوتے ہیں_ طلباء کو ٹریننگ کے دوران اتنا زیادہ برین واش کر دیا جاتا ہے کہ وہ بڑی آسانی سے 60،000 جمع کرانے کے لیے رضا مند ہو جاتے ہیں اور جو پیسے جمع نہ کرائے اس پر پیسے جمع کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے_
جب لوگ پیسے جمع کرا دیتے ہیں تو پھر کہانی ختم، ٹاٹا بائے بائے_ _ _ _ _ _ _
پیسے جمع کرانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ مزید ایسے بندے لائیں جو ٹائنز میں انویسٹ کریں_ کچھ مزید بندوں کو ٹائنز میں پھنسانے کی کوششیں کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ لٹنے کے بعد ٹائنز سے بھاگ نکلتے ہیں اور گھر لوٹ آتے ہیں_
کمپنیوں اور اداروں وغیرہ کو کام کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اگر مہنگی ترین ڈگریاں/ڈپلومے یا کورسز کرنے کے باوجود آپ کو کچھ نہیں آتا تو آپ کی تعلیم/ڈپلومے/کورسز کسی کام کے نہیں_ کچھ کمانا ہے تو کچھ سیکھیں۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...