یہ موضوع بہت سے لوگوں کیلئے نیا اور حیران کن ہوگا، مگر حقائق بہت بھیانک ہیں. ٹڈی دل ایک خاموش قاتل، ایک بدترین دہشت گرد تنظیم کی طرح پاکستان میں داخل ہوچکا ہے. لاکھوں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں. اور پاکستان خوراک کے ایک شدید بحران کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے. اور شاید آپ کیلئے یہ بریکنگ نیوز ہو کہ پاکستان میں ٹڈی دل یعنی locusts کا اس قدر شدید حملہ ہوچکا ہے کہ پاکستان نے ریاستی سطح پہ اس حوالے سے یکم فروری 2020 میں ہی ایمرجنسی کا اعلان کر کے ٹڈی دل کے خلاف ریاستی جنگ کا اعلان کر دیا گیا ہے. جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا نے 29 جنوری 2020 کو صوبائی سطح کی ایمرجنسی کا علان کر دیا تھا. یاد رہے کہ ریاستی سطح کی ایمرجنسی انتہائی اقدام ہوتا ہے جو National level کے crisis ہی میں اٹھایا جاتا ہے. یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان پہ یہ ٹڈی دل حملہ کس قدر بھیانک اور خطرناک ہے. میرے اپنے ایک انتہائی قریبی عزیز، جو فوج میں ہیں، نے بتایا ہے کہ فوج کو بڑے پیمانے پہ ٹدی دل حملے سے مقابلے اور بچاؤ کیلئے ٹریننگ کا آغاز کیا جاچکا ہے اور ہماری انٹیلی جینس ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اس عالمی وباء سے شدید متاثر ہوگا. لہذا فوج نے ابھی سے کسانوں اور ریاست کی مدد کیلئے ٹریننگ شروع کر دی ہے. جبکہ بہت سے یونٹ فیلڈ میں کام بھی شروع کرچکے ہیں.
ٹڈی دل کیا ہے؟ یہ ٹڈیوں یعنی grasshoppers کی ایک مخصوص قسم ہے جو شدید سبزہ خور یعنی Gregarious ہوتی ہے. ٹڈیوں کی 7000 اقسام میں سے 20 جدید شکل کی سبزی خور ہیں. یہ ٹڈی دل اپنی ساخت، شکل اور رنگ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جیسے جیسے انکو خوراک ملتی جاتی ہے، یہ مزید طاقتور، خطرناک اور بھیانک ہوتے جاتے ہیں اور جہاں جہاں سے گزرتے ہیں فصلوں اور سبز درختوں اور چراگاہوں کا صفایا کرکے تباہ و برباد کرتے جاتے ہیں. ٹڈی دل کی تعداد میں اضافہ بھی بھیانک شرح سے ہوتا ہے. ایک مادہ ایک دن میں 1000 انڈے دیتی ہے اور نمی میسر آ جائے تو ان میں سے سینکڑوں انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جو ٹڈی دل کی پہلے سے موجود فوج ظفر موج میں مزید لاکھوں کا روزانہ کی بنیاد پہ اضافہ کر دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ٹڈی دل کو دور سے آتے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گرد کا کوئی خطرناک طوفان یا گہرے سیاہ بادل آگے بڑھ رہے ہوں. نئے ٹڈی دل میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ یہ زہریلے پودے اور پتے بھی کھا جاتا ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا. جو کہ اس کو مزید خطرناک بنا دیتی ہے. ایک اندازے کے مطابق یہ ٹڈی دل ایک دن میں 90 میل سے زیادہ کا سفر باآسانی طے کرسکتی ہے. اور فصلوں کو چَٹ کرتی جاتی ہے. یہ دانے دار فصلوں گندم، مکئ، باجرہ، چاول، چنا، دالوں، پھل دار درختوں کی سخت ترین دشمن ہے، جو کہ انسانی خوراک کیلئے انتہائی اہم ہیں. ایک اندازے کے مطابق ایک مربع کلومیٹر میں پھیلا ٹڈی دل لشکر تقریباً 35،000 انسانوں کی خوراک ایک دن میں چٹ کر جاتا ہے. آپ اسی سے اس وباء کے بھیانک پن کا اندازہ لگا لیجئے.
اب آتے ہیں اس اہم سوال کی طرف کہ یہ موجودہ وباء کب اور کیسے پھوٹی؟
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ خطہ عرب میں "ربع الخالی" کے علاقے میں دو عدد cyclones آنے کے باعث ٹڈی دل کو پانی اور نمی میسر آئے جس کے باعث اس کی افزایش میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا اور محض چند ماہ میں کروڑوں اربوں ٹڈی دل جمع ہوگئے اور جیسے ہی موسم گرم ہوا، انہوں نے یمن اور اومان کی جناب حجرت کردی. اور ایرن کے راستے پاکستان، جبکہ دوسری طرف افریقہ تک جا پہنچے. یہ تو وہ "سرکاری کہانی" ہے جو سنائی جا رہی ہے. مگر خود ٹڈی دل ماہرین حیران ہیں کہ کروڑوں اربوں ٹڈی دل کی افزایش "ربع الخالی" جیسے صحرا میں اس قدر تیزی سے کیسے ہوئی جبکہ وہاں سبزہ بھی نہیں ہے؟؟ جب آزاد ماہرین نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یمن کے بارڈر کے ساتھ، ربع الخالی کے صحرا میں انتہائی دور دراز اور ناقابلِ رسائی علاقے میں ایک خفیہ امریکی فوجی بیس ہے. جس میں ڈرونز کا علاقائی آڈہ بھی ہے جو یمن میں ڈرون حملوں اور نگرانی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جو 2011 میں بنایا گیا. یہ بات بھی ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ چھوٹے جہازوں اور ڈرونز کو مصنوعی بارش برسانے کیلئے عرصہ دراز سے استعمال کیا جا رہا ہے. لہذا یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ امریکہ نے افریقہ، ایران، صومالیہ سوڈان پاکستان میں زرعی اجناس کو نقصان پہنچانے اور شدید زرعی بحران پیدا کرکے خوراک کی کمی کا شکار کرنے کی کوشش کی ہو. جہاں سے ٹڈی دل وباء پھوٹی، آزاد ماہرین بھی وہاں سے ان لشکروں کے نکلنے پہ حیران ہیں، لہذا وہاں امریکی خفیہ فوجی بیس اور ڈرونز کی موجودگی conspiracy theory کو تقویت دیتی ہے. یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی اشرافیہ خوراک کی سپلائی کو اپنے ہاتھ میں کرنا چاہتی ہے تاکہ جہاں ایک طرف وہ genetically modified food لوگوں کو کھلا سکیں، وہیں عالمِ انسانی کو اپنا محتاج بھی بناسکیں. چنانچہ ایسے ٹڈی دل حملوں کے بعد بڑے پیمانے پہ فصلوں اور زرعی زمینوں پہ خطرناک کیمیکلز کا سپرے کروایا جائے گا اور فضا سے بھی جہازوں کے ذریعے کیمیکل سپرے کیا جائے گا، جو بظاہر تو ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے ہوگا مگر اس کا اہم مقصد نیچرل فصلوں اور بیجوں کی تباہی اور زمینوں کی زرخیزی میں کمی ہوگا. جس کے بعد genetically modified بیجوں کے استعمال پہ ہی زور دیا جائے گا. جبکہ زیادہ اجناس ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدی جانے لگیں گی.
اس وباء کو locusts infestation 2019-20 کا نام دیا گیا ہے. جبکہ موجودہ ٹڈی دل کو schistocerca gregaria اور desert locusts کا نام دیا جاتا ہے. یہ وباء اب تک جن ممالک کو شدید متاثر کرچکی ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے. دیگر ممالک میں صومالیہ، ایتھوپیا، یوگنڈا، سوڈان، یمن، سعودی عرب، ایران، بھارت شامل ہیں. تاہم پاکستان میں اس کا حملہ سب سے سخت ہے. بھارت نے اس وباء سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو تعاون کی درخواست بھی کردی ہے کیونکہ بھارت بھی اس سے شدید متاثر ہو رہا ہے.
ماہرین موجودہ ٹڈی دل حملے کو کرونا کے بعد ایک نئی اور خطرناک عالمی وباء قرار دے کر خبردار کررہے ہیں کہ اگر بروقت اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو خوراک کا ایک عالمی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کی جان جا سکتی ہے. عالمی ادارہٴ خوراک نے اس عالمی ٹڈی دل وباء کے باعث عالمی سطح کے خوراک بحران کی پیش گوئی کر دی ہے. اقوام متحدہ کے Food and agriculture Organization نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران اس وبا سے شدید متاثر ہونگے. پاکستان میں حالیہ ٹڈی دل حملے سے نقصان کا تخمینہ، پاکستانی ماہرین کے مطابق 205 ارب روپے ہوسکتا ہے. جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے مطابق پاکستان میں فصل ربیع کا نقصان 353 ارب روپے جبکہ خریف کا نقصان 464 ارب روپے ہوسکتا ہے. (پاکستان کا کل دفاعی بجٹ 1200 ارب ہوتا ہے، جبکہ محض ٹڈی دل سے ہونے والا نقصان 800 ارب سے زائد ہے، جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے- یہ اعداد وشمار ڈان نیوز نے 11 مئ کو شائع کیے ہیں)
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی زرعی یونیورسٹیوں میں جنگی بنیادوں پہ اس حوالے سے تحقیق کی جائے اور ٹڈی دل سے نجات کے طریقوں پہ غور کر کے ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے کہ جس سے کم سے کم نقصان ہو اور سائنسدانوں کے ساتھ مل کے ایسا سپرے تیار کیا جائے جس سے فصلوں و زمین کی زرخیزی کو قطعاً نقصان نہ پہنچے. جن عالمی اداروں کے مشورے پہ سپرے کی جائے، اس سپرے کو اپنی لیبارٹریوں میں مکمل تحقیق کے ساتھ چیک کیا جائے اور اس کے مضر اثرات یا side effects سامنے آنے پہ نہ صرف وہ کیمیکل استعمال نہ کیا جائے ایسے کیمیکل بنانے والوں پہ ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا جائے. اور عالمی فورمز پہ اس حوالے سے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا جائے. اس سلسلے میں آزاد عالمی ماہرین اور زراعت کے شعبے میں ترقی یافتہ اسلامی ممالک کے ماہرین سے بھی مدد اور مشاورت لے جائے. پاکستان جو کہ پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے، اس وباء کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا. پاکستان میں 70 سال بعد ٹڈی دل کا یہ بدترین حملہ ہے. کراچی میں گزشتہ 70 سال جبکہ پنجاب اور کے پی میں نقصانات کا گزشتہ 25 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...