ٹکٹوں کی تقسیم
۔
پی ٹی آئی کی اپنی مشکلات ہیں۔ ذوالفقار کھوسہ جیسوں کو ٹکٹ دینا انکی مجبوری ہے۔ اور شاہ محمود قریشی اور ترین کے بیٹے موروثیت کی تعریف پر پورا نہیں اترتے اس لیے انکو بھی ٹکٹ دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
نظریاتی کارکنان کو فی الحال بیک سیٹ پر بیٹھنا ہوگا۔ پتنگ ہوا میں بلند ہوجائے تو کنی دینے والے کو تند کا مزہ لینے کی باری زرا دیر سے ملتی ہے۔
مگر وہ نظریاتی کارکنان جو اس وقت غم و غصے میں سیاست ہی سے کنارہ کشی کا سوچ رہے ہیں انکے لیے مفت مشورہ ہے کہ بالکل چھوڑ دیں، اگر آپ سیاست میں صرف "عمران خان" کی سیاست کے لیے آئے تھے تو۔ مگر اگر آپ نے سیاست پاکستان کے لوگوں کی زندگی میں کچھ بہتر کرنے کے لیے شروع کی تھی تو وہ جگہ ابھی بھی خالی ہے۔ اس وقت موجود سیاسی جماعتوں میں سے پی ٹی آئی کا پروفائل ہی سب سے بہتر ہے اور تبدیلی کی امید اگرچہ ہلکی ہو چکی ہے مگر یہ باقی دو جماعتوں سے 180 درجے کے فرق سے اب بھی آگے ہے۔ اس لیے خوشی سے یا ناراضگی سے، اس الیکشن میں آپ کے پاس اس سے بہتر چوائس ممکن نہیں۔
دوسری جانب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی ٹکٹوں کی تقسیم کبھی مسئلہ نہیں رہا کہ وہاں نہ نظریاتی نہ اخلاقی، کوئی بھی اقدار باقی نہیں ہیں۔ منہ سے جو مرضی کہتے رہیں، مگر موروثیت اور خاندانی غلامی کی بدترین شکل جو ان دونوں جماعتوں میں موجود ہے وہاں بلاول جیسوں کے گھٹنے چھوتے (محاورتاً) اعتزاز احسن اور مریم نواز کے "جوتے سیدھے نہ کرتے" چوہدری نثار (جن کا ٹکٹ مشکوک ہوچکا) نشانیاں ہیں کہ خاندانی حکومتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔
وہاں بہتری کی کوئی امید باقی نہیں جب تک ان جماعتوں میں قد آوور بتوں کے اندر بالشتیوں کی روحیں ہیں، ان جماعتوں کے لوگ فریال تالپور کی طرح اپنے "مزارعین" سے دھمکیانہ ووٹ وصول کرتے رہیں گے۔ اور انکے ووٹر کبھی اس قابل نہ ہو پائیں گے کہ ان سے سوال کر سکیں۔ فاروق بندیال جس کو پی ٹی آئی کارکنان نے ایک رات کی احتجاجی مہم میں پی ٹی آئی سے نکلوا دیا، اب سنا ہے نون لیگ کے ٹکٹ سے لڑے گا۔ کونسی اخلاقیات؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“