گزشتہ 65 سال سے مشہور و مقبول ایشیا کی بیوٹی کریم تبت سنو کو ہم بچپن سے ہی اپنے گھر میں دیکھتے چلے آرہے تھے- تبت ٹیلکم پاوڈر بھی آتا تھا- بلکہ وہ چار پانچ چیزیں جو ہمیشہ والدہ کی سنگھار میز پر موجود ہوا کرتی تھیں ان میں تبت سنو، تبت ٹیلکم پاؤڈر، عمر رواں سینٹ، ایوننگ ان پیرس کی گہری نیلی شیشی، ھاشمی سرمہ، کلیوپیٹرا کاجل، اور ایک کریم کلر کا ٹن کا گول ڈبے والا پف پاؤڈر جس میں چھوٹا سا گول نرم کشن نما پف بھی موجود ہوا کرتا تھا جس کا برانڈ نام مجھے یاد نہیں رہا۔ اس زمانے میں اگر کوئ مہمان بغیر پیشگی اطلاع کے گھر آجاتے تو فوری جمالیاتی امداد کے طور پر بالوں میں کنگھا اور چہرے پر تبت کریم کا استعمال شافی و کافی سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسی تقریب میں جانا ہوتا تو اس زمانے کی سیدھی سادی خواتین چہرہ صابن سے دھو کر بالوں میں کنگھا کرتیں، چہرے پر تبت کریم، آنکھوں میں کاجل اور اگر بہت زیادہ ماڈرن ہوئیں تو لپ اسٹک اور ھلکا سا غاذہ ( بلش آن) لگا کر سر پر دوپٹہ اوڑھ کر بُرقعہ پہن کر چلنے کو تیار ہوجایا کرتی تھیں۔جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہماری امی جان شام کے وقت ہمارا منہ ہاتھ دھلوا کر ہمار بال کنگھے سے بناتیں- آڑی مانگ نکال کر بال جماتیں اور پھر چہرے اور گردن پر زرا سا تبت پاوڈر مل دیتیں- لیجئے جی ہم تیار ہوجاتے-آج بھی جب کوئ تبت کریم لگاتا ہے تو میرے اطراف سے تمام گردوپیش غائب ہو جاتا ہے اور وقت بعد عصر ایک چھ سال کا بچہ رکسونا صابن سے ہاتھ منہ دھونے کے بعد اپنی والدہ کے سامنے کھڑا بال بنوارہا ہے۔ والدہ کی انگلیوں کا لمس ٹھوڑی پر کہ جس کو تھام کر وہ مانگ نکال کر بال بنایا کرتی تھیں۔ تبت کریم لگانا مجھے کبھی بھی پسند نہیں تھا کیونکہ اس کو لگانے کے بعد چہرے پر پسینہ آتا محسوس ہوتا تھا- البتہ جب بھی گھر میں تبت سنو کی نئ شیشی آتی تو ہم اس کے پیکٹ کے اندر موجود اس کے تعارفی لٹریچر والے پیپر کو ضرور بہت دلچسپی سے پڑھتے تھے- یہ تعارفی لٹریچر بیک وقت اردو، انگلش، ہندی، بنگالی زبان میں ہوتا تھا جس میں تبت کریم کے فوائد و خصوصیات درج ہوتی تھیں- آج بھی یہ پرچہ اسی طرح تبت کریم کے پیکٹ کے اندر موجود ہوتا ہے۔
اس پرچے کی سب سے پہلی عبارت یہ بتاتی تھی کہ آپ خواہ کتنا ہی رف اور سخت کام کرتے ہوں تبت کریم آپ کے ھاتھوں کو نرم ملائم اور مخملی رکھتی ہے۔
دوسری خاصیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ شیو کرنے کے بعد تبت کریم آپ کی جلد کو جلن اور زخم سے محفوظ رکھتی ہے اور جلد کو نرم ملائم بناتی ہے۔لہٰذہ مرد حضرات شیونگ کے بعد تبت کریم کا استعمال باقاعدگی سے کریں۔
تیسری خاصیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ اگر کالج جانے والی لڑکیاں تبت کریم کا استعمال کریں تو ان کا چہرہ گردوغبار اور دھوپ سے محفوظ رہے گا۔اور یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے کی ٹیڈی کالج گرلز تبت سنو پسند کرتی تھیں۔
چوتھی خاصیت یہ کہ تبت کریم بغلوں کی ناگوار بو دور کرتی ہے اور آپ کی بغلیں گلاب سی مہکتی رہتی ہیں۔
پانچویں خاصیت یہ کہ اسپورٹس مین ہمیشہ کھیل پر جانے سے پہلے اور بعد لازمی تبت سنو استعمال کرتے ہیں کیونکہ کھیل کے دوران تبت سنو ان کے چہرے کو گردوغبار سے پاک رکھتی ہے اور کھیل کے بعد لگانے سے یہ گردو غبار کے انتہائ باریک ذرات کو چہرے کی جلد سے کھینچ نکالتی ہے۔
چھٹی خاصیت یہ بتائ جاتی تھی کہ لمبی چہل قدمی یا واک کے بعد ہمیشہ اپنے پاؤں پر تبت کریم کا مساج کیجئے کیونکہ یہ پاؤں کی جلد نرم و ملائم رکھتی ہے اور سیاہ سخت جلد ( Corns) نہیں بننے دیتی۔
اب بتائیے کہ کیا آپ کو کوئ اتنی ملٹی پرپز کریم مل سکتی ہے؟
تبت کریم گزشتہ 65 سال سے شدید ترین مسابقت اور نیشنل و انٹرنیشنل برانڈز کے مقابلے میں اپنا مقام قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔ انتہائ دلچسپ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ تبت نے آج تک اپنے نام کے ساتھ “ نیو” کا سابقہ نہیں لگایا۔ نہ ہی اس کی پیکنگ اور شیشی تبدیل ہوئ اور نہ ہی اس کی خوشبو و معیار میں کوئ تبدیلی آئ۔ اس کے پیکٹ کے سامنے کے رخ پر بنی سجی سنوری سیاہ بالوں کاپف بنائے خاتون کا سائڈ پوز اور بیک پر تبت کے پہاڑ اور درختوں کی ڈرائنگ بنی ہوتی ہے۔ اس کا شیشے کا جار اور ایلمونیم کا نقرئ ایمبوزڈ کیپ سب کچھ پہلے دن جیسا ہے۔ اور آج بھی تبت کریم کی خوشبو نہ جانے کتنی یادوں کے دروازے کھول دیتی ہے جن میں ماں کا لمس اور خوشبو اولین احساس ہوتا ہے۔ بلکہ آجکل کے نوجوانوں کی تو نانی دادی کی کریم ہے۔ تبت کریم کی خوشبو گلاب اور کیوڑے کے مکسچر جیسی ہوتی ہے۔ اس کے چمکدار سفید رنگ جیسے کہ موتی پیس کر ملائے گئے ہوں کی وجہ سے اس کو سنو کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی بالکل صاف پاکیزہ اور خالص جیسی کے تبت کے پہاڑوں پر پڑنے والی روئ کے نرم گالوں جیسی برف۔
تبت سنو کی کیمسٹری:
اس میں شامل سوڈیم بوریٹ جلد میں ھلکا سا نکھار پیدا کرتا ہے اور اس میں شامل بورون جلد کی سطح پر موجود خون کی باریک نالیوں کو سکیڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے جلد میں کھنچاؤ اور تناؤ محسوس ہوتا ہے۔چھوٹا موٹا کٹ لگ جانے پر بھی تبت کریم فوری خون کا بہاؤ روک دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین اس کو اپنی آنکھوں کے نیچے پھولے ہوہے حلقوں کو چھپانے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ اس میں شامل پوٹاشیم کے مرکبات جلد کی سطح چکنی اور ہموار ہونے کا تاثر دیتے ہیں۔ یہ مردوں کے لئے ایک بہترین آفٹر شیو کے لئے بھی تجویز کی جاتی تھی۔ تھکے ماندے چہرے کو فوری طور پر تازگی بھرا تاثر دینے کے لئے تبت کریم لگائیے اور فرق محسوس کیجئے۔ تبت کریم ایک بہترین سن سکرین کا کام بھی کرتی ہے۔ تبت کریم کی ایک بہت خاص بات یہ ہے کہ یہ سیاہ کہنیوں، گھٹنوں اور ٹخنوں پر پابندی سے لگائ جائے تو ان کی سیاہی ختم کردیتی ہے۔یعنی ہر وہ جگہ جہاں جلد سخت سیاہ اور کھردری ہوجائے وہاں تبت کریم بہترین کام کرتی ہے۔
تبت کریم غالبا” پاکستان کی پہلی کاسمیٹکس کمپنی کوہ نور کیمیکلز نے بنانا شروع کی تھی- کوہ نور کیمیکل کمپنی موجودہ بنگلہ دیش اور سابقہ مشرقی پاکستان میں قائم ہوئ۔ سقوط ڈھاکہ تک یہ کمپنی مشرقی پاکستان میں ہی قائم تھی لیکن 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس کے مالکان پاکستان آگئے اور کوہ نور کیمیکل کمپنی پرائیویٹ لمیٹیڈ کی بنیاد رکھ کر اس کر اس کی مصنوعات بنانا شروع کردیں جن میں تبت کی مکمل رینج بھی شامل تھی جس میں تبت ٹیلکم پاؤڈر، تبت کریم، تبت ٹوتھ پیسٹ، تبت پومیڈ ،تبت کولڈ کریم اور تبت ٹائلٹ سوپ شامل ہے۔ بنگلہ دیش میں قائم کوہ نور کیمیکل کمپنی پہلے قومیا لی گئ تھی لیکن بعد میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اب بھی قائم و دائم ہے اور وہاں بھی اس کی مقبولیت میں کوئ کمی نہیں آئی ہے۔
تبت کریم کے سب سے پہلے اشتہار میں اداکارہ صبیحہ خانم اس کی برانڈ ایمبیسیڈر تھیں جو 50s میں پاکستان سلور اسکرین کی ٹاپ ھیروئن تھیں۔ اس کے بعد بھی تبت نے مختلف فلمی ھیروئنز کو اپنے اشتہارات میں لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 70’s کے کراچی کی سڑکوں پر جو اکا دکا نئون سائنز نظر آتے تھے ان میں تبت کی پروڈکٹس، روح افزا, الہ دین سیل , حبیب بینک کا گول روپئے والا نیون سائن ، رینا ٹیلیویژن، لکس سوپ. باٹا اور سروس شوز، پاکولا، شیزان مینگو جوس، احمد سوئٹس اور چندا بیٹری سیل نمایاں مقام رکھتے تھے۔ اس وقت غالبا” کراچی پاکستان کا واحد شہر تھا جہاں سر شام معروف و مصروف شاہراہوں کی اونچی عمارات پر نصب یہ دیو ھیکل نیون سائن جلنا بجھنا شروع کردیتے تھے جن کو گاؤں دیہات سے آئے لوگ بڑے شوق اور تعجب سے دیکھا کرتے تھے اور انہی رنگ برنگے جلتے بجھتے نیون سائنز کی وجہ سے کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا ۔ اندرون سندھ پنجاب وغیرہ سے لوگ کراچی کی بتیاں دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ہر سگنل اور چورنگی کے اطراف یہ نیون سائنز چاروں طرف جگمگاتے ہوتے تھے اور کراچی سے باہر سے آئے لوگ بسوں رکشوں اور ٹیکسیوں میں بیٹھے سگنل سرخ ہونے پر اپنے چاروں طرف موجود یہ جلتے بجھتے نیون سائنز آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کرتے تھے۔
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر قائم تبت سینٹر کوہ نور کیمیکلز کا ھیڈ آفس ہے۔ ایٹکو لیبارٹریز ( Atco Laboratories) نامی فارماسیوٹیکل کمپنی بھی اسی ادارے کی ملکیت ہے۔
تبت کریم کے پیکٹ کا ڈیزائن مولانا نور حسین نے ڈیزائن کیا تھا۔ انہی مولانا
روح افزاء،، کا پھلوں بھرا لیبل بھی ڈیزائن کیا تھا۔ ان کے یہ دونوں ڈیزائین اس قدر با برکت ثابت ہوئے کہ آج پون صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود دنیا بھر میں یہ دونوں ڈیزائین اپنی پوری آب و تاب سے مقبول ہیں ، کہیں بھی چلے جائیں ، روح افزا اور تبت سنو ضرور ملیں گے ، شاید اسی کو برکت کہتے ہیں۔ مولانا نور حسین ، کا پورا نام مولانا مرزا نور حسین تھا ، کمپیوٹر میں جو اردو رسم الخط ھے وہ بھی مولانا مرزا نور حسین کے نام سے منسوب ھے ، جسے خط نوری نستعلیق کہا جاتا ھے ، اردو زبان کو وسعت نوری نستعلیق سے ملی ھے جب سے اردو کمپیو ٹرائیز ہوئی ھے پوری دنیا میں پہنچ گئی ھے وگرنہ کاتب اپنے گھٹنوں پر رکھ کے لکھا کرتے تھے ، نوری نستعلیق کو کمپیوٹر میں احمد جمیل مرزا نے ڈالا تھا جو مرزا نور حسین کے بڑے فرزند تھے اور 95 برس کی عمر میں چار سال پیشتر فوت ہوئے ، کراچی نرسری میں مقیم تھے ان کا پبلیکیشنز ھاؤس ملک میں الیٹ کے نام سے جانا جاتا ھے ، مولانا مرزا نور حسین کے چھوٹے فرزند مرزا منظور حسین تھے جو پاکستان کے صف اول کے مصور ہو گزرے ہیں ان کی بنائی ہوئی قائد اعظم کی تصویر سرکاری طور سے تسلیم کی گئی ھے اور وہی سرکاری دفاتر ، قومی اسمبلی ،سینٹ اور ایوان صدر میں آویزاں ہے۔
تبت کریم کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دور دراز کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں دیہات کے پرچون شاپ پر بھی آپ کو یہ کریم ضرور مل جائے گی۔ شاید اسی لئے تبت کو ایشیا کی بیوٹی کریم کہا جاتا ہے. تبت کریم انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش میں یکساں مقبول ہے۔ تبت والے اب کچھ عرصہ سے رنگ گورا کرنے والی کریموں سے مقابلے کے لئے تبت اسکن وائٹننگ کریم بھی مارکیٹ میں لانچ کرچکے ہیں لیکن تبت کریم جیسی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ آج بھی رنگ گورا کرنے کے بے شمار فارمولا کریمز کا بنیادی جزو تبت کریم ہی ہوتی ہے۔
آئیے آج لگے ھاتھوں ہم بھی آپ کو ایک اسکن وائٹننگ فارمولا بتا دیتے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو تین اجزا کی ضرورت ہوگی۔
1- ایک بڑا چمچ تبت کریم
2-آدھا چمچ ایلو ویرا جیل کوئ بھی برانڈ لیکن گاڑھا ہونا چاہئے
3- دو عدد اسکن وائٹننگ کیپسول
یہ دراصل وٹامن ای کے کیپسول ہوتے ہیں جو جلد پر لگانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ہر میڈیکل اسٹور پر فیشل وائٹننگ کیپسول کے نام سے ملتے ہیں۔ ان کے اندر موجود تیل نما وٹامن ای کیپسول توڑ کر نکالا جاتا ہے۔
ان تینوں چیزوں کو بہت اچھی طرح مکس کرلیجئے۔ اور کسی شیشے یا پلاسٹک کے جار میں ریفریجریٹر میں محفوظ رکھئے۔ یا آپ تبت کریم کی جار میں موجود کل مقدار سے آدھا ایلو ویرا جیل اور چھ یا آٹھ فیشل وائٹننگ کیپسول بھی اچھی طرح مکس کرکے محفوظ کرسکتے ہیں۔
یہ کریم آپ کو رات سوتے وقت چہرے پر لگانی ہے اورصبح صابن یا فیس واش سے دھولینا ہے۔ ایک ہی ھفتے میں آپ اپنی رنگت اور جلد کی نرمی و خوبصورتی میں واضح فرق پائیں گے۔ اس کریم میں کچھ دیگر جڑی بوٹیوں کا پاؤڈر اور تیل ملا کر آپ کوریا کی مشہور عالم سِیکا
( Cica cream ) جیسی کریم بھی بنا سکتے ہیں جو چہرے کو گورا بے داغ اور داغ دھبوں اور جھریوں سے پاک کرنے کے لئے عالمگیر شہرت و مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
یہاں ایک عرض کرتا چلوں کہ آجکل خاص طور پر پنجاب میں جعلی تبت کریم کی بھرمار ہے۔ لاہور کا شاہ عالمی جعلی تبت کریم سے بھرا پڑا ہے جہاں سے بھاری مقدار میں جعلی اور مضر تبت کریم سپلائی کی جاتی ہے۔ اصلی اور نقلی تبت کریم میں فرق جاننے کے لئے یہ وڈیو دیکھئے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...