پروفیسر شکور علی کا تعلق خپلوپائن سے ہے ابتدائی تعلیم گانچھے پرائمری سکول گوقپی سے حاصل کرنے کے بعد ثانوی تعلیم خپلو ہائی سکول سے حاصل کی اورمزیدتعلیم کے حصول کے لیے کراچی چلے گئے کراچی سے انہوں نے اعلیٰ نمبروں کے ساتھ ایف ایس سی اور بی ایس سی مکمل کر لی بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آزاد جموں وکشمیر کے معروف تعلیمی ادارہ آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی مظفر آبادسے ایم ایس سی زولوجی اعزازی نمبروں کے ساتھ مکمل کرلی ماسٹر کی ڈگری مکمل ہونے کے بعد انہوں نے گلگت بلتستان کے معروف ترین تعلیمی ادارہ پبلک سکول اینڈ کالج میں تدریس کا آغا ز کیاپبلک اسکول اینڈ کالج اسکردو میں گزشتہ اٹھارہ سالوں سے اپنے شعبے میں تشنہ گان علم کو سیراب کرنے میں مصروف عمل ہیں تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی بھی کرتے رہتے ہیں اور مختلف قومی و علاقائی جرائد میں آپکے مضامین شائع ہو چکے ہیں اس سلسلے میں گزشتہ بارہ سالوں کے طویل عرصے کی محنت شاقہ اور عرق ریزی کے بعد گلگت بلتستان میں ایک ایسے موضوع پر قلمکاری کی جسکے ہمہ جہت فوائد ہیں
گلگت بلتستان کی علاقائی خاصیت اور انفرادی خاصیت کے سبب دنیا میں اسکا نہایت منفر د مقام ہے یہاں کی تہذیب وتمدن اور معاشرت میں یہاں پر موجود مخصوص حیوانات جو کہ ملک کے دیگر حصوں میں موجود نہیں انکا عمل دخل بھی گہرا ہے دنیا میں ناپید بھورے رنگ کے ریچھ کا مسکن، دنیا کی بہترین مچھلیوں میں شمار ہونے والی حساس و لطیف طبع کی مالکہ مچھلی ٹراوٹ فش، ماہ و مہر کے ہمسائے فلک بوس پہاڑوں کے اوپر زندگی گزارنے والے برفانی چیتے، کم از کم سطح سمندر سے چار ہزار میٹر بلندی پر موجود اٹھکھیلیاں کھیلتی، ڈمکتی اور طرارے بھرتی ہرنیں، ہزاروں میٹر کی بلند ی سے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کو چیرتے شیر دریائے کے تہہ میں جھانکنے والے شاہین،پہاڑو ں کی چوٹیوں پر گنگناتی ، گیت گاتی رام چکور، کانوں میں رس گھولنے والے چکور اور دیگر مظاہر قدرت کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں یاک جسے مقامی زبان میں ہیاق کہا جاتا ہے بھی منفرد خصوصیت کے حامل ہے
پروفیسر شکور نے بارہ سال کے طویل عرصے پر یاک پر ایک تفیصلی تحقیقی کتاب تحریر کی ، اگرچہ اس کتاب کی قومی سطح پر اور علاقائی سطح پر و ہ پذیرائی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی انہوں نے اس اہم موضوع پر قلم اٹھا کر نہ صرف یہاں کی تہدیب و تمدن میں عمل دخل رکھنے والے اس پالتو مگر جنگلی نماجانور کی افادیت کو اجاگر کیا بلکہ اس موضوع پر تحقیق کرنے والے محققین کے لیے بھی بڑی آسانیاں پیدا کر دی انکی کتاب YAK (The cryophilic species of Baltistan) تحقیقی اعتبار سے نہایت منفر د کتاب ہے مصنف کی تحقیق کے مطابق یاک پر پوری دنیا میں کبھی اس موضوع پر کوئی تفصیلی کتاب نہیں لکھی گئی تاہم مختلف قلمکاروں کے یاک پر لکھے گئے مضامین کو کتابی شکل ضرور دی گئی ہے کتاب پاکستان کے علاوہ بیرون ملک سے قارئین اور علم حیوانات سے شغف رکھنے والوں کی بڑ ی تعداد نے آن لائن ڈیمانڈ بھی کی ہے اور بھجوائی جا چکی ہے کتاب انگریزی میں ہونے کے سبب دنیا کے 35سے زائد ممالک میں پڑھی گئی ہے جس میں اٹلی، امریکہ ، برازیل، فرانس، برطانیہ،سویٹزرلینڈ،سلیوینیا، نیپال وغیرہ شامل ہے یہ کتاب دس ابواب او ر180صفحات پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ رنگین چاپ بھی ہے اور اسے پاکستان کے معروف پبلشر ر فیروز سنز لاہور نے نفیس اور بہترین انداز میں اسے مرتب کی ہے یاک کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے اور عظیم سلطنت تبت کے تواریخ اور سینہ بہ سینے چلی آنی والی کیسر کی لوک کہانیوں میں اس جانور کا ذکر جابجا ملتا ہے کنفوشیس اور بون چھون میں بھی یاک کا ذکر ملتا ہے بون مذہب کے مطابق اگر کوئی شخص مرے تو یاک کو مالک کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ اس سے اس شخص کے گناہوں میں کمی ہوتی ہے گلگت بلتستان کے علاوہ تبت ، چائینہ ،نیپال ،وسط ایشیائی ممالک، انڈیا میں پائے جاتے تھے جبکہ ان دنوں یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی اس جانور کی نسل کو خوب پھیلایا گیا ہے
پروفیسر شکور علی نے اپنی اس منفرد کتاب میں گلگت بلتستان میں پائے جانے والے اس منفرد جانور پر بارہ سال کی تحقیق کے بعد مفصل گفتگو کی ہے یاک غالبا دنیا کا واحد جانور ہے جو معاشی اعتبار سے صد در صد فائدہ مند اور افادیت سے پر ہے اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو بے کار ہو ، معاشی افادیت کے حامل نہ ہو اور ضائع ہوتا ہو یاک کی سم سے لے کر سینگ تک کومختلف امور استعمال کیا جاتا ہے سامان ارائش کے علاوہ روز مرہ کے خوراک میں بھی اس جانور کی افادیت کو واضح کیا گیا ہے اس کے جسم کے بال کو چھرابافی اور چادر بافی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، سینگوں اور سموں کو اوزار اور آلات موسیقی میں بھی زیراستعمال لایا جاتا ہے مادہ یاک کے دودھ خاصیت اور طاقت کے اعتبار سے بہترین دودھ سمجھا جاتا ہے دہی ،مکھن اور پنیر بھی مادہ یاک کا نہایت لذیز ہوتا ہے یاک ہل چلانے کے علاوہ اس کو بلند ترین پہاڑوں پر لاوڈر کے طور پربھی استعمال کیا جاتا ہے معاشی فوائد کے علاوہ طبی فوائد بھی بہت زیا د ہ ہے یہاں تک کہ ذبح کرنے کے بعد جسم سے نکلنے والے خون تک کو استعمال میں لایا جاتا ہے، چربی کو خوراک اور ادویات میں استعمال کی جاتی ہے اس کی رگوں کو مضبوط دھاگہ بنانے کے علاوہ تیر میں بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ اسکی کھال کو ڈھول کے علاوہ بچھونا ، جوتا، فٹ بال ، کشتی وغیرہ بنانے کا بھی کام آتا ہے سیاحت میں ٹریکنگ کے علاوہ اسی یاک پر بیٹھ کر پولو بھی کھیلا جاتا ہے جو کہ نہایت دلچسپ کھیل ہوتا ہے
سردی پسند اس منفرد جانور کی جنسی اختلاط کی خصوصی دلچسپی کا حامل ہے اس پربھی انہوں نے مفصل انداز میں اور سائنسی
اصولوں کے مطابق تحقیقی کی ہے یاک کی مخلوط نسل کی خصوصیات بھی منفرد ہے اس کتاب میں دیگر جانوروں سے ملاپ کے نتیجے میں پید ا ہونے والی نسل کا بھی ذکر کیا ہے یاک اگر گائے سے کراس کرے تو زو اور زومو پیدا ہوتا ہے،اسی طرح اصل یاک کا کراس زومو سے ہو تو گر ، گر مو ، پھر گر مو سے کراس ہو جائے تو گرِگرِمو، کراس شدہ گرِمو سے دوبارہ کراس ہو جائے تو ہلوک ، ہلوکمو پیدا ہوتا ہے پھر ااسی طرح بروک بروکمو اور برِک، برِکمو پیدا ہوتا ہے اور آخر میں برِکمو سے پیدا ہونے والی نسل سے اصل یاک پیدا ہوجاتا ہے یعنی چھ نسلوں کے بعد ساتویں نسل میں اصل یاک پید ا ہوجا تا ہے اور نسلوں کا یہ چکر دنیا کے کسی اور جانور میں نہیں ہے کتاب YAK (The cryophilic species of Baltistan) میں یاک کے رویوں اور نفسیات پر بھی تفصیلی اور تحقیقی بحث کی ہے انکے مطابق یہ جانور نفاست پسندی کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے ہمیشہ پہاڑوں کی بلندیوں پر اپنی جگہ بناتی ہے اوراس کا اوڑھنا اور بچھونا برف ہے گرم علاقوں میں انکی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے یاک اس جگہے سے فوری طور پر کوچ کر جاتا ہے جہاں گندگی ہو چاہیے اپنی گندگی ہی کیوں نہ ہو گھاس پھوس اور کھانے کے اعتبار سے انکی حساسیت کا اندارہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی قسم کا زہریلا اور یہاں تک کی بد بو والا گھاس بھی نہیں کھاتا اپنی نفسیات سے میل کھانے والے ماحول میں رہنے کے بعد بیمار ہونا تو خال خال کی بات ہے انکی رویوں پر تحقیق کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ حافظہ کے اعتبار سے یہ جانور نہایت منفرد ہے ضد اور کینہ پروری میں بھی یہ جانور مثالی ہے کئی کئی سال کی ضد یہ جانور نہیں بولتا اور موقع ملنے پر بدلہ لے لیتا ہے مالک ، دوست، دشمن، اجنبی اور گاوں والوں تک کو پہچانتا ہے انکو دیکھنے کے بعد مخصوص حرکات و سکنات کے ذریعے اظہار خیال کرتا ہے انسانوں کے ساتھ اس جانور کو بہت زیادہ لگاو اورانس ہے اپنے آقا کی آمد پر مخصوص انداز میں ویلکم کرتا ہے اور کوئی بے جا تنگ کرے تو غصے کا اظہار بھی مخصوص انداز میں کرتا ہے زلزلہ ، بارش، طوفان اور قدرتی آفات کے بارے میں یہ جانور وقت سے پہلے جان کاری رکھتا ہے اور ان تمام آفات آنے والی مقامات کو چھوڑ جاتا ہے پہاڑوں پر رات کے وقت برف یا بارش سے پہلے ہی کسی باڑ کے نیچے پناہ لیتا ہے رات کے وقت پہاڑ پر درندوں کے حملوں کے محفوظ رہنے کے گول دائرہ بنا کر درست سکیورٹی انتظام بھی کرلیتا ہے بلتستان کی تاریخ و ادب میں یاک کا ذکر ضرب المثل و محاوروں میں بھی ملتا ہے مذکورہ کتاب میں ان تمام ضرب المثل کو بھی جمع کیا ہے جس میں یاک کاذکر موجود ہو جیسا کہ مشہور ہے ’’ ہیق کھون نا چو کھون‘‘ اس کا مطلب ہے حکمران اور یاک دونوں کی کینہ پروری ایک جیسی ہوتی ہے’’ہرمق لوقنا ہیق ردوب‘‘ یعنی عوام متحد ہوجائے تو بڑے چیلجز کا بھی مقابلہ ہوسکتا ہے یہاں پر لفظی معنی اگر عوام مل کر کوشش کرے تو یاک کو بھی ذبح کیا جاسکتا ہے ’’سوسوے گویکھاہیاق گولبو مہ تھونگ ایونی گویکھا شیک گولبو تھونگ‘‘ یعنی انسان کو اپنی برائی اور خامی نظر نہیں آتی جبکہ دوسری کی چھوٹی برائی بھی بڑی نظر آتی ہے دنیا بھر یاک کے نام سے معروف جانور اصل میں تبت ہی کا جانور ہے جو کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یاک ہیاق کی بگڑی صورت ہے بلتی میں اول ساکن الفاظ اور ناموں کو دوسری زبانوں میں استعمال کیا جاتا ہے تو ادائیگی میں مشکل پیش آنے کی وجہ سے اپنی زبان میں بیان کرکے ہیاق کو یاک بنا دیا ہے اس کتاب پر مصنف کو حکومت کی جانب سے خصوصی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تاکہ تحقیق و تدوین کے میدان میں برسر پیکار گلگت بلتستان کے دانشوروں کی حوصلہ افزائی ہو پروفیسر شکور نے بارہ سال میں اس کتاب کو ترتیب دینے کے لیے نہ صرف لاکھوں روپے خرچ کر کے ان تمام مقامات پر دورہ کیے جہاں یہ جانور رہتے ہیں اس جانور کے پالنے والے درجنوں ماہرین سے انٹرویو کیے متعدد رات جاگ کر انکی حرکات و سکنات کو نوٹ کر لیے دن کے وقت بھی انکے رویوں پر نگاہ رکھے یعنی پیسوں کے علاوہ اپنی زندگی کے بہتریں ایام اس پر صرف کیے لیکن کہیں سے بھی تا حال اس کام کی حوصلہ افزائی نہیں ہوسکی ہے جو کہ مجموعی طور پر ایک قومی المیہ ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...