جس بچے سے ہم نے ابن بطوطہ کے مزار کا پتہ پوچھا وہ ہمیں ساتھ لے کر چلنا شروع ہوگیا لیکن یوں لگتا تھا زمانہ بھی اور ہے اور جہان بھی دوسرا ہے۔ عجیب و غریب طلسماتی کوچے ایک دوسرے کے اندر سے نکلتے اور ایک دوسرے کے اندر ہی گُم ہو جاتے۔ کہیں سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیںاور کہیں اُوپر۔سینکڑوں سال پہلے تعمیر کی گئی یہ گلیاں عجیب ڈیزائن اور نقشے کی تھیں۔ ہوا بھی تھی اور دھوپ بھی، کئی منزلہ گھر، قدیم دروازے جو خوبصورت بھی تھے اور پُراسرار بھی، اور کم سن گائیڈ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ شک ہوا کہ نہ جانے اسے مزار کے بارے میں معلوم بھی ہے یا نہیں، لیکن پوچھنے پر اُس کی خوداعتمادی میں کوئی کمی نہ آئی۔ آخر کار ایک گلی میں جو نشیب سے بلندی کی طرف جا رہی تھی، وہ رُکا اور بائیں طرف واقع ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا جو افسوس! مقفل تھا۔ اور جس شخص کے پاس مزارکے بند دروازے کی چابی تھی وہ شہر کے جدید حصے کی طرف گیا ہوا تھا اور کئی گھنٹوں بعد اُس نے لوٹنا تھا۔ دس بارہ سالہ عرب لڑکی جس کا نام سبرین تھا اور جو مسلسل میری گھر والی کے ساتھ اچھی خاصی انگریزی میں گفتگو کر رہی تھی خوش تھی، چاہتی تھی کہ ہم اس کے گھر جائیں اور کبھی واپس نہ ہوں۔
ہم نے مزار کے مقفل دروازے کو آنکھ بھر کر دیکھا، اُس کی تصویریں اتاریں اور رخصت ہوئے لیکن میں سوچ رہا تھا کہ سری لنکا سے دہلی تک اور ملتان سے سراندیپ تک اور جنوبی ہند کے جنگلوں سے چین تک سفر کرنے والے ابن بطوطہ کو موت آئی تو اپنی گلی میں۔ خورشید رضوی کا شعر یاد آگیا…؎
آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بیکار جائے گا!
مجھے ابن بطوطہ کا سفر نامہ یاد آرہاتھا۔ ملتان سے دلی جاتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ زندہ شخص کی کھال اتاری جا رہی تھی۔ محمد تغلق کا زمانہ تھا۔ منظر بیان کرتے ہوئے ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ملزم کو اُوندھا لٹایا جاتا تھا اور منہ والی جگہ پر چھوٹا سا گڑھا کھودا جاتا تھا تاکہ وہ سانس لے سکے۔ جب کھال اتاری جا رہی تھی تو ملزم بار بار کھال اتارنے والے جلاد سے چلا چلا کر اور گڑ گڑا کر فریاد کرتا تھا کہ مجھے ایک بار ہی تلوار سے ختم کردو لیکن جلاد کہتا تھا کہ اگر اُس نے ایسا کیا تو اُسکی اپنی کھال اتاری جائے گی۔ برصغیر کی تاریخ اگر ایک خاص موڑ نہ مُڑتی تو کون جانے آج بھی زندہ انسانوں کی کھالیں اُتر رہی ہوتیں! یہ موڑ کون سا تھا؟ آج کل کے حالات ایسے نہیں کہ اس موڑ کی تعریف تو کیا، ذکر بھی کیا جائے…؎
افسوس! بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
ابن بطوطہ کے زمانے کے برصغیر کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں اور مراکش واپس چلتے ہیں۔ یہ طنجہ کا شہر تھا۔ جسے
فرنگی زبان میں
TANGIER
کہتے ہیں۔ کیا طنجہ کی گلیاں اور طنجہ کی گلیوں سے نظر آنے والا سمندر بھُلایاجاسکتا ہے؟ نہیں! کبھی نہیں!
ایک طرف بحرِرُوم تھا اور دوسری طرف بحرِاوقیانوس اور ان دونوں سمندروں کے درمیان وہ تنگ آبی گزر گاہ تھی جو دونوں کو ملاتی تھی۔ اس طرف مراکش تھا اور تنگ آبی گزرگاہ کے اُس طرف…فیری (کشتی) پر آدھ گھنٹہ کی مسافت پر…ہسپانیہ تھا۔ طنجہ کے ساحل سے رات کو ہسپانیہ کی روشنیاں نظر آرہی تھیں اور اُس وقت بھی نظر آتی ہوں گی جب ہسپانیہ سے ہجرت کرکے مراکش آنے والے، اسی طنجہ کے ساحل پر کھڑے ہو کر، چھُوٹا ہوا دیار دیکھتے تھے اور ہاتھ ملتے تھے اور آہیں بھرتے تھے…؎
کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سُنے؟ لاکھ پکارو
میں نے مراکشی رفیقِ سفر سے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ہسپانیہ سے آنے والوں نے چھوڑے ہوئے مکانوں کی کنجیاں نئے گھروں کی دیواروں پر لٹکا دی تھیں۔ اُس نے کہا کہ اُس نے بھی یہ سنا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ مگر عربی ادب میں ہسپانیہ کی یاد میں کہی گئی شاعری کا ایک خاص مقام ہے۔ آنسوئوں اور خوابوں سے بھری ہوئی شاعری جس میں درد آشوب ہے اور نوحہ خوانی! سینہ کوبی ہے اور گریہ وزاری!!
ہم مراکش کے دارالحکومت رباط سے نکلے تو ہماری منزل طنجہ تھی جہاں سے ہم نے کشتی میں بیٹھ کر ہسپانیہ جانا تھا اور قرطبہ اور غرناطہ کی خاک چھاننا تھی۔ قرطبہ اور غرناطہ…جو میں نے اٹھائیس برس پہلے دیکھے تھے اور دوبارہ دیکھنا چاہتا تھا اور کسی کو دکھانا چاہتا تھا!
ہم رباط سے سیدھا طنجہ کی طرف بھی جا سکتے تھے لیکن ہم نے راستے میں فیصلہ کیا کہ مراکش کے مشرقی ساحل پر بسنے والا خوبصورت شہر تطوان بھی دیکھتے چلیں۔ تطوان جانے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ راستے میں ایک اور شہر شق شاون کی سیر بھی کرسکتے تھے۔ یہ دو شہر تطوان اور شق شاون اس لئے مشہور ہیں کہ یہ دونوں شہر اُن مہاجروں نے بسائے تھے جو ہسپانیہ چھوڑ کر مراکش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ ہسپانیہ سے آنے والے قرطبہ غرناطہ طیطلہ اور اشبیلیہ کے صاف ستھرے ماحول اور الگ طرز تعمیر کو کیسے بھول سکتے تھے۔ تھے تو دونوں طرف مسلمان…لیکن ہسپانیہ یورپ میں تھا اور مراکش افریقہ میں! آج بھی یہ دونوں شہر بتا رہے تھے کہ یہ باقی مراکش سے الگ ہیں۔ پکی اور خاص انداز کی انوکھی گلیاں جو دیکھنے والے پر جادو کردیتی ہیں۔ مسجدیں ساری کی ساری چھتی ہوئی صحنوں کے بغیر…اور ریستوران جو کوچوں کے کناروں پر گاہکوں کو بٹھاتے ہیں۔ شق شاون کے ایک ریستوران میں زیتون کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے میں نے دائیں طرف دیکھا تو ساتھ والے ریستوران کا نام مُورِسکو۔ریستوران تھا۔ اندلس سے آنے والے مورِسکو ہی تو تھے! مورِسکو
MOORS
کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ فلپائن میں مسلمانوں کو۔ مُورو۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ فلپائن ہسپانیہ کے قبضے میں رہا ہے۔
ہم نے تطوان کی گلیوں میں اندلس کو یاد کیا۔ مراکشیوں کے ساتھ عربی بولنے کی مشق کی اور شہر سے رخصت ہوئے۔ اب ہم شمال کی طرف جا رہے تھے جہاں سبتہ کی بندرگاہ تھی لیکن سبتہ کا خوبصورت مراکشی شہر افسوس! آج بھی ہسپانیہ کے قبضے میں ہے۔ ہم نے اس کی روشنیاں اپنی نظروں کے راستے دلوں میں اتاریں لیکن اس کے اندر نہ گئے۔ ہمارے پاسپورٹوں پر ہسپانوی ویزوں کے ٹھپے لگے ہوئے تھے اور یہ ٹھپے ہم نے قرطبہ اور غرناطہ کیلئے بچا کر رکھنے تھے اگر ہم سبتہ کے اندر جاتے تو ہسپانویوں نے ہمارے ٹھپوں پر لکیریں مار دینا تھیں۔ تطوان اور سبتہ کے درمیانی علاقے میں…ساحل کے ساتھ ساتھ کثیرالمنزلہ فلیٹوں کے سلسلے دور دور تک ساتھ جاتے ہیں۔ ہم حیران تھے کہ ایک مسلمان ملک اور اتنی صفائی!! سچ یہ ہے کہ برصغیر کے باہر سارے ملک صاف ستھرے ہیں۔ مجھے اردن کا دارالحکومت عمان یاد آرہا تھا جہاں ایک بار مجھے ایک ہفتہ رہنے کااتفاق ہوا۔ پورے شہر میں کاغذ کا ٹکڑا تو درکنار، ایک تنکا تک نہ نظر آیا۔ حیران کن نفاست!
مراکش کے سمندرکے کنارے آباد ان خوبصورت فلیٹوں کے دوسری طرف سمندر تھا اور ریستوران تھے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح جو مراکش کی دھوپ میں اپنے جسموں کی بے داغ سفیدی کو پیتل کا رنگ دینا چاہتے تھے۔ خوش قسمت مراکش! جہاں دھماکے ہیں نہ دہشت گرد اور جہاں کی پولیس سیاحوں سے نکاح نامے طلب کرتی ہے نہ منہ سُونگھتی ہے!
ہم طنجہ کے شہر میں اترے تو ساتھ ہی رات بھی اُتر پڑی! ہمارا ہوٹل سمندر کے کنارے پر تھا اور لہریں آپس میں یوں خلط ملط ہو رہی تھیں کہ ذہن میں سب کچھ گڈ مڈ ہو جاتا تھا۔ مراکش میں ہسپانیہ گڈ مڈ ہو جاتا تھا اور پاکستان میں مراکش خلط ملط ہو رہا تھا۔ ہم پاکستان کے رہنے والے امریکہ کا وائٹ ہائوس فتح کرنا چاہتے ہیں لیکن مراکش سے بھی کئی سال پیچھے ہیں اگر دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر اور دیانت اور سچائی کے بغیرصرف جذبات کی بنیاد پر ترقی ممکن ہوتی تو آج پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتا! لیکن زمینی حقیقت کیا ہے؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے غریب مذہبی بہروپیوں کے شکنجے میں ہیں اور پاکستان کے امیر امریکہ کے غلام ہیں۔ اپنے ملک کو ٹیکس تک نہیں دیتے اور دوسرے ملکوں میں کارخانوں پر کارخانے لگائے چلے جا رہے ہیں اور چھینک بھی آئے تو طبی معائنے کیلئے سات سمندر پار جاتے ہیں…
تیرے امیر مال مست
تیرے غریب حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی
خواجہ بلند بام ابھی
http://columns.izharulhaq.net/2009_10_01_archive.html
“