پروڈیوسر ادیتیا چوپڑا اور یش راج فلمز کے بینر تلے بنی یہ فِلم بالی وُوڈ کی دُوسری مہنگی ترین فلم ہے جو تین ارب ہندوستانی رُوپے یا بیالس ملین ڈالرز میں بنی ہے ۔اِس فِلم کی کہانی بلکہ یُوں کہیں کہ فِلم کا ٹائیٹل فلپ میڈوز ٹیلر کے ناول کنفیشنز آوو آ تھگ Confessions of a Thug سے ماخوذ ہے ۔ فلم کی شُوٹنگ مالٹا ، تھائی لینڈ ، میرن گڑھ اور راجستھان میں ہُوئی ہے ۔ فلم کی کاسٹ میں عامر خان ، امیتابھ بچن ، کترینہ کیف ، فاطمہ ثنا شیخ ، رونت رائے اور لوئیڈ اون جو کہ انگلش اداکار ہیں شامل ہیں ۔یہ فلم تقریباً دو سال سے کُچھ زائد عرصے میں مکمل ہوسکی ۔
فِلم کی کہانی سال 1795 کے عرصے میں شُروع ہوتی ہے جب ایسٹ اِنڈیا کمپنی جو تجارت کرنے ہندوستان آئے اور بعد ازاں راجاؤں ، مہاراجاؤں اور مُغل سلطنت کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر ہندوستان کے زیادہ تر عِلاقے اپنے تسلط میں لے لئے ۔ ایک چھوٹا سا علاقہ یا ریاست رونق پُور کی تھی جِس پر سکندر بیگ حُکومت کررہا ہوتا ہے اور وُہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے آفیسر لارڈ کلائیو کے ہاتھوں اپنے خاندان سمیت دھوکے سے مارا جاتا ہے ایک سات آٹھ سال کی بیٹی ظفیرا بچ جاتی ہے جو اپنے مُحافظ خُدا بخش (جو بعد ازاں خُدابخش جہازی یا آزاد کے نام سے مشہور ہوتا ہے ) کے ساتھ بھاگ جاتی ہے ۔یہ خُدا بخش جہازی (امیتابھ بچن ) اور مرزا کی بیٹی ظفیرا (فاطمہ ثنا شیخ )مِل کر ایک باغیوں کی فوج تیار کرتے ہیں جو سمندر میں رِہ کر ایسٹ اِنڈیا کمپنی کو کافی نُقصان پُہنچانے ہیں ۔یہ ہوتے تو فریڈم فائٹرز ہیں لیکن فِلم میں انگریز انہیں تھگس کہتا ہے ۔
جان کلائیو اِن کی کارروائیوں سے تنگ ہوتا ہے اور اُس کی ہدایت پر اُس کا اسسٹنٹ پاول ایک چالاک لیکن چھوٹے پیمانے کے ٹھگ فرنگی ملاح ( عامر خان ) کو چالاکی سے خُدا بخش جہازی کے گینگ میں شامِل کرتا ہے ۔ اِس سے پہلے فرنگی ملاح ( عامر خان ) کئی بار دُوسرے ٹھگوں کو انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار کروا چُکا ہوتا ہے ۔عامر خان بس زبردست دھوکے بازی کا مُظاہرہ کرتا ہے باقی کہانی فلم میں دیکھیں ۔
فِلم کی کہانی کُچھ زیادہ عُمدہ یا exclusive نہیں ہے اور شُروع میں فِلم جیسے سلو سٹارٹ لگتی ہے ، لیکن ایک تو اِس فِلم کا پائیریٹس آوو کریبئین سے کُوئی تعلق نہیں ہاں دونوں سمندر میں آپریٹ کرتے ہیں لیکن کہانی دونوں کی الگ ہے ۔ امیتابھ کی اداکاری اچھی ہے جبکہ عامر خان کا کردار نہایت دِلچسپ اور ایسا ہے کہ توقع نہیں ہوسکتی کہ اب کیا کر بیٹھے ۔ عامر خان کی ڈائیلاگ ڈلیوری بُہت اچھی ہے ، چند ایک مشہور ڈائیلاگ جیسے ، امیتابھ کہتا ہے ، “ بھروسہ میرا سبھاؤ ( عادت ) ہے “ یا عامر خان جب کہتا ہے “ دھوکہ سبھاؤ ہے میر “ ۔
عامر خان کلائیو سے کہتا ہے صاحب بُوہت ای مکار اور دھوکے باز کو انگریجی میں کیا کہتے ہیں ، کلائیو کہتا ہے باسٹرڈ تو عامر کہتا ہے وُہ ہم ہیں ساب ۔۔۔۔
اوورآل ایک اچھی فِلم ہے ، موضوع ذرا سا سنجیدہ یا گہرا ہے ، آزادی کی طلب میں کی گئی جدوجہد کا ایک حصہ دکھایا گیا ہے ۔ شاید ہر ایک کو پسند نہ آئے ۔ البتہ میرے خیال سے فِلم کا ٹائیٹل کُچھ اور ہی بہتر تھا لیکن شاید ٹائیٹل کو جان بُوجھ کر دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ایسا رکھا گیا ہو ۔فلم میں دو یا تین بار عامر خان کو بانسری بجاتے دکھایا جاتا ہے جو وُہ سگنل دینے کے لئے بجاتا ہے وُہ دُھن بُہت خاص ہے ۔
فِلم اچھی ہے اگر آپ دیکھنا چاہ رہے ہیں تو دیکھیں ، عامر خان کی فِلم زیادہ بُری نہیں ہوتی ۔