جس گلی میں تھا ہمارا گھر۔۔۔
اس میں ایک گھر تھا جس میں چار بھائی رہتے تھے۔ چاروں نے الگ الگ طبیعتیں پائی تھیں۔ سب سے بڑا بیٹا سب سے زیادہ لاڈلابھی تھا۔ یہ تھا بھی بہت صحتمند اور خوبصورت۔ ہر وقت بنا ٹھنا اور سجا سنورا رہتا۔ ہر وقت مانگ پٹی سے درست، صاف ستھرے کپڑے پہنے، خوشبوؤں میں ڈوبا ، اپنے حال میں مست، خوش و خرم رہتا۔ گھر میں چلتی بھی اسی کی تھی۔ جو کچھ کماتاخود پر خرچ کرتا۔ دوسرے بھائیوں کی اسے بہت زیادہ پرواہ بھی نہیں تھی۔ بڑا بھائی تھا، ماں باپ کا لاڈلا، قسمت کا دھنی، کوئی اسے کچھ کہتا بھی نہیں تھا۔
لیکن یہ دوسرے نمبر کا بھائی تھا جو گھر کو چلاتا اور سب بھائیوں کی ضرورتیں پوری کرتا۔ یہ دن رات محنت کرتا، خوب کماتا لیکن اس کی ساری کمائی ماں باپ کے پاس چلی جاتی۔ یہ غریب خود پر کچھ نہیں خرچ کرتا۔ باپ اسی کی کمائی کے چند سکے اس کےسامںے پھینک دیتا اور یہ غریب اسی میں کھینچ تان کر گذارا کرتا۔ تینوں بھائیوں کے بچے اس کے پاس رہتے، اس کے ہاں پلتے۔ ان کی تعلیم، کھانا پینا، علاج معالجہ، سیر تفریح سب اس دوسرے بھائی کے پیسوں سے ہوتی۔ یہ بھائی کبھی بہت خوبصورت اورصحتمند ہوا کرتا تھا لیکن دن رات کی محنت اور مشقت سے اس کی کمر دوہری ہوگئی تھی۔ رنگ اڑگیا تھا، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقےپڑ گئے تھے۔ جس قدر لوگ بڑے بھائی کی تندرستی اور خوبصورتی کی تعریف کرتے، چھوٹے بھائی کی محنت اور قربانی کی نہ کوئی بات کرتا، نہ اس کا جائز حق دیتا، الٹا اس کی زبوں حالی کا مذاق اڑاتے۔
باقی دو چھوٹے بھائی بھی بس یوں ہی سے تھے۔ خود کچھ نہیں کرتے۔ ماں باپ کے آسرے پر رہتے۔ بچوں کو دوسرے نمبر والےبھائی کے سپرد کر رکھا تھا۔ سب سے بڑے کو تو اپنے علاوہ کسی کی فکر ہی نہیں تھی۔ دو نمبر والے کے بچے البتہ اس صورتحال سے ہمیشہ غیر مطمئن رہتے اور اکثر اپنے غم و غصہ کا اظہار بھی کرتے۔ بڑا بھائی نہ صرف ان کی سرزنش کرتا بلکہ موقع بہ موقع ان کی پٹائی بھی کردیتا۔
یہ صورتحال تھی جس میں یہ گھرانا پل رہا تھا۔ ظاہر ہے گھر میں ماحول اتنا خوشگوار نہ رہتا۔ ہر وقت تناؤ کی سی کیفیت رہتی۔ ایک دوسرے سے شکایتیں اور بدگمانیاں رہتیں۔ ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان دوسرے نمبر کے بھائی کا تھا اور اس کی تکلیف کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ سب سے بڑے کو اپنے کھانے پینے ، بننے سنورنے اور موج مستی کے علاوہ کسی کی فکر ہی نہیں تھی۔
ان بھائیوں اور اس گھرانے کی بات یوں یاد آئی کہ کچھ شہر بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ انسانوں کی طرح ان کی بھی طبیعتیں اور مزاج ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک میں بھی کچھ ایسے ہی شہر ہیں جنہوں نے اپنی صورت کو بگاڑ لیا لیکن دوسرے شہروں کے باشندوں کو اپنے اپنی آغوش میں پناہ دے رکھی ہے۔ برصغیر میں تین شہر بالکل اسی مزاج کے ہیں ۔ ایک تو اپنا کراچی ہے جو پورے ملک کی معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ دوسرے شہر اپنی ترقی کی تصویریں دکھا دکھا کر اس کی بدحالی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہندوستان میں کراچی کی کیفیت اور مزاج والے دو شہر ہیں۔ ایک تو بمبئی اور دوسرا کلکتہ۔
کلکتہ کی بات پھر کبھی کریں گے۔ بمبئی یا ممبئی البتہ ہر لحاظ سے کراچی کا بھائی لگتا ہے۔ یوں تو ہندوستان میں دہلی بھی ہے جو دارلحکومت ہونے کی وجہ سے سب سے بڑے بھائی کا درجہ پائے ہوئے ہے۔ کچھ اپنی عظمت گم گشتہ کی وجہ سے بھی اس کی اہمیت ہے۔ پھر لکھنؤ، حیدرآباد، بمبئی، چنئی، بنگلور ، چنڈی گڑھ جیسے شہر بھی ہیں ۔ لیکن کوئی اپنا شہر چھوڑ کر ان شہروں کا رخ نہیں کرتا بلکہ ان شہروں کے باسیوں کا رخ بھی بمبئی کی جانب ہی ہوتا ہے۔ بمبئی ان سب کو اپنے سینے میں چھپا لیتا ہے۔ بمبئی ان سب کا ان داتا ہے۔ کراچی کے پاس تو پھر بھی بہت سی زمین ہے۔ بمبئی غریب تو تین جانب سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ اسکے پاس تو زمین بھی بہت تھوڑی سی ہے لیکن اس تھوڑی سی زمین میں پورا ہندوستان آباد ہے۔ زمین کی تنگی اور آبادی کے پھیلاؤ نے اس شہر کا حلیہ ہی کچھ سے کچھ کر دیا ہے۔ یہاں جہاں ایک طرف بے تحاشہ پیسہ اور دولت ہے تو دوسری جانب بے انتہا غربت اور تنگ دستی بھی ہے۔ یہاں الٹا ماؤنٹ، ملابار ہلز، پوائی، تاردیو، بریچ کینڈی اور لوکھنڈوالا کمپاؤنڈ جیسے دولتمند اورخوشحال علاقے ہیں تو دوسری طرف دھاراوی جیسی بدنام زمانہ جھونپر پٹی والی آبادی بھی ہے اور کماٹی پورہ جیسے بدنام علاقے بھی ہیں جہاں زندگی اپنی بدترین صورت میں سانس لے رہی ہے۔
ممبئی اپنی فراخ دلی اور بے غرضی کی قیمت ادا کررہا ہے۔ وہ اگر دوسرے شہروں کے لوگوں کو اپںے سیںے میں نہ سمائے تو دنیا کےدولتمند اور خوبصورت ترین شہروں میں اس کا شمار ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کی جان اگر کسی طوطے میں ہے تو وہ ممبئی ہے۔ ممبئی جس کی بے تحاشا خصوصیات ہیں، ان گنت نشانیاں ہیں۔ ممبئی دولتمند ترین لوگوں کا شہر ہے لیکن یہاں انسانیت کو شرمانے والی طرز زندگی گذارنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی رہتی ہے۔
بمبئی کی پہچان کوئی ایک چیز نہیں۔ بمبئی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتا۔ یہاں زندگی کا پہئیہ ہر وقت رواںدواں رہتا ہے۔ یہ لاکھوں کروڑوں کا ان داتا ہے۔ اس ممبئی کی زندگی کی سب سے بڑی پہچان اس کی لوکل ٹرین ہے۔ آندھی آئے، طوفان آئے یا کوئی سی بھی انساںی یا غیر انسانی درگھٹنا آئے۔ یہ ٹرین بلا ناغہ اور اپنے وقت پر چلتی رہتی ہے۔ یہ ممبئی والوں کی جان ہے بلکہ ان کی زندگی کی پہچان ہے۔ یہ ٹرین لاکھوں لوگوں کی زندگی کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہ نہ صرف انہیں ان کے روزگار تک پہنچاتی ہے بلکہ کئی دوستیوں، رشتوں اور تعلقات کی بنیاد ان ٹرینوں میں پڑتی ہے۔ ان ٹرینوں کے مستقل مسافر اس سفر کےدوران تاش کھیلتے ہیں، گانے گاتے ہیں، آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔ عورتیں اس دوران سبزیاں وغیرہ کاٹ کر تیار کرلیتی ہیں۔ کچھ عورتیں سلائی بنائی وغیرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ یوں ان سب کو ممبئی کی مصروف زندگی میں فرصت کے چند لمحے میسر آجاتےہیں جو ان کی کل سماجی زندگی یعنی سوشل لائف ہوتی ہے۔ گھر پہنچ کر پھر وہی اگلے دن کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ یہ سفر ان کےفاضل وقت کا بہترین مصرف ہوتا ہے۔
اسی ٹرین سے جڑی ممبئی کی ایک اور حیرت انگیز پہچان، ممبئی کے ڈبا والا ہیں۔ ڈبا والا ، جن کے بارے میں بی بی سی، وائس آف امریکہ، نیشنل جیوگرافی وغیرہ نے کئی دستاویزی فلمیں بنائیں۔ انگلستان کے شہزادہ چارلس جن سے ملںے بنفس نفیس گئے تھے۔ ڈباوالا اپںی جگہ ایک منفرد موضوع ہیں جن پر کئی قلمکاروں نے طبع آزمائی کی ہے۔
ممبئی کی یہ ساری نشانیاں ایک دوسرے سے گندھی مندھی اور آپس میں جڑی ہوئی ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی وجہ سے ہی وجود میں آئی ہیں۔ ان سب کا نہ صرف آپس میں چولی دامن کا سمبندھ ہے بلکہ یہ سب ایک دوسرے کی ضرورت اور اٹوٹ انگ ہیں۔
مثلاً ممبئی کی اصل زندگی اور اس کی پہچان کبھی اس کی ملیں ہوا کرتی تھیں ۔ گر گاؤں یا گورے گاؤں، لوئر پاریل اور ممبئ کے صنعتی علاقے کبھی ہندوستان کا مانچسٹر کہلاتے تھے۔ ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی زندگی کی ڈور ان ملوں سے بندھی ہوئی تھی۔ یہ بھارت کی ترقی کا نشان تھیں۔ پھر سرمایہ داروں کی حرص اور لالچ، ملکی مفاد اور انسانی زندگیوں پر حاوی ہوتی چلی گئی۔ ملوں کےساتھ ہزار جھنجھٹ تھے۔ مزردور یونین، مزدوروں کے حقوق، آئے دن کی ہڑتالیں، تالا بندیاں وغیرہ ان کے لئے ایک درد سر تھیں۔ انہیں اپنا مفاد اور سکون اس میں نظر آیا کہ ان ملوں کو خیرباد کہیں اور ان کی جگہ بڑے بڑے شاپنگ مال اور پلازے کھڑےکردیں اور ہاتھ کے ہاتھ منافع کمالیں اور ساتھ ہی ہڑتال اور تالا بندی وغیرہ کے جھمیلوں سے جان چھڑالیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آجملوں کی تعداد ممبئی میں اتنی نہیں جتنی کبھی پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہوا کرتی تھی۔
انہی ملوں کی وجہ سے ہندوستان کے گوشے گوشے سے ہنرمند اور محنت کش ممبئی کا رخ کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے دھاراوی جیسی کچی آبادیاں اور چالیں (Chawls) وجود میں آئیں اور یہی چال ہمارا آج کا موضوع ہیں لیکن ان پر بات کچھ دیر بعد کرتےہیں۔
آبادی کے اس بے تحاشہ دباؤ نے جہاں کئی معاشرتی اور معاشی مسائل کو جنم دیا وہیں ان آبادیوں میں طرح طرح کے جرائم پنپنے لگے۔ ممبئی کی ایک پہچان اس کی زیر زمین دنیا یعنی انڈر ورلڈ بن گئی۔ طرح طرح کے گروہ اور مافیا ممبئی پر راج کرنے لگے۔ یہ ممبئ کے بے تاج بادشاہ تھے اور آج بھی ہیں۔ اسمگلنگ، ٹارگٹ کلنگ، غیر قانونی جوے، قحبہ خانے، دیسی شراب کے اڈے، سٹہ بازی ( مٹکا) اغوا برائے تاوان اور بے شمار الٹے سیدھے دھندوں اور کاروباروں کی سرپرستی اور ان سب پر مستزاد ان جرائم پیشہ لوگوں کی آپس کی چپقلش جس کا نشانہ ممبئی کا امن وسکون اور عام زندگی بنتے ہیں۔ یہ بدمعاش اور ڈان جو “ بھائی” اور “ استاد” وغیرہ کہلاتے ہیں فلم والوں کا محبوب موضوع ہیں اور حاجی مستان، داؤد سیٹھ، چھوٹا راجن ، اور کریم لالہ جیسے نام دیومالائی کرداروں کا درجہ پاتے ہیں۔ ان کا ایک خاص طرز زندگی اور انداز گفتگو ہوتا ہے جو “ ٹپوری” زبان کہلاتی ہے اور جب یہ مشہوراداکاروں کی زبان سے ادا ہوتی ہے تو نئی نسل اس میں ایک خاص کشش پاتی ہے۔
جہاں جرم ہے وہاں قانون بھی ہم قدم ہوتا ہے۔ ممبئی پولیس کئی حوالوں سے مشہور اور نیک نام ہے تو اپنی رشوت ستانی، ماورائے عدالت کاروائیوں، گینگ وار، مجرموں کی سرپرستی، بھتہ خوری کے واقعات بھی زبان زد عام رہتے ہیں اور عوام الناس میں دیا نائیک، پردیپ شرما، وجے سلاسکر، سچن وازے، روندرناتھ انگرے جیسے نام بھی گردش کرتے رہتے ہیں جن میں سے کچھ اچھی تو کچھ بری شہرت کا حامل ہوتے ہیں۔
ممبئی کی پہچان جہاں اس کی لوکل ٹرین، ڈبا والا، جھونپڑ پٹی، ملیں اور کارخانے، انڈر ورلڈ اور ممبئی پولیس ہے وہیں بالی ووڈ بھیپوری دنیا میں بھارت کی پہچان ہے۔ اور شاید یہی بالی ووڈ یعنی ممبئ کی فلمی دنیا ہی ہے جس نے برصغیر کے تمام اہل فن کو ممبئی میں اکٹھا کرلیا ہے اور برصغیر پاک و ہند میں شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں شعر وادب، موسیقی، گلوکاری اور اداکاری کے اتنے بڑےبلکہ سب سے بڑے اور مشہور ناموں کا مسکن بنا۔ چنانچہ حیرت نہیں ہوتی جب منٹو جیسا ادیب اپنی زندگی کے بیشتر سال یہاں گذارتا ہے اور قرت العین حیدر جیسی لکھنؤ، امروہہ ، علی گڑھ اور دہرہ دون میں شاہانہ انداز میں پلنے والی ادیبہ کا آخری وقت یہاںگذرتا ہے اور عصمت چغتائی اور کرشن چندر جیسے ادیب یہاں آخری سانس لیتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی، ماہر القادری، بہزاد لکھنوی جیسے شاعر یہاں کی فلموں کے لئے گیت لکھتے ہیں ساتھ ہی شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی،شیلندر، جاں نثار اختر، مجاز لکھنوی، گلزار، جاوید اختر جیسے شاعروں نے فلموں کے لیے اس معیار کی شاعری کی ہے جو مجھے یقین ہے اگلی نسلوں کے لیے اساتذہ کے کلام کا درجہ پائے گی۔
یہیں برصغیر کے کونے کونے سے فنکاروں نے آکر نام کمایا لیکن سب سے زیادہ مشہور پشاور، پنجاب اور بنگال کے فنکار ہوئے۔ پھر اس ممبئی کے اپنے فنکار تو تھے ہی بھلا انہیں پذیرائی کیوں نہیں ملتی۔ یہ ممبئی کی فلمی دنیا ہے جس میں محمد رفیع، لتا منگیشکر،نورجہاں، شمشاد بیگم، آشا بھوسلے، طلعت محمود، مکیش، کشور کمار، مناڈے، ہیمنت کمار، مہندر کپور اور بے شمار سریلی آوازوں کا تحفہ دنیا کو دیا اور یہی ممبئی کا نگارستان ہے جس نے دلیپ کمار، راج کپور، اشوک کمار، دیوآنند، امیتابھ بچن، نصیرالدین شاہ،نرگس، مدھو بالا، مینا کماری، وحیدہ رحمان، سائرہ بانو، شرمیلا ٹیگور، جیہ بھادری جیسے دس بیس نہیں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں فنکاروں کوشہرت دی۔
فلموں کے علاوہ ممبئی کی ایک شہرت کرکٹ بھی ہے۔ ممبئی کا نام اگر وکٹوریہ ٹرمینس، جو ہو، چوپاٹی کی وجہ سے مشہور ہے تو وہیںبرائبورن اسٹیڈیم اور وینکھیڈے اسٹیڈیم نے کرکٹ کی دنیا کے سب سے بڑے بیٹسمین سچن ٹنڈولکر کے علاوہ سنیل گواسکر، دلیپوینگسارکر، روہت شرما، سنجے منجریکر اور بے شمار بڑے نام نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کو دئیے۔
ممبئی کی زندگی کی لڑی ان سب باتوں سے جڑی ہے تو یہی ممبئی مختلف تہذیبوں اور مذاہب کی آماجگاہ بھی ہے۔ پارسی برادری کی سب سے بڑی تعداد ممبئی میں رہتی ہے۔ ان کی اپںی کالونیاں ہیں اور ایک مخصوص طرز زندگی اور زبان ہے۔ یہ ممبئی کی سماجی زندگی کا ایک بہت خوبصورت حصہ ہیں تو دوسری طرف ممبئی بوہری برادری کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بوہری بھیاسی ممبئی میں بستے ہیں اور ان کے کاروبار چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ بوہری باورچی سے کھانا پکوانا اعلا طبقے کی شان سمجھا جاتا ہے۔ پھر اسی ممبئی میں باندرہ، بائیکلا، واکولا جیسے علاقے ہیں جہاں کرسچنوں کی بڑی تعداد رہتی ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت چرچ ممبئی کی سماجی زندگی کی فراخ دلی کا مظہر ہے۔
پھر ممبئی تو ہے ہی مراٹھوں کا۔ ان کی آبادیاں تو ظاہر ہے ہر جگہ ہی ہونگی۔ ماٹونگا، سائن، اندھیری، چیمبور، پریل ، ورسوا، اورنجانے کتنی آبادیاں ہیں جہاں گنیش چترتی،گنپتی، جنم اشٹمی،، دیوالی، دسہرہ، ہولی، نوراتری، شیور اتری، وغیرہ کے تہوار اپنا رنگ جماتے ہیں اور “گووندا آلا رے “ کی دھن پر نوجوان رقص کرتے ہیں اور انسانی مینار بنا کر دہی کی مٹکی پھوڑتے ہیں۔
یہ سب تو اپنی جگہ لیکن ممبئ کی اصل رونق اگر کوئی ہیں تو وہ ہیں اپنے میاں بھائی۔ یہ ان کے علاقے محمدعلی روڈ، بھنڈی بازار، نلبازار، ناگپاڑہ وغیرہ ہیں جو ممبئی والوں کی تمام تر دلچسپیوں کا مرکز ہیں ۔ یہاں رمضان میں زندگی چوبیس گھنٹے جاگتی ہے۔ افطار سےلے کر سحر تک طرح طرح کے کھانوں کی دکانوں کے سامنے مجمع دیکھ کر صحیح معنوں میں کھوے سے کھوا چلنے کے معنی سمجھ آتے ہیں۔ یہاں کے گلشن ایران، دہلی دربار قسم کے ریسٹورنٹ، یہاں کی بھیل پوری، پانی پوری، چنا چاٹ، پاؤبھاجی، حلیم، نہاری، اور طرح طرح کے کباب کیا مسلم اور کیا غیر مسلم، سب ہی کے کام و دہن کو شاد کرتے ہیں۔
ممبئی کی نشانیوں میں جو ہو، وکٹوریہ ٹرمینس وغیرہ تو ہیں ہی لیکن ایک بڑی نشانی “حاجی علی” کی درگاہ بھی ہے۔ سمندر کے بیچ یہ مزارمرجع خلائق ہے لیکن میں ایک اور بہت بڑی نشانی کا ذکر کرنا بھول گیا اور وہ ہے ممبئی کا “ دھوبی گھاٹ”۔ اس دھوبی گھاٹ کی اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب ہے اور یہ بھی ممبئی کے ڈبا والا کی طرح ایک عجوبہ ہے جو کئی فلموں کا موضوع بھی رہ چکا ہے۔
ممبئی والے اپنے ہاپوس آم ( الفانسو) پر فخر کرتے ہیں اور اسے کنگ آف مینگوز یعنی آموں کا بادشاہ قراد دیتے ہیں ( لیکن میں اسےنہیں مانتا۔ ہمارے چونسا اور لنگڑا کے سامنے یہ بادشاہ کچھ بھی نہیں۔ یہ میرا ماننا ہے)۔ البتہ، ممبئی کے کیلے کو میں دنیا میں ایک نمبرمانتا ہوں۔ یہاں کے جیسا خوش رنگ، خوشبودار اور خوش ذائقہ کیلا دنیا میں کہیں نہیں اور جب اسے ٹوکرا سر پر اٹھائے طرح دارگھاٹن سے خریدیں تو اس کا لطف کچھ اور ہی ہوتا۔ اور یہی گھاٹنیں بڑے دبنگ انداز میں مچھلی، بیلے کے گجرے اور سبزی فروخت کرتی نظر آتی ہیں اور یہ بھی ممبئی کے لینڈ سکیپ کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔
گھاٹنوں نے یاد دلایا کہ “ آنٹی کا اڈا” بھی اپنے ممبئی کی ایک سوغات ہے جہاں شوقین حضرات “ موسمبی، نوٹاک اور رم” سے ایک گونہ بے خودی حاصل کرتے ہیں بلکہ کہیں کہیں کسی روزی یا مارگریٹ کے رقص سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی ممبئی میں کماٹی پورہ اور فرس روڈ بھی ہیں جنہیں کچھ ستم ظریف بازار حسن بھی کہتے ہیں جہاں حسن دوا میں ڈالنے جتنا بھی نظر نہیں آتا کہان کی اپنی ایک بہت ہی دُکھی زندگی ہے اور اس کا تعلق حسن و عشق سے نہیں بلکہ پیٹ کی بھوک سے ہے۔
یہ ساری باتیں ایک طرف لیکن اگر ممبئی کی زندگی کو اس کی اصل اور مکمل شکل میں دیکھنا ہو تو ہمیں “چال “کی زندگی میں جھانکنا ہو گا۔ یہ چال ممبئی کی تہذیب، اس کی سوچ اور اس کی زندگی کی آئینہ دار ہے۔
یہ تو سب جانتے ہی ہیں کہ چال مکانوں کے اس انداز تعمیر کو کہتے ہیں جن میں ایک دو یا تین منزلہ عمارت میں کئی مکانات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جو ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان ایک، ڈیڑھ یا دو کمروں میں دادا، دادی سے لے کرپوتا پوتی تک ایک ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں ماں باپ کے ساتھ کئی شادی شدہ بھائی بھی رہتے ہیں اور یہیں مزیدافراد خاندان جنم بھی لیتے رہتے ہیں۔ ان گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں اور ان گھروں کے مکینوں کے دل بھی کھلے اور آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ اسی ایک، ڈیڑھ یا دو کمرے کے ایک حصہ میں باورچی خانہ بھی ہوتا ہے تو ایک کونے میں چھوٹی سی دیوار اٹھا کر اور اس پر مٹکے اور گھڑے رکھ کر غسل خانہ بنایا جاتا ہے جہاں نہ صرف نہایا جاتاہے بلکہ “چھوٹی” حاجات ضرور یہ بھی پوری کی جاتی ہیں۔ پچاس ساٹھ مکانوں کے لئے چار یا پانچ بیت الخلا ہوتے ہیں جہاں “ حاجت مند” مرد وزن قطار لگائے، بے چین کھڑے نظر آتے ہیں۔
یقیناً یہ ایک سخت اور مشکل طرز زندگی ہے لیکن یہی زندگی یہاں کے رہنے والوں کو مضبوط بناتی ہے۔ انہیں مشکل حالات اور باد مخالف سے لڑنا سکھاتی ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے دکھوں اور غموں کا علم اور احساس ہوتا ہے اور یہی احساس انہیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے۔ ان چالوں کے پاس بہت تھوڑی سی زمین ہوتی ہے اور سر پر بہت چھوٹا سا آسمان ہوتا ہے لیکن یہ چھوٹی سی دنیا ان کے لیے ایک مکمل دنیا ہوتی ہے۔ اور یہی ممبئی کی نمائندہ زندگی ہے کہ دکھ، تکلیف اور پریشانی کے باوجود ہنستے بولتے ، مل جل کر، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر زندگی گذارنا۔
ان مکینوں کے دکھ اور خوشیاں ایک جیسے ہوتے ہیں جنہیں یہ مل جل کر ہی جھیلتے ہیں۔ ان میں کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ یہی انمیں آپس میں محبت ڈالتا ہے تو یہی کئی ناچاقیوں کی بناء بھی ہوتا ہے۔ ان میں کوئی پردہ نہیں ہوتا نہ ان کی عورتیں ضرورت پڑنے پرپڑوس سے ایک پیالی چیںی یا پیاز وغیرہ مانگنے سے شرماتی ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے ہاتھ کے ذائقے کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی جانتی ہیں کہ کس گھر میں کون کس چیز کو شوق سے کھاتا ہے اور ایک پیالہ یا ڈونگا زیادہ اس پڑوسی کے لیے بھی بنایا جاتا ہے۔ یہاں مائی ںاگر کام پر جاتی ہیں تو ان کے بچے بے فکری سے گھر پر رہ سکتے ہیں کہ آس پڑوس والے ان پر نظر رکھنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ میں کم از کم چار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو خلیجی ممالک یا امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں رہتے ہیں اور ان کی بوڑھی مائیں تنہا ان چالوںمیں رہتی ہیں جہاں آس پڑوس والے انہیں اولاد سے دوری کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ اور یہ ہے ممبئی کی اصل زندگی اوراسپرٹ جسے بیان کرنے کے لئے میں نے یہ لمبی چوڑی تمہید باندھی ہے۔
ان کی اپنی ایک دنیا ہے جس میں زندگی کے ہر رنگ سے یہ اپنی خوشیاں کشید کرتے ہیں۔ ان گھروں کی طویل گیلری ( یا بالکونی) مشترکہ ہوتی ہے۔ یہیں کہیں بیٹھ کر یہاں کے مرد فرصت کے اوقات میں تاش کی بازی جمائے ہوتے ہیں تو کوئی شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھا ہوتا ہے تو کہیں کیرم کی بازی جمی ہوتی ہے۔ یہیں کہیں بیٹھ کر یہ کرکٹ میچ کی کمنٹری سنتے ہیں اور انڈیا کی جیت پرجشن مناتے ہیں۔ اگر کسی چال میں چھوٹا سا کمپاؤنڈ میسر ہو تو یہاں لڑکے بالے نہ صرف کرکٹ کے میچ کھیل رہے ہوتے ہیں بلکہ بالکونیوں میں لٹکے تماشائی انہیں داد دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی نوخیز لڑکیاں پہل دوج کھیلتی ہیں یا رسی کودتی نظر آتی ہیں اور یہیںدلوں کے سودے بھی ہوتے ہیں ۔ انہی کمروں اور کمپاؤنڈ وں میں شادی بیاہ بھی ہوتے ہیں۔اور یہیں سب مل کر اپنے پیاروں کیآخری رسومات انجام دیتے ہیں۔ ان میں ایک عجیب طرح کی مذہبی یگانگت نظر آتی ہے۔ یہاں سب مل کر ہولی کھیلتے ہیں ، دیوالی کے دئیے جلاتے ہیں، پٹاخے پھوڑتے ہیں اور کمپاؤنڈ میں کھیلے جانے والے رام لیلا میں ہندو، مسلم، پارسی ، کرسچن سب حصہ لے رہے ہوتے ہیں تو عید کے دن ہندو اپنے مسلمان پڑوسی کے گھر سے شیرخورمہ پینا نہیں بھولتے۔
یہ چال ممبئی کی مکمل تصویر ہے۔ ہر وقت رواں دواں رہنے والی زندگی کی تصویر۔ دکھ درد ، تکلیفوں اور مشکلات کے باوجود ہنسنےبولنے والی زندگی کی تصویر۔ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھتے رہنے کی تصویر اور ایک دوسرے سے لڑتے رہنے اورلڑ کر ملتے رہنے کی تصویر۔ ممبئی کی یہ تصویر نہ ہوتی تو آج ممبئی بھی نہ ہوتا جہاں اس قدر بڑی تعداد میں اتنے سارے اور اتنی مختلف ذاتوں، عقیدوں اور زبانوں کے لوگ رہتے ہوں۔
اور یقین جانئیے یہی ممبئ کی سب سے خوبصورت پہچان ہے۔ یہی سب سے دل آویز تصویر ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...