1798ء میں ماضی کا ایک گمنام انگریز پادری تھامس رابرٹ مالتھس نے ایک مختصر مگر نہایت موثر کتاب "معاشرے کی مستقبل کی پیش رفت پر اثرانداز ہونے کے تناظر میں قانونِ آبادی پر ایک مضمون" شائع کی۔
مالتھس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ آبادی کی بڑھوتری وسائل کی بڑھوتری کی نسبت سریع الرفتار ہوتی ہے۔ اس اہم مضمون میں مالتھس نے یہ نظریہ واضح طور پر غیر لچک پزیر انداز میں پیش کیا اور کہا کہ آبادی میں اضافہ علم ہندسہ کے اصول کے مطابق ہوتا ہے، (جیسے اعداد کا یہ سلسلہ (……..1,2,4,8,16 ) جبکہ خوارک کی رسد میں اضافہ حسابی طریقے سے ہوتا ہے۔ (جیسے اعداد کا یہ سلسلہ کہ ،……. 1،2،3،4 ) اس بے بعد ازاں کتاب میں اضافے کیے جن میں مالتھس نے قدرے معتدل انداز میں اسی نظریہ کو بیان کیا اور کہا کہ آبادی میں اضافہ غیر متعین انداز میں ہوتا ہے حتیٰ کہ خوراک کی رسد کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس نظریہ کی دونوں صورتوں سے مالتھس نے یہ نتیجہ مستنبط کیا کہ انسانوں کی اکثریت کی قسمت میں مفلسی اور فاقہ کشی لکھی گئی ہے۔ مجموعی طور پر ٹیکنالوجی میں کوئی پیش رفت اس نتیجہ کو بدل نہیں سکتی۔ کیونکہ خوراک کی رسد اضافہ ناگزیر طور پر محدود ہے جبکہ آبادی کی طاقت زمین کی طاقت سے، جو انسان کے لیے خوراک پیدا کرتی ہے، کہیں زیادہ ہے۔
کیا کسی طریقے سے آبادی میں اضافہ پر روک نہیں لگائی جاسکتی؟ بے شک ایسا ممکن ہے۔ جنگ، وبا یا دیگر فطری آفات، مسلسل آبادی میں تخفیف کرتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ آفات آبادی میں اضافے کے امکان میں عارضی التواء ہی پیدا کرپاتی ہیں اور پھر کہیں ہولناک قیمت پر ۔۔۔۔۔۔ مالتھس نے تجویز کیا کہ آبادی میں اضافے کو روکنے کا ایک طریقہ اخلاقی بندش بھی ہے، جس سے اس کی مراد بڑی عمر کی شادی، کنوار پنے میں تحفظ عصمت اور ازواجی مباشرت کے عمل میں کمی جیسی تدابیر کا ملغوبہ تھی۔ مالتھس نے حقیقت پسندی کے ساتھ محسوس کیا کہ بیشتر لوگ ایسی بندش کو قبول نہیں کریں گے۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ عملی طور پر آبادی میں اضافہ ناگزیر ہے اور یہ کہ غربت بیشتر نوع انسانی کے لیے ایک ناقابلِ مفر مقدر ہے۔ بے شک یہ ایک مایوسانہ نتیجہ ہے۔
اگرچہ مالتھس نے خود مانع حمل طریقوں سے آبادی کم کرنے کی تجویز کی کبھی حمایت نہیں کی، لیکن ایسی حکمت عملی کو تجویز کرنا۔ اس کے بنیادی نظریہ کا ایک قدرتی نتیجہ تھا۔ پہلا آدمی جس نے عوامی سطح پر آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے دفع حمل تدابیر کے عام استعمال کی حمایت کی تھی، وہ بااثر برطانوی مصلح فرانسس پلیس (1771ء – 1854ء) تھا۔ پلیس نے مالتھس کا مضمون پڑھا اور اس سے ازحد متاثر بھی ہوا۔ اس نے 1822ء میں مانع حمل تدابیر کی حمایت میں ایک کتاب لکھی۔ اس نے محنت کش طبقہ میں خبط تولید کے متعلق معلومات کو عام کیا۔ امریکہ میں ڈاکٹر چارلس نولٹن نے دفع حمل ادویات پر 1832ء میں ایک کتاب تحریر کی۔ 1860ء کی دہائی میں اولین "مجلس ہم نواہاں ومالتھس" تشکیل پائی۔ جبکہ خاندانی منصوبہ بندی کے حامیوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔ اگرچہ خود لالتھس نے اخلاقی بنیادوں پر دفع حمل تدابیر اختیار کرنے کی حمایت نہیں کی تھی۔ لہٰذا مانع حمل تدابیر کے حامیوں کو "نیو ماتھوسی" کہا جاتا ہے۔
مالتھس کے نظریہ نے معاشی نظریہ کو بھی متاثر کیا۔ مالتھس سے متاثرہ معیشت دان اس نتیجہ پر پہنچے کہ عام حالات میں کثرتِ آبادی اجرتوں کو عام روز مرہ معاش سے بڑھنے نہیں دیتی۔ معروف انگریز دان ڈیوڈ ریکارڈو (جو مالتھس کا قریبی دوست بھی تھا۔) لکھتا ہے "محنت کی فطری اجرت وہ اجرت ہے جو محنت کشوں کو ایک دوسرے سے مل کر ختم ہوئے یا بڑھے بغیر اپنی نسل کے لیے روزی کمانے اور اسے باقی رکھنے کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہے۔" اس نظریہ کو عموماً اجرتوں کے آئینی قوانین" کہا جاتا ہے۔ اسے کارل مارکس نے قبول کیا اور اس کے (قدر و زائد) کے نظریہ کا ایک اہم جزو بن گیا۔
مالتھس کے نظریات نے حیاتیات (Biology) کے علم پر بھی اپنے اثرات چھوڑے۔ چارلس ڈارون نے "قانون آبادی پر ایک مضمون" پڑھا تھا۔ جس سے اسے فطری انتخاب کے ذریعے ہونے والے ارتقاء کے نظریہ کی نئی تفہیم ہوئی۔
مالتھس 1766ء میں انگلستان میں ڈورکنگ کے نزدیک "سرے" میں پیدا ہوا۔ اس نے کیمرج یونیورسٹی کا یسوعی (Jesus) کالج میں داخلہ لیا، وہ ایک ہونہار طالبعلم تھا۔ 1788ء میں اس نے گریجویشن کی۔ اسی برس وہ "انگلیائی" پادری بن گیا۔ 1791ء میں اس نے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1793ء میں وہ یسوعی کالج کا رکن بن گیا۔
اس کی معروف کتاب کی اشاعت اول اس کے نام کے بغیر شائع ہوئی۔ لیکن جلد ہی یہ عام ہوئی اور مالتھس مشہور ہوگیا۔ یہی مضمون مفصل صورت میں پانچ سال بعد 1803ء میں شائع ہوا۔ کتاب میں بار بار اضافے ہوئے۔ 1826ء میں یہ چھٹی بار شائع ہوئی۔
1804ء میں مالتھس کی شادی ہوئی، جب اس کی عمر اڑتیس برس تھی۔ 1805ء میں وہ "پیلے بری" میں ایسٹ انڈیا کمپنیز کالج میں تاریخ اور سیاسی معاشیات پڑھانے پر مامور ہوا۔ اس عہدے پر وہ تاحیات فائز رہا۔ مالتھس نے معاشیات پر متعدد دیگر کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سب سے اہم کتاب "سیاسی معاشیات کے اصول" 1820ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب نے بعد کے کئی معیشت دانوں کو بالخصوص بیسویں صدی کی معروف شخصیت جان مینارڈ کینز کو بہت متاثر کیا۔ بعد کی عمر میں مالتھس کو متعدد اعزازات ملے۔ اس کے تین میں سے دو بچے زندہ رہے۔ تاہم اس سے آگے اس کی نسل نہیں بڑھی۔
مالتھس کی وفات کے کئی برس بعد بھی مانع حمل تدابیر کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ جس سے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ ایک متاثر کن شخصیت نہیں تھا۔ میرے خیال میں یہ نقطہ غلط ہے، اول مالتھس کے نظریات نے ڈارون اور کارل مارکس دونوں کو متاثر کیا۔ یہ دونوں انیسویں صدی کے نہایت ممتاز مفکر ہیں۔ دوئم یہ کہ اگرچہ، نیو مالتھسی، مکتبہ فکر کی پالیسیوں کو عوام کی اکثریت نے فوری طور پر قبول نہیں کیا تھا، لیکن ان کی تجاویز کو نظر انداز نہیں کیا گیا تھا اور ان کے خیالات فنا نہیں ہوئے۔ موجودہ خاندانی منصوبہ بندی کی مہم مالتھس کی اپنی زندگی میں جاری ہونے والی مہم کی ہی ایک توسیع ہے۔
تھامس مالتھس پہلا آدمی نہیں تھا جس نے اس امکان کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی کہ منظم ملکوں کو کثرتِ آبادی سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ماضی میں بھی ایسے متعدد نظریات پیش کیے جاچکے تھے۔ مالتھس نے خود نشاندہی کی کہ افلاطون اور ارسطو نے اس مسئلہ پر بحث کی تھی۔ اس نے ارسطو کا حوالہ بھی دیا تھا کہ "اگر ریاستوں کی آبادی میں ہر شخص کو حسبِ منشاء بچے پیدا کرنے کی آزادی دے دی گئی تو اس کا ناگزیر نتیجہ مفلسی کی صورت میں نکلے گا۔
لیکن اگر مالتھس کا بنیادی نظریہ خود اس کا اختراع کردہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس کی اہمیت میں کمی نہیں آتی۔ افلاطون اور ارسطو نے یہ خیال روا روی میں بیان کیا ہے جبکہ اس موضوع پر ان کی آراء عموماً نظر انداز کیا گیا۔ مالتھس نے ہی اسے واضح کیا۔ تفصیل سے اس پر لکھا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مالتھس ہی وہ پہلا آدمی تھا، جس نے کثرتِ آبادی کے مسئلہ کی اہمیت پر زور دیا اور اس مسئلہ کو اہل الرائے کے دائرہ توجہ میں داخل کیا۔
نوٹ:
یہ تحریر فیس بُک گروپ "عالمی ادب کے اردو تراجم" کے لیے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کی کتاب " Hundred most influential persons in History" سے لی گئی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "سو عظیم آدمی" کے نام سے محمد عاصم بٹ نے کیا اور اسے تخلیقات لاہور نے شائع کیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...