انگریزی کے عظیم شاعر اور ناول نگار ٹامس ہارڈی نے مرنے سے پہلے ایک عجیب وصیت کی تھی۔ ہارڈی کے انتقال کے بعد جب یہ وصیت منشہء شہود پر آئی تو ادبی دنیا کے ساتھ ساتھ دوسرے حلقے بھی انگشتِ بدنداں رہ گئے۔ وصیت کے مطابق ہارڈی کے مردہ جسم سے دل نکال کر اس کی محبوب بیوی ایما کی قبر میں ایما کے ساتھ دفن کر دیا گیا اور عیسائی ہونے کے باوجود ہارڈی کے جسم کو وصیت کے مطابق جلا دیا گیا اور اس کی راکھ کو ویسٹ منسٹر ایبے لندن کے مشہور شہرِ خموشاں کے poet`s corner میں سپرد خاک کیاگیا۔
88 سالہ بھرپور عمر گزارنے والے ہارڈی جس کو دنیا ایک نامور ناول نگار کے نام سے جانتی ہے اپنے آپ کو بنیادی طور پر ایک شاعر سمجھتا تھا۔ہارڈی رومانوی ناول نگار اور شاعر نہیں تھا لیکن رومانوی ادبی تحریک سے متاثر ضرور رہا۔ ہارڈی کو شیلے اور بائرن والی زوردار رومانویت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ابتدائی زندگی میں اس نے ورڈزورتھ کی فطری شاعری سے تاثیر حاصل کی۔ہارڈی نے اپنی تحریروں میں نیچر کو رومانوی انداز میں پیش کرنے کی بجائے اس کے منفی اثرات کو اجاگر کیے رکھا۔ ہارڈی نظریہ جبریت کا قائل تھا۔اس کے کردار فطری طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے رہتے ہیں۔ Tess ہو یا Eustacia ، نیچر نے دونوں کے خوب لتے لیے لیکن مجال ہے کہ خوبصورتی کی ان دیویوں کی مدد کے لیے کوئی فطری مدد اتری ہو۔Tess جیسی معصوم لڑکی بھی تقدیر کے کوڑوں سے نہ بچ سکی۔ تقدیر کے جبر کو دیکھ کر انشا کا مشہور شعر یاد آتا ہے
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں
ہارڈی کے ناولوں میں ایک خاموش قسم کی اداسی، تاریکی، غم، پراسراریت اور دکھوں کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ ہارڈی کی دنیا دکھوں کا ایک مسلسل سلسلہ ہے۔ یہاں زندگی دراصل ایک درد بھرا ڈرامہ ہے اور خوشی اس ٹریجک ڈرامے میں ایک وقتی قصہ ہوتی ہے۔ موت ہر لحظہ زندگی پر غلبہ رکھتی ہے۔ جیسے ضیا قریشی نے بڑے خوبصورت انداز میں کہا تھا
زندگی کے نگار خانے میں
موت کا اہتمام زیادہ ہے
کتنی عجیب بات ہے کی چودہ یادگارناول اور آٹھ سو سے زائد نظموں کا خالق ادب کا نوبل پرائز حاصل نہ کر سکا۔ لیکن اس پرائز کا نہ ملنا اس عظیم رائٹر کی عظمت میں کمی پیدا نہیں کر دیتا۔عہد وکٹوریہ کے اس عظیم ناول نگار کو دنیا چھوڑے نوے سال ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناول نگار ہے۔