وزیراعظم پاکستان نے پڑوسی ملک کے دورے کی دعوت قبول کی ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے اسے متنازع بنایا جا رہا ہے۔ یہی آج کی تحریرکا موضوع ہونا تھا اور یہ بھی عرض کرنا تھا کہ یہ جو خبریں لگ رہی ہیں کہ 64 فیصد پاکستانیوں نے بھارت جانے کی مخالفت کی ہے تو ان خبروں کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن کل شام کو دارالحکومت میں رہنے والے ایک نوجوان نے اپنے ساتھ ہونے والے جس واقعہ کا ذکر کیا‘ اُسے سننے کے بعد آہ و فغاں کے مقامات تبدیل ہو گئے ہیں!
یہ نوجوان جو آئی ٹی کا ماہر ہے اور جسے اُس کے بقول اس کے اساتذہ نے نصیحت کی تھی کہ بیرونِ ملک نہ سدھارنا اور اپنے وطن کی خدمت کرنا اور جس نے اس نصیحت کو قبول کر لیا تھا‘ دو دن پہلے ایک بازار میں کام سے گیا۔ ابھی اس نے اپنی ’’مڈل کلاس‘‘ گاڑی پارک ہی کی تھی کہ بھرے بازار میں ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی۔ اس نے نوجوان سے کہا کہ یہاں سے گاڑی ہٹائو۔ نوجوان نے پوچھا‘ کیوں؟ اس پر مخصوص لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے اپنی کلاشنکوف پر ہاتھ پھیرا اورکہا ’’ اس لیے کہ یہاں میں اپنی گاڑی کھڑی کروں گا ‘‘۔ اس کا جو انداز تھا اور جو تیور تھے‘ انہیں دیکھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے اپنی گاڑی وہاں سے ہٹا لی۔ شام کو گھر واپس آ کر وہ اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھ گیا اور اس وسیع و عریض دنیا کوکھولا جو پاکستان سے باہر ہے‘ جہاں کوئی مسلح شخص کسی دارالحکومت میں غنڈہ گردی نہیں کر سکتا اور جہاں آئی ٹی کے ماہرین ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ اس نے قسم اٹھائی کہ وہ اس ملک میں نہیں رہے گا اور اس وسیع و عریض دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اپنا ٹھکانا ڈھونڈ لے گا ! انا للہ وانا الیہ راجعون !
یہ دارالحکومت کے اس بازار کا حال ہے جو وزیراعظم کے تزک و احتشام والے مغل سٹائل کے دفتر سے زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ ع قیاس کُن ز گلستانِ من بہارِ مرا ۔ ان علاقوں کا سوچیے جو دارالحکومت سے باہر ہیں !
یہی ملک تھا جو ضیاء الحق کے ’’ جہادِ ‘‘ افغانستان سے پہلے پُرامن بھی تھا ‘ مہذب بھی اور اسلحہ سے بھی پاک تھا۔ پھر اس آمر نے‘ جس کا فہمِ دین‘ گائوں کے نیم خواندہ ملا کے فہمِ دین سے زیادہ نہیں تھا ‘ اس ملک کو دوسروں کی جنگ میں جھونک دیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد عملی طور پر ختم ہو گئی۔ جس سرحد کی حفاظت کے لیے آمر نے حلف اٹھایا تھا‘ اسی کو پامال کیا اور اپنا مقدس وطن دنیا بھرکے بھگوڑوں کے لیے کھول دیا۔ ایک طرف اسلحہ اور منشیات ملک کے گوشے گوشے میں پہنچ گئیں‘ دوسری طرف ڈالروں سے وہ وارے
نیارے ہوئے کہ ’’سرکاری ملازموں‘‘ کی اولاد صنعت کار ہونے کے دعوے کرنے لگی، صرف اور صرف دولت کی بنیاد پر اسمبلیوں میں داخل ہو گئی اورکچھ تو وزارتِ عظمیٰ کے بھی خواب دیکھنے لگ گئے!
آج صورتِ حال یہ ہے کہ پورے ایشیا میں اتنا اسلحہ نہیں جتنا اس ایک ملک میں ہے۔ ایک مخصوص لسانی گروہ کے مسلح افراد پورے ملک پر عملی طور پر قابض ہیں ۔کیا حکومت اورکیا حکومت کی پولیس ، کوئی بھی ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اخبارات دہائی دے دے کر تھک گئے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے فلاں فلاں علاقے مکمل لاقانونیت کا شکار ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ اس لیے کہ ایلیٹ فورس کے ہزاروں نوجوان ان بے حس حکمرانوں اور ان کے اہل و عیال کی حفاظت پر مامور ہیں‘ خود صوبائی دارالحکومت غیر ملکیوں کے حصار میں ہے۔ پوری پوری آبادیوں میں مقامی لوگ نظر نہیں آتے۔ کیا ’’ وژن ‘‘ ہے ! کیا ’’ دوراندیشی ‘‘ ہے اور کیا ’’ منصوبہ بندی ‘‘ ہے !
اگر پاکستان کو مہذب دنیا کا حصہ تسلیم کر لیا جائے تو ایک بات یقینی ہے۔ یہ مہذب دنیا کا واحد ملک ہے جس کے حکمران ملک کو ڈاکوئوں کے سپرد کر چکے ہیں اور بسوں اور ٹرینوں کے عالی شان منصوبوں کی فکر میں ہیں۔ جس حکمران کی صلاحیتوں اور اعلیٰ انتظامی کارکردگی کی تعریفیں چین‘ ترکی اور برطانیہ میں کی یا کرائی جا رہی ہیں اس کے زیر انتظام صوبے کے بارے میں صرف ایک دن کی خبریں ملاحظہ کیجیے:
گوجرانوالہ کا نوجوان شیخوپورہ لا ہور روڈ پر ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل۔
کہوٹہ میں ڈاکوئوں کی فائرنگ‘ ایک شخص جاں بحق۔
دینہ میں لندن پلٹ شہری کو اغوا کرنے کی کوشش ناکام‘ کیونکہ شہری نے اپنا ریوالور نکال کر فائرنگ کی جس سے ملزمان فرار ہو گئے ۔
چکوال میں مسلح افراد کا شہری پر حملہ‘ شدید زخمی کردیا ۔
بپول میں ڈاکوئوں نے برطانیہ پلٹ فیملی کو لوٹ لیا ۔
جہلم میں فرانس پلٹ شخص ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل۔
اسلام آباد میں پندرہ لاکھ کا ڈاکہ ۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ : کار میں سوار پانچ ڈاکو کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر کے دفتر میں گھس گئے اور لاکھوں روپے لے اُڑے۔
یہ صرف ایک اخبار میں سے چند جھلکیاں ہیں‘ ہے کوئی علائو الدین خلجی‘ کوئی شیر شاہ سوری‘ کوئی انگریز وائسرائے ، جو آئے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کو‘ جو پاکستان کا ساٹھ ستر فیصد حصہ بنتا ہے‘ ڈاکو راج سے نجات دلائے کیونکہ حکمران تو بسوں اور ٹرینوں کی فکر میں ہیں۔ ان بسوں اور ٹرینوں میں سفر کون کرے گا ؟ ڈاکو! کیونکہ عوام تو وہ جنس ہیں جو ناپید ہو جائیں گے!
غورکیجیے‘ منظر نامہ کیا ہے؟ حکمرانوں کا کاروبار‘ مال و دولت‘ بزنس کرنے والے بچے‘ سب کچھ بیرون ملک ہے! اندرونِ ملک تین مناظر بیک وقت‘ ساتھ ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف عالی شان منصوبے ہیں جن کا عوام کی خوشحالی اور امن و امان سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف ڈاکوئوں کا راج ہے۔ کوئی شہر‘ کوئی قصبہ‘ کوئی محلہ‘ کوئی گلی‘ کوئی بازار لٹیروں‘ اٹھائی گیروں‘ بھتہ خوروں اور اغواکاروں سے محفوظ نہیں ہے۔ پولیس عنقا ہے۔ حکومت کے پاس امن و امان کے لیے اور ڈاکوئوں کے استیصال کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ منصوبہ ۔ تیسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملک میں چار سو پھیلی ہوئی غنڈہ گردی‘ لوٹ مار‘ بدامنی اور لاقانونیت سے تنگ آ کر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ لاکھوں جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ؎
بھاگ مسافر! میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
اب تو بھیتر بھی آگ ہے اور اوپر بھی آگ ہے۔
کل ایک سابق سفیر نے ٹیکسٹ پیغام بھیجا:
This country is going to dogs
انہیں جوابی پیغام میں عرض کیا کہ حضور! صورتِ حال کے لیے اتنے نرم الفاظ! یہ تو Under statement ہے! Dogs کے ساتھ تو گزارا ہو بھی جاتا مگر اب تو بھیڑیوں‘ مگرمچھوں اور آدم خور درندوں کی بات کیجیے! حکومت خود اعتراف کر رہی ہے کہ ’’جرائم پیشہ عناصر نے اپنے ساتھ سکیورٹی کے نام پر درجنوں گن مین رکھے ہوئے ہیں جن کے پاس موجود اسلحہ ناجائز اور وہ خود ڈکیتی وقتل سمیت سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں‘‘۔ اس کا علاج یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ ’’صوبہ بھرکے اہم مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کے پرائیویٹ گن مینوںکو اسلحہ رکھنے کے لیے سپیشل پاس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔ اس ساری تشخیص اور علاج میں اگرکوئی شے غائب ہے تو وہ عوام ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہی کہ عوام اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں، بالکل ایسے جیسے دینہ کی خبر اوپر آپ نے پڑھی کہ لندن سے آنے والے شخص پر ڈاکوئوں نے حملہ کیا تو اس نے اپنا ریوالور نکالا اور فائرنگ کر کے اپنی جان بچا لی! عوام پر لازم ہے کہ گارڈ رکھیں۔ اس کی استطاعت نہیں تو ریوالور رکھیں۔ وہ بھی ممکن نہیں تو ملک چھوڑکرکہیں اور جا بسیں۔ یہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنی جان‘ اپنا مال اور اپنی عزت ڈاکوئوں کے حوالے کردیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“