انسان آپس میں تعاون کرنے والی، انفارمیشن شئیر کرنے والی نوع ہے۔ زندگی کے اس طریقے سے کلچر ابھرتا ہے۔ جب لوگ مل کر رہتے ہیں، اپنی دریافتیں جمع کرتے ہیں، اپنے کام کو تقسیم کرتے ہیں، اپنے جھگڑوں کو نپٹانے کا طریقے طے کرتے ہیں، اس سب کو کلچر کہتے ہیں۔ جب لوگ الگ رہیں، یہ رواج اور طریقے الگ ہوتے جاتے ہیں، الگ کلچر بنتے جاتے ہیں۔
کلچر کوئی غیرمرئی ہوا میں پھرتی شے نہیں۔ اپنی تمامتر اہمیت کے باوجود اس کا انحصار بالآخر اس نیورل سرکٹ پر منحصر ہے جس سے ہم سیکھنے والا کام سرانجام دیتے ہیں۔ انسان صرف نقل کرنے والی مشین نہیں، ان سرکٹس کی بڑی باریک اور حیرت انگیز چیزیں کلچر کی ترسیل ممکن بناتی ہیں۔
ایک بچہ اور ایک طوطا، دونوں بولنے والے الفاظ دہرا دیں گے لیکن ایک بچے کے پاس وہ ذہنی الگورتھم ہے جو ہوا کے اس ارتعاش سے الفاظ اور اصول بنا دے گا اور سیکے ہوئے ہر لفظ کو بے شمار نئے جملوں میں استعمال کر لے گا۔ یہ سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح دوسروں کو دیکھ کر بچہ جو کام کرتا ہے، اس میں بھی یہی طریقہ ہے۔ یہ صرف دہرائی نہیں ہوتی۔ ہمیں یہ سب کرنے کے لئے دماغی مشینری درکار ہے جو کئے جانے والی حرکات سے مطلب نکال سکیں تا کہ معاشرے کے موثر ممبر بن سکیں۔ سیکھنے کا ہر عمل اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جیسا دیکھنے میں لگتا ہے۔
یہاں پر مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والے روڈنی بروکس کا ایک تھاٹ ایکسپیریمنٹ کہ ایک غیرانسانی ذہن کو سیکھنے میں کس قسم کی مشکلات ہیں۔
“روبوٹ ایک شخص کو شیشے کا جار کھولنے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ وہ شخص آیا اور اس نے یہ جار روبوٹ کے قریب میز پر رکھ دیا۔ اپنے ہاتھ آپس میں ملے اور کھولنے کی کوشش شروع کی۔ ایک ہاتھ میں جار پکڑا، دوسرے سے ڈھکن پر مخالف گھڑی وار سمت میں زور لگایا۔ اس دوران وہ رکا، ماتھے پر پسنہ صاف کیا، روبوٹ کی طرف دیکھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ منہ میں کچھ بڑبڑایا اور پھر کھولنے کے لئے زور لگایا۔ اب ڈھکن کھل گیا۔ روبوٹ نے اب یہ عمل نقل کرنا ہے۔ وہ کیسے الگ کرے گا کہ اس سب میں کونسے والے کاموں کی نقل کرنی ہے ّ(ڈھکن پر زور لگانے کی) اور کونسے والے کی نہیں (پسینہ صاف کرنے کی)۔ اور پھر یہ روبوٹ اس میں اخذ شدہ معلومات کو کیسے ایبسٹریکٹ میں بدلے گا تا کہ آئندہ اس طرح کی صورتحال میں اس مہارت کا اطلاق کر سکے”۔
اس کا جواب ہے کہ روبوٹ میں وہ صلاحیت ہونی چاہیے جو اس شخص کے ذہن میں دیکھ سکے جس کی نقالی کی جا رہی ہے تا کہ اس کا مقصد سمجھ سکے۔ کوگنیٹو سائنٹسٹ اس کو تھیوری آف مائنڈ کہتے ہیں۔ یہ ہمارے جینز سے تشکیل پانے والی لوک نفسیات ہے۔ کسی کے ارادے، خواہش، مقصد، یقین، جذبات اور نالج وغیرہ کو پہچاننا۔ یہ صلاحیت بچے کی بالکل ابتدائی زندگی میں ہی پائی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اس روبوٹ کے علاوہ ایک اور ذہن جو انسانی دماغ کو نہیں پڑھ پاتا، وہ چپمینزی کا ذہن ہے۔ اس پر لارا پیٹیٹو نے نِم چمپسکی نامی چمپنزی پر تجربہ کیا۔ لارا اس چمپینزی کو اشاروں کی زبان سکھا رہی تھیں اور ایک سال اس کے ساتھ رہیں۔ چمپینزی یا دوسرے بندر نقل کرنے میں بہت اچھے ہیں۔ (شاید اس بارے میں آپ نے کہانیاں بھی پڑھی ہوں اور خود بھی دیکھا ہو)۔ نِم کو برتن دھونا سکھا دئے لیکن ایک بڑا فرق تھا۔ نِم کو یہ بالکل نہیں پتا لگ سکا کہ یہ کام کرنے کا مقصد کیا ہے۔ سفنج کو برتن پر پھیرنے سے لازمی نہیں کہ وہ داغ کی طرف توجہ دے۔ بالکل صاف پلیٹ بھی دی جائے تو بھی نِم کو یہ پتا نہیں لگتا تھا کہ اس کو دھونا نہیں ہے۔ “پلیٹ کو دھونے کا مقصد اس کو صاف کرنا ہے”۔ تمام تر تربیت کے باوجود اور تمام ایکشن سیکھ جانے کے باوجود نِم اس کو نہیں سمجھ سکا۔ وہ صرف یہ ایکشن کرتا اور انگلیوں پر گرتے گرم پانی سے لطف لیتا۔
جس بچے میں ذہن کو پڑھنے کی یہ صلاحیت مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو، اس کو معاشرے کا نارمل فرد بننے میں مشکل پیش آتی ہے، یہ آٹزم ہے۔ اس کا زیادہ شکار ہونے والے الفاظ بعینہِ دہرا دیں گے لیکن الفاظ کی روح سے واقف نہیں ہوں گے۔ ان کو یہ سمجھنے میں بہت مشکل آتی ہے کہ “تُم” ان کا نام نہیں۔ ایسا کم ذہانت کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ پرابلم کو حل کرنے میں یہ دوسروں سے کم نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں کئی کندذہن بچے جن کی یہ والی سمجھ ٹھیک ہوتی ہے، وہ اس قسم کی غلطیاں نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روبوٹ، چمپینزی اور آٹزم ہمیں یاددہانی کرواتے ہیں کہ کلچرل لرننگ کا انحصار نیورولوجیکل سرکٹ پر ہے۔ نیوروجیکل سرکٹ جینز سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ جینز جبلتیں متعین کرتی ہیں، اپنے پہلے خلیے کے وقت سے ہی۔ ان جینز سے دماغ، دماغ سے صلاحیت، جو انسانوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کی صلاحیت دیتی ہیں۔ یہ صلاحیت سوشل ہونا ممکن کرتی ہے، کلچر بناتی ہے۔ کلچر انسانوں کو بناتا ہے اور انسان اس کلچر کو۔ غیرمرئی کلچر اور انسان کی بائیولوجی الگ نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہی گندھے ہوئے ہیں۔
کلچر کے بارے میں مضمون