تھیو کریسی کی اصطلاح پہلے پہل یہودیوں نے پہلی صدی عیسوی میں وضع کی
جب مملکت اسرائیل یا یہوداہ کی حکومت کے قیام کا معاملہ درپیش تھا
اس سے قبل جو نظام ہائے حکومت دنیا میں رائج تھے ان میں جمہوریت (Democracy )، بادشاہت (Monarchy ) اور اشرافیت (Oligarchy) شامل تھے
یہودیوں کا یہ فیصلہ تھا کہ مملکت اسرائیل یا یہوداہ اپنی ترکیب میں ان سارے نظاموں سے مختلف ہو گی
لہذا انہوں نے تھیو کریسی کو متعارف کرایا جس کے معنی ہیں خدا کی حکومت
یہ یونانی لفظ ہے، Theo کے معنی خدا اورCracy کے معنی ہیں حاکمیت
اس نظام کے مطابق خدا سپریم ہے اور اس کے احکامات جو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے آئے، مملکت کا قانون ہوں گے
تورات کے احکامات کو اصطلاحا بھی قانون ہی کہتے ہیں
اب مسئلہ یہ تھا کہ تمدنی معاملات میں تورات کے احکامات کم تھے
لہذا ان کے مذہبی پیشواؤں کو یہ حق دیا گیا کہ مختلف معاملات میں وہ خدا کی مرضی معلوم کر کے قانون سازی کریں
یہ مذہبی پیشوا جس طرح خدا کی مرضی معلوم کرتے وہ ایک دلچسپ طریقہ تھا
بہرحال اس ڈھکوسلے کے ذریعے مذہبی پیشوا جو چاہتا خدا کی مرضی کے طور پر متعارف کروا دیتا اور سب کو اس کی اطاعت کرنی پڑتی
یوں مذہبی پیشوا قوت کا مرکز بن گئے، یہ صورتحال بادشاہوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی
لہذا انہوں نے اپنی چال چلی اور وہ یہ کہ بعض پیشواؤں کو اپنی طرف ملا کر ان کا یہ اختیار اپنی طرف منتقل کروا لیا
یعنی بادشاہ کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ فلاں پیشوا کو یہ الہام ہو گیا ہے
کہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا اختیار اب بادشاہ کے حوالے کر دیا جائے
جس کے نتیجے میں یہ بات طے ہو گی کہ بادشاہ جو کہے وہ خدائی قانون ہے
پھر کچھ اور نظریات بھی گھڑ لئے گئے مثلا یہ کہ بادشاہ کی تخلیق جنت میں ہوتی ہے
لہذا یہ جنتی مخلوق ہے، خدا اس کو بادشاہ بناتا ہے، وہ خدا سے اپنا اختیار لے کر دنیا میں آتا ہے لہذا وہ سب کے لئے واجب الاطاعت ہے
بالفرض اگر وہ ظلم بھی کر رہا ہے تو بھی تمام رعایا کو چاہئے کہ وہ اس ظلم اور جبر کو برداشت کریں
اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں کیونکہ وہ یہ سب اللہ کی مشئیت کے مطابق کر رہا ہے
اس کے بعد یہ تھیوکریسی زیادہ ترقی یافتہ شکل میں عیسائیت میں نظر آتی ہے
چوتھی صدی عیسوی میں جب قسطنطین نے عیسائی مذہب قبول کر کے عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیا تو سوال پیدا ہوا کہ مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کیسے کی جائے
کیونکہ اناجیل میں تو تمدنی مسائل بہت ہی کم ہیں
لہذا تھیو کریسی ہی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا گیا کہ قانون سازی کا حق کلیسا کو حاصل ہے
کلیسا عیسائیت میں باقاعدہ ایک اصطلاح ہے، اس کا مطلب صرف عیسائیوں کی عبادت گاہ ہی نہیں ہے بلکہ اصطلاحا کلیسا (جس میں پوری کلرجی شامل ہے )
حضرت عیسی کے حواری پطرس (St_Peter ) کا نائب ہے
کلیسا سینٹ پیٹر کا نائب ہے اور اس ادارے کو احکام اور قوانین وضع کرنے کا حق حاصل ہے
چونکہ کلیسا کا سربراہ پوپ ہوتا ہے باقی کلرجی اس کے نیچے اور ماتحت ہوتی ہے
لہذا یوں قانون سازی کا حق پوپ کو حاصل ہو گیا
عیسائیت میں یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ پوپ معصوم اور مذہبی معاملات میں غلطیوں سے مبرا ہے
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پوپ صرف شارح قانون نہیں ہوتا بلکہ شارع یعنی قانون ساز بھی ہوتا ہے
اس طرح پوپ یا کلیسا کو وہ زبردست قوت حاصل ہو گئی جو بادشاہ کو بھی حاصل نہیں تھی
اس کے نتیجے میں کلیسا اور حکومت (State & Church ) کی وہ کشمکش شروع ہوئ جو قرون وسطی کی یورپی تاریخ کا حصہ ہے
مغرب نے اپنے دور نشاتہ ثانیہ میں بادشاہت سے بھی جان چھڑا لی اور چرچ یعنی مذہب سے بھی
بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی اور مذھب کی جگہ سیکیولر ازم نے
یوں تھیو کریسی صرف کتابوں میں رہ گئ یا ویٹکن سٹی میں
البتہ اٹھارہ سال کی جدوجہد کے بعد جب خمینی کا انقلاب کامیاب ہوا
پہلوی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جناب خمینی نے ایران کو اسلامی جمہوریہ ایران قرار دیا تو وہاں بالکل مغربی تھیوکریسی کی طرز پر ایک تھیوکریٹک ریاست تشکیل دی گئی
جناب خمینی کا انقلاب شیعہ مذھب کی اساس وبنیاد عقیدہ امامت
اور اسی سلسلے کے دوسرے عقیدے امام آخر الزمان (یعنی مہدئ منتظر) کی غیبت کبری
اور اس غیبت کبری کے زمانے میں ولایت فقیہ کے اس نظریے کی بنیاد پر برپا ہوا
جسے خمینی صاحب نے اپنی کتاب ولایتہ الفقیہ اوالحکومتہ الاسلامیہ میں تفصیل سے بیان کیا ہے
خمینی کی یہ کتاب ہی ان کے انقلاب کی فکری بنیاد ہے
لیکن اس کتاب پر آنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ اہل تشیع کے نظریہ امامت پر ایک نظر ڈال لی جائے
جس طرح اہل سنت اور سواد اعظم کے نزدیک نبی اور رسول اللہ تعالی کی طرف سے مقرر ہوتے تھے
(یعنی امت یا قوم ان کا انتخاب نہیں کرتی تھی) اہل تشیع کے نزدیک اسی طرح نبی کے بعد ان کے جانشین امام بھی اللہ تعالی ہی کی طرف سے مقرر اور نامزد ہوتے ہیں
وہ نبی ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں اور نبی/رسول ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے
اہل تشیع کے نزدیک ان ائمہ کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دیگر نبیوں سے بالا تر ہو تا ہے
وہی امت کے دینی اور دنیاوی سربراہ ہوتے ہیں اور امت پر بلکہ ساری دنیا پر حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف ان ائمہ ہی کا ہوتا ہے
ان کے علاوہ جو بھی حکومت کرے وہ غاصب، ظالم اور طاغوت ہے
اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق جس طرح رسول پر ایمان لانا شرط نجات ہے
اسی طرح اماموں کی امامت اور ان کی عصمت کو تسلیم کرنا بھی نجات کی شرط ہے
اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس دنیا کے خاتمے تک اللہ تعالی کی طرف سے بارہ امام نامزد کئے گئے ہیں
پہلے امام حضرت علی مرتضی تھے، دوسرے حضرت حسن۔۔، تیسرے حضرت حسین، چوتھے زین العابدین،
پھر انہی کی اولاد میں ترتیب وار 8 اور حضرات ۔ان میں سے پہلے گیارہ ائمہ
یعنی حضرت علی سے لے کر گیارہویں امام حسن عسکری تک تو اپنے وقت پر وفات پا گئے
البتہ حسن عسکری کے ایک بیٹے صغر سنی ہی میں معجزانہ طور پر غائب ہو گئے
اور سامرا (سر من رای ) کے ایک غار میں روپوش ہو گئے
اب قیامت تک انہی کی امامت اور حکومت کا زمانہ ہے
اس پوری مدت تک کے لئے وہی اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کئے ہوئے امام زمان اور امت کے دینی اور دنیاوی سربراہ ہیں
اہل تشیع کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کے غائب اور غار میں روپوش ہو جانے کے چند سال تک ان کے خاص محرم راز سفیروں کی ان کے پاس خفیہ آمد و رفت رہتی تھی
ان سفیروں کے ذریعے ان کے پاس شیعہ حضرات کے خطوط اور درخواستیں بھی پہنچتی تھیں
اور انہی کے ذریعے ان کے جوابات بھی آتے تھے
اہل تشیع کی مذہبی کتابوں میں اس چند سالہ عرصے کو غیبت صغری کا زمانہ کہا گیا ہے
اس کے بعد سفیروں کی آمد و رفت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور امام غائب سے کسی قسم کا رابطہ ممکن نہیں رہ گیا
(اس بات کو سوا گیارہ سو سال ہو چکے ہیں )
شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ وہ اسی طرح روپوش ہیں اور کسی مناسب وقت پر ظاہر ہو جائیں گے
جب بھی ایسا وقت ائے اس وقت تک کا زمانہ غیبت کبری کا زمانہ کہلاتا ہے
شیعوں کا یہ نظریہ امامت ان کے نزدیک توحید، رسالت، اور عقیدہ اخرت کی طرح اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے
اس کے نہ ماننے والے غیر مومن، غیر ناجی اور جہنمی ہیں
جناب خمینی نے اپنی کتاب الحکومتہ الاسلامیہ میں بیان کیا ہے
کہ بارہویں اور آخری امام کی غیبت کبری کے اس زمانے میں شیعہ مجتہدین کی یہ ذمہ داری ہے
کہ وہ امام آخر الزمان یعنی امام غائب کے نائب اور قائم مقام کی حیثیت سے حکومت کا نظام اپنے ہاتھ میں لینے کی جدوجہد کریں
اور جب ان مجتہدین میں سے کوئ ایسا فرد جو اس کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہو
اس مقصد کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور جدوجہد کرے تو وہ امام ہی کی طرح بلکہ رسول کی طرح واجب الاطاعت ہو گا
اسی کتاب میں ولایتہ الفقیہ کے عنوان کے تحت جناب خمینی نے لکھا ہے
اور جب کوئی فقیہ (مجتہد) جو صاحب علم اور عادل ہو حکومت کی تشکیل و تنظیم کے لئے اٹھ کھڑا ہو
تو اس کو معاشرے کے معاملات میں وہ سارے اختیارات حاصل ہوں گے جو نبی کو حاصل تھے
اور سب لوگوں پر اس کی سمع و اطاعت واجب ہو گی،
اور یہ صاحب حکومت فقیہ، حکومتی نظام اور عوامی و سماجی مسائل کی نگہداشت اور امت کی سیاست کے معاملات میں اسی طرح مالک و مختار ہو گا
جس طرح رسول اور امیر المومنیں(علی ) مالک و مختار تھے
اصل عبارت کی لئے دیکھئے:
الحکومتہ الاسلامیہ ص 49
اسی کتاب کے صفحہ 75 پر لکھتے ہیں:
فقھا، ائمہ معصومین کے بعد اور ان کی غیبت کے زمانے میں رسول اللہ کے وصی ہیں اور وہ مکلف ہیں
ان سب امور و معاملات کی انجام دہی کے جن کی انجام دہی کے مکلف ائمہ علیہم السلام تھے
خمینی کا انقلاب اسی ولایتہ الفقیہ کے نظریہ پر اپنی بنیاد رکھتا ہے
جب 1979 میں جناب خمینی نے حکومت سنبھالی تو ان کی حیثیت عام سربراہ حکومت کی نہیں تھی
بلکہ ولایتہ الفقیہ کے اصول کے مطابق وہ شیعوں کے امام غائب کے نائب اور قائم مقام، رسول اللہ کے وصی تھے اور واجب الاطاعت تھے ل
پوری دنیا پر حکمرانی کے مستحق تھے
مغربی تھیوکریسی میں جو درجہ پوپ کو حاصل تھا وہی ایرانی تھیو کریسی میں سپریم لیڈر کو حاصل ہے جو خمینی صاحب تھے
سپریم لیڈر، ایران کا ہیڈ اف دی اسٹیٹ ہوتا ہے، اس کے پاس ایرانی صدر سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں
یہ کئ طاقتور اداروں کے سربراہان کو منتخب کرتا ہے مثلا چیف آف آرمی سٹاف چیف جسٹس، قومی نشریاتی اداروں کا سربراہ، اٹارنی جنرل، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ممبران جو دفاع اور امور خارجہ دیکھتے ہیں
گارجین کونسل کے 12 جج، مذھبی تنظیموں کے فاونڈیشن کے سربراہ وغیرہ وغیرہ
اس طرح حکومت کے سارے اختیارات سپریم لیڈر کو مل جاتے ہیں
یعنی اس فقیہ اور مجتھد کو جو امام غائب کا نائب ہوتا ہے
امام ہی کی طرح معصوم ہوتا ہے اور اسی کی طرح واجب الاطاعت
امام غائب کا نائب ہونے کی وجہ سے وہ دینی معاملات کا بھی نگران ہوتا ہے
یوں اس کے پاس امام کے اختیارات آ جاتے ہیں اور ایرانی حکومت تھیوکریسی کی فی زمانہ واحد مثال ہے
( جاپان میں بھی ایک طرح کی تھیوکریسی ہے )
“