(Last Updated On: )
ٹھہر جاتا ہے آنکھوں میں کوئی منظر جیسے
سراپا ہو تصور میں کوئی جلوہ گر جیسے
مشغولِ غفلت اور پھر شوقِ خلوت بھی
دیوانہ ہی ہو بیاباں میں دربدر جیسے
جذبات میں تلاطم اور نہ آتشِ شوق
چھا ہی گئی ہو کوئی دِل پہ کہر جیسے
گرہن سا گرہن لگ رہا ہے اے ماہِ کامل
طلوع سی ہو رہی ہو مرگِ سحر جیسے
خوشی بیدار ہووے مجھ میں ایسے
ہوتا ہے ہویدا صدف میں گہر جیسے
ملالِ زیاں ، شبِ ہجراں اور شائستہ
آزماۓ ہے کوئی مجھکو طوفانِ دہر جیسے