سوال ؛ اردو کا قاری اس کو کیسے دیکھتا ہے ؟ کیا یہ ' Absurd ' ، لایعنی اور بے معانی تحریر ہے یا پھر ' جدید ' کلاسیک ادب کا حصہ ہے ؟
لیتھونین ادب ؛ سفید کفن (Balta drobule)
( The White Shroud …. 1958)
انتاناس سکیما ( Antanas Skema )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
یہ ناول ' Balta drobule ' کا ایک اقتباس ہے لیکن اپنی جگہ ایک مکمل کہانی بھی ہے ۔
لِفٹ اوپر جاتی ہے ، لِفٹ نیچے آتی ہے ۔ اس کی ساری یاداشت واپس نہیں آتی ۔ نسیانی کیفیت کسی حد تک برقرار رہتی ہے ۔ مخلوط آوازیں اور بلبل کی چہک اس کے لاشعور کی گہرائیوں میں اتر چکی ہیں ۔ موسم بہار کی برف پگھل چکی ہے ۔ بھاپ چھوڑتی دھرتی پر اب پیروں کے کوئی نشان نہیں ہیں ۔ البتہ قدیم اشاروں و علامتوں ، بلبل اور ببول کی نم آلود خوشبو ایک نئی خواہش بن کر ابھرتی ہے ۔ میں ایک ایسا سائنس داں ہوں جو اپنے فارمولوں کو بھول چکا ہے ۔ میں کوئی مشہور پمفلٹ نہیں لکھنا چاہتا ۔ مجھے پھر سے شروعات کرنا پڑیں گی ۔ مجھے سردیوں میں آنے والے شعور اور برف پڑنے کا انتظار کرنا ہو گا ۔
میں’ اوکستوجی پینیمونی‘ کی ایک شام میں ایک برآمدے میں لوٹ جانا چاہتا ہوں ۔ مجھے جیو میٹری جیسا سادہ رحم درکار ہے جو پراسرار بھی ہے لیکن اس میں فیصلہ بھی پنہاں ہے ۔
ہم’ جوزافات‘ کی وادی میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔میں ایک نیلی بس میں سوار وہاں پہنچتا ہوں ۔ یہ اچھا ہے کہ یہ نیلی ہے ۔ یہ امید کی علامت ہے ۔ ڈرائیور میرے سوالوں کے جواب نہیں دیتا لیکن میں اس کا برا نہیں مناتا ، یہی بہتر ہے کہ بس کے ڈرائیور سے بات نہ کی جائے ۔مجھے بس کے باہرکے گزرتے نظارے دیکھنے نہیں دئیے جاتے ۔ بس کی کھڑکیاں دھندلے شیشوں کی ہیں اور ڈرائیور کا کیبن بھی کالے کپڑے میں ڈھکا ہوا ہے ۔ بالآخر ہم رک جاتے ہیں ۔ میں نیچے اترتا ہوں اور بس وہاں سے چلی جاتی ہے ۔
وادی جوزافات سیمنٹ سے پختہ بنی ہوئی ہے اور پتھریلی دیواروں میں گھری ہوئی ہے ۔یہ ایک کمرے جتناحجم رکھتی ہے ۔ دیوار میں ایک دروازہ کھلتا ہے اور تین جج وادی میں داخل ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ججوں والی عبائیں پہن رکھی ہیں ۔ ان کے چہرے سفید کالروں والے چرمی کاغذوں سے ڈھکے ہیں ۔ درمیان والا جج ایک موٹی کتاب کھولتا ہے اور شروع کرتا ہے ۔
” تمہارا نام؟“
” انتانس گارسیوا“
” پیشہ؟“
” شاعر اور دھرتی کاایک ناکام بندہ“
” تمہارا دنیا کے بارے میں نقطہ نظر؟“
”مبہم “
” جب تم پیدا ہوئے تھے تو اس وقت دنیا کے بارے میں کیا نقطہ نظر تھا؟“
” پہلے تو ’ یقین ‘ رکھنے والوں سا تھا ، لیکن ۔۔۔ “
” رائے کا اظہار مت کرو“ ، جج نے ٹوک دیا ۔
” کیا تم’ دس احکامات‘ کی پیروی کرتے رہے ہو؟“
” ممکن ہے کہ میں نے ان پر کلی طور پر عمل نہ کیا ہو ، لہیکن ۔۔۔“
رائے غیر ضروری ہے “ ، جج نے پھر سے ٹوک دیا ۔
” کیا تم نے احکامات پر اسی طرح عمل کیا جیسے کہ تمہیں یہ بڑھائے گئے تھے؟ “
” ایسا نہیں لگتا ۔“
” اچھا ، پیرا نمبر آٹھ کے مطابق تمہیں ختم کرنے کاحقدار ٹھہرایا گیا ہے ۔ سوالوں کے جواب دینے کا شکریہ ۔“
” کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ پیرا نمبر آٹھ میں کیا لکھا ہے؟ مہربانی ہو گی ۔“
” یہ خاصا طویل پیرا ہے ۔ مختصراً یہ کہ اگر کوئی دس احکامات کی پیروی نہیں کرتا تو اسے ختم کر دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ؛ وفادار ۔ ۔ ۔ وفاداروں کے لئے ، لادین ۔ ۔ ۔ لادینوں کے لئے ، جھوٹا ۔۔۔ جھوٹوں کے لئے ، قاتل ۔ ۔ ۔ قاتلوں کے لئے ، بزدل ۔ ۔ ۔ بزدلوں کے لئے ، اخلاقی درس دینے والا ۔ ۔ ۔ اخلاقی درس دینے والوں کے لئے ۔ اور وہ جو’ دس احکامات‘ کی پیروی کرتے ہیں انہیں جنت میں بھیج دیا جاتا ہے ۔
” میں ’طالب ‘ لوگوں کے لئے ’ دس احکامات ‘ کی پیروی کرتا ہوں ۔“
یہ سن کر تینوں جج ، ایک اوپیرا کورس کی طرح ایک ہی انداز میں ہنستے ہیں ۔
” وادی ِ جوزافات میں اس طرح کی کوئی ’ کیٹیگری‘ نہیں ہے ۔“
” معاف کیجئے گا ۔ ایک اور سوال ۔ مجھے یہاں ایک نیلی بس میں کیوں لایا گیا تھا؟ یہ رنگ تو امید دلاتا ہے ۔“
لیکن جج وقت پر جواب نہیں دے پاتے کیونکہ انتانس گارسیواپہلے ہی پاتال میں پہنچ چکا تھا ، دروازہ کھلتا ہے اور وہاں ’ سٹارٹر‘ ( لفٹ چلانے والا) موجود ہے ۔
” ٹونی ! سنو“ ، وہ سختی سے پوچھتا ہے ، ” تم نے ’چنچلاﺅں ‘ کے ساتھ کیا کیا تھا ۔
ایک ادھیڑ عمر آدمی اور عورت ایک طرف کھڑے ہیں ۔ بھینگے بوڑھے آدمی نے ایک چھوٹا لکڑی کا پنجرہ پکڑ رکھا ہے ۔ اس پنجرے کی ایک پٹی ٹوٹی ہوئی ہے اور اس میں سے ایک نوکیلی ناک والے ’چنچلا‘ نے اپنا سر باہر نکال رکھا ہے اور وہ لالچی انداز میں بوڑھے آدمی کی انگلیوں کو سونگھ رہا ہے جبکہ اس کی ساتھی، پرسکون انداز میں، ایک چھوٹے گیند کی شکل میں رول ہوئی سو رہی ہے ۔ بوڑھی عورت انتانس گارسیوا کو ایسے گھور رہی ہے جیسے اس نے اس کے پوتوں پوتیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی ہو ۔
” وہ کہتے ہیں کہ اوپر اٹھارویں منزل پر تم نے دروازہ تیزی سے اس زور کے ساتھ بند کیا تھا کہ پنجرہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جس سے چنچلے مرتے مرتے بچے ۔“
” یہ درست ہے ، او’ کیسی ، مجھ سے پنجرے کو نقصان پہنچا ، کیونکہ جب یہ بندہ لِفٹ میں داخل ہوا اور پھر وہ ناقابل فہم انداز میں مڑا اور گھوما اور باہر نکلنے کی کوشش کی ۔ اس لمحے دروازہ بند ہوا اور پنجرے کو نقصان پہنچا ۔ چنچلے ، مجھے یقین ہے ، ٹھیک ٹھاک ہیں ، نر چنچلا ذرا ڈر گیا ہے لیکن اس کی مادہ پرامن طور پر سو رہی ہے ۔ لگتا ہے کہ زیادہ تر مردوں کی طرح یہ نر بھی کچھ اُتاولا ہے ۔“
’ سٹارٹر‘ دھیمے سے مسکراتا ہے ۔ ” ٹھیک ہے ، ٹونی ۔تم اس کونے میں جاﺅ اور تب واپس آنا جب یہ لوگ جگہ خالی کر دیں ۔ “
دور جاتے ہوئے گارسیوا ’ سٹارٹر ‘کے الفاظ سنتا ہے ؛
” وہ منیجر کے سامنے پیش ہو گا اور اسے سزا ملے گی ۔ کیسا ظالم مجرم ہے! بیچارے ننھے جاندار !“
گارسیوا واپس آتا ہے اور سٹارٹر کہتا ہے ؛
بدمعاش چنچلے ! ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے ۔ ٹونی ، تمہیں محتاط رہنا چاہیے ۔“
” شکریہ، او’ کیسی ۔ میں ایسا ہی کروں گا ۔ “
دسویں سے اٹھارویں منزل پر سیدھے پہنچ کر سٹارٹر بولا ،” یہ تمہاری منزل ہے ۔ہم یہاں ہیں ، ”شکریہ ، مہربانی ، بٹن دباﺅ اور ہاتھ دروازے کے دستے پر رکھو ، میں اوپر جا رہا ہوں ۔“
”مجھے اس بات کا غصہ نہیں ہے کہ بوڑھے جوڑے نے شکایت درج کرائی ہے ۔ میں اس وقت بے دھیانی میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس نے مجھے وادی ِ جوزافات کے بارے میں خواب دیکھنے کو کہا تھا ؟ بیچارے ، پیارے بوڑھے لوگ ۔ غالباً ان کے بچے نہیں اور وہ چنچلاﺅںکو اپنے پیارے جان کر پالیں گے ۔ شاید مجھے بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے یوں میں بھی شاید بچ جاﺅں ۔“
ایلینا اور میں ۔ ۔ ۔ اکٹھے ہیں ۔ یہ ایک گھریلو فرحت ہے ۔ جمیکا میں کہیں،ایک چھوٹاسا گھر ہے ۔ ہمارے پاس یہ منزل ساری کی ساری ہے ۔ ہم نے پینٹنگز کے کچھ چربے لٹکا رکھے ہیں ۔ ہم نے کتابیں سجا رکھی ہیں ۔ آرٹ اور شاعری کی کتابیں ماحول سنجیدہ بنائے ہوئے ہیں ۔ ایک علیحدٰہ شیلف ہمارے اپنے لوگوں کے لئے ہے ۔ ہم شام میں موسیقی سنتے ہیں ،مطالعہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے ہلکی پھلکی بحث بھی کرتے ہیں جس سے ماحول خوشگوار رہتا ہے ۔ لیمپ روشن ہیں جن کے شیڈ سبز شیشے کے ہیں ۔ ہم سٹیشن ’ سی‘ کو تلاش کرتے ہیں اس کے ستون ’ ماربل‘ کے نہیں ہیں لیکن اس کے برآمدوں میں شانتی ہے ۔اور کافی کی میز پر ۔ ۔ ۔ تازہ پھول ہیں ۔ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ کے امکانات ہر وقت روشن رہتے ہیں ۔ اور ہمارے خواب ۔ ۔ ۔ ان میں جاگ اٹھنے کا احساس ہے ۔ اور ہماری بغل گیریاں ۔۔۔ویسی ہی ہیں جیسے’ جونز‘ کے ساحل پر پہلی بار جانے کے دوران تھیں ۔ہماری صورتیں مری ہوئی اشرافیہ کے سروں جیسی ہیں ۔ ہم خوش دلی سے کھیلتے ہیں ۔ ہم بلاکوں سے قلعے بناتے ہیں اور زندگی و موت کے خواب دیکھتے ہیں ۔ ایسے میں کتابیں بھی ہماری مدد کرتی ہیں ۔ نہ صرف ہومر بلکہ دانتے بھی ۔ ہمارے اپنے ادیب بھی ہماری مدد کرتے ہیں۔ہم چمکیلی وائن پیتے ہیں اور ہماری مہنگی آبنوسی میز پر ایک ’ فلمینگو ‘ ابھرتا ہے ؛ ہم ’ لوکرینی ‘ جھیل پر کشتی رانی کرتے ہیں ، ان دوسری جگہوں پر بھی ، جہاں ایک مرا بچہ گٹار پر ایک ایسی دھن بجا رہا ہے جو ہم نے اس دھرتی پر کبھی نہیں سنی ۔اور ابھرتا سورج ایک بار پھر ہماری دنیا کو جگا دیتا ہے اور ہم ٹھنڈے ، لامتناہی شمال میں اس کے کھیتوں کھلیانوں میں ، مرغزاروں میں ،راستوں اور چوراہوں پر زندہ رہتے ہیں ۔ پام ، میرے پیارے پام کے درخت اس تیز ہوادار نخلستان میں نازکی سے لہراتے ہوئے گیت گاتے ہیں ۔
زوری ، زوری، جادوئی لفظ ، جادوئی کنجی ، جادوئی خواہش ، جادوئی روایتی پن ، ایک کبھی نہ ٹوٹنے والے پنجرے کاجادوئی یاد ماضی ۔
اور تب ایک دن ، ہمارے اس ننھے سے پنجرے میں ایک بچہ جنم لیتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتاناس سکیما ( Antanas Skema ) وسطی پولینڈ کے شہر ’ لوڈز‘ میں لیتھونین والدین کے ہاں29 نومبر،1910 ءمیں پیدا ہوا ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران وہ اور اس کا خاندان روس میں رہا ۔ 1921 میں وہ لیتھونیا واپس آیا اور قانون و طب کی تعلیم حاصل کرکے سٹیج کی طرف راغب ہوا ۔ اس نے 1938 ء میں روسی حملے ، 1941 ء میں جرمن قبضے اور 1945 ء میں روسی افواج کی واپسی جیسے حالات میں زندگی گزاری ۔ سوویت سربراہی کے ماتحت رہنے کی بجائے اس نے جرمن جانا پسند کیا اور پھر 1949 ء میں امریکہ چلا گیا ۔ وہ 11، اگست 1961 ء میں کار کے حادثے میں ہلاک ہوا ۔ مندرجہ بالا ناول اس نے 1954 ء میں لکھا تھا جو پہلی بار 1958 ء میں لندن سے لیتھونین زبان میں شائع ہوا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔