سرئیلسٹ فِکشن ( Surrealist Fiction )
میکسیکن افسانہ ( ہسپانوی زبان سے)
مچھلیوں کی خودکشی (El Suicidio De Los Peces)
( The Suicide of the Fish)
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاور
گند اور بے ترتیبی کے لئے معذرت ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ۔ ۔ ۔ “ ، لوپیز نے بتی جلاتے ہوئے اپنی مہمان سے کہا ۔
اس نے کمرہ کا جائزہ لیا جبکہ لوپیز نے دروازہ بند کیا اور اپنی چابی سے اسے تالا لگایا ۔
” اب کوئی فکر نہیں ۔“
لیونگ روم گھریلو اشیاء ، چھوٹے بڑے گتے کے ڈبوں اور فائلیں رکھنے والے بکسوں سے بھرا ہوا تھا ۔ وہاں ایک کمپیوٹر ، ورزش کی مشین ، ورزش کرنے والی سائیکل ، ایک کالا صوفہ ، سی ڈی پلیئر اور بہت ساری سی ڈیز قالین پر بکھری پڑی تھیں ۔ ایک بڑا ’ ایکویریم ‘ جس میں مختلف طرح کی مچھلیاں تھیں بھی ایک الماری پر دھرا تھا ۔
جب وہ اپنا سپورٹس کوٹ ، اُس کی جیکٹ اور پرس سونے والے کمرے میں لے جا رہا تھا ، وہ تب بھی چاروں طرف دیکھ رہی تھی ؛ فرش کے مقابلے میں دیواریں ننگی تھیں ۔ کتابوں کی ایک الماری صوفے کے پاس پڑی تھی جس میں رسالوں کا ڈھیر پڑاتھا ؛ یہ صرف مچھلیوں کے بارے میں تھے ۔
لوپیز جلد ہی لوٹ آیا ۔
” کیا تم بیٹھنا نہیں چاہو گی ؟ امینڈا ؟ تمہارا نام امینڈا ہے نا ۔ ۔ ۔ کیا یہی ہے نا ؟ “
” ازابیل “ ، عورت نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس کی درستگی کی ، ” لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ میں تمہاری طرح مشہور نہیں ہوں ، اس لئے میرا نام آسانی سے بھلایا جا سکتا ہے ۔“
” میں مشہور نہیں ہوں ۔“ ، لوپیز ایک خاص قسم کی اداسی کے ساتھ انکاری ہوا ، ” میرے قارئین ہیں لیکن وہ چند ہی ہیں ۔ کیا میں تمہیں ڈرنک بنا کر دوں ؟ “
” ہاں ، رَم پلیز ۔“
” میرے پاس وہسکی ہے ۔“
” کیا تمہارے پاس رَم نہیں ہے ؟ “
” ہے ۔ لیکن دیکھو ، تمہیں وہسکی ہی پینا چاہیے ۔ “ ، لوپیز گتے کے ڈبوں کے درمیان بوتل تلاش کرنے لگا ، وہ عورت کو خوش کرنے کے لئے بے چین تھا ۔ اس دوران وہ صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ چکی تھی اور اس نے اپنے جوتے اتار پھینکے تھے ۔ اس نے کچھ ایسے ٹھنڈا سانس لیا ، جس میں تھکان اور بوریت دونوں کا تاثر تھا ۔ لوپیز باورچی خانے میں گیا اور برف بھرا ایک پیالہ لے آیا ۔ وہ واپس آ کر میز پر اشیاء رکھتے ہوئے بولتا رہا ۔ ” یہ میں نے لاس ویگاس سے خریدی تھی ، او کے ؟ یہ سکاچ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ اس کی کیا قیمت ہے ؟ فقط بیس ڈالر ، کیا یہ اچھا سودا نہیں ہے ؟ “
” مجھے رَم چاہیے ۔“
” لیکن دیکھو، میری بات سنو ، کیا تم نہیں سنو گی ؟ “، لوپیز نے اصرار کیا ۔ ” یہ وہسکی آہن جیسی تگڑی ہے ۔“ ، اس نے اسے گلاس میں انڈیلا اور اس کی طرف بڑھایا ۔
ازابیل وہسکی پینا نہیں چاہتی تھی ۔
” مجھے سودوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ تمہارے پاس رَم ہے یا نہیں ؟ “
لوپیز نے اُس گلاس سے ، جو ازابیل نے ٹھکرا کر میز پر رکھ دیا تھا ، سے ایک گھونٹ بھرا ۔
” او کے ، اوکے ، میں تو اپنی طرف سے اچھا ہی کر رہا تھا ۔ “ ، اس نے پھر سے بکسوں کے درمیان تلاش کرنا شروع کر دیا ۔ ” لیکن تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ٹھیک ؟ تمہیں رَم چاہیے ۔ “
” مجھ سے اس طرح بات مت کرو ۔ ہم ابھی ملے ہیں ۔“
” ٹھیک ہے ۔ میں تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا ۔ اور میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ ہی نہیں پاتا ۔ پھر میں خاموش ہو جاتا ہوں اور ہر کوئی خوش ہو جاتا ہے ۔ “ ، لوپیز نے بالآخر رَم کی بوتل تلاش کر ہی لی اور باورچی خانے میں چلا گیا ۔ ازابیل نے اسے فرج کو کھولتے اور بند کرتے ہوئے سنا ۔ وہ وہیں سے اونچی آواز میں بولتا رہا تاکہ وہ سن سکے ۔ ” کیا تم اسے کوک کے ساتھ لینا چاہتی ہو ؟ “
” ہاں اور ساتھ میں لائم * بھی ، اگر یہ تمہارے پاس ہے تو ۔ ۔ ۔ “
” یقیناً ، میرے پاس کچھ لائم ہیں ۔ تمہارا خیال ہے کہ اس جگہ پر مجھے کسی شے کی کمی ہے ؟ تمہارا خیال ہے کہ میں ، چونکہ ایک شاعر ہوں اس لئے ضروریاتِ زندگی پر پیسے خرچ نہیں کرتا ؟ “ ، لوپیز لیونگ روم میں واپس لوٹ آیا ۔ وہ کوکا کولا کی ایک لیٹر والی بوتل اور لائم کے کچھ قتلے ساتھ لایا تھا ۔ وہ ازابیل کے سامنے قالین پر بیٹھ گیا ۔ وہ اداس لگتا تھا ۔” ہر کوئی ایسا ہی سمجھتا ہے ۔ “ ، اس نے اپنی وہسکی کا ایک بڑا گھونٹ بھرا ۔
”میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا ۔ میں معذرت خواہ ہوں ۔“
’‘ ہوہ ، اس کے بارے میں فکر مت کرو۔ تمہارا خیال ہے کہ میں خفا تھا ؟ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ میں اتنا پاگل ہوں کہ اتنی فضول سی بات پر خفا ہو جاﺅں ؟ تو جان لو کہ میں نہیں ہوں ، او کے ؟ شاعر لوپیز ابھی پاگل نہیں ہوا ۔ میں توبس اپنی فیملی کے بارے میں ذرا پریشان ہوں ۔ ۔ ۔ “
” تمہاری فمیلی ؟ “
لوپیز قالین سے اٹھا ۔
” میں ان بچوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں ۔“ ، وہ چلتا ہوا ایکویریم کی طرف گیا ۔ ” یہاں آﺅ پلیز ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے ملو ۔ “
” میں انہیں یہاں سے بھی دیکھ رہی ہوں ۔ “
” نہیں ۔ دیکھو ، یہاں آﺅ ۔ میں انہیں تمہارے ساتھ متعارف کروانا چاہتا ہوں ۔ او کے ، او کے ، جیسے تمہاری مرضی ۔ تم انہیں بعد میں دیکھ لینا ۔“ ، وہ بولتا رہا جبکہ وہ اپنی ’ کیوبا لبرے ‘ * پیتی رہی ، اس کی پشت ازابیل کی طرف تھی ۔” تمہارا دن کیسا رہا ، ہوہ ؟ ہم بھوکے ہیں ، ٹھیک ؟ ظاہر ہے ، اگر آج کچھ نہیں کھایا تو ہم بھوکے ہی ہوں گے نا ۔“ ، اس نے پانی میں مچھلیوں کی خوراک چھڑکی ۔ ” کیا یہ مزیدار نہیں ہے ؟ مجھے معلوم ہے کہ یہ تمہیں بہت پسند ہے ۔ اور کیا تمہیں پتہ ہے کہ یہ پانچ ڈالر سے بھی سستی ہے ؟ ایک اچھا سودا ، ٹھیک ؟ لیکن دیکھو ؛ الفونسینا *III فمیلی کی روایت پر چل رہی ہے ۔ دھت ، میں اسے ابھی پکڑتا ہوں ۔ دیکھتے ہیں ، میرا جال کدھر ہے ؟ ہم اسے وہیں تیرتا نہیں چھوڑ سکتے ؛ یہ خطرناک ہے ۔ اِن کو اس کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا سوائے اس کے کہ خود کو مار لیں ۔ ۔ ۔ ۔“
ازابیل بالآخر اٹھ کھڑی ہوئی ، وہ متجسس تھی ؛ ” کیا اس نے خودکشی کی ہے ؟ “
” ہاں ، اسے دیکھو تو ذرا ؛ اس نے اپنا سر پانی سے باہر نکالا اور اس وقت تک سانس لیتی رہی جب تک کہ وہ پھٹ نہ گئی ۔ یہ کچھ ایسا ہی کرتی ہیں ۔ یہ اس بیہودہ دنیا میں نہیں رہنا چاہتیں ۔ اور کیا تم سمجھتی ہو کہ یہ دوسروں کے لئے کوئی اہم بات ہے ؟ کیا تمہیں کبھی اتفاق ہوا ہے کہ انہیں افسوس کرتے ہوئے دیکھو ؟ بالکل بھی نہیں ہوا ہو گا ۔ الفونسیناIII ایک شاعرہ تھی ، ایک شاعرانہ آسکر * ؛ وہ ایک چوہے کی طرح پھٹ کر مر گئی اور ہر کوئی خوش ہے ، ٹھیک ؟ یہ زندگی ہے ۔ “
” تم نے بیوقوفی کی یہ باتیں کہاں سے سیکھی ہیں ؟ “ ، یہ سوال کم اور ناگواری کا اظہارزیادہ تھا ۔
” میری ساری آسکر مچھلیوں نے اسی طرح اپنا خاتمہ کیا ہے ؛ تین جو میرے پاس تھیں ان کا نام میں نے ’ الفونسینا ‘ رکھا تھا اور تینوں ہی زہر دئیے گئے چوہوں کی طرح پھٹ گئیں ؛ یا انہوں نے ہوا میں سانس لیا یا پھر ایکویریم سے باہر چھلانگ لگا دی ۔ ایک بصیر کا انجام ، ٹھیک ؟ ایک شاعر کی قسمت ۔ کیا خیال ہے تمہارا ؟ “
” لیکن ، وہ جو اس کے قریب ہے ، کیا وہ بھی اس جیسی نہیں ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ کیا یہ آسکر نہیں ہے ؟ “
” بالکل نہیں ۔ تمہیں مچھلیوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے ، یا ہے ؟ آسکر کو گولڈ فش سے گڈ مڈ نہیں کیا جا سکتا ۔ ۔ ۔ یہ والی مایاکوفسکی * II ہے ۔ مایا کوفسکی I نے اس وقت خودکشی کی تھی جب ہم ابھی دوسرے گھر میں تھے ۔ “
” اور باقی ۔ ۔ ۔ “
” باقی ساری بھی شاعر ہیں ، کیا تم یہی جاننا چاہتی ہو، کیا تمہیں یہی بات پریشان کر رہی ہے؟ ٹھیک ہے ، میں انہیں تم سے متعارف کراتا ہوں تاکہ تم ان کے درمیان فرق کر سکو ۔ دیکھو ، یہ جو ’ بیٹاز ‘ * ہیں ، وہ دو جو الگ ہیں ان کو’ باڈلیئر‘ * اور’ رِمباڈ ‘ * کہتے ہیں ۔ یہ بددعائی گئی مچھلیاں ہیں ، سمجھیں ؟ ایکویریم کے شعور کے لئے خطرناک شاعر ۔ الفاظ کی جنگجو ۔“
” اور یہ جو پیاری سی ہے ؟ “
” کونسی ؟ “
” یہ جو یہاں ہے ۔“
” ایکویریم کو ہاتھ مت لگاﺅ ! “
ازابیل نے فوری ردعمل کا اظہار کیا ۔اس نے ناراض ہو کر منہ پھیر لیا ۔
” معذرت ، معذرت ، ازابیل ۔ میں نے یہ صرف اس لئے کہا ہے کہ انگلیاں نشان چھوڑ جاتی ہیں ، یہ دیکھو؟ اور پھر انہیں صاف کرنے کے لئے بڑے جتن کرنا پڑتے ہیں ۔ یہاں آﺅ۔ “ ، اس نے بے چینی سے اس کا ہاتھ تھاما اور اداسی سے بولا ۔ ” دیکھو ، تمہیں معلوم ہے کہ انگلیوں کے نشانات کس طرح موجود رہتے ہیں ؟ “
” اگر تم بُرا نہ مناﺅ کہ تمہارے گلاسوں پر انگلیوں کے نشان پڑ جائیں گے تو میں اپنے لئے ایک اور ’ کیوبا ‘ * بنانے لگی ہوں ۔
لوپیز نے اس کے کہے کو نظر انداز کیا ۔ اس نے مچھلیوں کے بارے میں بات جاری رکھنے کی کوشش کی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
” تمہیں یہ پسند ہے ، ہوہ ؟ “ یہ گپی * ہے ۔ اگر تمہیں یہ پسند ہے تو میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ اسے دیکھو ، اس کا نام ’ کرسٹینا جیورجینا ‘ * ہے ۔ تم نے دیکھا کہ میری گپیوں کے نام بھی شاعرانہ ہیں ۔ یہ ملٹن* ہے ، جو اندھی ہے ؛ اس کی بینائی ’ لیگونز‘ * کے ساتھ لڑائی میں چلی گئی تھی حالانکہ ان دونوں میں سے کوئی بھی لڑاکی نہیں ہے ۔ لیگونز نے بعد میں خود کو مجرم گردانا اور خودکشی کر لی ۔ ہمارے لئے بھی زندگی کچھ اسی طرح کی ہے ۔ ۔ ۔ “
لوپیز نے ، جب یہ دیکھا کہ ازابیل ، جو صوفے پر گلاس ہاتھ میں لیے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی اور اسے لگا کہ وہ سُن نہیں رہی تو اس نے بولنا بند کر دیا اور دو قدم اس کی طرف بڑھا ۔ ” ازابیل ، میں تم سے بات کر رہا ہوں ، کیا تمہیں اس کی پرواہ نہیں ہے ؟ “ ، چلو ٹھیک ہے ، میں سمجھتا ہوں ؛ میری گفتگو تمہیں بور کر رہی ہے ، ٹھیک ؟ “ ، وہ اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا ۔ ” یہ میری ہی غلطی ہے ۔ ہم ابھی تو ملے ہیں ، تم نے میرے مکان ، ایک چھڑے کے گھر، یہاں آنے کے لئے ، میری دعوت قبول کی ۔ مجھے معلوم ہے کہ عورت تبھی ایسا کرتی ہے جب وہ کچھ اور چاہ رہی ہو ، اور طرح کی توجہ ۔ ۔ ۔ “ وہ اس سے لپٹ گیا ۔ ” آﺅ ، ہم سونے کے کمرے میں چلتے ہیں ۔ “
ازابیل نے چِڑ کر خود کو اس سے الگ کیا ۔ ” ارے ، رکو ۔ تمہیں کیا ہو رہا ہے ؟ “
” تم لذت حاصل کرنا چاہتی تھیں ، کیا ایسا نہیں تھا ؟“
” نہیں ! “
”تو پھر تم یہاں کیوں آنا چاہتی تھیں ؟ میں ایک بوڑھا چھڑا آدمی ہوں ۔ تم میرے ساتھ مزہ کرنا چاہتی تھیں ۔ کیا ایسا نہیں تھا ؟ “
” نہیں ! “
” ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شاعر لوپیز کے ساتھ مذاق کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مزہ کیا جا سکتا ہے ۔“ ، اس نے اپنی وہسکی ختم کی اور گلاس میں مزید انڈیلی ۔
” میں تمہارے ساتھ مزہ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔“
” کیا تم اس مہم پر نہیں نکلی تھیں ؟ “
” ہاں ، کچھ ایسا ہی ہے ، لیکن ۔ ۔ ۔ لیکن اب نہیں ۔ میں ایک شادی شدہ عورت ہوں ؛ میری انگوٹھی کو دیکھو ۔ ۔ ۔ “
” تم جھوٹ بول رہی ہو! یہ سچ نہیں ہے! “ ، لوپیز اٹھا اور قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔ اس نے اپنا سر ، اس کی رانوں کے نزدیک صوفے میں دے دیا ۔ ” یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ؟ مجھے اس کا پتہ تھا ۔ مجھے پتہ تھا کہ چیزوں نے نہیں بدلنا ۔ ۔ ۔ “
ازابیل نے اپنا ’ کیوبا ‘ ختم کیا اور اپنے لئے ایک اور بنایا ۔ ” باتھ روم کہاں ہے ؟ “ ، اس نے پوچھا ۔
” اس کمرے کے آخر میں ۔“
ازابیل اُس سمت میں گم ہو گئی ۔ جب وہ واپس آئی تو بولی ؛ ” میں بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی ، بہت ۔ ۔ ۔ مجھے کسی کا ساتھ درکار تھا ۔ میں اب گھر واپس نہیں جانا چاہتی ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہاں کوئی نہیں ہے۔ وہاں ہر شے بے ترتیب ہے ، گندے برتن ، بستر پر کپڑوں کا ڈھیر ۔ ۔ ۔ میرا خاوند ایک ماہ پہلے چلا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اس نے مجھے چھوڑ دیا ۔ ۔ ۔ “
” زندگی بکواس سے بھری ہوئی ہے “ ، لوپیز نے سر اٹھائے بِنا کہا ۔
” میں اس کا انتظار نہیں کرنا چاہتی ، میں یہ سوچتی رہنا بھی نہیں چاہتی کہ وہ واپس آئے گا ۔ ۔ ۔ اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ میں نے ، چنانچہ فرارحاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تمہیں نہیں پتہ کہ یہ سب کیسا لگتا ہے ۔ ۔ ۔ کام پر اس وقت تک رہو جب تک ممکن ہو ، اپنے لئے نئے کام پیدا کر لو اور اس طرح کی اداکاری کرو جیسے سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ، ازدواجی زندگی ٹھیک گزر رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر جب سب چلے جائیں اور جب قوت برداشت جواب دے جائے ۔ ۔ ۔ تب لاپرواہی سے گاڑی چلاتے گھر لوٹو ، زیست کی چاہت کے بغیر ، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید کوئی حادثہ پیش آ جائے اور سب ختم ہو جائے ۔ گھر پہنچنے کے لئے ، کسی کو بھی نہ پانے کے لئے ، یہ جاننے کے لئے کہ وہاں سے ان سب نشانیوں کو ڈبہ بند کرکے ہٹا دیا گیا ہے جو شادی سے تعلق رکھتی تھیں ؛ تصویریں ، شادی کا سرٹیفیکیٹ ، عہد و پیمان ۔ ۔ ۔ وہ ثبوت کہ میں شادی شدہ تھی ۔ ۔ ۔ کہ میں شادی شدہ تھی ۔“
لوپیز نے دلچسپی لیتے ہوئے اپنا سر اٹھایا اور آرام سے بیٹھ گیا تاکہ بہتر طور پر سن سکے ۔ ازابیل اس کے بال سہلانے لگی۔
” اور پھر اس بستر میں سوجاﺅ جسے ایک ماہ سے نہ تو سنوارا گیا تھا اور نہ ہی اس کی چادریں بدلی گئی ہوں ، جس میں اب بھی اس کی باس موجود ہے ۔ ۔ ۔ “ ، وہ مسکرائی ۔ ” ہمارا بستر بہت بڑا ہے ، پیارا ہے اور گول ہے “ ، اس نے خوابی کیفیت میں اس کی شکل اور سائز کو ہاتھوں سے بنایا ۔ ۔ ۔ ” میری ماں نے اسے بیڈروم کے دیگر فرنیچر کے ساتھ تب دیا تھا جب ہماری شادی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ “
” تمہارے خاوند نے تمہیں کیوں چھوڑا ؟ “
” مجھے معلوم نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اس کا کہنا تھا کہ ۔ ۔ ۔ “
” رکو، مجھے باتھ روم جانا ہے ۔ پھر تم مجھے بتاتی رہنا ۔“
ازابیل اپنی یادوں اور کیوبا کے ساتھ اکیلی رہی ۔ لیکن اس نے اپنی کہانی کا سرا فوراً ہی وہیں سے پکڑ لیا جہاں سے یہ ٹوٹا تھا ؛
” اس کا کہنا تھا کہ اس نے مجھے اس لئے چھوڑا کہ میرا خاندان ، ہمارے معاملات میں بہت زیادہ دخل اندازی کرتا تھا “ ، اس نے لوپیز کے واپس آنے پربات جاری رکھی ، ” لیکن یہ سچ نہیں ۔ ۔ ۔ میری ماں تو بس ہماری مدد کرنا چاہتی تھی ۔ اس نے ہمیں بیڈ روم کا سامان دیا ، ٹھیک ؟ اس نے اس ہوٹل کا ، مزید ایک رات کا اضافی کرایہ بھی دیا جس میں ہم نے اپنا ہنی مون منایا تھا ۔ وہ تو اب بھی فرنینڈو کی مداح ہے ۔ وہ ایک موسیقار ہے ۔ وہ پیانو بجاتا ہے ۔ میری ماں ہمیشہ اس کے بارے میں باتیں کرتی رہتی ہے اور اس کے کنسرٹس پر جاتی ہے ۔ “
” اور اس کا اس علیحدٰگی کے بارے میں کیا کہنا ہے ؟ “
” اسے یہ معلو م نہیں ہے ۔ اسے کچھ پتہ نہیں ہے ۔ وہ سمجھتی ہے کہ سب ٹھیک چل رہا ہے ۔ میں نے اسے یہ بتایا کہ فرنینڈو اپنے کنسرٹ ٹور پر گیا ہوا ہے ۔ اس نے کل رات ہی میرا حال چال پوچھنے کے لئے فون کیا تھا ۔“
” تم نے اسے بتایا کیوں نہیں ؟ “
” شاید اس لئے کہ مجھے اب بھی امید ہے کہ چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی ، کہ وہ واپس آ جائے گا ۔ یہی کچھ ہے جو میں ہر رات کرتی ہوں ؛ اس کا نتظار “ ، اس نے رونا شروع کر دیا ۔ ” میں اپنے سب سے اچھے نائٹ گاﺅن پہنتی ہوں ، وہ والے جو اسے پسند ہیں اور بستر میں گھس جاتی ہوں ۔ میں سڑک پر کسی کار کے گزرنے کی آواز سنتی ہوں اور تصور کرتی ہوں کہ یہ اس کی ہے ۔ فرنینڈو کے پاس کار نہیں ہے ؛ اسے کاریں پسند نہیں ہیں ۔ میں سوچتی ہوں ” لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے ، اسے اسی لئے ٹیکسی پر آنا پڑا ہے یا اسے کوئی چھوڑنے آیا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور ایسا ہونے والا بھی نہیں ہے ۔ میں اسے جانتی ہوں ۔ یہی وجہ تھی کہ آج میں گھر نہیں جانا چاہتی تھی ۔ یہ کارن بنا کہ میں ۔ ۔ ۔ مہم جوئی ۔ ۔ ۔ پر نکلی ۔ ۔ ۔ تاکہ میں یہ محسوس کر سکوں کہ میں اب بھی لطف اندوز ہو سکتی ہوں ، کہ میں ابھی دلکش ہوں اور ۔ ۔ ۔ میں اس سے نفرت کرتی ہوں ۔ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں اس سے کتنی نفرت کرتی ہوں! “
اس کا کیوبا ختم ہو چکا تھا ۔ اس نے اپنے لئے ایک اور بنایا ۔ لوپیز نے بھی اپنے لئے ایک اور ڈرنک بنایا ۔
” تم نے مجھے ہی کیوں چُنا ؟ “
” مجھے نہیں پتہ ۔“
” کیا میں تمہیں اچھا لگا ؟ کیا تمہیں شاعر لوپیز اچھا لگا ؟ “
” مجھے معلوم نہیں ، شاید ۔ بہرحال اس کا مقصد وہ نہیں تھا جو تم سمجھے۔ میں نے تمہیں اکیلا پایا ، ویسے ہی جیسے میں اکیلی تھی ۔ ۔ ۔ “
وہ دونوں کافی دیر خاموش رہے اور شراب پیتے رہے ۔ لوپیز نے دیر تک ازابیل کو دیکھا اور پھر اداسی سے اس سے پوچھا ؛
” اب تم میرے ساتھ مہم پر نہیں جانا چاہتیں ؟ “
” نہیں ۔ اس وقت نہیں ۔ ۔ ۔ میں بہت افسردہ ہوں “ ، اس نے آہ بھری ۔ ” تمہارے پاس سگریٹ ہیں ؟ “
مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم سگریٹ پیتی ہو “ ، لوپیز اٹھا اور بکسوں میں تلاش کرنے لگا ۔ وہ اب لڑکھڑانے لگا تھا ۔
” میں اب سگریٹ نہیں پیتی ۔ میں نے شادی والے دن انہیں چھوڑ دیا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن اس وقت مجھے سگریٹ پینے کی طلب ہو رہی ہے ۔ “
لوپیز نے ایک کھلی ڈبی ، جو اسے اپنی چیزوں میں سے ملی تھی ، اسے دی ۔ اس نے ڈبی پکڑی ، بولنا بند کیا اور ایک سگریٹ لینے سے پہلے ڈبی کو غور سے دیکھا ۔
” تم سگریٹ پیتے ہو؟ “ ، اس نے لوپیز سے پوچھا ۔
” نہیں ، دیکھو ، کچھ ایسا ہے کہ یہ لاس ویگاس میں بہت سستے تھے اور میں نے سوچا کہ انہیں لے کر گھر میں رکھنا مناسب ہو گا ۔ اور دیکھا ، اب یہ ۔ ۔ ۔ “
ازابیل تلخی سے مسکرائی ۔
” تمہیں سستی اشیاء بہت پسند ہیں ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ “
” نہیں ۔ مجھے معلوم تھا کہ تم یہی کہو گی ۔ تم پہلے ایسا کہتے ہوئے ڈر رہی تھیں ، ٹھیک ؟ تمہارا خیال ہے کہ ایسا اس لئے ہے کہ میں ایک شاعر ہوں۔ سارے شاعر ’ ویلجو‘* ہوتے ہیں ، ٹھیک ؟ ہم سب وہ بوتلیں اکٹھی کرنے جاتے ہیں جو کوڑے میں پھینکی گئی ہوتی ہیں ۔“
ازابیل کو ایک دُکھی احساس ہوا اوراس نے چاہا کہ وہ اسے گلے لگا لے اور اس نے ایسا ہی کیا ۔
” مجھے افسوس ہے ۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا ، میں تمہارے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتی تھی ۔ یہ تو بس ۔ ۔ ۔ ایک لمحے کے لئے میں نے سوچا تھا کہ میں ۔ ۔ ۔ بھی تمہاری سودا بازی کا حصہ تھی ۔ “
” بولتی جاﺅ ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ شاعر حساس ہوتے ہیں ۔ ہمیں کوئی بھی نہیں سمجھتا ۔ ۔ ۔ “
وہ خاموش ہو گئے ۔ لوپیز ازابیل کے گھٹنے سہلانے لگا ؛ اس میں شہوت کا کوئی دخل نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کوئی کومَلتا تھی ، وہ تو بس بے خیالی میں ایسا کر رہا تھا ۔
” کیا تم اپنی سٹاکنگز اتارنا نہیں چاہو گی ؟ یوں تم زیادہ آرام محسوس کرو گی ۔“
ازابیل نے اس کا ہاتھ اپنی ٹانگوں سے جھٹکا ۔
”بہتر ہو گا کہ تم مجھے اپنی ننھی مچھلیوں کے بارے میں بتاﺅ ۔ “ ، وہ اٹھ کھڑی ہوئی ، ” آﺅ ، کیوں نہیں ؟ مجھے دکھاﺅ ۔“
” نہیں‘ ، لوپیز نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن ازابیل نے اسے بازو سے پکڑا اور ایکویریم تک لے گئی اور شیشے کو ہاتھ لگائے بغیر اشارہ کرنے لگی ۔
” اس کا کیا نام ہے ؟ “
” دانتے* “ ، لوپیز خجالت محسوس کر رہا تھا جبکہ ازابیل محظوظ ہو رہی تھی ۔
” اور اس کا جو کُبٹری سی ہے ؟ “
” جوآن رویز* “
” اور یہ خودکشی نہیں کرتیں ؟ “
” نہیں ۔ ۔ ۔ ازابیل سنو ، میری بات سنو ۔ میں خود کو چغد محسوس کر رہا ہوں ۔ تم سوچتی ہو کہ میں پاگل ہوں یا دماغی امراض کا مارا ہوں یا ۔ ۔ ۔ “
” نہیں ! تم چغد نہیں ہو ۔“
” یہ ذی روح ہی میری کل کائنات ہیں ، تم دیکھ رہی ہو نا ؟ یہی تو ہیں جومیرا ساتھ دیتے ہیں اور میری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ ان کو دیکھو ؛ میں تو ان کے پاس اپنے ہاتھ کے سوا اور کچھ بھی نہیں لے کر جاتا اور یہ خوش ہو جاتے ہیں ۔ تمہارا خیال ہے کہ لوگ میرے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کیا ؟ کبھی نہیں ، ازابیل ، کبھی نہیں ۔ میں آٹھ سال جیل میں رہا ہوں ؛ بھیانک جیل میں ۔ میں نے اپنی جوانی وہاں گلا دی ؛ میں دوست نہیں بنا سکتا تھا ، دوسرے شاعروں سے تعلق نہیں جوڑ سکتا تھا ، دنیا سے رابطہ نہیں کر سکتا تھا ، بلکہ اس سے بھی کم ۔ ۔ ۔ ۔ “
” تم جیل میں کیوں تھے ؟ “ ، ازابیل نے پریشان ہو کر پوچھا ۔
” یہ کچھ ایسے ہے جیسے میں جیل میں تھا ، سمجھیں تم ؟ میں نے ایک بلا جیسی عورت سے شادی کی تھی ؛ اس کے ساتھ رہتے ہوئے ہر شے ممنوع تھی ؛ دوست رکھنا ، شاعری کرنا ، دن میں خواب دیکھنا ۔ ۔ ۔ “
ازابیل نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے صوفے تک لے آئی ۔ ” آﺅ اور مجھے سب کچھ بتاﺅ ۔ ہم اپنے لئے ایک ایک ڈرنک اور بناتے ہیں ، ٹھیک ہے نا ؟ “
” میرا خیال ہے ، میں پہلے ہی اپنی حد پار کر چکا ہوں۔ میں اس دنیا کا بندہ نہیں ہوں ؛ مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔“ ، وہ رکا اور ازابیل کو شراب گلاس میں انڈیلتے دیکھتا رہا اور پھر اس نے ارادہ بدلا ۔ ” ٹھیک ہے ، میرے لئے بھی ایک اور بنا دو پلیز ۔ “
” آہا ، میں سن رہی ہوں “ ، ازابیل نے اسے بات جاری رکھنے کو کہا ۔ لیکن وہ اداس ہو گیا تھا اور کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا ۔
” تمہاری طلاق کو کتنا عرصہ ہوا ؟ “ ، ازابیل نے پوچھا ۔
” ہم دو ماہ پہلے الگ ہوئے تھے ۔ پھر میں امریکہ چلا گیا ۔ میں سفر کرنا چاہتا تھا ۔ میں جب اس کے ساتھ تھا تو میں یہ کبھی نہیں کرسکا ۔ میں مزہ کرنا چاہتا تھا ، میں ایسی جگہیں دیکھنا چاہتا تھا جن سے محظوظ ہوا جا سکے ؛ میں لاس ویگاس گیا ۔ میں نے وہاں دو ہفتے گزارے ۔ پھر میں یہاں آ گیا ۔ میں ابھی اس گھر میں منتقل ہوا ہوں ۔“
” میں نے یہ محسوس کر لیا ہے ۔“ ، ازابیل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ابھی بھی اداس تھا ، اس نے ایک سگریٹ اور سلگایا ۔ ” میں باتھ روم جا رہی ہوں ۔“ ، اس نے کہا اور جب وہ واپس آئی تو اس نے پھر سے اپنے بارے میں باتیں شروع کر دیں ۔
” میرے پاس بھی کچھ نہیں ہے ۔ اس وقت نہیں ۔ تم نے میری کار دیکھی ہے ؛ یہ نئی ہے ۔ میرا گھر اپنا ہے اور یہ خوبصورت بھی ہے ، لکڑی سے مزین دیواریں ، بالکونی اور سٹوڈیو، جس میں میرا خاوند کام کرتا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن مجھے ان سب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ میں جو چاہتی ہوں وہ کہیں دور ہے ۔ ۔ ۔ چنانچہ ۔ ۔ ۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، سمجھے ؟ میری حالت تو تم سے بھی بُری ہے ۔“
” کیا تم نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی ؟ “
” بہت دفعہ “
” اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ کیا امید کی کوئی کرن نہیں ؟ “
” اگر مجھے امید ہوتی تو میں یہاں نہ ہوتی ۔“
لوپیز بے خیالی میں پھر اس کی ٹانگوں کو سہلانے لگا ۔ اس نے شراب کا گھونٹ بھرا اور سیدھے پوچھا ؛ ” کیا وہ بستر میں اچھا ہے ؟ “
” زبردست “ ، ازابیل نے ٹھنڈی سانس بھری ، ” وہ بہت ہی زبردست ہے ۔“
” وہ جانتا ہے کہ بہت سی حرکات کیسے کی جاتی ہیں ، ٹھیک ؟ مجھے بتاﺅ کہ وہ تمہارے ساتھ کیا کیا کرتا تھا ۔ میں سیکھنا چاہتا ہوں ۔“
ازابیل نے اپنی ٹانگوں سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور آہ بھرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
” فرنینڈو ۔ ۔ ۔ تم کہاں ہو ؟ میری جان ، تم کہاں ہو ؟ اس نے اپنے بازوﺅں ، چھاتیوں کو خوابی کیفیت میں سہلانا شروع کر دیا ۔ ” فرنینڈو ۔ ۔ ۔ “
” سنو ، ایسا مت کرو ، پلیز ۔ ۔ ۔“
ازابیل نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے اپنی حرکتیں جاری رکھیں ؛ ” فرنینڈو ۔ ۔ ۔“
لوپیز ایک دم اٹھا اور اس کا بازو پکڑ کر بولا۔ ” رک جاﺅ ورنہ میں ذمہ دار نہیں ہوں گا ۔“
ازابیل رک گئی ۔
”تم ، کیا کہنا چاہ رہے ہو ؟ “
” ” تم مجھے بہت ستا چکی ہو ، سنا تم نے ؟ تم یہاں آناچاہتی تھیں ۔ اب تمہیں مجھے شانت بھی کرنا ہو گا ۔“ ، اس نے ازابیل کا بوسہ لینے کی کوشش کی ۔
” چھوڑو مجھے ! “ ، ازابیل نے اسے زور سے دھکیلا جس سے وہ فرش پر گر گیا ۔ اس نے رَم کی بوتل پکڑی اور اس پر یوں لہرائی جیسے وہ اسے ، اس سے مارنا چاہتی ہو ۔
لوپیز نے بھدے پن سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اچانک اسے لگا کہ وہ نشے میں چُورہو ۔
” مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ، سمجھیں ؟ میں نے لگ بھگ دس سال تکلیف دہ ازدواجی زندگی کے جہنم میں گزارے ہیں ، جیل میرے لئے کیا معانی رکھتی ہے ؟ مجھے بتاﺅ ، کہ جیل میرا کیا بگاڑ سکتی ہے ؟ میں سب کچھ کرنے کے قابل ہوں ۔“ لیکن اس کی باتیں ایسی نہ تھیں کہ ان سے قائل ہوا جا سکے ؛ وہ ایک بُرے اداکار کی طرح بول رہا تھا ۔ پھر اس کی غصہ بھری آواز ، شکست بھری آواز میں بدل گئی لیکن اب اس کی آواز میں وزن تھا ۔ ” میں تو تمہیں ڈرا بھی نہیں سکتا۔ دیکھا ؟ “ ، اس نے سر لٹکایا ۔ ” دیکھو تم نے مجھے کیا کردیا ہے ؛ میں خواہش سے کانپ رہا ہوں ۔ ازابیل ، میں اسے اور زیادہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ میں ایک عورت کے واسطے مر رہا ہوں ، میں ایک عورت کا جسم اپنی بانہوں میں لینا چاہتا ہوں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ہے ، ایک گھنٹہ ، کچھ دیر کے لئے ہی سہی ۔ ۔ ۔ اپنی بیوی کے ساتھ ، میں ۔ ۔ ۔ کبھی بھی نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن تمہیں کیا پرواہ ہے ، تم ’ کوئی‘ نہیں ہو ۔ ۔ ۔ تم جوان ہواور خوبصورت بھی ۔ ۔ ۔ ایک شہزادی ۔ ۔ ۔ میرے ساتھ رہو ، ازابیل ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب کچھ نہیں ہونے والا ۔ بس مجھے یہ بتا دو کہ کیا تم میرے ساتھ رہو گی ۔ مجھے ایک موقع تو دو۔“
ازابیل اب پُرسکون لگ رہی تھی ۔ اس نے بوتل واپس میز پر رکھی ، اسے کھولا اور اس میں سے کچھ رَم پی اور ایک سگریٹ بھی سلگایا ۔
” خود کو اذیت دینا بند کرو “ ، اس نے ایک لمبا سانس چھوڑتے ہوئے کہا ۔
لوپیز نے قالین پر یوں گھسٹنا شروع کر دیا جیسے زخمی ہو ۔
”تمہارے لئے اس بات کی کیا اہمیت ہے ؟ تمہیں ایک شاعر کی قسمت سے کیا لینا دینا ؟ میرا انجام الفونسیناIII کی طرح ہونے والا ہے ؛ شہتیرسے لٹکے چوہے کی مانند پھٹ جانا اور پھرسب خوش ۔ ۔ ۔ “
” میں جا رہی ہوں ۔ کیا تم مجھے میری جیکٹ اور پرس لا دو گے ؟ “
” نہیں ، میں نہیں چاہتا کہ تم جاﺅ ۔ ۔ ۔ میں تمہیں کچھ بھی لا کر نہیں دوں گا ۔“
” ٹھیک ہے ، انہیں رکھو ۔ ۔ ۔ “ ، وہ دروازے کی طرف بڑھی اور اسے کھولنے کی کوشش کی ۔ ” مجھے چابی دے دو ، پلیز۔“
لوپیز اٹھ کھڑا ہوا ۔ ” مت جاﺅ۔“
” مجھے چابی دو ۔“ ،ازابیل نے دھمکی آمیز لہجے میں ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔
” او کے ، ٹھیک ہے ۔ لیکن رکو ، میں تمہاری چیزیں لاتا ہوں ۔“ ، لوپیز سونے والے کمرے میں گیا ۔ ازابیل نے اس دوران خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کی ۔ وہ واپس میز کے پاس گئی اور وہاں چھوڑا اپنا ’ کیوبا ‘ کو فراغ دلی سے پیا ۔ لوپیز پہلے باتھ روم گیا ، کچھ دیر وہاں رُکا اور پھر اس کی جیکٹ ، پرس اور ایک چھوٹی سیاہ نوٹ بک لیے واپس آیا ۔
”کیا تم مجھے اپنا ٹیلی فون نمبر دو گی ؟ “
” بالکل نہیں “ ، ازابیل نے جمائی لیتے ہوئے جواب دیا ۔ اسے نیند آ رہی تھی ا ورنشہ بھی محسوس ہو رہا تھا ۔
”مجھے ایک خیال آیا ہے “ ، لوپیز فون نمبر کا اصرار چھوڑ کراچانک بولا ۔ ” کیا تمہیں پتہ ہے کہ تمہارا خاوند اس وقت کہاں ہے ؟ “
ازابیل نے پھر جمائی لی اور اپنے ’ کیوبا ‘ کا آخری گھونٹ بھرا اور اسے ختم کر دیا ۔ اس نے مزید شراب اپنے گلاس میں نہ ڈالی ۔
” میرا خیال ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے گھروں میں سے کسی ایک میں ہو گا ۔ لیکن تم یہ کیوں جاننا چاہتے ہو ؟ “
” میں یہ کیوں جاننا چاہتا ہوں ؟ تو سنو بیوقوف ، میں اسے فون کر سکتا ہوں اور اسے بتا سکتا ہوں کہ تمہارے ساتھ ایک حادثہ پیش آ گیا تھا اور میں تمہیں یہاں لے آیا ہوں اور یہ کہ اسے یہاں آنا چاہیے ۔ ۔ ۔“
” تم پاگل ہو ۔ دروازہ کھولو ، کیا تم نہیں کھولو گے ؟ میں گھر جانا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ “
” رکو ، میری بات سنو “ ، لوپیز اس کے پاس بیٹھ گیا ، ” کیا میں تمہارے لئے ایک اور ڈرنک بناﺅں ؟ “
” نہیں ۔ میں اب یہ چاہتی ہوں کہ اپنے بستر میں جا کر لیٹوں ، میں تھک چکی ہوں ۔“ ، وہ بچے کی مانند منہ بسورنے لگی لیکن صوفے سے نہ اٹھی ۔ ” میں بہت تھک چکی ہوں اور میں ایک پاگل آدمی کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی ۔ ۔ ۔ ۔“
” ٹھیک ہے ، لیکن میں ایک اور پینے لگا ہوں ، کلاڈیا سے کبھی ۔ ۔ ۔ “ ، اس نے ایک اور ڈرنک بنایا ۔ ” ہمیں ایک منصوبہ بنانا ہو گا ۔ دیکھو ہم اس کے دوستوں کی فہرست بناتے ہیں ۔ پھر ہم ان میں سے ایک ایک کرکے کاٹتے جائیں گے ۔ اور پھر ممکنہ طور پر اس کے نزدیک پہنچ جائیں گے۔ کیا خیال ہے ؟ پھر میں انہیں فون کرنا شروع کر سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔“
” وہ تم سے بدتمیزی کریں گے ۔ اس وقت صبح کے چار بج رہے ہیں ۔“
” نہیں ۔ سنو ۔ میں انہیں کہوں گا کہ یہ فوری اور اہم ہے ، سنجیدہ بات ہے اور یہ کہ مجھے مسٹر فرنینڈو سے ضروری بات کرنا ہے ۔ ۔ ۔ اس کا آخری نام کیا ہے ؟ “
” کاسترو“ ، ازابیل نے پھر سے جمائیاں لینی شروع کر دیں ۔ اسے گفتگو میں دلچسپی نہ تھی اور وہ اتنا تھک چکی تھی کہ جانے پر اصرار بھی نہ کر سکی ۔ اس نے اپنی ٹانگیں صوفے پر رکھیں اور اپنی گردن کو صوفے کی پشت سے لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔
چند گھنٹوں بعد جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو اس نے لوپیز کو اپنے قدموں میں ، قالین پر سوئے پایا ۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اوروہ خراٹے لیے بغیر گہرے سانس لیتا ،ایک بچے کی مانند سو رہا تھا ۔ اسے یوں سویا دیکھ کر لوپیز پر رحم آیا ۔
وہ باتھ روم میں گئی ، منہ دھویا اورخود کو کسی حد تک سنوارا ۔ تھکاوٹ سے چُور اس نے آہ بھری ۔
اس نے شاعر کو نہ جگایا ، لیکن لگتا تھا کہ وہ اس کے خود سے اٹھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہتی تھی ، اس کی بیوقوفانہ باتیں پھر سے نہیں سننا چاہتی تھی اور اس کے ساتھ ناشتہ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ اس کی مدد نہیں کی جا سکتی ، اس نے سوچا ۔ اسے سونے والے کمرے میں اس کے کوٹ کی جیب سے چابیاں مل گئیں جو اس نے غیر سنورے بستر پر پھینک رکھا تھا ۔
لوپیز نے اس کے جانے کی آواز نہ سنی ۔
وہ ، لفٹ میں ، ایک لمحے کے لئے ہچکچائی اور سوچا کہ وہ اپارٹمنٹ میں واپس جائے اور اس کے لئے ایک الوداعی رقعہ لکھ کر چھوڑے ۔ اسے ، چوروں کی طرح یوں جانا بُرا لگ رہا تھا ۔ اور ایسا بھی تھا کہ اس نے اس کا فون نمبر بھی تو مانگا تھا اور اس نے یہ اس لئے نہیں دیا تھا کہ اس وقت وہ غصے میں تھی ۔ فون نمبر دینے میں ہرج ہی کیا تھا ؟ شاید وہ دوست بن سکتے تھے۔ کسی روز ، کسی اچھے وقت میں کافی پینے کے لئے مل سکتے تھے ۔ نہیں ! اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔ شاعروں کی بدقسمتی اور مچھلیوں کے بارے میں پاگل پنے کی باتیں ۔ ۔ ۔ نہیں سنی جا سکتی تھیں ! “
سڑک پر دن طلوع ہو رہا تھا ۔ ازابیل کی کارعمارت کے سامنے کھڑی تھی جو شبنم کی وجہ سے گیلی اور صبح کی پیلی روشنی میں نہائی ہوئی تھی ۔
( اگر وہ لوٹتی تاکہ لوپیز کے لئے فون نمبر یا الوداعی نوٹ چھوڑ سکے تو ازابیل نے یہ دیکھ لیا ہوتا کہ مایاکوفسکی II نے ایکویریم سے باہر چھلانگ لگا کر اسے مرنے سے بچا لیا تھا ۔ لیکن اسے یہ پتہ نہ چل سکا ۔ اس نے پھر اُس آدمی یا اس کی مچھلیوں کو نہ کبھی دیکھا اور نہ ہی ان کی بابت کچھ سنا ۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*لائم = Lime ، لیموں جیسا ایک سٹرس ( Citrus ) پھل
*’ کیوبا لبرے ‘ یا کیوبا = Cuba libre ، رَم ، کوکا کولا اور لائم کا کاک ٹیل
* الفونسینا= Alfonsina Storni ، ارجنٹائن کی ماڈرن اور فیمینسٹ شاعرہ ( 1892 ء تا 1938ء) ، جس نے چھاتی کا کینسرٹھیک نہ ہونے پرسمندر میں ڈوب کر خود کشی کر لی تھی ۔
*آسکر = Oscar ، جنوبی امریکہ میں پائے جانے والی ایک مچھلی جسے یورپ اور امریکہ میں ایکویرم میں رکھا جانا پسند کیا جاتا ہے ۔
*مایاکوفسکی = Vladimir Mayakovsky ، سوویت یونین کا انقلابی شاعر ، ڈرامہ نگار اور آرٹسٹ ( 1893ء تا 1930ء) ، اس نے بھی