وار فِکشن ۔ 6
آئرش افسانہ
نشانچی ( The Sniper ، 1923 )
لیام او' فلیہرتے
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاور
جون کی لمبی شام کا جھٹ پٹا رات میں ڈھل چکا تھا ۔ ویسے تو ڈبلن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن ہلکے پشمی بادلوں سے چھن کرآتی چاند کی مدہم روشنی گلیوں اور دریائے ’ لیفے‘ پر کچھ ایسا سماں پیش کر رہی تھی جیسے صبح ہونے والی ہو ۔ محصور ’ فور کورٹس‘ کے اردگرد بھاری توپیں گرج رہی تھیں ۔ شہر بھر میں یہاں وہاں مشین گنوں اور بندوقوں کی تڑ تڑ ، رہ رہ کر رات کی خاموشی تو ایسے توڑ رہی تھی جیسے سنسان کھیتوں میں کتے بھونکتے ہیں ۔ ری پبلکنز اور اس کے مخالفوں میں خانہ جنگی جاری تھی ۔
او‘ کونیل پُل کے پاس ایک چھت پرایک ری ۔ پبلکن نشانچی تاڑ میں لیٹا تھا ۔ اس کی رائفل اس کے پاس پڑی تھی جبکہ اس کے کندھے پر ایک دوربین لٹک رہی تھی ۔ اس کا چہرہ ایک طالب علم جیسا لگتا تھا جو پتلا اور عابدانہ تھا لیکن اس کی آنکھوں میں انتہا پسندی کی سرد چمک تھی ۔ ان میں گہرا پن اور تفکر تھا ۔ یہ ایسے آدمی کی آنکھیں تھیں جو انہیں موت سے چار کرنے کا عادی تھا ۔
وہ بھوکوں کی طرح ایک سینڈوِچ کھا رہا تھا ۔ اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ وہ کھانے کا لطف لے رہا تھا ۔ سینڈوِچ کھا کر اس نے جیب سے وہسکی کی ’ فلاسک‘ نکالی اور ایک چھوٹا گھونٹ بھرا ۔ پھر اس نے اسے جیب میں واپس رکھا ۔ وہ ایک لمحے کے لئے رکا اور سوچا کہ اسے سگریٹ پینے کا خطرہ مول لینا چاہیے یا نہیں ۔ ایسا کرنا خطرے سے خالی نہ تھا ۔ سگریٹ جلانے کی وجہ سے پیدا ہوئی روشنی اندھیرے میں دیکھی جا سکتی تھی اور وہاں دشمن بھی تاڑ میں تھے ۔ اس نے یہ خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا ۔
ایک سگریٹ اپنے لبوں میں دبائے اس نے ماچس کی تیلی جلائی ۔ اس نے جلدی سے اس کا دھواں اندر کھینچا اور تیلی بجھا دی ۔ ٹھیک اسی وقت ایک گولی چلی اورچھت کے چھجے میں آ کر دھنس گئی ۔ نشانچی نے جلدی سے سگریٹ کا ایک کش اور لیا اور اسے بجھا دیا ۔ پھر اس نے منہ ہی منہ میں غلطی نہ دہرانے قسم کھائی اوربائیں طرف رینگ گیا ۔
اس نے محتاط انداز میں خود کو اوپر اٹھایا اور چھت کے چھجے کی طرف دیکھا ۔ ایک چمک ابھری اور ایک گولی زناٹے سے اس کے سر کے اوپر سے گزر گئی ۔ اس نے تیزی سے خود کو نیچے کیا ۔ اس نے چمک کو دیکھ لیا تھا۔ یہ گلی کی دوسری طرف سے آئی تھی ۔
وہ رینگتا ہوا چھت پر ابھری چمنی کی عقبی طرف گیا اورخود کو اس کے پیچھے چھپاتے ہوئے اوپر اٹھا یہاں تک کے اس کی آنکھیں چھجے کی سطح پر آ گئیں ۔ وہاں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ ۔ ۔ سامنے والے ایک مکان کا مدہم سا خاکہ ہی تھا جو نیلگوں آسمان کے سامنے نظر آ رہا تھا ۔ اس کا دشمن چھپا ہوا تھا ۔
اسی وقت ایک بکتربند گاڑی پل پر سے آئی اور آہستہ آہستہ گلی کی طرف بڑھی ۔ وہ سڑک کی دوسری جانب پچاس گز کے فاصلے پر رکی ۔ نشانچی کو موٹر چلنے کی بھاری آواز سنائی دے رہی تھی ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی ۔ یہ کار دشمن کی تھی ۔ وہ گولی چلانا چاہتا تھا ، لیکن اسے معلوم تھا کہ ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔ اس کی گولیاں اس سرمئی عفریت کے آہن میں بھی دھنس نہ پاتیں ۔
تب گلی کی نکڑ سے ایک بوڑھی عورت سامنے آئی ۔ اس نے خود کو ایک پرانی اوربوسیدہ چادر سے ڈھانپ رکھا تھا ۔ وہ بکتر بند گاڑی میں بیٹھے آدمی سے باتیں کرنے لگی ۔ وہ اس چھت کی طرف اشارہ کر رہی تھی جس پر نشانچی بیٹھا تھا ۔ وہ ایک مخبر تھی ۔
گاڑی کی چھت والی کھڑکی کھلی اور اس میں سے ایک بندے کا سر اور کندھے نظر آئے ۔ وہ نشانچی کی دیکھ رہا تھا ۔ نشانچی نے رائفل اٹھائی اور گولی داغ دی ۔ اس آدمی کا سر دھم سے گاڑی کی چھت پر گرا ۔ عورت تیزی سے گلی کی ایک سمت میں لپکی ۔ نشانچی نے دوبارہ گولی چلائی ۔ عورت چکر کھا کر گھومی اور وہ چیخ مارتی ہوئی گٹر میں جا گری ۔
اچانک سامنے والی چھت سے ایک گولی چلی ۔ نشانچی نے اس پر لعنت بھیجی اور رائفل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔ رائفل نے چھت ہے ٹکرا کر آواز پیدا کی ۔ اس نے سوچا کہ یہ آواز تومردوں کو بھی جگانے کے لئے کافی تھی ۔ اس نے جھک کر رائفل کو تھامنا چاہی لیکن اس کے بازو میں جان نہ تھی ۔
” مجھے گولی لگ گئی ہے ۔“ ، وہ بڑبڑایا ۔
خود کو چھت پر سیدھا گراتے ہوئے وہ رینگتا ہوا چھجے کی طرف واپس گیا ۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے زخمی دائیں بازو کو ٹٹول کر دیکھا ۔ اس کے کوٹ کی آستین سے خون بہہ رہا تھا ۔ اسے کوئی درد نہ تھی بس سُن ہونے کا احساس تھا جیسے اس کا بازو کاٹ دیا گیا ہو ۔
اس نے جلدی سے اپنی جیب سے چاقو نکالا ، چمنی کی دیوار کے ساتھ اَڑیس دے کر اسے کھولا اور کوٹ کی آستین کو چیر دیا ۔ جہاں گولی بازو میں داخل ہوئی تھی وہاں ایک چھوٹا سا سوراخ تھا ۔ دوسری جانب کوئی سوراخ نہ تھا ۔ گولی ہڈی میں اتر چکی تھی ۔’ اس نے یقیناً اسے چٹخا دیا ہو گا ۔‘ ، اس نے سوچا ، اس نے زخم کے نیچے بازو کو خم دینا چاہا ، بازو آسانی سے خم کھا گیا ۔ تکلیف اور درد پر قابو پانے کے لئے اس نے دانت بھینچے ۔
پھر اس نے پٹیاں نکالیں اور ان میں سے ایک کو چاقو کی نوک سے کھولا ، اس نے آیوڈین کی بوتل کا ڈھکن توڑا اور اس تلخ مائع کو اپنے زخم پر بہنے دیا ۔ درد کی تیز ٹیسوں سے اسے پسینہ آ گیا ۔ اس نے زخم پر روئی رکھی اور اس پر پٹی کس کر لپیٹی اور اس کے سروں کو دانتوں میں دبا کر باندھ دیا ۔
وہ چھجے کے ساتھ ٹیک لگا کر ، آنکھیں بند کئے بے حس پڑا رہا اور اپنی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے درد پر قابو پانے لگا ۔ نیچے گلی میں مکمل سکوت تھا ۔ بکتر بند گاڑی ، جس کی چھت پرمشین گن چلانے والے کا مردہ سر ڈھلکا ہوا تھا ، تیزی سے پل سے ہوتے ہوئے واپس جا چکی تھی ۔ عورت کی لاش ابھی بھی گٹر میں پڑی ہوئی تھی ۔
نشانچی کافی دیر لیٹا ، اپنے زخمی بازو کو سہلاتا رہا اوربھاگ جانے کے بارے میں سوچتا رہا ۔ اسے صبح ہونے پر ، زخمی حالت میں چھت پر موجود نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ سامنے والی چھت پر موجود دشمن نے اس کے بھاگنے کا راستہ مسدود کر رکھا تھا ۔ اسے اپنے دشمن کو لازماً ہلاک کرنا تھا لیکن وہ رائفل استعمال نہیں کر سکتا تھا ۔ یہ کام کرنے کے لئے اب اس کے پاس بس ایک ریوالور ہی تھا ۔ پھر اس نے ایک منصوبہ بنایا ۔
اس نے اپنی ٹوپی رائفل کی نالی کے دہانے پر رکھی اور آہستہ آہستہ اسے چھجے سے اوپر کرنے لگا ، یہاں تک کہ وہ گلی کے پرلی طرف سے بھی نظر آنے لگی ۔ عین اسی وقت اس طرف سے گولی چلی اور ٹوپی کو چھیدتی چلی گئی ۔ اس نے اپنی رائفل کو ذرا آگے جھکایا ۔ ٹوپی گلی میں جا گری ۔ تب اس نے رائفل کو درمیان سے تھاما اور اپنا بایاں بازو چھت سے نیچے لٹکا کر اسے ساکت کر لیا ۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی رائفل بھی گلی میں پھینک دی ۔ پھر اس نے اپنے بائیں ہاتھ کے زور پر خود کو گھسیٹ کر چھت میں غائب کر لیا ۔
وہ رینگتے ہوئے چھت کے ایک کونے میں گیا اور نیچے نظر دوڑائی ۔ اس کی چال کامیاب رہی تھی ۔ دوسرے نشانچی نے ٹوپی اور رائفل کو گلی میں گرے دیکھ کر یہ سوچا تھا کہ اس نے اپنا شکار مار لیا تھا ۔ اب وہ چمنی کے پاس کھڑا سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا اور مغرب میں آسمان کے سامنے اس کا سر واضح طور پر نظر آ رہا تھا ۔
ری ۔ پبلکن نشانچی مسکرایا اور اس نے اپنا ریوالور اونچا کرتے ہوئے اسے چھجے کی نوک پر ٹکایا ۔ فاصلہ لگ بھگ پچاس گز کا تھا ۔ ۔ ۔ اتنی مدہم روشنی میں یہ ایک مشکل نشانہ تھا اوراس کا دایاں بازو ایسے درد کر رہا تھا جیسے اس میں ہزاروں شیطان ناچ رہے ہوں ۔ اس نے نشانہ باندھا ۔ اس کا ہاتھ شکارکی ’ موہ ‘ کی وجہ سے کانپا ۔ اس نے اپنے لب بھینچے ، ناک سے ایک لمبی سانس لی اور گولی چلا دی ۔ اس کے دھماکے نے اسے کسی حد تک بہرہ کر دیا اور اس کا ہاتھ واپسی جھٹکے کے باعث زور سے ہلا ۔
اور جب دھواں صاف ہوا تو اس نے سامنے کی طرف دیکھا اور خوشی سے چلایا ۔ اس کی گولی دشمن کو لگ چکی تھی ۔ وہ سامنے والی چھت کے چھجے پر زندگی اورموت کی کشمکش میں لٹکا ہوا تھا ۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آہستہ آہستہ آگے کی طرف لڑھک رہا تھا ایسے ، جیسے کہ خوابی کیفیت میں ہو ۔ رائفل اس کی گرفت سے چھوٹی ، چھجے سے ٹکرائی ، نائی کی دکان کے کھمبے سے ٹکر کھاتی کھڑکھڑاہٹ پیدا کرتی فٹ پاتھ پرجا گری ۔
پھر چھت پر مرتے آدمی نے بھی خم کھایا اور آگے کی طرف گر گیا ۔ اس کا جسم ہوا میں چکر کھاتا ، ایک بھاری دھمک کے ساتھ زمین پر جا گرا اور ساکت ہو گیا ۔
نشانچی نے اپنے دشمن کو گرتے دیکھا اور جھرجھری لی ۔ لڑائی کی ہوس اس کے اندر دم توڑ گئی ۔ پچھتاوے کا ا حساس اس پر حاوی ہو گیا ۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھرے ۔ اپنے زخم کے کارن ، گرمیوں کے ایک لمبے دن بھوکا رہنے اور رات بھر چھت پر آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی وجہ سے اس نے اپنے دشمن کے مردہ جسم کے بکھرے ٹکڑے دیکھنے سے گریز کیا ۔ اس کے دانت بجے اور اس نے خود سے بے تکی باتیں شروع کر دیں ۔ وہ جنگ کو کوس رہا تھا ، وہ خود کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور وہ ہر ایک کی نِندا کر رہا تھا ۔
اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے دھواں چھوڑتے ریوالور کو دیکھا اور ایک مصمم ارادے کے ساتھ اسے اپنے قدموں میں، چھت پر ہی ، پھینک دیا ۔ چھت پر گرنے کی چوٹ کھانے سے یہ چل گیا اور ایک گولی اس کے سر کے پاس سے زوں کرکے نکل گئی ۔ اس دھچکے سے خوفزدہ ہو کر وہ اپنے حواس میں لوٹ آیا اور اس کے اعصاب سکون میں آ گئے ۔ خوف کے بادل اس کے ذہن سے چھٹ گئے اور وہ ہنسنے لگا ۔
اس نے ، اپنی جیب سے وہسکی کی فلاسک نکال کر ، اس کا آخری قطرہ تک پی ڈالا ۔ الکحل اس کے محتاط رویے پر اثرانداز ہوئی ۔ اس نے چھت چھوڑنے اور اپنے کمپنی کمانڈر کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے بیتے سانحے کے بارے میں بتا سکے ۔ اس کے گرد اتھاہ خاموشی تھی ۔ اب گلیوں میں سے گزر کر جانے میں کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اس نے اپنا ریوایور اٹھا کر جیب میں رکھا اور رینگتا ہوا گھر کی چھت میں بنے روشندان سے نیچے اتر گیا ۔
نشانچی ، جب گلی میں پہنچا تو اسے تجسس نے گھیرا کہ وہ اپنے دشمن نشانچی ، جسے اس نے مار گرایا تھا ، کو ایک نظر تو دیکھے ۔ اسے احساس ہوا کہ وہ جو کوئی بھی تھا ، ایک اچھا نشانچی تھا ۔ وہ سوچ میں پڑا کہ کیا وہ اسے جانتا ہو گا ۔ ہو سکتا ہے کہ فوج میں پاڑ سے پہلے وہ اسی کی ہی کمپنی میں رہا ہو ۔ اس نے وہاں جانے اور اسے ایک نظر دیکھنے کا خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے او‘ کونیل گلی کی نکڑ کی طرف نظر دوڑائی ۔ اس کے اوپرلے حصے میں بھاری فائرنگ ہو رہی تھی لیکن اس کے اپنے اردگرد خاموشی تھی ۔
نشانچی نے پھرتی سے گلی پار کی ۔ ایک مشین گن نے گولیوں سے اس کے گرد کی زمین کو چھید ڈالا لیکن وہ ان گولیوں کی زد سے بچ گیا ۔ اس نے خود کو منہ کے بل لاش کے پاس گرایا ۔ مشین گن کا چلنا بند ہو گیا ۔
اور پھر جب ، نشانچی نے لاش کو لڑھکا کر سیدھا کیا تو اس کے بھائی کا چہرہ اس کے سامنے تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج بالا افسانہ ’ لیام او' فلیہرتے‘ کا پہلا افسانہ ہے جو لندن کے سوشلسٹ ہفتہ وار رسالے ’ The New Leader ‘ میں 12 جنوری 1923 ء کو شائع ہوا تھا ۔ یہ آئرلینڈ کی خانہ جنگی ( جون 1922 ء تا مئی 1923 ء ) کے اوائل میں ' جنگ ِ ڈبلن ' کے پس منظر میں لکھا گیا جبکہ خانہ جنگی ابھی جاری تھی ۔ یہ افسانہ ، ایک لمبے عرصے سے ان ملکوں کے سیکنڈری سکولوں کے نصاب میں شامل ہے جہاں انگریزی زبانِ اول ہے ۔
’ لیام او' فلیہرتے‘ ( Liam O'Flaherty) آئرلینڈ کا ناول نگار اور افسانہ نگار تھا ۔ اپنے باپ اور بھائی طرح وہ ایک آزاد آئر لینڈ کے خواب دیکھتا تھا ۔ وہ آئرلینڈ کی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھا ۔ اس کا باپ میڈہک اور بھائی ٹام بھی اپنی انقلابی سیاست کی وجہ سے مشہور رہے ۔
اس نے لگ بھگ پندرہ ناول لکھے ۔ ’ Thy Neighbour's Wife ‘ اس کا پہلا ناول تھا جو 1923 ء میں سامنے آیا ۔’ Insurrection ‘ اس کا آخری ناول ہے جو 1950 ء میں شائع ہوا ۔ اس نے لگ بھگ 180 افسانے لکھے جو پہلے چھ مجموعوں میں شائع ہوئے اور اب تین جلدوں میں یکجا ہیں ۔’ The Sniper ‘ کا شمار اس کی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے جبکہ دیگر میں ’ سول وار ‘ ، ’ دی شِلنگ ‘ ، ’ نائٹ پورٹر‘ اور ’ اے ریڈ پیٹی کوٹ ‘ اہم ہیں ۔ اس کی کہانیاں غیر متوقع انجام کے لئے بھی مشہور ہیں ۔
اس نے بچوں کے لئے بھی کہانیوں کی چار کتابیں لکھیں ، اس کی یادداشتوں مبنی تین کتابیں بھی شائع ہوئیں اور اس کے مرنے کے بعد اس کے خطوط کا مجموعہ بھی سامنے آیا ۔ ’ ٹِم ہیلے‘ پر لکھی اس کی سوانح بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ چند کے علاوہ اس کی زیادہ تر تحاریر انگریزی زبان میں ہیں ۔
عمر کے آخری حصے میں آ کر’ لیام او' فلیتھرتے‘ نے کمیونسٹ پارٹی چھوڑی اور رومن کیتھولک مسیحی ہو گیا تھا ۔
’ لیام او' فلیہرتے‘ 28 اگست 1896ء کو پیدا ہوا اور 88 برس کی عمر میں 7 ستمبر 1984 ء کو ڈبلن میں فوت ہوا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔