اِررئیل فِکشن ۔ 20
انگریزی افسانچہ
مائیکل بکینگھم گرے ( Michael Buckingham Gray)
وہ گاڑی کا شیشہ چڑھاتی ہے اور ائیر کنڈیشنر چلا دیتی ہے ۔ وہ سگنل پر رُکتی ہے ۔ وہ موسیقی لگاتی ہے اور اس کی دُھن کے ساتھ اپنے کندھے دائیں بائیں ہلانے لگتی ہے ۔ وہ خوش ہے کہ اُسے کچھ ایسے لوگ ملے جو اُس جیسے ہی تھے ؛ لوگ جو ’ بوتل ‘ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
بتی ہری ہوتی ہے ۔ وہ تیزی سے گاڑی دوڑاتی ، کریانے کی دکان اور مکانوں کی قطار کے پاس سے گزرتی ہے ۔ بائیں طرف مڑتی ہے اور گاڑی ڈرائیو وے میں اپنے خاوند کے ٹرک کے برابر کھڑی کرتی ہے ۔ وہ ناچتی ہوئی سامنے کے دروازے تک جاتی ہے ۔ اسی عالم میں ، وہ تالے میں چابی گھماتی ہے ۔ اندر، اس کا خاوند ٹی شرٹ اور نیکر پہنے بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہے ؛ اس کے گردا گرد ، فضا میں خوشبو پھیلی ہوئی ہے ۔
” شام بخیرگزری؟ “ ، وہ پوچھتی ہے ۔
” ٹھیک رہی ۔ ۔ ۔ “ ، وہ جواب دیتا ہے، ” تم بُرا تو نہیں مناﺅ گی ، اگر میں ٹی وی دیکھتا رہوں ۔ “
اُس کا اچھا موڈ ہوا ہو جاتا ہے ۔ ’ یہ سالا ایمانداری سے کام کیوں نہیں لیتا ؟ ‘ ، وہ سر جھکائے باورچی خانے کی طرف چل دیتی ہے ۔ وہ اپنا ہینڈ بیگ تپائی پر پھینکتی ہے ۔ وہ فرج کا دروازہ کھولتی ہے اورشراب کی ایک ’ بوتل ‘ باہر نکالتی ہے ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرتھ ، آسٹریلیا کا مائیکل بکینگھم گرے ( Michael Buckingham Gray) اپنی مائیکروفکشن کے لئے جانا جاتا ہے ۔ اس نے ’ کرٹن یونیورسٹی‘ سے ’ Creative Writing ‘ میں ماسڑز کر رکھا ہے ۔ اس کی ننھی فکشن ’ The Fortnightly Review ‘ جیسے رسالوں میں شائع ہوتی ہے ۔ وہ ’ یونیورسٹی آف ناٹراڈیم ‘ اور ’ ورکشاپ فریو ‘ میں تخلیقی تحریر کا استاد بھی رہا ہے ۔ اب فری لانسر استاد ہے اور انگریزی میں مائیکروفکشن ، فلیش فکشن وغیرہ کے کورسز پڑھاتا ہے ۔ اس کی پہلی کہانی ’ And Brings Up Loose Dirt ‘ تھی جو چھپتے ہی ماسڑ پیس قرارپائی تھی ۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...